مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کے فرزند اکبر مولانا خالد کمال مبارکپوری (ولادت : 1938-م: دسمبر 1999ء) کے مضامین ومقالات کی ترتیب وتدوین بنام نگارشات مولانا خالد کمال۔
مولانا خالد کمال مبارک پوری دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور بہترین اہل قلم اور ادیب وشاعر تھے ، استاذ محترم مولانا ریاست علی بجنوری کے درسی ساتھیوں میں سے تھے ۔ دیوبند کے بعد مدینہ یونیورسٹی گئے ، 1961ء میں مدینہ یونیوسٹی قائم ہوئی ہے اور 1962ء میں وہاں داخل ہوئے ہیں ، اور 1967ء میں فارغ ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد دارالافتاء ریاض کی طرف مبعوث ہوکر افریقہ کے ایک ملک گھانا گئے جہاں دین اسلام کی ترویج اشاعت کے سلسلہ میں ان کی بڑی خدمات ہیں ۔ 1981ء میں نیوزی لینڈ سے ایک ماہر عالم دین کی طلب پر دارالافتاء ریاض نے ان کو وہاں بھیج دیا ، وہاں بھی ان کی بڑی شاندار خدمات ہیں ، وہیں اٹھارہ سال رہنے کے بعد انتقال فرمایا اور یہیں ان کی آخری آرام گاہ بنی۔ اپنے والد ماجد کی طرح مدرسہ احیاء العلوم کی طالب علمی کے زمانہ سے ہی ان کے مضامین واشعار بھی اخبار ورسائل میں شائع ہونے لگے تھے ، چنانچہ اس دور کے ماہنامہ البلاغ ممبئی ، ماہنامہ دارالعلوم اور دعوت دہلی وغیرہ میں ان کی قلمی کاوشوں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان والدقاضی صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر خالد کمال لکھنے پڑھنے میں آتے تو مجھ سے آگے جاتے” ۔ یہ ان کے لئے بہت بڑی سند ہے۔
ان کے سو سے زائد مقالات ومکتوبات اور نظمیں وغیرہ تو صرف ماہنامہ البلاغ ممبئی میں چھپے ہیں ،اوراتنی ہی تعداد میں دوسرے اخبارات ورسائل میں ۔ مجھ پر ان کے اہل خاندان کی طرف سے کئی سال سے تقاضا تھا کہ میں ان کے مضامین کی ترتیب وتدوین کا کام شروع کروں ، لیکن فرصت نہ ملتی تھی ۔ مولانا خالد کمال صاحب کے صاحبزادے فوزان طارق( مقیم نیوزی لینڈ ) امسال مبارکپور آئے تو مجھ سے ملاقات کے لئے ہمارے مدرسہ پر آئے اور کہا کہ اب یہ کام ہوجانا چاہئے ، میں نومبر میں گھر آرہا ہوں اس وقت تک اگر یہ مجموعہ مقالات شائع ہوجاتا تو بہت بہتر ہوتا ۔ دوماہ سے تدریسی مصروفیات کے علاوہ سب کچھ چھوڑکر اسی میں لگا رہا۔ الحمدللہ سوا چارسو صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ ( نگارشات مولانا خالد کمال ) پریس میں جاچکا ہے۔نومبر کے دوسرے ہفتہ میں منظر عام پر آجائے گا۔
تعارف کتاب
یہ کتاب مولانا موصوف کی مختلف نوع کی تحریروں کا مجموعہ ہے ، جس میں مضامین ومقالات ،مکتوبات وخطبات ، تراجم وسفرنامے اور ان کی شاعری کاانتخاب شامل ہے۔اس میں شامل بیشتر تحریریں آج سے ٧٠٦٠ سال پہلے کی ہیں جو اُن کی زندگی اور ان کے قلمی سفر اور شاعری کا عہد شباب تھا ، ان میں سے بیشتر 1956ء سے 1966ء کے دوران لکھی گئی ہیں اورمولانا قاضی اطہر مبارکپوری کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ البلاغ بمبئی میں شائع ہوئی ہیں ۔کچھ ماہنامہ دارالعلوم دیوبند اور دوسرے رسالوں میں بھی شائع ہوئی ہیں ۔
اس کتاب کو ہم نے دس ابواب پر مرتب کیا ہے، پہلا باب : ’’حج اور حرمین کی باتیں‘‘ ہے ۔
مولانا 1962ء میں مدینہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے ہیں ،اس کے بعد انھوں نے حج اور دیار حرمین سے متعلق درجنوں تحریریں لکھیں ، جن میں مقالات بھی ہیں ، عربی تحریروں کے ترجمے بھی ہیں اور مکاتیب وسفرنامے بھی ہیں ، یہ باب ایک طرح سے حج اور دیار حرمین پر ایک مختصر سا انسائیکلوپیڈیا ہے ، جس سے حج کا مقام ومقاصد ، اس کے اسرار ورموز،مشاعر منیٰ ومزدلفہ کی تحدید اور دوسری بڑی قیمتی معلومات سامنے آتی ہیں ۔ اسی کے ساتھ بلد امین مکہ مکرمہ اور دیار حبیب مدینہ منورہ کی اہمیت وعظمت قلب میں جاگزیں ہوتی ہے اور وہاں کی حاضری کا شوق اور تڑپ دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس باب کو پڑھ کر سعودی عرب کے بارے میں پیدا بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوتا ہے۔ اس باب میں کل 11مضامین ہیں۔ دوسرا باب :’’اثراتِ اسلام: تعارف و تعاقب‘‘ہے، اس باب کے مضامین کا تعلق تاریخ اسلام سے ہے ، اسلام کے اثرات جو دنیاکے مختلف علاقوں اور خطوں پر پڑے ہیں ان کا تعارف ان مضامین میں ہے اور اس سلسلہ میں جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں ان کا تعاقب بھی ہے۔ اس باب میں کل 10 مضامین ہیں ۔
تیسرا باب: ’’عرب: کچھ احوال، کچھ آثار‘‘ ہے۔جس میںخطۂ عرب سے متعلق درج ذیل تین مضامین ہیں: عربی تاریخ نگاری ۔ عالمی تہذیب پر عربی تہذیب کی اثر اندازی، اورخلیج عرب کی تجارت کا سنہری دور۔تینوں مضامین ہی بالخصوص آخر الذکر مضمون تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہت اہم اور معلوماتی ہے۔
چوتھا باب : ’’باتیں اسلاف کی‘‘ہے۔جس میں یہ مضامین ہیں : جیش اسامہ۔خلفاء اربعہ کا اہتمام حدیث۔علمائے اسلام کی قوت حفظ اور حافظہ۔ان مضامین کا موضوع ان کے عنوان سے ظاہر ہے۔
پانچواں باب ؛’’ شخصیات ‘‘ہے۔ جس میں تاریخ اسلام کی ان اہم شخصیات پر اظہار خیال کیا گیا ہے: عباس بن فرناس ۔امام فخر الدین رازی۔علامہ جلال الدین سیوطی۔شیخ محی الدین ابن عربی۔ابوتمام حبیب الطائی۔مراکش کا مجاہد۔امین الملت یمین الدولت سلطان محمود ابن سبکتگین۔ حضرت شاہ مخدوم ظہیر الدین اور خانوادہ ظہیریہ۔والد محترم! ایسا کہاں سے لائیں
اس میں آخری مضمون جو مولانا قاضی اطہر مبارکپوری پر ہے، غیر مطبوعہ اور اہم معلومات پر مشتمل ہے۔ چھٹا باب :’’ مکاتیب ‘‘ہے۔اس میں تین مکاتیب ہیں جو مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کو لکھے گئے، اور انھوں نے اسے افادۂ عام کے لئے ماہنامہ البلاغ میں شائع کردیا۔
پہلا ’’راہ طیبہ کے دو مکتوب‘‘ ہے،جس میں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کے بعد پہلے سفر کے احوال اور ایک نوآموز مسافر کے تاثرات ہیں۔ پہلاخط کراچی سے لکھا گیا ، جس میں پاکستان کے احوال بھی ہیں۔
دوسرا خط دمام کے جڑواں شہر اَلْخُبَر سے لکھا گیا ہے۔دوسرا ’’مکتوب قاہرہ‘‘ہے، اس میں تین خطوط ہیں ،پہلے دوخط اکتوبر 1967ء میں مدینہ سے گھانا جاتے ہوئے قاہرہ سے لکھے گئے ہیں اور وہاں سے متعلق اہم معلومات پر مشتمل ہیں۔
تیسرا خط 1979ء کا ہے، جس میں زیادہ گفتگو قاضی صاحب کی عربی کتب کی طباعت سے متعلق ہے۔
آخری’’دمشق سے دو مکتوب‘‘ ہے جس میں دمشق اور بالخصوص جامع اموی سے متعلق بعض اہم باتیں ہیں۔
ساتواں باب : ’’سفر نامے‘‘ہے۔ اس میں تین سفروں کی روداد ہے،
پہلا سعودی عرب کے دو قدیم تاریخی مقامات’’ عیون جواء اور زغیبیہ‘‘کے سفر کی روداد ہے،یہ ایک عربی مضمون کا ترجمہ ہے۔
دوسرا ’’ینبع کاتعلیمی وتبلیغی سفر۔‘‘ یہ مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے طلباء کے لئے تعلیمی وتبلیغی سفر تھا ،جس کا تمام انتظام یونیورسٹی نے کیا تھا ، ینبع سعودی عرب کا ساحلی شہرہے، جو بدر سے تقریباًڈیڑھ سو کلومیٹر کی مسافت پر ہے، سفرنامہ بڑا دلچسپ اور مفید ہے۔
تیسرا ’’سفریات مغربی افریقہ‘‘ ہے ،جو افریقہ کے چا ر ملکوں لائبیریا، سیر الیون گامبیا اورسنیگال کے علمی وثقافتی سفرکی روداد ہے جودو ہفتے میںپوراہواتھا،یہ روداد حضرت قاضی صاحب کے نام لکھے ہوئے مکتوب کی شکل میں ہے۔ان میں ان علاقوںکے مسلمانوں کے بارے میں بہت سی قیمتی اوراہم معلومات ہیں۔
ساتواں باب :’’تعلیمات اسلام‘‘ہے۔جس میں درج ذیل مضامین ہیں : عبادت میں اعتدال۔اسلامی زندگی میں شرم و حیا کا مقام۔ اسلامی حاکم کے اخلاق اور بچوں پر شفقت۔
نواں باب: ’’خطبات ‘‘ہے۔ یہ مولانا کے خطباتِ جمعہ میں سے تین خطبات کا انتخاب ہے ، جو وہ انگریزی زبان میں جمعہ کو دیتے تھے ، اس کا ترجمہ ان کے صاحبزادے فوزان طارق نے کیا ہے ، ان کے عناوین یہ ہیں: اسرائیل کے وجود کا تاریخی پس منظر۔دیارِ غیر میں مسلمان۔مغربی ممالک میں مسلمان
دسواں اور آخری باب ’’اَشتات‘‘ یعنی متفرقات ہے۔ جس میں پانچ مضامین ہیں۔
پہلا مضمون’’ کورستان کی علمی سیر‘‘ہے ، کور کے معنی اندھے اور نابیناکے ہیں، کورستان کا معنی نابیناؤں کی دنیا ہے۔ یہ ایک عربی کتاب ’’نَکْتُ الْھِمْیَان فِی نُکَتِ العُمْیَان‘‘کا نہایت مفصل تعارف اور اس کی ہلکی پھلکی تلخیص ہے، کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے منفرد اور دلچسپ ہے، اس کے مصنف مشہور ادیب علامہ صلاح الدین خلیل ابن ایبک صفوی]م: ٧٦٤ھ [ہیں۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں نے اصل عربی کتاب ڈاؤن لوڈ کی جو٣١٧ صفحات پر مشتمل ہے اور 1329ھ]1911ء[ میں مطبع جمالی مصر سے چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ مضمون پڑھنے کے لائق ہے، نابیناؤں کے تعلق سے اتنا مفصل مضمون پہلی بار دیکھا۔
دوسرا مضمون ’’اعجاز قرآن‘‘ ہے، عنوان سے لگتا ہے کہ اس کاتعلق معانی وبلاغت سے ہوگا ، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اعجاز قرآن قلوب انسانی پر اس کی اثر پذیری کے اعتبارسے ہے، کہ قرآن نے لوگوں کے دلوں پر کیسا اثر ڈالا، بڑاموثر مضمون ہے۔
تیسرا مضمون ’’تصوف اور اخلاق ‘‘ہے، اس کا تعارف اس کے موضوع سے ظاہر ہے۔چوتھا ’’قحط عام الرماد‘‘ ہے۔ اس میں خلافت فاروقی میں پیش آنے والے اس خوفناک قحط کا ذکر کیا گیا ہے جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور ہزاروں لقمۂ اجل بن گئے ۔اس قحط میں حضرت عمر فاروق ص نے رعایا کے لئے جو حسن انتظام کا نمونہ پیش کیا اور بیت المال کے لئے دروازے ان کے لئے کھول دیئے اور بنفس نفیس اس کی نگرانی فرمائی ، وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن اور تابناک باب ہے۔ ہر شخص کو یہ مضمون پڑھنا چاہئے ، خصوصاً حکومت وانتظام سے تعلق رکھنے والے طبقہ کو۔
دسویں باب اوراس کتاب کا آخری عنوان ’’نمونۂ شاعری‘‘ ہے۔ جس میں مصنف کی کچھ نعتیں، نظمیں ،غزلیں ،حضرت مدنی کی وفات پر کہا گیا مرثیہ اور اسی طرح کچھ قطعات ہیں ۔ مولانا خالد کمال مبارکپوری شاعری میں بھی اپنے والد کا پرتو تھے ، انھوں نے طالب علمی کے بعد شاعری چھوڑدی ، ان کے اشعار اس دورکے رسائل واخبارات میں شائع ہوتے تھے ، جن کی ایک اچھی خاصی مقدار محفوظ ہے ۔ ارادہ ہے کہ جب ان کی سوانح لکھی جائے تو اسی کے ساتھ ان کا مجموعۂ کلام بھی مرتب کردیا جائے ، اس سے اہل نظر واہل ادب کو اندازہ ہوگا کہ وہ کس پایہ کے شاعر تھے ؟یہ کتاب کا اجمالی تعارف ہے ۔
ضیاء الحق خیرآبادی