Web Analytics Made Easy -
StatCounter

نظرات فی کتاب اللہ تفسیر زینب الغزالی

زینب الغزالی

نظرات فی کتاب اللہ تفسیر زینب الغزالی

زینب الغزالی کے علمی کاموں میں سب سے زیادہ اہمیت ان کی تفسیر ’نظرات فی کتاب اللہ‘ ، کو حاصل ہے۔ اس کا شمار بیسویں صدی عیسوی میں دعوتی وتحریکی اسلوب میں لکھی جانے والی اہم تفسیروں میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک دوسرے پہلو سے بھی اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ غالباً یہ کسی خاتون کے قلم سے لکھی جانے والی واحد مکمل تفسیر ہے۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ شرف کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہوا ہے۔ جیل کی تنہائیوں میں قرآن کریم ہی زینب الغزالی کا روحانی سہارا تھا۔ وہ تلاوتِ قرآن کے دوران برابر اس کے معانی میں غور وخوض کرتی رہتیں اور جو کچھ اللہ تعالی ان پر القا کرتا اسے مصحف کے حواشی اور بین السطور میں لکھ لیتیں۔ جیل سے رہائی پر ان کا وہ مصحف تو انھیں نہیں مل سکا، لیکن بعد میں جب انھوں نے تفسیر لکھنی شروع کی تو حافظہ پر زور دے کر ان معانی وافکار کا استحضار کیا اور انھیں اپنی تفسیر میں شامل کیا۔ محترمہ غزالی گزشتہ صدی کی نویں دہائی کے اوائل ہی میں اس تفسیر کو مکمل کرچکی تھیں۔ جامعہ ازہر کے استاذِ تفسیر عبد الحی الفرماوی نے اس کا مراجعہ کیا اور اس کی پہلی جلد (711 صفحات)، جو سورۂ ابراہیم تک کی تفسیر پر مشتمل تھی، دار الشروق قاہرہ سے 1994/ 1414 میں شائع ہوئی۔ بعد میں اس کے مالک الاستاذ محمد المعلم کے انتقال کے بعد دوسری جلد شائع نہیں ہوسکی تھی۔ ابھی حال میں مکمل تفسیر (1300 صفحات) کی اشاعت دار التوزیع والنشر الاسلامیۃ قاہرہ سے ہوئی ہے۔

تفسیر ’نظرات فی کتاب اللہ‘ کی امتیازی خصوصیات کو درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جاسکتا ہے

١. اس تفسیر میں قدیم ماثور کتبِ تفسیر سے استفادہ کیا گیا ہے، مثلاً تفسیر ابن کثیر، تفسیر قرطبی، تفسیر ابی سعود وغیرہ۔ خاص طور سے محترمہ نے تفسیر ابن کثیر سے اپنے گہرے تاثر کا اظہار کیا ہے۔ جدید تفسیروں میں انہوں نے تفسیر آلوسی اور تفسیر قاسمی سے استفادہ کیا ہے۔ تفسیر رازی بھی ان کے پیش نظر رہی ہے۔ سید قطب کی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ کا بھی وہ جابہ جا حوالہ دیتی ہیں، بلکہ دعوتی اور ادبی اسلوب دونوں میں قدر مشترک ہے۔

٢. یہ تفسیر، ماثور تفسیر کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ آیات کی تفسیر میں اسی مضمون کی دیگر آیات پیش کی گئی ہیں، صحیح احادیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں تشریح کی گئی ہے اور تائید میں تابعین اور علمائے سلف کے حوالے دیے گئے ہیں، مثلاً سورۂ بقرہ کے آغاز میں ’تقویٰ‘ کی تشریح میں پہلے سورۂ آل عمران کی ایک آیت پیش کی ہے، پھر ایک حدیث نقل کی ہے اور آخر میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہم کے اقوال ذکر کیے ہیں۔

٣. اس تفسیر میں عموماً لغوی اور تاریخی تفصیلات اور فقہی اختلافات سے گریز کیا گیا ہے اور آیات کے عام مفہوم پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مثلاً آیت ’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَۃِ الْوُسْطٰی‘ (البقرۃ:۲۳۸) کی تفسیر میں محترمہ نے لکھا ہے: ’’صلوٰۃ وسطیٰ سے کون سی نماز مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے خود اسے متعین نہیں کیا ہے، تاکہ مسلمان تمام نمازوں کی حفاظت کریں۔ کون سی نماز دوسری نمازوں سے افضل ہے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔‘‘

٤. اس تفسیر کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں آیات کی تفسیر حالاتِ حاضرہ سے جوڑ کر کی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ کی آیات(۲۶۱-۲۷۴) میں تفصیل سے انفاق اور صدقہ وخیرات کا تذکرہ ہوا ہے، پھر سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ (آیات: ۲۷۵-۲۷۶) اس کے بعد زکوۃ ادا کرنے والوں کے لیے اللہ تعالی کے اجر وانعام کا وعدہ کیا گیا ہے۔ (آیت: ۲۷۷) اس ذیل میں محترمہ نے لکھا ہے: ’ہمارے درمیان اب فریضۂ زکوۃ کی ادائی میں بہت زیادہ لاپروائی ہونے لگی ہے اور یہ چند نیک لوگوں کا انفرادی عمل بن کر رہ گیا ہے، جسے وہ کھلے یا چھپے انجام دیتے ہیں۔ اور سود پر مبنی نظام کی تاریکیاں سماج میں چھا گئی ہیں، جن میں لوگ ٹامک ٹوٹیاں ماررہے ہیں اور اس کے کڑوے کسیلے پھل کھا رہے ہیں۔‘‘

٥. دیگر تفسیروں کے مقابلے میں اس تفسیر کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک خاتون کی تحریر کردہ ہے۔ اسی لیے اس میں حقوقِ نسواں سے تعلق رکھنے والی آیات کی عمدہ تفسیر ملتی ہے اور قاری کے سامنے نسائی اپروچ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ: ۲۳۴ میں جن عورتوں کے شوہروں کی وفات ہوجائے، ان کی عدت چار ماہ دس دن بیان کی گئی ہے۔ اس کی تفسیر میں محترمہ لکھتی ہیں کہ ’’حاملہ عورت کا حکم اس سے مختلف ہے۔ اگر شوہر کی وفات کے چند دنوں کے بعد وضع حمل ہوجائے تو اس عورت کی عدت مکمل ہوگئی۔ اب وہ آزاد ہے، سوگ کا لباس پہننا ضروری نہیں، وہ اب زیب وزینت اختیار کرسکتی ہے اور دوسری شادی کی خواہش کا اظہار کرسکتی ہے۔ اس کے اس رویے پر ہمیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘۔ تائید میں انھوں نے حضرت سبیعہ الاسلمیہ (زوجہ حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کے شوہر کی وفات کے چند دنوں کے بعد ان کا وضع حمل ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہاری عدت پوری ہوگئی۔ اب اگر تم چاہو تو دوسرا نکاح کرسکتی ہو۔ (مسلم)

٦. حقیقت میں یہ ایک دعوتی تفسیر ہے۔ محترمہ نے قرآن کریم کے معانی اور احکام کو حالاتِ حاضرہ سے جوڑ کر بیان کیا ہے۔ وہ مسلمانوں میں پائی جانے والی کم زوریوں کی نشان دہی کرتی ہیں اور اللہ کے دین کی طرف رجوع کرنے اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑنے کو ان کا علاج بتاتی ہیں۔ فرد کی اصلاح وتربیت، خاندان اور سماج کی صالح بنیادوں پر تعمیر اور امت مسلمہ کی تشکیل کا پہلو کبھی ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ گزشتہ قوموں کے واقعات اور خاص طور پر اہل کتاب سے متعلق آیات کی تشریح وتفسیر کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کے لیے درس وعبرت کے پہلو کو ضرور نمایاں کرتی ہیں۔

یہ واضح رہے کہ مرحومہ زینب الغزالی کی اس تفسیر میں بعض مقامات پر ان کے نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے: ’’جنت آپؐ ہی کے لیے تخلیق کی گئی ہے اور آپؐ ہی کے ذریعے ہم جنت میں داخل ہوں گے۔ آپؐ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذریعے ہم اس جنت کو دیکھ نہیں پائیں گے۔‘‘ (تفسیر سورۂ النساء:۱۴۰) یا اصحاب السبت میں سے جو لوگ برائی سے روکتے تھے اور جو لوگ خاموس رہے تھے، دونوں کو انہوں نے عذاب سے نجات پانے والا قرار دیا ہے۔ (تفسیر سورۂ الاعراف:۱۶۵) جب کہ اہل تفسیر صرف ان لوگوں کو نجات یافتہ قرار دیتے ہیں جو برائی سے روکتے تھے۔ اس طرح کے کچھ اور مقامات ہوسکتے ہیں۔

مقامِ مسرت ہے کہ مکمل تفسیر کی اشاعت کے کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ اردو قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی ذی علم، با صلاحیت اور محنتی نوجوان ہیں۔ اس سے قبل متعدد عربی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ امید ہے ان کی اس علمی کاوش کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

کتاب خریدیں

Nazrat Fi Kitabillah, 3 Vols, نظرات فی کتاب اللہ, تفسیر زینب الغزالی

Nazrat Fi Kitabillah | 3 Vols | نظرات فی کتاب اللہ | تفسیر زینب الغزالی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *