Web Analytics Made Easy -
StatCounter

مقدمہ ابن خلدون

مقدمہ ابن خلدون

مقدمہ ابن خلدون

مقدمہ ابن خلدون، چند نشستوں میں ختم کی جانے والی کتاب نہیں ہے بلکہ اسے حوالہ جاتی کتاب کے طور پر موقع بہ موقع پڑھا جا سکتا ہے ۔یہ کتاب دور طالبعلمی میں بھی پڑھی جاتی رہی اور آج بھی بوقت ضرورت زیر مطالعہ آتی رہتی ہے ۔

ابن خلدون(م 808ھجری/1406) کو فلسفہ تاریخ کا بانی قراردیا جاتاہے ،میرا نہیں خیال کہ وہ فلسفہ تاریخ کا” بانی تھا، اس کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ کوئی فن اپنی ابتدا میں ہی “عروج ” پر نہیں پہنچ سکتا ۔کسی بھی فن کی ابتدا اور عروج کے درمیان ایک زمانی فاصلہ ہوتا ہے ۔جتنا میرا مطالعہ ہے اس کے اعتبار سے ہم فلسفہ تاریخ کا آغاز مسعودی(م346ھ/957ء)اور مسکویہ(م421ھ/1030ء ) سے کر سکتےہیں پھر اس فن کو ابن خلدون نے بام عروج پر پہنچایا ۔

ابن خلدون کا تعلق غرناطہ کے دور زوال سے تھا،اس وقت المغرب بھی چھوٹی بڑی ریاستوں میں منقسم تھا غرناطہ کی سیاست میں ابن خلدون پوری طرح متحرک تھا بلکہ دور زوال کی جو سازشی، سیاسی فضا ہوتی ہے اس کا محض”شکار” ہی نہیں تھا بلکہ “شکاری ” بھی تھا ۔ایک وقت ایسا آیا کہ غرناطہ کے دربار سے اسے بیدخل ہونا پڑا اور المغرب کی ریاستوں میں بھی اسے قدم جمانے کا موقع نہیں ملا، ایسے میں اپنے بیوی بچوں کو تیونس میں چھوڑ کر، پھرتا پھراتا ایک صحرائی قبیلے میں پہنچا ۔چونکہ ابن خلدون کی ایک عالم کے طور پر اس وقت تک ایک ساکھ بن چکی تھی لہذا یہاں کے لوگوں نے اسے اپنے یہاں قیام کی دعوت دی ۔اور انہوں نے ابن خلدون کی رہائش کے لئے ایک افتادہ قلعے “قلعہ ابن سلامہ “کے دروازے کھول دیے ۔ ابن خلدون نے خود ساختہ جلاوطنی کے ایام اسی قلعہ میں گزارے ۔یہاں اس کے پاس وقت ہی وقت تھا، اس نے یہیں ایک عالمی تاریخ لکھنے کا خاکہ مرتب کیا، مگر یہ عالمی تاریخ ماخذ کی مدد کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی تھی، اس صحرائی علاقے میں کوئی معمولی سا کتب خانہ بھی نہیں تھا ۔خود ابن خلدون کا ذخیرہ کتب، تیونس میں اس کے آبائی گھر میں رہ گیا تھا ۔لہذا اس نے مقدمہ لکھنا شروع کیا ۔

عموما ہر علمی کتاب ایک مقدمہ کی حامل ہوتی ہے ۔یہ واحد مقدمہ ہے جو پھیل کر خود ایک ضخیم کتاب بن گیا ۔کتاب بھی ایسی جس کی بنیاد پر اسے پہلا مسلمان ماہر عمرانیات بھی مانا گیا اور فلسفہ تاریخ کا بانی بھی ۔(بانی کے اعتبار سے میرا موقف وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا )

یہ مقدمہ ،ابن خلدون نے چار ماہ کی مدت میں لکھ لیا ۔ یہ ابن خلدون کے مشاہدات، تجربات اور مطالعات کا نچوڑ ہے ۔اس کے بالاستیعاب مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس ترتیب سے خیالات ابن خلدون کے ذہن میں آتے گئے وہ انہیں لکھتا رہا ۔کسی خاص نظم یا موضوعاتی ترتیب کی پابندی نہیں کی گئی ۔عمرانیات کی بحثیں۔۔۔علم تاریخ کی اہمیت، فضیلت اور غرض و غایت ۔۔۔معاشرے کا قیام ۔۔۔اقالیم کی بحث ۔۔۔انسانی اخلاق پر آب و ہوا کے اثرات ۔۔۔خواب اور معجزات کی حقیقت ۔۔۔مختلف علوم ۔۔۔شہری اور بدوی زندگی ۔۔۔نسب ،خاندانی شرف ۔۔۔غلامی، موالات، عصبیت ۔۔۔۔عربوں کی تاریخ ۔۔۔حکومتوں کا قیام ۔۔۔فلسفہ عروج و زوال ۔۔۔خلافت ۔۔۔امامت ۔۔۔اسلامی تاریخ کے مختلف واقعات کی پرکھ ۔۔۔۔۔غرضیکہ عنوانات کی ایک دنیا آباد ہے ،جن کے بارےمیں ابن خلدون نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے ۔

نگار سجاد ظہیر

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *