Web Analytics Made Easy -
StatCounter

 معاش نبوی کے ذرائع آمدن کا تحقیقی جائزہ

معاش نبوی

 معاش نبوی کے ذرائع آمدن کا تحقیقی جائزہ

محمد رضی الاسلام ندوی

مال و دولت کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان دو نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں : ایک یہ کہ کسی شخص کے پاس بہت زیادہ مال و دولت ہونا پسندیدہ نہیں ہے ، کسبِ معاش میں بہت زیادہ مصروف ہونا اسے اللہ سے دوٗر کرتا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے فقر کو پسند کیا ہے اور فقراء کی فضیلت بیان کی ہے ۔ دوسرا یہ کہ کسی شخص کا مال و دولت کا مالک ہونا معیوب نہیں ہے ، مال کو اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ، مال خرچ کرکے آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ، مال و دولت سے محروم ہونا اور اس سے کنارہ کش رہنا پسندیدہ نہیں ہے ، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ آدمی جائز ذرائع سے مال کمائے اور اللہ کی رضا کے کاموں میں خرچ کرے ۔

غور کیا جائے تو دوسرا نقطۂ نظر ہی درست معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : …أَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیَاماً(النساء: ۵) ”۔۔۔تمھارے وہ مال جنھیں اللہ نے تمہارے لیے قیامِ زندگی کا ذریعہ بنایا ہے۔“ اور اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے : ”روزِ قیامت ابن آدم کے پیر بارگاہِ الٰہی سے نہیں ہٹیں گے ، جب تک اس سے پانچ سوالات نہیں کر لیے جائیں گے : ان میں سے دو سوالات یہ ہوں گے کہ اس نے مال کہاں سے کمایا تھا؟ اور کہاں خرچ کیا تھا؟ (ترمذی: 6142)

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیمات کی روٗ سے مال کمانا اور مال دار ہونا ناپسندیدہ اور قابلِ نفرت نہیں ہے ۔ قابلِ نفرت یہ ہے کہ آدمی مال و دولت کا حریص ہو ، جو کچھ کمائے اسے سینت سینت کر رکھے ، نہ اپنی اور اپنے متعلقین اور زیرِ کفالت افراد کی ضروریات پوری کرے ، نہ دوسرے غریب اور ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرے ۔ صحابۂ کرام کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ان میں جہاں بہت بڑی تعداد غریب اور نادار صحابۂ کرام کی تھی ، وہیں خاصی تعداد میں مال دار صحابہ بھی تھے ۔

Muash e Nabawi

ان میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی ۔ آج کل کی زبان میں انہیں لکھ پتی اور کروڑ پتی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی دولت کا بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ خود اللہ کے رسول ﷺ کا شمار نبوت سے قبل مکہ مکرمہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ نبوت کے بعد بھی آپ کے پاس مختلف ذرائع سے مال آتا رہتا تھا ، لیکن آپ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے ۔ آپ کا فقر مجبوری کا نہیں ، بلکہ اختیاری تھا ۔

پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی ؒ(م 2020ء) کا تعارف علمی دنیا میں ایک بہت بڑے مصنف کی حیثیت سے ہے ۔ انھوں نے اسلامی تاریخ اور سیرتِ نبوی پر بہت قیمتی سرمایہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے ۔ انھوں نے خاص طور پر سیرت کی نئی نئی جہتوں سے کام کیا ہے اور ایسے گوشے وا کیے ہیں جن پر پہلے کام نہیں ہوا تھا ۔ سیرت کے موضوع پر ان کی تصانیف میں خاص طور سے عہد ِنبویؐ میں تنظیم ریاست و حکومت ، غزواتِ نبوی کی اقتصادی جہات ، عہدِ نبوی کا نظامِ حکومت ، رسول اکرم ﷺ اور خواتین ۔

ایک سماجی مطالعہ ، مکی عہد میں اسلامی احکام کا ارتقاء ، مکی اسوۂ نبوی : مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل ، رسول اکرم ﷺ کی رضاعی مائیں ، عبد المطلب ۔ رسول اللہ ﷺ کے دادا ، وحیِ حدیث ، سنتوں کا تنوّع ، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات ، قریش و ثقیف کے تعلقات ، خطباتِ سرگودھا (سیرتِ نبوی کا مکی عہد) ، عہدِ نبوی کا تمدن ، مصادرِ سیرت ، خطباتِ سیرت اور زیرِ نظر کتاب ’معاشِ نبوی‘ کو علمی حلقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور وہ ہندو پاک دونوں جگہ شائع ہوئی ہیں ۔

ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی اور اس کے علمی ترجمان سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ سے پروفیسر یٰسین صاحب کا خصوصی تعلق تھا ۔ اس میں ان کے مضامین اس کے پہلے شمارے سے شائع ہونے لگے تھے اور ان کی وفات سے قبل ان کا آخری مضمون بھی اس کی زینت بنا تھا ۔ تحقیقات اسلامی میں شائع شدہ مضامین کے ایک جائزہ سے معلوم ہوا کہ اس میں پروفیسر صدیقی کے تریسٹھ (63) مضامین شائع ہوئے ہیں ، جن میں سے چھتیس (36) سیرت ِنبوی پر تھے۔

تحقیقاتِ اسلامی میں شائع شدہ پروفیسر یٰسین صاحب کے چار مضامین کا مجموعہ ادارۂ تحقیق نے پہلے ’عہدِ نبوی کا نظامِ حکومت‘ کے نام سے شائع کر دیا تھا ، جو اصلاً ان کی ضخیم کتاب ’عہد نبوی میں تنظیمِ ریاست و حکومت‘ کی تلخیص ہے ۔ ان کے دو مضامین ’معیشتِ نبوی مکہ میں‘ اور معیشتِ نبوی مدینہ میں‘ کے عناوین سے تحقیقات اسلامی میں شائع ہوئے تھے ۔ ان کا مجموعہ مصنف کے نظر ثانی اور اضافہ کے ساتھ چند برس پہلے پاکستان میں برادر مکرم محمد عارف گھانچی کی دل چسپی سے طبع ہوا تھا ۔

اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں عام تأثر یہ ہے کہ آپؐ نے فقر اور تنگی کی زندگی گزاری ۔ سیرت نگاروں نے عموماً آپ کی حیاتِ طیبہ کے اسی پہلو کو ابھار کر پیش کیا ہے ۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ آپ کا فقر اختیاری تھا ۔ آپ کی زندگی میں ہمیشہ فقر اور معاشی تنگی نہیں رہتی تھی ، بلکہ اس میں خوش حالی ، فارغ البالی اور کشادگی کے ایام بھی آتے تھے ۔ زیر نظر کتاب سے ان شاء اللہ سیرت نبویؐ کے بعض ایسے پہلو اجاگر ہوں گے جو سیرت کی عام کتابوں میں مذکور نہیں ہیں ۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ فاضل مصنف کی تمام باتوں سے اتفاق ضروری نہیں ہے ۔ کہیں کہیں دلائل کی کمی کا احساس ہوتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *