پہلی صدی ھجری کی سیاسی اور مذھبی تاریخ کے پیچ وخم میں بنو امیہ کے گورنر اور حکمران مروان بن حکم اموی کا کردار صدیوں سے نقطہ بحث اور محدثین و مؤرخین کی تنقیدات کا موضوع رھا ھے ۔ چنانچہ اس پر افراط و تفریط سے مملو مواد کی فراوانی ھے-
لہذا زیر نظر کتاب میں اس مروان کی بنیادی واساسی بحث یعنی صحابیت اور محدثین کے یہاں بیان کردہ توثیق کی جہت کو پیش نظر رکھتے ھوئے خالص علمی اور سنجیدہ مطالعہ سے تحقیق کی سعی کی گئی ھے ۔ جس کے لیے بطور خاص متقدمین ائمہ حدیث اور علمائے جرح وتعدیل کے اصول وضوابط کو ملحوظ رکھا گیا ھے پس اس طویل تحقیق کے نتیجے میں مروان کی صحابیت اور توثیق کے دعوے محض ایک جذباتی تقریر ثابت ھوتے ھیں۔
اس کتاب کی خوبی یہ ھے:
اس میں زیادہ تر پہلی تین صدیوں کے علمی سرمایہ کو پیش نظر رکھا گیا ھے۔
عمومی مؤرخین اور اردو تالیفات کے غیر مدلل بیانات کو زیر بحث نہیں لایا گیا ۔
مروان بن حکم کے ذاتی کردار اور دیگر سیاسی و اخلاقی امور سے تعرض نہیں کیا گیا بلکہ صرف صحابیت اور توثیق کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ھے ۔
مروان کی حمایت میں لکھے گئے چنیدہ مواد کو تحقیقی زاویوں سے پرکھتے ھوئے اس کی علمی حیثیت واضح کی گئی ھے۔
نقد وتجزیہ کے لیے دیانت داری کے ساتھ طرفین کی اصل عبارات نقل کرنے کے بعد محاکمہ کیا گیا ھے تاکہ قارئین کے سامنے دونوں پہلو موجود رھیں اور وہ بذات خود کسی نتیجے تک رسائی حاصل کرسکے۔
مروان کی حمایت میں لکھنے والے بعض اھم معاصر علماء کے چنیدہ دلائل کی علمی کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا ھے۔
کتاب کو مناظرانہ اور سطحی اسلوب سے بالاتر ھو کر تحریر کیا گیا اسی لیے مخالفین کو بھی حتی الوسع احترام سے خطاب کیا گیا ھے کیونکہ مصنف کا مقصود صرف مخالفین کے دلائل کا علمی جائزہ پیش کرنا تھا نہ کہ شخصیات کی ذاتی حیثیت پر مناظرانہ الجھاؤ پیدا کرنا اسی لیے کتاب کو تجزیاتی لحاظ سے مزین کرنے کی کوشش کی گئی ھے۔
الغرض حدیث وتاریخ کے علمی قارئین اور تلاش حق کے متلاشی کے لیے اس کتاب میں کافی ذخیرہ مہیا کردیا گیا ھے جس سے صدیوں کی دبیز تہوں میں چھپے حقائق عیاں ھوسکیں گے اور اھل علم کے لیے نقطہ اعتدال اور فکری راھیں بھی درست طور پر استوار ھوسکیں گی۔