قدیم ومعاصر فقہاء اورمحققین نےزبان وتقریر اورقلم وقرطاس کے ذریعے مالیاتی فقہ (فقہ المعاملات) اور لین دین کے احکام کو مختلف اسالیب وزبانوں میں پیش کیاہے اور کرتے آرہے ہیں۔ دو جلدوں اور (826) صفحات پر مشتمل ہماری یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کی تکمیل و ترتیب میں پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ خرچ ہوا۔ اس کتاب میں فقہ المعاملات کےاہم ابواب اور جدید موضوعات ومسائل پر تحقیق کی گئی ہے اور اس سلسلے میں قدیم کتب اور جدید تحقیقات دونوں سے استفادہ کرکے، تقریبا تمام مباحث کی تلخیص پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب محض جزئیات، فتاوی اور کسی معاملے کے فقط جائز یا ناجائز ہونے کو نہیں بتاتی، بلکہ اس میں تعارفی، اصولی اور تجزیاتی انداز میں مباحث کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور ہر بحث کا تجزیہ کرکے اسے مختلف نکات میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر نکتہ کی الگ وضاحت کی گئی ہے اور اکثر موضوعات/ابواب کے فقہی ضوابط کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ کتاب عوام کے لیے بھی مفید ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ اہلِ علم اور فقہ سے تعلق رکھنے والے اصحابِ دانش اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے اور اس کے ذریعے مالیاتی فقہ کے مباحث کا دقتِ نظر سے ادراک کرسکیں گے۔
کتاب ایک مقدمہ اور چار ابواب پر مشتمل ہے، جس کا خاکہ یہ ہے:
مقدمہ میں فقہ اور معاملات کا مختصر تعارف، فقہ المعاملات کا مطالعاتی نصاب اور معاملات کے جدید مسائل کو حل کرنے کے منہج اورطریقے کی طرف راہنمائی کی گئی ہے۔
پہلا باب دو فصول پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں بیوع (خرید وفروخت) کے تمام مباحث اور اصول وضوابط کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جبکہ دوسری فصل میں ربا (سود) کے بنیادی مباحث کوتفصیل کے ساتھ زیرِبحث لایا گیا ہے، امید ہے ربا (سود) پر کی گئی بحث اہلِ علم کو پسند آئےگی۔
دوسرا باب مشارکات واجارہ پر مشتمل ہے، جس میں شرکت، مضاربت، مزارعت اور اجارہ کے اصولی مباحث اور بنیادی احکامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
تیسرے باب کا موضوع عقودِ تبرع ہے۔ ابتداء میں تبرعات کا تعارف وتفصیل ذکر کی گئی ہے اور پھرتین اہم عقودِ تبرع یعنی ہبہ (گفٹ) قرض اور عاریت کے اصولی مباحث واحکام کو بیان کیا گیا ہے۔
چوتھا باب، پہلے ابواب کی بنسبت زیادہ تفصیلی وتحقیقی ہے۔ اس باب میں معاملات سے متعلق بندہ کے وہ تمام تحقیقی مقالات ومضامین موجود ہیں جو گزشتہ چھ سالوں سے بندہ مختلف رسائل وجرائد کے لیے لکھتا آرہا ہے۔
چونکہ اہلِ علم کے لیے اس کتاب کی افادیت زیادہ ہے، اس لیے ان کے لیے چند نکات بتائے جارہے ہیں، تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ کتاب آپ کیوں پڑھیں؟ یا اس کی کیا خصوصیات یا امتیازات ہیں؟
اس کتاب میں معاملات کے اہم ابواب کی قدیم وجدید،تفصیلی ابحاث کی آسان تلخیص، جامع شکل میں پیش کی گئی ہے۔ اردو میں اس انداز سے کسی کتاب میں معاملات کے ان موضوعات کو یکجا ذکر نہیں گیا ہے، اسی لیے جامعات/یونیورسٹیوں میں اسلامک فائنانس کے لیے بطورِ نصاب یہ کتاب کافی ہوگی۔ ان شاء اللہ
اس کتاب میں صرف جزئیات کے تذکرہ پر اکتفاء نہیں کیا گیا، بلکہ اصولی مباحث اور ان کا تجزیہ کیا گیا ہے اور بعض مباحث کا مطالعہ کرکے ان کو ذہن کے قریب تر لانے کے لیے، قواعد وضوابط کی شکل میں لکھ کر پیش کیا گیا ہے۔
اکثر ابواب سے متعلق فقہی قواعد وضوابط کو ہر باب کے آخر میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ ان موضوعات کو پڑھاتے وقت طلبہ سے ان قواعد وضوابط کو یاد کروایا جائے۔ اس سے متعلقہ باب کے مباحث سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
آسانی کے لیےتقسیم در تقسیم کا اسلوب اختیار کرکے، ہر بحث کو متعین نکات میں تقسیم کرکے الگ الگ سمجھایا گیا ہے، جس سے متعلقہ موضوع کی تمام تفصیلات باآسانی ذہن نشین ہوجاتی ہیں۔
سینکڑوں قدیم وجدیدمآخذ سےاستفادہ کیا گیا ہے اور ہر موضوع کے ضمن میں معاملات کی اہم قدیم وجدید کتب کی طرف بھی راہنمائی گئی ہے، تاکہ اگر کوئی قاری خاص اسی موضوع پر مزید تحقیق اور ریسرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے لیے آسانی ہو۔
آخری باب میں اہم تحقیقی مقالات وآرٹیکلز موجود ہیں، جن سےمتعلقہ موضوع پر ایک تحقیقی بحث کے علاوہ بحث وتحقیق کےنئے موضوعات کی طرف راہنمائی ملےگی اورتحقیقی مقالہ لکھنے کے انداز واسلوب میں مدد ملےگی۔
مہنگائی کے اس دور میں بڑی مشکل سے یہ کتاب منظر عام پر لائی گئی ہے۔ ایک مصنف کے بس میں اتنا ہی ہوسکتا ہے، اس سے آگے کا کام دوستوں کا ہے کہ وہ اس محنت کی قدردانی کریں، اسے خرید کر مطالعہ کریں، اس کا تعارف زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور اس کی تشہیر میں خصوصی حصہ لیں۔
امید ہے کتاب کے مباحث، مآخذ، مواد، مواد کا تجزیہ اور اسلوب ومنہج قارئین کو پسند آئےگا اور بندہ کی پہلی کتاب ”فقہی قواعد کا تحقیقی مطالعہ“ کی طرح یہ کتاب بھی قارئین کی امید پر پوری اترےگی۔ ان شاء اللہ