Web Analytics Made Easy -
StatCounter

سیدنا مروان بن الحکم شخصیت و کردار قاضی طاہر علی الہاشمی

سیدنا مروان بن الحکم شخصیت و کردار قاضی طاہر علی الہاشمی

سیدنا مروان بن الحکم شخصیت و کردار قاضی طاہر علی الہاشمی

قاضی طاہر علی الہاشمی حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی ایک معروف علمی و دینی شخصیت ہیں جو کہ عہد حاضر میں دفاع صحابہؓ کے سلسلے میں ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یوں تو قاضی صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں لیکن آج ان کی جس کتاب پر تبصرہ کی سعادت اس راقم کو حاصل ہوئی ہے وہ ان کی تازہ ترین اشاعت ’’سیدنا مروان بن الحکم رضی اللہ عنہما ۔ شخصیت و کردار ‘‘ ہے۔ اسلامی تاریخ میں قبائلی تعصب اور تاریخی بے راہ روی کی وجہ سے جن شخصیات کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے ان میں سے ایک عثمانؓ کے سگے چچا زاد بھا ئی و داماد اور علی ؓ کے سمدھی اور مسلمانوں کے آٹھویں خلیفہ مروانؓ بن الحکم ہیں۔ اسی لئے قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب نے مناسب سمجھا کہ سیدنا مروانؓ سے متعلق درست حقائق تحقیقی طور پر عوام الناس تک پہنچائے جائیں کیونکہ عوام تو عوام خود خواص میں سیدنا مروانؓ کی شخصیت کو لے کر کئی طرح کی غلط فہمیاں رواج پذیر ہیں۔اور انہیں غلط فہمیوں کے خاتمےکے لئے قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب کا قلم حرکت میں آیا اور یوں ایک نادر و تحقیقی کتاب وجود میں آئی۔ کتاب ہٰذا دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں سیدنا مروانؓ کی سیرت سے متعلق بحث کی گئی ہے جبکہ دوسرے حصہ میں سیدنا مروانؓ سے متعلق اعتراضات کا علمی تجزیہ کرکے ان کا باطل ہونا ثابت کیا گیا ہے۔

ویسے تو پوری ہی کتاب نہایت شاندار و عالمانہ ہے لیکن کتاب کے شروع میں شامل ’’عرض مصنف‘‘ نے کتاب کی خوبصورتی میں چار چاند لگادئیے ہیں۔ عرض مصنف جو کہ تقریباً ۳۵ صفحات پر پھیلا ہوا ہے میں قاضی صاحب نہایت ہی مدلل پیرائے میں سیدنا مروانؓ کا دفاع کرتے ہوئے اپنے اور بیگانے ہر ایک سے ان ’’مظالم‘‘ کے لئے شکوہ کناں نظر آتے ہیں، جو کہ ان اصحاب کی طرف سے اس ’’خلیفہ مظلوم‘‘ پر کئے گئے ہیں۔ جہاں بلا کسی ڈرو خوف کے قاضی صاحب حب صحابہؓ کے جذبہ سے مغلوب ہوکر اپنے ہی ہم مسلک بڑے سے بڑے آئمہ کی سیدنا مروانؓ کی جناب میں کئی گئی ناروا باتوں کو نقل کرکے ان اصحاب سے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

کتاب کا پہلا حصہ سیدنا مروانؓ کی سیرت سے متعلق ہے جس میں قاضی طاہر صاحب نے نہایت مدلل پیرائے میں سیدنا مروانؓ کی صحابیت کو نہ صرف ثابت کیا ہے بلکہ اس پر دلائل کا ایک انبار جمع کردیا ہے، ساتھ ہی سیدنا مروانؓ کے والد سیدنا حکم ؓ کا مقدمہ بھی نہایت ہی مضبوط انداز میں پیش کرکے ان کی صحابیت کا کسی شک و شبہ سے بالاتر ہونا ثابت کیا ہے جن کو کہ نہ صرف ؁ ۸ہجری میں قبول اسلام کے بعد نبی ﷺ کی صحبت حاصل رہی بلکہ جن کا اٹھنا بیٹھنا کبار صحابہؓ کے ساتھ تھا اور جن کے انتقال پر سیدنا عثمان ؓنے ؁ ۳۲ ہجری میں اہل مدینہ کے ہمراہ ان کی صلٰوۃ المیت ادا فرمائی۔ سو اس طرح صحابہ ؓ کے وہ تمام حقوق جو اسلام نے امت پر عائد کئے ہیں وہ سب کے سب سیدنا حکم ؓ کے لئے تسلیم کرنے پڑیں گے۔جبکہ یارلوگوں نے جن میں ہمارے چند جید علماء بھی شامل ہیں سیدنا حکمؓ کو غیر صحیح روایات کے تحت مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ہے۔ قاضی صاحب نے ایسی تمام واہی روایات کی اصل حقیقت قارئین کے سامنے واضح کردی ہے۔ جس کے لئے ان کو سیدنا حکمؓ کا محسن کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

ساتھ ہی سیدنا مروانؓ سے متعلق قاضی صاحب نے بدلائل ثابت کیا ہے کہ صحابہ، تابعین اور فقہاء مسلمین کے نزدیک سیدنا مروان ؓ اس امت کی عظیم شخصیتوں اور نہایت ثقہ ہیں۔ مروانؓ سے امام بخاری نے بسند سہل بن سعد الساعدیؓ اور علی بن حسین بن علی ؒ سے روایتیں لی ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ان سب بزرگوں کی تفصیل دی ہیں جنہوں نے مروانؓ سے روایتیں کیں مثلاً سعید بن المسیب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام مخزومی، عروۃ بن الزبیر، عراک بن مالک الغفاری، عبداللہ بن شداد بن الہاد وغیرہم۔ یہ سب حضرات کبار فقہاء میں ہیں۔ اس کے علاوہ موطا امام مالک، صحیح بخاری، سنن نسائی وغیرہ میں مروانؓ کے ارشادات، فتاویٰ اور قانونی فیصلے مندرج ہیں اور انہیں فقہائے اسلام شرعی نظائر کی حیثیت دیتے ہیں گویا اسلامی فقہ میں مروانؓ کی حیثیت بہت بڑی ہے۔

امام بخاری اپنی تاریخ الکبیر میں سیدنا مروانؓ کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان کے متعلق کوئی ناقدانہ بات نہیں کرتے، یہی کام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب جرح و تعدیل جلد رابع میں کیا ہے اور مروان کی ثقاہت درج کی ہے۔ الغرض مروانؓ بخاری و موطا امام مالک اور دوسری کتب حدیث کے راوی ہیں۔ امام بخاری اور امام مالک نے نہ صرف مروان ؓ سے روایتیں لی ہیں بلکہ ان کے فتاویٰ کو بطور حجت نقل کیا ہے اور ان کو سنت قرار دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ امام مالک روایت حدیث میں کس قدر متشدد ہیں اور اسی لیے انہوں نے اپنی موطا میں کسی سوء العقیدہ و فاسق شخص سے روایت نہیں لی لیکن اس کے باوجود امام مالک نے مروانؓ سے نہ صرف روایتیں لیں بلکہ ان کے فتاوٰی کو سنت کی اتباع میں نقل کیا۔

مروان ؓ کی عبادت و تقویٰ اپنے ہم عصروں میں بہت ممتاز تھا ۔ تلاوت کلام پاک کا تو ایسا عشق تھا کہ من اقراء الناس القرآن کہلاتے تھے۔ البدایہ والنہایہ جلد ۸ ص ۲۵۷ میں ہی یہ روایت درج ہے کہ یزید بن معاویہؒ کی ولایت عہد کی تحریک سے کچھ پہلے امیرالمومنین معاویہؓ یہ فرما کر مروان ؓ کو جانشین نامزد کرنے کا خیال کر رہے تھے کہ وہ کتاب اللہ کے قاری، اللہ کے دین کے فقیہہ اور حدود اللہ قائم کرنے میں شدید ہیں ۔ فقال اما القاری الکتاب اللہ الفقیہ فی دین اللہ الشدید فی حدود اللہ مروان بن الحکم۔

علامہ ابن کثیر مروانؓ کے ترجمہ کے تحت مزید لکھتے ہیں کہ امام احمد سے منقول ہے کہ امیر معاویہؓ کے دور میں مروان ؓ منصب قضا پر بھی قائز تھے اور امیر المومنین عمرؓ کے فیصلہ شدہ قضایا کی روشنی میں اپنے مقدمات کا فیصلہ صادر کرتے تھے۔ عنا لام احمد قال یقال کان عند مروان قضاء و کان یتبع قضایا یا عمر بن الخطاب (جلد ۸ ص ۲۵۸)

حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں مروانؓ کی علمی لیاقت کو ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ مروان اپنے دور کے قفہاء میں شمار کئے جاتے تھے (الاصابہ ج۳ ص ۴۵۵)

جبکہ علامہ ابن تیمیہ نے مروانؓ کا علمی و فقہی مقام ان الفاظ میں درج کیا ہے اخرج اھل الصحاح عدۃ احادیث عن مروان و لہ قول مع اھل الفتیا (منہاج السنۃ جلد ۳ ص ۱۸۹) یعنی صحاح کے محدثین نے متعدد احادیث مروان سے تخریج کی ہیں اور اہل فتاویٰ میں مروان ؓ کا قول لیا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا مروانؓ کی علمی ثقاہت و قابلیت امت کے اسلاگ کے نزدیک مسلم و مستند ہے اور اکابر محدثین و فقہاء نے سیدنا مروانؓ سے دینی مسائل نقل کئے ہیں اور ان پر اعتماد کیا ہے۔ اور قاضی صاحب نے اس مقدمہ کو بدلائل پیش کر دیا ہے۔ اب اگر بعص مورخین وضعی روایتوں کے زیر اثر مروانؓ کے خلاف تاریخی رطب و یابس مواد کی بنا پر نقد و تنقید کریں تو وہ قابل توجہ نہ ہوگی۔ اور ظاہر بات ہے کہ اکابر محدثین و فقہاء کی تصریحات کے مقابلہ میں تاریخی ملغوبات کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔

سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علی ؓکے نزدیک سیدنا مروان ؓ عمدہ اخلاق اور بہتر کردار کے مالک تھے اسی لئےعثمانؓ نے اپنے اس چچا زاد بھائی کو اپنی صاحبزادی ام ابان الکبریٰ نکاح میں دی تھی۔ان سے مروانؓ کی اولاد بھی ہوئیں اور ام ابان الکبریٰ مروانؓ کی زوجیت میں ہی فوت ہوئیں۔ (نسب قریش ص ۱۱۲۔ تحت اولاد عثمانؓ) اسی طرح سے مروانؓ خود اور انکی آل اولاد بنو ہاشم و علیؓ کی نظروں میں بھی قدر و منزلت والے اور مستحسن تھے اسی لئے بنو ہاشم کی کئی لڑکیاں مروانؓ کے بیٹے اور پوتوں کو بیاہی گئیں۔ علی ؓ کی صاحبزادی رملہ بنت علیؒ مروانؓ کے بیٹے معاویہ ؒ بن مروانؓ کے نکاح میں تھیں۔ اس لحاظ سے علیؓ اور مروانؓ سمدھی تھے۔
کتاب نسب قریش ص ۴۵، تحت ولد علی بن ابی طالبؓ

کتا ب کے دوسرے حصہ میں قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب نے ان تمام اعتراضات کا علمی تجزیہ کیا ہے جو بیگانوں کے ساتھ ساتھ یگانے بھی سیدنا مروانؓ پر عائد کرتے ہیں اور ان اعتراضات میں ایسی ایسی فحش غلطیوں کی نشاندہی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ قاضی صاحب کے ہی ہم مسلک علماء جن کے نام کے آگے پیچھے بڑے بڑے تعظیمی سابقے اور لاحقے لگے ہوتے ہیں ، جنہوں نے اپنی ساری زندگی احادیث کا درس دیتے گزاری، جو کہ صحیح بخاری و مسلم جیسی بڑی بڑی حدیث کی کتب کے شارح ہیں ، ان حضرات نے سیدنا مروانؓ کی شخصیت کو مطعون کرنے سے پہلے کبھی یہ نہ سوچا کہ خیر القرون کے ایک شخص کی زندگی پر کلام کرنے سے پہلے تھوڑی بہت تحقیق ہی کرلی جاتی۔ سیدنا مروانؓ اور ان کے والد سیدنا حکم ؓ کا مدینہ جلاوطنی کا واقعہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں، درایتاً بھی اس واقعہ کا صدور ہونا ممکن نہیں کہ سیدنا حکم ؓ کبھی مدینہ میں رہائش پذیر رہے ہی نہیں، بلکہ فتح مکہ کے بعد اسلام لانے کی وجہ سے ہمیشہ مکہ و طائف میں ہی رہے یہاں تک کہ سیدنا عثمانؓ کے عہد میں مدینہ تشریف لائے، تو پھر نبی ﷺ کا ان کو مدینہ سے جلا وطن کرنے کا حکم دینا چہ معنی دارد۔

اسی طرح ہمارے بڑے بڑے علماء سیدنا مروانؓ کو مطعون کرتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ نے جو خط گورنر مصر کے نام لکھا تھا کہ محمد بن ابی بکر تمہارے پاس آئیں تو ’’ان کو قبول (فاقبلوہ) کرنا ‘‘کو سیدنا مروان ؓ نے ’’(فاقتلوہ) ان کو قتل کرنے ‘‘سے بدل ڈالا۔ حالانکہ یہ علم کے پہاڑ حضرات جنہوں نے بخاری و مسلم جیسی بڑی بڑی کتابوں کی شرح لکھ ڈالیں، اتنی سی بات پر غور نہ کرسکے کہ سیدنا عثمانؓ کے عہد تک تو عربی رسم الخط میں نقطے لگانے کا رواج ہی نہیں تھا، عربی رسم الخط میں نقطے لگانے کی سعادت تو مجاہد کبیر امیر حجاج بن یوسف ثقفی ؒ کو حاصل ہوئی تھی۔ ان کے دور سے تقریباً ۵۰ سال قبل سیدنا مروانؓ نے نقاط میں ہیرا پھیری کرکے کس طورسے فاقبلوہ کو فاقتلوہ میں بدل ڈالا۔ رہی بات کہ اس خط سے متعلق اصلی مبحث کیا ہے تو وہ تو قارئین کتاب پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیدنا مروانؓ پر یہ الزام کس قدر بے بنیاد ہے۔

ایسا ہی کچھ حال سیدنا مروانؓ کا سیدنا حسن ؓ کو حجرہ عائشہؓ میں دفن سے روکنے سے متعلق روایات کا ہے کہ نہ ہی یہ اعتراض درایتاً ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی روایتاً۔ سب سے بہترین کلام تو قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب نے اس اعتراض کے جواب میں کیا ہے جو کہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے تحت یار لوگ سیدنا مروانؓ پر عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے خطبہ عید کو صلٰوۃ العید سے پہلے ادا کرنے کی بدعت جاری کی اور پھر بعض احباب کو ایک صحابی کے عمل کے لئے ’’بدعت‘‘ کا لفظ استعمال کرکے چین نہ نصیب ہوا تو انہوں نے یہ بے پرکی اڑادی کہ چونکہ سیدنا مروانؓ خطبہ میں سیدنا علی ؓ و آل علیؓ پر ’’سب و شتم‘‘ کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے صلٰوۃ العید ختم ہوتے ہیں لوگ خطبہ سنے بغیر چلے جاتے تھے تاکہ خانوادہ نبوت ﷺ کے لوگوں سے متعلق ناروا کلمات نہ سن سکیں۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ اگر سیدنا مروانؓ کا خطبہ کو مقدم کرنے کی اس وجہ کو درست مان لیا جائے تو سیدنا مروانؓ سے زیادہ طعن تو اس وقت موجود اصحاب رسول ﷺ اور بنو ہاشم پر عائد ہوتا ہے کہ ان میں معاذ اللہ اتنی غیرت نہ تھی کہ کوئی آگے بڑھ کر سیدنا مروانؓ کو اس ’’منکر‘‘ کام سے روک دیتا، بلکہ معاذ اللہ ثم معاذاللہ بے غیرتی و بزدلی کا یہ عالم تھا کہ صلٰوۃ العید ادا کرتے ہی سب ’’چپکے سے کھسک‘‘ جاتے تھے کہ گالیوں پر مشتمل خطبہ نہ سننا پڑے۔ ذرا یہ تو سوچئے کہ یہ طعن کرکے آپ سیدنا مروانؓ کو تو چھوڑئیے، اس وقت حیات ،صحابہؓ اور خانوادہ نبوت کی کتنی مکروہ تصویر پیش فرمارہے ہیں۔ اب آجائیں اصل اعتراض کی طرف تو دراصل یہ اعتراض تھا ہی نہیں بلکہ ’’بدعت‘‘ کے کریہہ لفظ کے استعمال سے اسکو اعتراض بنانے کی مذموم سعی کی گئی ہے۔

سب سے اول بات تو یہ ہے کہ سیدنا مروانؓ سے اس ’’بدعت‘‘ کا صدور صرف ایک یا دو دفعہ ملتا ہے اور اس متعلق تمام روایا ت کا تتبع کرنے سے یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا ابو سعید الخدریؓ کے توجہ دلانے پر سیدنا مروانؓ نے اپنے اس اجتہاد سے رجوع فرمالیا تھا کیونکہ کسی تاریخی روایت میں ایسا نہیں ملتا کہ سیدنا مروانؓ کی اس بدعت کو بعد میں آنے والے خلیفہ نے ختم کردیا ہو، پھر ہمارے تمام قابل احترام معترضین یہ مانتے آئے ہیں کہ سیدنا مروانؓ نے اس ’’بدعت ‘‘کا ارتکاب اس وقت کیا جبکہ وہ سیدنا معاویہؓ کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، یعنی گویا سیدنا معاویہؓ کے عہد مبارک میں دیار نبویﷺ میں عین مسجد نبویﷺ کے قلب میں منبر رسولﷺ پر ایک مسلسل ’’بدعت ‘‘ کا ارتکاب ہورہا ہے اور سیدنا معاویہؓ اس کو روکنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتے تو گویا آپ بھی سیدنا مروانؓ کی اس ’’بدعت‘‘ میں حصہ دار تھے۔ استغفرللہ ایسی ہفوات پر۔

دوم کتب حدیث کے عمیق مطالعہ سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ سیدنا مروانؓ کا یہ فعل جو کہ دراصل ان کا اجتہاد تھا جس سے بعد میں انہوں نے رجوع فرمالیا تھا، چند سابقہ نظائر کی بنا پر تھا جیسا کہ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابی شیبہ میں سیدنا عمر فاروقؓ کا عمل ملتا ہے کہ عید الفطر کی صلٰوۃ سے قبل جنہوں نے سب سے اول خطبہ دیا وہ عمر ابن خطابؓ تھے جبکہ فتح الباری جز ثانی میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے رقم کیا ہے کہ صلٰوۃ العید سے قبل سے اول خطبہ سیدنا عثمانؓ نے دیا ، اسی طرح دیگر روایات میں زیاد بن ابی سفیانؒ اور سیدنا معاویہؓ کے نام بھی آتے ہیں۔ سو ایسا قطعی نہیں تھا کہ سیدنا مروانؓ نے یہ کام کرکے کوئی ’’بدعت‘‘ جاری کی تھی۔ بلکہ آپؓ نے یہ کام سابقہ نظائر کی بناء پر کیا تھا جس سے آپکا رجوع بھی ثابت ہے۔ پھر اس بابت سیدنا مروانؓ کو مطعون کرنا چہ معنی دارد۔ اسی طور قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب نے انتہائی عالمانہ و محققانہ طریقہ سے ثابت کیا ہے نہ صرف سیدنا مروانؓ سے بلکہ اس طرح کے اجتہاد دیگر صحابہؓ سے بھی ثابت ہیں جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ سے صلٰوۃ العید کے لئے اذان و اقامت کہنا جس پر جناب امین صفدر اوکاڑوی نے اسکو سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کا تفرد قرار دیکر ان کو اس سلسلے میں معذور مانا ہے۔ تو پھر ایسا ہی حسن ظن رکھنے والا طرز عمل سیدنا مروانؓ کے لئے کیوں نہیں جبکہ بقول علامہ ابن تیمیہ ، سیدنا مروانؓ اور سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ صحابہؓ کے ایک ہی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔

الغرض قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب نے اپنی اس کتاب میں ا یسے دسیوں اعتراض کا بودہ اور بے اصل ہونا ثابت کرکے دفاع صحابہؓ و حب صحابہؓ کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ سیدنا مروانؓ کی عدالت پر اس سے زیادہ مدلل و محقق کتاب لکھنا نا ممکن نہ سہی لیکن مشکل ضرور ہے اور اس کتاب کے ذریعے قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب نے مخالفین مروانؓ کے لئے کوئی جائے پناہ سوائے رجوع کے نہیں چھوڑی۔

اب کچھ مصنف کے بارے میں۔ الحمدللہ راقم علمائے حق سے ہمیشہ سے حسن ظن رکھتا آیا ہے اور اس کتاب کے مطالعہ سے پہلے بھی قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب کو ایک جید و محقق عالم مانتا اور جانتا تھا جو کہ دفاع صحابہؓ کے سلسلے میں کسی قسم کی مداہنت دکھانے کے روادار نہیں ہیں۔ البتہ اس کتاب کے مطالعہ نے قاضی صاحب کی سیرت کا وہ پہلو نمایاں کردیا جو اس احقر نے علمائے احناف میں صرف مولانا عبدالحی لکھنوی اور علامہ حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی میں دیکھا تھا کہ صحیح احادیث اور اتباع صحابہؓ میں اپنے مسلک کے مرجوح قول کو چھوڑ کر حق بات کو بیان کرنا۔ قاضی صاحب نے احناف سے تعلق رکھنے کے باوجود کتاب ہٰذا میں کئی مقامات پر اتباع صحابہؓ کے زیر اثر احناف میں رائج مرجوح اعمال پر راجح قول کو نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ اس بابت احناف پر تنقید بھی کی ہے۔ دوسروں مسالک پر تنقید کا یارا تو ہر عالم ہی کرلیتا ہے، بات تو تب ہوتی ہے جب اپنے ہی مسلک کی کسی مرجوح رائے پر حق پرستی کے ساتھ مسلکی تعصب سے ماوراء ہوکر تنقید کی جائے اور قاضی صاحب نے ایسی تنقید کا کماحقہ حق ادا کردیا ہے۔

انور شاہ کاشمیری کا امام بخار ی پر ناراض ہونا کہ انہوں نے ’’مروان جیسے ناصبی‘‘ سے روایتیں لے لیں جبکہ آئمہ کبار احناف کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان سے روایتیں اپنی صحیح میں لیتے، اس بابت قاضی صاحب انور شاہ کاشمیری کے مقابلے میں امام بخاری کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، اسی طور سے دوران خطبہ نوافل ادا کرنے پر جو کہ احناف و مالکیہ کے نزدیک درست نہیں جبکہ شوافع و حنابلہ کے ہاں مستحب عمل ہے، میں قاضی صاحب اتباع صحابہؓ میں شوافع کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ کتاب ہٰذا میں ایسی ایک دو نہیں بلکہ کئی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب مروجہ مسلکی اختلافات سے بہت بلند ہوکر رائے قائم کرنے والے عالم ہیں۔ اس پر مزید خوبی یہ کہ احناف کے اصولوں کا ایسا برمحل و درست تتبع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ فقہ حنفی میں ان کے تدبر و فکر پر قسم کھالی جائے تو جھوٹی ثابت نہ ہو اور حق پرستی اور مسلکی تعصب سے اجتناب کرتے ہوئے صحیح رائے پر عمل و موقف قائم کرنے کی وہ مثال کہ بڑے سے بڑا غیر مقلد ان کے سامنے کوتاہ قد نظر آئے۔ المختصر اس کتاب کے مطالعہ نے قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب کا علمی قد اس احقر کی نظروں میں بہت بلند کردیا ہے

محمد فہد حارث

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *