بیسویں صدی کے سب سے بااثر مسلم مفکر کون ہیں؟ اتفاق و اختلاف سے قطع نظر اس سوال کے جواب میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ہی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ عہدِ حاضر میں اسلام کی غالب تعبیر وہی ہے جسے ‘سیاسی اسلام‘ یا ‘اسلام ازم‘ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ امریکہ کے علمی اور تحقیقی اداروں میں سید قطب کا نام زیادہ لیا جاتا رہا مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کا علمی مقام زیادہ وقیع ہے۔ انہوں نے ہی اس تعبیر کو ایک مربوط نظامِ فکر کی صورت دی اور اس کا صغریٰ کبریٰ مرتب کیا۔ یہی نہیں‘ علومِ اسلامی کے ہر شعبے میں اُن کا حصہ ہے‘ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہر بڑے آدمی کی طرح مولا نا کی زندگی اور افکار‘ علم کی دنیا میں زیر بحث رہے ہیں۔ اُن کے افکار پر ہونے والے علمی کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ کام ہے جو اُن کے متاثرین کی طرف سے سامنے آیا۔ یہ ان کے افکار کی تنقیح و توضیح یا اس پر ہونے والے اعتراضات کا جواب ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم نام پروفیسر خورشید احمد صاحب کا ہے۔ دوسرا کام مولانا کے ناقدین کا ہے۔ اس میں مولانا کی تعبیرِ دین کو مختلف اہلِ علم نے اپنے فکری پس منظر اور نتائجِ فکر کی روشنی میں دیکھا۔ مولانا وحید الدین خان کی ‘تعبیرکی غلطی‘ اس کی ایک مثال ہے۔
تیسرا کام وہ ہے جو معروف علمی و تحقیقی روایت کے مطابق دنیا کی جامعات میں سر انجام دیا گیا۔ اس میں بالعموم موضوع کا معروضی جائزہ لیا جاتا ہے اور حمایت یا مخالفت سے گریز کیا جاتا ہے۔ زیادہ توجہ حقائق کی دریافت پر دی جاتی ہے۔ مولانا مودودی کے افکار اس پہلو سے بھی زیرِ بحث آئے۔ دنیا کی معروف جامعات میں ان پر پی ایچ ڈی سطح کی تحقیق ہوئی۔ ولی رضا نصر کا کام اس ضمن میں قابلِ ذکر ہے۔ امانت رسول صاحب کی زیرِِ نظر کتاب بھی اسی دائرے میں آتی ہے۔
‘فکرِ مودودی اور جدید مذہبی تحریکیں‘ اصلاً ایم فل کا مقالہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ ایم فل کے مقالے پر اتنی محنت نہیں کرتے‘ جس کا مظہر یہ کام ہے۔ کتاب کا ایک حصہ مولانا کے سوانح اور فکری ارتقا کے لیے مختص کیا گیا۔ ایک حصے میں ان فکری تحریکوں کا جائزہ ہے جو ماضی میں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہی ہیں۔ یہ تحریکیں کن فکری چیلنجوں کے جواب میں برپا ہوئیں‘ اس پر بھی دادِ تحقیق دی گئی ہے۔ ایک حصے میں عصری احیائی تحریکوں کا بیان ہے اور پھر یہ بتایا گیا کہ مولانا مودودی کے افکار کس طرح اُن پر اثر انداز ہوئے۔ یہ کتاب کا سب سے اہم حصہ ہے۔
امانت رسول صاحب نے ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ فلپائین‘ تھائی لینڈ‘ سنگا پور‘ کمپوچیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ تک پھیلی اسلامی تحریکوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے مولانا مودودی کے فکری کام سے استفادہ کیا اور ان سے اثر قبول کیا۔ مصر کی الاخوان المسلمون جماعت اسلامی کے قیام سے پہلے وجود میں آئی اور اُس وقت عرب دنیا مولانا مودودی کے فکری کام سے واقف نہیں تھی‘ تاہم بعد میں جب سید قطب اخوان کے فکری رہنما کے طور پر سامنے آئے تو اس دور میں اخوان پرمولانا کے فکری اثرات نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی کے بعد تو جماعت اسلامی اور الاخوان المسلمون ایک ہی تصویر کے دو رُخ قرار پائے۔ امانت رسول صاحب نے اس کا بھی جائزہ لیا ہے۔
یہ اگرچہ ایک معروضی تحقیق ہے لیکن اس میں تنقید سے گریز کیا گیا ہے۔ مصنف نے خود کو موضوع تک محدود رکھتے ہوئے مثبت انداز میں مولانا مودودی کے فکری اثرات کو بیان کیا ہے۔ وہ مولانا کے فکری کام کے معترف ہیں اور انہوں نے اس کا بر ملا اظہار بھی کیا ہے۔ امانت رسول صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ دنیا کی کن کن زبانوں میں مولانا کی کتب کا ترجمہ ہو چکا۔ اسلامی تحریکوں کے کسی طالب علم کے لیے یہ بہت مفید معلومات ہیں۔
مولانا کے فکری اثرات پر اردو زبان میں کم لٹریچر میسر ہے۔ مولانا کی وفات پر اس حوالے سے کچھ کتب شائع ہوئیں اور تحقیقی کام سامنے آیا لیکن میرا خیال ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ صاحبزادہ امانت رسول کی یہ کتاب اس باب میں ایک اہم اضافہ شمار ہوگی۔
غیر مذہبی تحریکوں پر صاحبزادہ صاحب کی تنقید میں تندی ہے۔ مثال کے طور پر ‘انجمنِ ترقی پسند مصنفین‘ کے مقاصد میں سے ایک مقصد ‘شہوت اور جنسیت کو ابھارنا‘ بھی بیان کیا گیا ہے۔ اسے انجمن کے مقاصد میں بیان کرنا شدتِ بیان ہے۔ یہ بات کسی دوسرے اسلوب میں بھی کہی جا سکتی تھی۔ جیسے: اس انجمن کے فکری کام کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ سماجی و اخلاقی معاملات میں تساہل کا رویہ سامنے آیا یا اس کے متاثرین میں مذہبی اخلاقیات سے بے نیازی سامنے آئی۔ اس کتاب میں بہت سے اقتباسات ہیں مگر ان کا حوالہ موجود نہیں۔ اگر کوئی طالب علم اصل تلاش کرنا چاہے تو اسے بہت مشکل پیش آئے گی۔ مجھے بھی مطالعے کے دوران میں اس مشکل کا سامنا رہا۔ مثال کے طور پر مولانا مودودی کی کتاب ‘الجہاد فی الاسلام‘ کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے کہ اس موضوع پر اس سے بہتر کتاب نہیں لکھی گئی۔ یہ بات اقبال نے کہاں کہی یا لکھی‘ اس کا حوالہ موجود نہیں۔ اگلے ایڈیشن میں اس کی تلافی کر دی جائے تو محققین کے لیے اس کتاب کی افادیت بڑھ جائے گی۔
امانت رسول صاحب کا اسلوب سادہ مگر عالمانہ ہے۔ دعوت کے لیے بہت موزوں۔ انہوں نے خود کو مسلکی اور گروہی تقسیم سے بلند رکھا ہے اور ہمیشہ علم کے ساتھ سچی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا سماج بھی اسی رویے کا مظہر بنے۔ اس کے لیے انہوں ادارہ فکرِ جدید قائم کیا ہے۔ وہ یہاں مختلف الخیال اہلِ علم کو مدعو کرتے اور سامعین کو ان سے استفادے کا موقع فراہم کر تے ہیں۔ اس پر مستزاد ان کا تصنیفی کام ہے۔
فکری گھٹن کے اس دور میں صاحبزادہ امانت رسول کا کام خوش گوار ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ وہ درسِ نظامی کے فاضل ہیں۔ یوں ہمارے علمی رایت سے باخبر ہیں۔ انہوں نے کئی برس مغرب میں گزارے ہیں۔ یوں وہ علمِ جدید کے چیلنج کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کی طبعی متانت اور علم دوستی سے یہ توقع ہے کہ ان کا یہ ادارہ مستقبل میں سماج کے فکری ارتقا میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کی یہ دوکتابیں اس کے اولیں نقوش میں سے ہیں۔ لازم ہے کہ علم کی دنیا میں ان کا خیر مقدم کیا جائے۔
احمد چاؤلہ