تعارف کتاب شہید کربلا اور کردار یزید کا علمی و تحقیقی جائزہ للمؤلف حافظ عبیداللہ
ملحوظہ: بندہ نے پوسٹ کے آخیر میں چھ کتابوں کے لنکس دیا ان سب کتب کا ترتیب وار مطالعہ واقعہ کربلا کے اصل حقائق جاننے میں کافی معاون اور مفید ثابت ہوگا ۔ ان چھ کتب کا پس منظر بیان کرنے کیلئے برادرم محترم محمد فہد حارث صاحب کی وال سے یہ تحریر کچھ معمولی سی اضافے اور معمولی تغیر کے ساتھ نقل کیا ۔ (از ناقل)
مذکورہ کتاب ہندوستان کے ایک عالم محترم مولانا سید طاہر حسین گیاوی صاحب کی کتاب “شہیدِ کربلا اور کردارِ یزید” کا ناقدانہ جائزہ ہے۔ سید طاہر حسین گیاوی صاحب کی کتاب کا پورا نام “شہیدِ کربلا اور کردار یزید۔ محدث اعظمیؒ کی کتاب ‘تبصرہ بر شہیدِ کربلا اور یزید’ کا علمی محاسبہ” ہے۔ جیسا کہ گیاوی صاحب کی کتاب کے عنوان سے ہی واضح ہے کہ ان کی کتاب محدثِ احناف ابوالمآثر علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی صاحب کی کتاب کے ناقدانہ جائزہ پر مبنی ہے۔ گویا حافظ عبیداللہ حفظہ اللہ کی یہ کتاب علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمیؒ کی کتاب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔
علامہ حبیب الرحمن صاحب الاعظمی رحمہ اللہ کی کتاب کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ 1950ء کی دہائی کے اواخر میں لکھی گئی علامہ محمود احمد عباسی مرحوم کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’خلافت معاویہ ؓ و یزیدؒ ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی علمی حلقوں میں ایک بے چینی کی صورت نمودار ہوگئی۔ کچھ احباب نے اس کتاب کی تائید میں تبصرے لکھے (جو بعد میں “تحقیق مزید بسلسلہ خلافت معاویہ و یزید” کے نام سے منظر عام پر آئے ۔ تو کچھ لوگ اس کتاب کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آئے۔ اہل دیوبند میں بھی مخالفت و موافقت کا سلسلہ نظر آیا۔ عباسی صاحب کا رد لکھنے میں اہل دیوبند میں سے جن حضرات نے مستعدی دکھائی ان میں علامہ عبدالرشید نعمانی ، قاری محمد طیب اور قاضی اطہر مبارکپوری رحمہم اللہ پیش پیش تھے۔ قاری محمد طیب صاحب مرحوم نے ’’خلافت معاویہؓ و یزیدؒ‘‘ کی اشاعت کے فوراً بعد ہ سنہ ۱۹۶۰ء میں ’’شہید کربلا اور يزيد‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ۔
چونکہ یہ کتاب علامہ عباسی کی کتاب کے رد میں لکھی گئی تھی اور عباسی صاحب کی کتاب میں یزید کو امیر المومنین بناکر پیش کیا گیا تھا سو رد عمل کے تحت قاری طیب صاحب نور اللہ مرقدہ نے یزید کو ’’مذل المومنین‘‘ ثابت کرنے پر پورا زور صرف کیا اور اپنی تحقیق کو مسلک دیوبند کی نمائندہ تحقیق و نظریہ قرار دیا۔ جس کی وجہ سے اہل دیوبند میں سے ہی بہت سے محتاط اور انصاف پسند اہل علم و تحقیق کو اس کتاب کے مندرجات سے اختلاف پیدا ہوا جن میں سے ایک نام شیخ الحدیث حضرت مولانا علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی صاحب رحمہ اللہ کا ہے۔ علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی صاحب کا اصل مقدمہ اور کتاب پر نقد دراصل قاری طیب صاحب مرحوم کے اس دعویٰ کے گرد گھومتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں پیش کردہ واقعہ کربلا کی تفاصیل اور فسقِ یزید کے نظرئیے کو عقیدہ کا درجہ دینے کی کوشش کی ہے اور یہ باور کروایا ہے کہ اس کے خلاف جو بھی بات کہے یا نظریہ رکھے تو وہ اہلسنت کے عقائد کے خلاف ہے، گویایزید کو فاسق و فاجر نہ کہنے والا یا واقعہ کربلا کو معرکہ حق و باطل ماننے کے بجائے ایک حادثہ فاجعہ جاننے والا شخص اہلسنت سے خارج ہے۔
سو اس متعلق اپنی کتاب میں مختلف ادلہ اور مباحث قائم کرنے کے بعد علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی مرحوم پانچ نکات کی صورت میں اپنی کتاب کا خلاصہ بیان فرماتے ہیں کہ
سیدنا حسینؓ باغی نہیں تھے #
اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یزید نے سیدنا حسینؓ کو قتل کیا یا اسکا حکم دیا #
یزید کافر و مرتد یا فاسق نہیں تھا #
یزید نہ تو ائمہ علم میں سے تھا نہ ائمہ تقویٰ میں سے تھا بلکہ وہ مسلمانوں کا ایک عام خلیفہ تھا #
عقیدہ فسق یزید کا سُنیت سے کوئی تعلق نہیں، نہ نفياً نہ اثباتاً #
المختصر علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی صاحب کی کتاب قاری محمد طیب صاحب جیسی جلیل القدر شخصیت کی کتاب پر نہ صرف ایک جامع نقد تھا بلکہ اپنے اسلوب تنقید میں ایک انتہائی سلجھی ہوئی تحریر بھی جو کہ فسق یزید اور واقعہ کربلا سے متعلق ایک غیر جانبدار لیکن صائب تجزیہ فراہم کرتی نظر آتی ہے۔ قاری محمد طیب صاحب کا جو علمی مقام اہل دیوبند میں ہے، اس کے لئے بہتر تھا کہ انہیں کے مقام و مرتبہ کا کوئی شخص قاری صاحب کی کتاب ’’شہید کربلا اور یزید ‘‘ کے تسامحات کا جواب لکھے اور علامہ الاعظمی صاحب کے اس رسالے نے یہ حق کماحقہ ادا کردیا۔
علامہ الاعظمیؒ کی کتاب کی اشاعت کے بعد عرصہ دراز تک کتاب پر کسی جانب سے کوئی نقد یا تبصرہ نہیں آیا یہاں تک کہ سنہ ۲۰۱۸ء میں کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ہندوستان سے ۱۵۲ صفحات پر مشتمل مولانا سید طاہر حسین گیاوی صاحب کی کتاب بنام “شہیدِ کربلا اور کردارِ یزید۔ محدث اعظمی کی کتاب ‘تبصرہ بر شہیدِ کربلا اور یزید’ کا علمی محاسبہ” شائع کی گئی۔ کتاب کا نام سنتے ہی مطالعہ کا شوق ہوا، کتاب اٹھائی اور جیسےجیسے ورق گردانی کرتے گئے، شوق کا جوش ہوا ہوتا گیا۔ امید تو تھی کہ محدث اعظمیؒ کی کتاب پر نقد ان کے مقام و مرتبہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا گیا ہوگا، جس میں ان سے علمی اختلاف کرنے کے باوجود ان کااحترام اور اسلوبِ بیان کی سنجیدگی کا خاص خیال پڑھنے کو ملے گا۔ لیکن افسوس کہ نہ ہر کوئی قاری محمد طیب ہوتا ہے اور نہ علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی۔
لوگ شخصیات پر نقد اپنے ظرف کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ مولانا سید طاہر حسین گیاوی صاحب کی کتاب میں علمیت تو سرے سے موجود ہی نہ تھی، البتہ سنجیدگی و متانت سے بھی یہ کتاب عاری ہی نظر آئی جس میں محدثِ احناف علامہ الاعظمیؒ کا ذکر کچھ اس طور سے کیا گیا ہے جیسے گلی محلّے کی مسجد کے کسی عام مولوی کا تذکرہ ہو۔ گیاوی صاحب کی کتاب کے مندرجات تو دور کی بات صرف فہرست ہی دیکھ لی جائے تو معلوم چل جائے گا کہ اکابر اکابر کی رٹ لگانے والے اختلاف ہوجانے کی صورت میں سارا شرم و لحاظ اور مروت بالائے طاق رکھ کر خود اپنے اکابر کی کیسی مٹی پلید کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ جب کہ اگر آپ علامہ حبیب الرحمٰن الاعظی صاحب کی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو ادراک ہوتا ہے کہ کتاب شروع سے لے کر آخر تک نہ صرف اپنے اندر علمیت و سنجیدگی رکھتی ہے بلکہ پوری کتاب میں کوئی ایک سطر ایسی نہیں نظر آتی جس میں قاری محمد طیب صاحب کی تنقیص یا ان کے مقام و مرتبہ کا لحاظ کئے بنا ان کے افکار پر نقد ہو جب کہ علامہ الاعظمى، قارى طيب صاحب کے ہم عصر اور تقريباً ہم عمر تھے، اور یہی ایک عالم خاصہ ہوتا ہے۔
پھر اپنی اس کتاب میں علامہ الاعظمیؒ کی تحقیق کی ضد میں سید طاہر حسین گیاوی صاحب نے یزید کو فاسق و فاجر ثابت کرنے پر پورا زور صرف کردیا اور اس سلسلے میں ہر واہی روایت اور غیر ثابت حکایت سے استدلال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ وہ یزید کی آڑ میں سیدنا معاویہؓ کی ذات کو مجروح کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ کو یزید کی شراب نوشی اور بری عادات کا معلوم تھا اور انہوں نے اسکو یہ سب کھلے عام کرنے کے بجائے رات کے اندھیرے میں کرنے کی ترغیب دی، اور انہوں نے یزید کو اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لیے طاقت اور مال دونوں کا استعمال کیا وغیرہ وغیرہ۔ (اس طرح کے موضوعی روایات سے استدلال کے عدم جواز پر دار العلوم دیوبند سے باقاعدہ فتوی جاری ہوا ۔ کمنٹ میں ملاحظہ فرمائیں)
گویا یزید کو “پلید” ثابت کرنے کے چکر میں گیاوی صاحب سیدنا معاویہؓ کو بھی معاذ اللہ ثم معاذاللہ “بے کردار و بے ضمیر اور رشوت دینے والا” ثابت کرنے پر تل گئے۔ پھر بات سیدنا معاویہؓ تک ہی نہیں رکی بلکہ واقعۂ حرّہ کی تفصیلات میں تو گیاوی صاحب نے صحابہ و کبارتابعین پر مشتمل یزید کی شامی افواج کو بدکردار اور جنسی درندگی کا مرتکب تک قرار دیدیا اور ان پر مدینے کی ہزار خواتین کی عصمت دری کا الزام تک دھر دیا جن میں گیاوی صاحب کے خیال میں کئی صحابیات بھی تھیں ۔
آمدِ برسر مطلب! سید طاہر حسین گیاوی صاحب کی کتاب پڑھتے ہی ارادہ کیا کہ اس کتاب پر نقد لکھا جائے کیونکہ کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی ایک مخصوص طبقے کی طرف سے اس کتاب سے متعلق کافی “شور شرابہ “شروع کردیا گیا تھا کہ محدث الاعظمیؒ کی کتاب کا “شافی و کافی “جواب گیاوی صاحب نے دے دیا ہے اور اس سلسلے میں علامہ الاعظمی صاحب کے سارے مغالطے رفع کردئیے گئے ہیں۔ جب ایسے بلند باگ دعوے سننے کو ملے تو پھر سوچا کہ گیاوی صاحب کی کتاب کی” علمی حیثیت” کی اچھے سے وضاحت کردی جائے۔ لیکن ابھی یہ ارادہ دل سے نکل کر قرطاس پر منتقل نہ ہونے پایا تھا کہ حافظ عبیداللہ صاحب حفظہ اللہ کی اس متعلق سلسلہ وار تحاریر پڑھنے کوملیں۔ تحاریر پڑھتے جاتے اور حافظ عبیداللہ کو دل سے دعائیں دیتے جاتے کہ انہوں نے گیاوی صاحب کے بودے استدلات کے تار بود تسلی و تشفی کے ساتھ اکھیڑ کر رکھ دئیے ہیں۔