Sadat e Bani Ruqayya By Faiz Alam Siddiqui | سادات بنی رقیہ از حکیم فیض عالم صدیقی
حکیم فیض عالم صدیقی صاحب مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے اور اپنا بے باک اور جارحانہ انداز رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں بے لحاظی پائی جاتی ہے۔ رد تشیع ان کا خصوصی میدان تھا اس پر انہوں نے کافی لکھا بھی۔
سادات بنی رقیہ حکیم صاحب کا ایک اہم کام ہے جس پر اہل سنت کے سوچنے کا بھی کافی سامان ہے کہ رفض کے زیر اثر کس طرح ایک جلیل القدر نسل کو ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں یہ مشہور کیا گیا کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل پاک صرف حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا سے چلی، حکیم صاحب نے یہ کتاب لکھ کر اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ نواسہ رسول حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند تھے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کا سلسلہ جاری ہے۔
حکیم صاحب کا بات کرنے کا ایک اپنا انداز تھا جس پر ان کے اپنوں کو بھی کافی تحفظات ہیں۔ مجھے بھی ان کا انداز کئی جگہ نامناسب لگتا ہے اور نظر آتا ہے کہ شیعہ کی تردید میں وہ کئی بار آل علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں بے لحاظ ہو جاتے ہیں جو کہ نامناسب ہے۔
اس کتاب میں سے سادات بنی رقیہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ رد شیعیت پر بھی کافی مواد موجود ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست شیعیت سے بنتا ہے کیونکہ ایک طرف تو شیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین بیٹیوں کے وجود کے قائل نہیں تو دوسری جانب حضرت سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسل کا نہ چلنے والا خیال اہلسنت میں بھی رائج ہے جو کہ شعیت کا ہی ایک وار ہے۔
کتاب کے مندرجات پر بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ حکیم صاحب نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو صحابہ کی بجائے کبار تابعین میں شمار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش غزوہ خیبر کے بعد جبکہ حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش بعد از فتح مکہ ہے۔ جبکہ دوسرا موقف جو راجح ہے اور جس کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے کہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش تین ہجری اور حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش چار ہجری میں ہوئی تھی۔ لیکن اگر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی پیدائش کو ویسا بھی مان لیا جائے جیسا کہ حکیم صاحب نے بیان کیا تب بھی صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف دونوں حضرات کو حاصل ہوتا ہے۔ پھر اس کتاب میں ایک حاشیہ میں حکیم صاحب نے اتنا تسلیم کیا ہے کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اصطلاحی معنی میں صحابی تو ہیں مگر حقیقتاً ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔
دراصل حکیم صاحب نے اس پر جو مقدمہ قائم کیا اس کے نتائج بھی بڑے سخت آتے ہیں۔ حکیم صاحب نے اس بنیاد پر حدیث کساء کو من گھڑت قرار دیا ہے، ایسے ہی حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم میں دیگر احادیث جن میں ان رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں “نوجوانان جنت کے سردار” کا ذکر ہے کو بھی موضوع کہا ہے۔
مباہلہ کے واقعے پر لکھا ہے کہ یہ چار ہجری میں پیش آیا اور اس وقت تک حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے آیت مباہلہ کے حوالے سے مفسرین کی جتنی روایات جن میں ان دو مقدس حضرات کی موجودگی کی روایت ہے من گھڑت ہو جاتی ہیں۔ آیت مباہلہ کے حوالے سے حکیم صاحب نے کچھ مزید تفصیلات بیان کی ہیں، حکیم صاحب کی مباہلہ والی بات کو محض مخالفت میں رد نہیں کیا جا سکتا، ان کے دلائل ہیں جن کو کمزور تو قرار دیا جا سکتا ہے مگر یہ بے بنیاد نہیں ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کاندھوں پر چڑھ کر بت توڑنے والی ہستی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تھی مگر حکیم صاحب نے لکھا ہے کہ یہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ دراصل نواسہ رسول حضرت سیدنا علی بن ابی العاص زینبی رضی اللہ عنہ تھے مگر رفض کے زیر اثر یہ اعزاز ہم حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیتے ہیں۔ اس بارے میں مولانا حبیب الرحمن کاندہلوی نے “مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت” میں بھی لکھا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ہستی حضرت سیدنا علی بن ابی العاص زینبی رضی اللہ عنہ تھے۔
حکیم صاحب نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت سیدہ زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے پہنچیں تو آپ رضی اللہ عنہا کو شدید مصائب و تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اس بیٹی کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے ان کو “ھی افضل بناتی” فرمایا۔ اس کا بعد میں حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ علیہ مسجد نبوی میں درس بھی دیتے تھے تو حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ علیہ نے حضرت عروہ رحمہ اللہ کے اس درس پر اعتراض کر کے بند کرا دیا۔ یہ بات حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ علیہ کی شان کے خلاف معلوم ہوتی ہے اور اس پر یقین کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔ اس واقعے کی مکمل تفصیلات سے آگاہی نہیں ہو سکی یقیناً اس میں بہت سی باتیں نقل ہونے سے رہ گئی ہیں اور حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ علیہ کی جلالت شان سے ویسے بھی یہ بعید ہے کہ وہ دادی اماں کی بہن کی فضیلت پر کوئی سوال بھی اٹھائیں۔
اس کتاب میں ایک اور جگہ بھی حکیم صاحب نے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد جن کو شیعہ آئمہ معصومین کہتے ہیں کے متعلق ہلکی اور نامناسب گفتگو کی ہے میں اس کو نقل کرنا بھی اچھا نہیں سمجھتا، بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ رد عمل کی نفسیات میں حکیم صاحب بہہ گئے اور بے احتیاطی کے مرتکب ہوئے۔ اس کو حکیم صاحب کے حامی جواب الجواب کہہ سکتے ہیں مگر گفتگو میں جارحانہ پن سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
حکیم صاحب نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہونے والے مشاجرات پر بھی لکھا ہے اور شیخ نذیر حسین دہلوی کے ایک فتویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ عجب دعویٰ کیا ہے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں ایک بھی صحابی نہیں تھے۔ حتی کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے برادر اکبر حضرت سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور آپ کے فرزند حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ نہیں تھے۔
حکیم صاحب نے میرے خیال سے یہاں بھی زیادتی کی ہے، حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی تو صحابیت کے وہ قائل نہیں مگر حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس، حضرت سیدنا عمار بن یاسر، حضرت سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری، حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہم سمیت کئی جلیل القدر صحابہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان کے مقابل اصحاب رضی اللہ عنہم بھی ہمارے لئے واجب الاحترام ہیں مگر یہ دعویٰ کرنا کہ ایک صحابی کا ساتھ بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاصل نہ تھا درست نہیں۔ حکیم صاحب تو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو خلافت راشدہ بھی نہیں مانتے اور ان کی جنگوں کو اقتدار بچانے کی لڑائیاں کہا ہے۔ حکیم صاحب کے نزدیک آخری خلیفہ راشد حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقابل آنے والے طالبین قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کی حکیم صاحب مکمل حمایت کرتے ہیں اور اس بارے میں ان کی طرف خطاء کی نسبت کرنے والوں کو سبائیت سے متاثر افراد کہا ہے۔
حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت قائم کرنے والے وہ باغی تھے جنہوں نے حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اس لیے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکومت خلافت راشدہ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر حکیم صاحب نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس دور میں انارکی اس حد تک بڑھ گئی کہ حج جیسے اہم اسلامی رکن ادائیگی تک معطل ہو کر رہ گئی تھی۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر مزید جرح کرتے ہوئے حکیم صاحب نے محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کا بھی ذکر کیا جو قاتلین عثمان کے لیڈر تھے، ان کی پرورش حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہوئی تھی حکیم صاحب نے کہا کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان پر زور ڈال کر ان کو بغاوت سے روک سکتے تھے اور پھر بعد میں ان کے جرائم پر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پردہ ڈالا۔ یہاں بھی میرے خیال میں حکیم صاحب نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نامناسب تجزیہ کیا ہے، حضرت محمد بن ابی بکر ایک آزاد فرد تھے اور اگر انہوں نے دوستی یا کسی اور کے زیر اثر آ کر حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تو یہ ان کا اپنا ذاتی فعل تھا اس میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کوئی قصور نظر نہیں آتا۔ پھر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے اتنا آسان ہرگز نہیں تھا کہ وہ اپنا دباؤ ڈال کر حضرت محمد بن ابی بکر پر ہر وقت اثر انداز ہوتے اس وقت کے سماج میں اولاد بلوغت کے بعد اپنے فیصلے میں آزاد و خود مختار ہوتی تھی۔
جب بقول حکیم صاحب حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد سے مختلف سیاسی اپروچ اختیار کرنے پر داد کے مستحق قرار پاتے ہیں اور اس کا کریڈٹ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں دیتے تو حضرت محمد بن ابی بکر کے افعال بھی جناب محمد بن ابی بکر کے ذمہ ڈالنے چاہیے نا کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے۔ پھر حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد کا حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے تعاون کا حکیم صاحب بھی انکار نہیں کر سکتے تو یہ بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تربیت ہی تھی جس کے لیے وہ آخر دم تک حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ جناب محمد بن ابی بکر کی بغاوت قابلِ افسوس تو کہی جا سکتی ہے مگر اس کی ذمہ داری کسی طرح بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر نہیں آتی۔
پھر بعد از شہادت عثمان رضی اللہ عنہ بھی حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ جناب محمد بن ابی بکر کے اوپر قصاص کی ذمہ داری شریعت کے پیمانے پر پوری نہیں اترتی تھی اس لیے انہوں نے جناب محمد بن ابی بکر کو گنجائش دی ورنہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذاتِ اقدس سے بعید تر ہے کہ وہ کسی مجرم بھلے ان کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو کو تحفظ فراہم کریں۔ دوسرا حکیم صاحب کا حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں نظریہ بھی شدید غلط فہمی پر مبنی ہے، حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ یقیناً خلیفہ راشد اور خلیفہ برحق تھے اور جس طرح کے نامساعد حالات کا حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سامنا کرنا پڑا تو حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسند خلافت حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس نہ ہوتی تو غالب گمان ہے کہ انارکی و بے چینی اس سے بہت زیادہ ہوتی جو کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آئی۔ ان مشکل حالات میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وجود ایک نعمت تھا جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ شب ہجرت آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بستر پر لٹایا اور کفار کی امانتوں کی ادائیگی کی ذمہ داری حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سونپی، حکیم صاحب اس بات کا بھی انکار کرتے ہیں اور اس کو من گھڑت قصہ شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صیح یہ ہے کہ ہجرت دن کے اجالے میں ہوئی تھی۔ رات کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بستر پر لٹانے کا جواز ہی نہیں بنتا یہ بات سنی علماء نے بھی تشیع کے زیر اثر قبول کی۔اس پر بھی مختلف رائے کی گنجائش ہے مگر میرے خیال سے اس بات کو ماننے سے سبائیت کا الزام زیادتی ہے۔ حکیم صاحب اپنی آزادنہ رائے میں آزاد ہیں تو جن اہل علم نے اس واقعے کو درست جانا ہے ان کے اخلاص اور حسن نیت پر کوئی منفی رائے قائم نہیں کی جا سکتی اور پھر یہ بات اتنی غیر معقول بھی نہیں ہے کہ اس کو رد کرتے ہوئے اس کو مجوسیت کا شاہکار قرار دیا جائے۔
حکیم صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت سیدنا ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اگر کہیں گھریلو جھگڑے ہوئے اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اپنے تیسرے داماد حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے کہ کئی بار حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شکایت ہوئی۔ یہ درست ہے کہ اس مقدس جوڑے کے درمیان کبھی کبھار تکرار کی روایات ملتی ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پرورش بھی خود حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی اور اس مقدس جوڑے کے مابین اگر ایک دو بار رنجش ہوئی بھی تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
جبکہ خود کئی روایات سے ثابت ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنجش پیدا ہوئی۔ میاں بیوی کے تعلقات میں یہ عام سی بات ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ یہ مقدس جوڑا آپس میں کبھی کسی وقت ناخوش تھا۔ دونوں مقدسات کی تربیت ایک جگہ ہوئی تھی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بچپن سے دونوں مقدسات ایک دوسرے کے مزاج سے واقف بھی ہوں گے مگر اس کے باوجود ایک دو مواقع پر ان کے درمیان رنجش کا آ جانا بالکل معمولی بات ہے اور اس کے شواہد تو ہر روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال سے حکیم صاحب کو یہ نکتہ بھی اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک فرزند حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں شیعہ کی جانب سے ظلم ہوا کہ ان کا بہت کم ذکر ہوتا ہے حکیم صاحب نے یہ بجا شکوہ اہل سنت سے بھی کیا ہے۔ حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ کو یوں فراموش کرنا افسوس ناک ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے جلیل القدر والد کی طرح شجاعت، تقوی اور علم میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ کربلاء میں اپنے برادر اکبر حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہ جانے کی پاداش میں ان کا ذکر ہی مٹا دیا گیا۔ بلکہ میں نے تو خود ایک شخص جو کہ اپنے حلقے میں مشائخ کی کرسی پر براجمان ہیں کو حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ پر رشوت کا الزام لگاتے سنا ہے۔ حکیم صاحب نے بتایا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اعوان دراصل حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں مگر محض مخالفت میں ان کے کچھ عناصر نے اپنا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عباس بن علی رحمہ اللہ علیہ سے جوڑا۔ یہ ایک مجروح شخص کی کارستانی ہے جو کہ حضرت سیدنا عباس رحمہ اللہ علیہ سے زیادہ عقیدت رکھتا تھا نے اپنا نسب ان سے جا ملایا۔
حضرت سیدہ رقیہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا ابو لہب کے بیٹوں سے نکاح اور ان کی طلاق ہونا بھی کافی مشہور ہے۔ حکیم صاحب اس بات کا بھی انکار کرتے ہیں اور یہاں مجھے حکیم صاحب کی بات میں وزن معلوم ہوتا ہے۔اس بارے میں زیادہ قرین قیاس یہ ہی بات ہو سکتی ہے کہ دونوں مقدس خواتین کی رشتے کی بات طے ہوئی ہو گی جو ابو لہب نے ختم کی ہو یعنی کہ منگنی ٹوٹنے کی حد تک ممکن ہے۔ حضرت سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا اور ان کے انتقال کے بعد حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ جو سب سے کمسن شہزادی تھیں حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں کی بھی یہ پہلی ہی شادی تھی۔
حضرت سیدہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ ہجرت کی اور حبشہ ہی میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ پھر ہجرت مدینہ کے وقت یہ مقدس جوڑا اپنی اولاد کے ساتھ مدینہ منورہ آ گیا تو اس وقت حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی عمر چار سے پانچ سال تک بنتی ہے اور جب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ سولہ سترہ سال کے کڑیل جوان تھے۔ ان کے بارے میں یہ افسانہ گھڑا گیا کہ کم عمری میں ان کی آنکھ میں مرغ کی ٹھونگ لگنے سے آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ اس افسانے پر حکیم صاحب نے بہترین نقد کیا اور اس کے من گھڑت ہونے کے وافر شواہد فراہم کیے ہیں۔ اس افسانے کو بیان کرنے والے مورخین کے آپس کے بیانات میں بھی اتنا تضاد پایا جاتا ہے جس کی حکیم صاحب نے نشاندھی کی ہے جس اس افسانے کے حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ یہ ایک بدترین ظلم ہے جس کا حکیم صاحب نے اس کتاب کے آخری چالیس سے پچاس صفحات میں بہترین پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
اس افسانے کو گھڑنے والوں کی نشاندھی کرتے ہوئے حکیم صاحب نے ابنِ قتیبہ، امام طبری اور سب سے اہم امام زہری کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پھر امام زہری پر حکیم صاحب نے شدید جرح کی ہے اور ان کو ناقابلِ اعتبار راوی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اکثر اختلافی موضوعات پر حدیث یا تاریخ میں جو روایات پائی جاتی ہیں ان کے راوی امام ابنِ شہاب زہری ہیں۔ اہل سنت بزرگ خواجہ قمر الدین سیالوی رح نے بھی امام زہری پر تحفظات ظاہر کیے ہیں جس پر حکیم صاحب نے خواجہ صاحب رح کی تحسین بھی فرمائی ہے۔ امام زہری پر حکیم صاحب کے علاوہ شیخ تمنا عمادی پھلواری نے بھی شدید تنقید کی ہے اور ان کو ناقابلِ اعتبار گردانا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب بھی امام زہری کے مخالفین میں سے ہیں اور ان کو ناقابلِ اعتبار گردانتے ہیں۔ مگر دوسری جانب اہل سنت محدثین کی ایک بڑی تعداد امام زہری کی ثقات کی قائل ہے اور ان پر لگے الزامات کو درست نہیں سمجھتی۔ مگر حکیم صاحب اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ امام زہری کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔
حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی دیگر اولاد کے بارے میں جو بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ ازواج سے تھی کے بارے میں بھی حکیم صاحب نے اس کتاب میں معلومات دی ہیں۔ ان میں جناب ابان بن عثمان رحمہ اللہ علیہ قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے سیرت مقدسہ پر لکھا، ایسے ہی حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک اور جلیل القدر فرزند حضرت خالد بن عثمان رحمہ اللہ علیہ بھی قابلِ ذکر ہیں جو کہ قرآن مجید کے اولین نسخے کے امانت دار بھی تھے۔ ایسے ہی ایک فرزند حضرت زید بن عثمان رضی اللہ عنہ تھے جن کی مدح میں حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اشعار کہے ہیں اور ان کی سخاوت و فیاضی کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں حکیم صاحب نے پیر عبد الستار کاظمی صاحب کی کتاب سے استفادہ کیا ہے۔ اور حکیم صاحب نے بتایا ہے کہ عبدالستار کاظمی صاحب کی اس کتاب پر علامہ سعید احمد کاظمی شاہ صاحب رح نے تقریظ بھی لکھی۔ پیر عبد الستار صاحب کے حالات سے زیادہ جانکاری نہیں ہو سکی کچھ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آپ شیخ شبیر احمد عثمانی صاحب کے تلامذہ میں سے تھے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں حکیم صاحب نے پہلے تو ان کی کمسنی کی موت کے افسانے کو بے اصل اور من گھڑت کہا ہے اور بتایا ہے کہ ان کی نسل چلی اور ان کی اولاد میں سے امام کاشف رحمہ اللہ علیہ نے کشمیر کا رخ کیا، مظفر آباد کے بنیاد رکھنے والے مظفر خان عثمانی سادات میں سے ہیں۔ پھر ملتان کے مشہور بزرگ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمہ اللہ علیہ بھی حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہیں۔ عثمانی سادات کی بڑی تعداد کشمیر میں پائی جاتی ہے جن کے پاس اپنے شجرے محفوظ ہیں۔ حکیم صاحب نے اس کتاب میں تین چار ایسے شجرے بھی پیش کیے ہیں جو بتاتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ نے ناصرف لمبی عمر پائی بلکہ صاحب اولاد بھی تھے۔ حکیم صاحب نے اس حوالے مزید ایک مستشرق جے سپنسر ٹری منگھم کا حوالہ دیا ہے کہ ایتھوپیا میں رقوی سادات کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو اپنا سلسلہ نسب حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ سے ملاتی ہے یہ جبراتی کہلاتے ہیں۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ شیخ ابنِ تیمیہ جہاں حضرت سیدنا زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ علیہ کا ذکر کیا ہے تو بتایا ہے کہ حضرت سیدنا علی بن حسین رحمہ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت لی ہے اور ان سے اکتساب علم حاصل کیا ہے۔ یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی اور صاحب علم بھی تھے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد کے حوالے سے حکیم صاحب کی یہ کاوش قابل تحسین ہے اور اس بارے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ چیز ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی کی اولاد کو یوں نظر انداز کیا گیا اور ان کے حوالے سے بے حقیقت افسانے گھڑے گئے اور ان کی نسل سے ہی امت کے ایک حصے کو لاعلم رکھا گیا۔ اس بارے میں حکیم صاحب نے باقی اہل علم کے لیے سوچنے کی ایک راہ متعین کی ہے۔
حکیم صاحب کا حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی آل کے لیے جارحانہ انداز قابلِ مذمت ہے جس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی اور میں نے کوشش کی ہے کہ میری نظر میں جو ایسی چیزیں آئیں ہیں ان پر اپنا خیال بھی دوں ممکن ہے بہت سی باتوں کا جواب بھی نہ دے پایا ہوں اس کے لیے اللہ تعالٰی سے معافی کا خواستگار ہوں۔ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد سے محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر ایمان لازم ہے اور اس محبت کا اعلان خود حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس نے کیا ہے جس کے بعد کوئی دوسری بات سوچنا ایمان کو خاکستر کر سکتا ہے۔ حکیم صاحب کو حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دشمن بھی نہیں کہا جا سکتا مگر رد عمل کی نفسیات میں بہہ کر انہوں نے حد اعتدال سے تجاوز کیا۔ مگر جہاں تک حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایت اور ان کے اولاد کے بارے میں حکیم صاحب نے تحقیق کی اس پر ان کی مکمل داد بھی بنتی ہے۔
کتاب کے آخر میں حکیم صاحب نے اپنے اسلوب وہ طرز تحقیق کی وضاحت پیش کی ہے جو عام اہل حدیث علماء سے الگ ہے۔ بالخصوص صحاح ستہ کی روایات کی چھان پھٹک کے لیے ان کا انداز الگ ہے۔ ان مصنفین کے ایرانی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے حکیم صاحب نے ان پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی تصانیف میں ایرانی و مجوسی آثار کا آنا ممکن ہے جن کو اپنے ذخیرہ علم سے خارج کر دینا چاہیے۔ صیح بخاری کی کچھ روایات جن کی حکیم صاحب نے تصریح نہیں کی کو حکیم صاحب درست نہیں سمجھتے تھے اور اس حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایک اور مقتدر اہل حدیث عالم شیخ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی صاحب سے کچھ اختلافات بھی تھے۔ اس کا سرسری سا ذکر کتاب کے آخر میں ہے۔مجھے اس کی تفصیلات سے آگاہی نہیں مگر حکیم صاحب کا احادیث کو پرکھنے کا اصول شاید ویسا ہی ہیں جیسے کہ مولانا حبیب الرحمن کاندہلوی، شیخ تمنا عمادی پھلواری وغیرہ کا تھے۔
عرصہ سے اس کتاب کی نئی اشاعت نہیں ہو رہی ،مجھے بھی ایک پرانے نسخہ ملا جس کو از سر نو فوٹو کاپی کیا گیا ہے۔
راجہ قاسم محمود