Web Analytics Made Easy -
StatCounter

دین کی نئی تفہیم وتعبیر

دین کی نئی تفہیم وتعبیر

دین کی نئی تفہیم وتعبیر

نام کتاب: دین کی نئی تفہیم وتعبیر

مصنف: شیخ محمد صالح المنجد

ترجمہ واضافہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی

عصرِ جدید کو جب ہم اس نام سے موسوم کرتے ہیں تو اس میں اپنے آپ جدت اور نئے پن کا وصف پیدا ہوجاتا ہے۔ نئے زمانے کے خمار نے دورِ حاضر کے انسان کے سوچنے کے انداز کو ایک خاص رخ پر ڈال دیا ہے۔ چیزوں کو ماننے اور اشیاء وحوادث کو دیکھنے اور اپنے اغراض ومقاصد کو طے کرنے اور دیگر مسائل وامور کا حل نکالنے کا اس کا منفرد مذاق ومنہاج تشکیل پاگیا ہے۔

اس دور میں جملہ ادیان ومذاہب کا عام طور سے اور غیبی ایمانیات وعقائد کا خاص طور سے ایک مخصوص زاویۂ نگاہ سے مطالعہ کیا جاتا ہے جسے یار لوگ تاریخی وسماجیاتی انتقادی منہج کہتے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں نصوصِ دینیہ کے نقد وتمحیص کے لیے قائم تاریخی مکتبۂ فکر۔

اس تاریخی مکتبِ فکر کے مطابق کسی بھی دینی نص کی حیثیت ایک ادبی شہ پارے کی ہے جو لازماً فن کار کی سوچ اور رجحان کے تابع ہوتا ہے اور جس میں فن کار کی علمی، سماجیاتی، سیاسی اور معاشی ذہنیت کے اثرات تلاش کیے جاسکتے ہیں اور پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اپنے فن پر پورا عبور حاصل ہے یا نہیں۔ یہ اور اسی نوع کے کچھ داخلی اور خارجی محرکات وعوامل ہوتے ہیں جو کبھی براہِ راست انسان کو متاثر کرتے ہیں اور کبھی بالواسطہ اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کسی بھی ادبی فن پارے کی طرح ادیان ومذاہب میں مقدس ومتبرک اور الہامی سمجھی جانے والی کتابوں کو بھی اس انداز میں نقد ونظر کی خراد پر کسا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام نئے علمی وفکری حلقوں میں تاریخی وسماجیاتی انتقادی حسیت (Socio Historico Criticism) دیا جاتا ہے۔

یہ تحریک یا مدرسۂ فکر سب سے پہلے مغربی دنیا میں ظاہر ہوا تھا اور وہاں سے دھیرے دھیرے عالمِ اسلام میں درآیا اور مغرب کے مشرقی پرستاروں نے یہاں پوری اندھ بھکتی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ چنانچہ نام نہاد مفکرین ومصلحین اور انقلاب پسندوں نے اس منہجِ تفکیر کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور حرف بہ حرف اسے برتنا شروع کر دیا۔ دینِ حق اسلام کی مقدس کتابوں پر اس منہج کو تطبیق دیتے ہوئے ان حضرات نے بہت کم کوئی ردّوبدل کیا اور جو کیا تو اس کا زیادہ تر تعلق فنی پہلوئوں سے تھا۔

Deen Ki Nai Tafheem o Tabeer

نام نہاد مفکرین اور مصلحین نے اطالوی مستشرق فرانسیسکو گیبرایلی (Francesco Gabrieli)[۱۹۰۴ئ-۱۹۹۶ئ] کو اپنا مأوی وملجا مانتے ہوئے اس کے دیے اس منہجِ نقد ونظر کو پورے ذوق وشوق سے قبول کیا اور اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے -بہ قول ان کے-کئی صدیوں کے چڑھے دینی گردغبار اور جھاڑ جھنکاڑ کو اپنے سروں سے اتارنے لگے اور نئے سرے سے دینِ اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔

بعض جدید مفکرین کو اپنی ملّی تاریخ اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے ملّی سرمائے اور تاریخی میراث کے مطالعے کے لیے انھیں مغربی مفکرین سے بحث وتحقیق کے مناہج مستعار لینے پڑے تاکہ کسی بھی پہلو سے ان پر پسماندہ ہونے کی پھبتی نہ لگائی جاسکے اور وہ سیخیں نپورتے ہوئے جدید مناہجِ بحث وتحقیق کو برتنے والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھا دیں۔

گیبرائیلی فرانسسکو لکھتا ہے: ’’یہ بات بڑی خوش آئند اور فرحت بخش ہے کہ مشرق سے تعلق رکھنے والے ہمارے بہت سے ساتھی اب علمی بحث وتحقیق کے تاریخی تصور کی سطح تک بلند ہوگئے ہیں اور اپنے ماضی کی عظمت ثابت کرنے کے لیے جدلیاتی اور مناظراتی انداز سے گریز کر رہے ہیں۔ مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ یہ لوگ اب اپنے ماضی کی تفسیر وتشریح کرنے پر قادر ہوگئے ہیں اور تاریخ دہرانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ تاریخِ اسلام کی استشراقی تفسیر وتعبیر سے مطمئن ہیں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تاریخی حقیقتیں اور گہرائیاں بے نقاب کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر یہ رجحان اسی طرح بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمیں بہت زیادہ شادمانی ہوگی اور اس وقت ہم مشرق میں زندگی سے بھرپور اِس قوت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ دانشِ مشرق اس بات کی اہل ہو چکی ہوگی کہ گہرے نتائجِ تحقیق پیش کرے اور ترقی پسند اقوام کے شانے سے شانہ ملا کر آگے بڑھے۔‘‘(الاستشراق بین دعاتہ ومعارضیہ، گیبرائلی فرانسسکو، ترجمہ: ہاشم صالح:ص ۲۸۔ نیز دیکھیں الفہم الحداثی للنص القرآنی، جیلانی مفتاح:ص۱۳)

یہاں سے ہمارے علمی وفکری سرمائے میں نئے اشکالات پیدا ہوئے اور مرچکے یا پردۂ گمنامی میں پڑے افکارو خیالات کے اندر نئی روح پھونکی جانے لگی۔گمراہ فرقوں کے وہ تفردات اور شاذ آراء ومواقف دوبارہ اختیار کیے جانے لگے جنھیں ماضی میں علمائے اسلام نے خاموش کر دیا تھا یا حادثاتِ زمانہ نے جن کی عدمِ افادیت ثابت کر ڈالی تھی دوبارہ ان افکار ونظریات کے لاشۂ بے جان میں نفخِ روح کیا گیا اور ایسا کرنے والوں کا مقصدِ وحید بس یہ تھا کہ جدید مغربی طرزِ زندگی کو سندِ قبول بخشا جائے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ مغرب پرستی کے اس رجحان کو غلط بتارہے ہیں اور اسے صحیح اسلامی طریقۂ کار سے انحراف قرار دے رہے ہیں ان کی آواز دبا دی جائے۔اس مقصد کے لیے فقہی وعلمی سرمائے سے شاذ اور متفرد آراء کا انتخاب کیا جاتا ہے اور انھیں شریعت اور تاریخیت کا ملمع چڑھا دیا جاتا ہے تاکہ ان میں کوئی نامانوسیت نظر نہ آئے۔

مغربی مستشرقین نے اپنے طریقۂ واردات میں ایک خاص حربہ اپنایا ہے کہ اپنی تحریروں میں زہر کی ایک مناسب مقدار ڈالو اور اس کا اہتمام کرو کہ وہ ایک خاص تناسب سے آگے بڑھنے نہ پائے اور پڑھنے والے کو پوری طرح متنفر اور بدگمان نہ کر دے۔ مثلاً وہ اکثر قرآن، اسلام یا رسولِ اسلامﷺ کی ایک مفروضہ برائی بیان کرتے ہیں اور اس کو دماغوں میں بٹھانے کے لیے بڑی فیاضی اور چالاکی کے ساتھ دس حقیقی خوبیاں بھی ذکر کردیتے ہیں تاکہ پڑھنے والے کا ذہن ان کی انصاف پسندی، وسعتِ قلبی اور بے تعصبی سے مرعوب ومتاثر ہوکر اس ایک برائی کو -جو تمام خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے-قبول کر لے۔

یہ دانایانِ فرنگ یعنی مستشرقین جن افراد کو تیار کرکے مسلم سماج میں بہ طورِ خاص -بہ حیثیت ایجنٹ- کھڑا کرتے ہیں وہ بھی اسلام کی ننانوے باتوں کا خول چڑھا کر اس میں ایک بے ہودہ بات شامل کر دیتے ہیں۔ گویا شہد کی ڈبیہ میں زہر کی ایک مخصوص مقدار شامل ہوتی ہے جو شہد کے تمام اجزاء میں سرایت کر جاتی ہے۔ وہ انہی ننانوے باتوں کو سامنے رکھ کر معاشرے میں اپنا اعتماد اور رسوخ پیدا کرکے پائوں جماتے ہیں، لیکن اس پورے مرحلے میں اباحیت اور تجدد کے زہر میں بجھی ان کی مخصوص ذہنیت اور ان کا الحادی مزاج اندر ہی اندر کام کرتا رہتا ہے، اور ان سے استفادہ اور خوشہ چینی کرنے والوں میں غیر شعوری طور پر منتقل ہوتاجاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ ان کی ہر قسم کی بات،خیال اور نظریہ قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔

اس مرحلے میں پہنچ کر دشمنانِ دین کا مشن رنگ لاتا ہے۔ ان کا مخاطب فرد تجدد اور اصلاح وترقی کے نام پر احکامِ شرع میں ان کی کتروبیونت اور اسلام کی بنیادوں پر ان کی تیشہ زنی بلا تکلف اور بلا تحیر واستعجاب قبول کر لیتا ہے اور ان کے رنگ میں رنگتا چلا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عام طور پر اس کے دل ودماغ کا پورا سانچہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ فکر ونظر کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔ ایمان ویقین کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ر اسخ الاعتقادی اور ٹھیٹھ دینداری کی جگہ ڈھیلی ڈھالی مذہبیت لے لیتی ہے۔ ایک ایسی مذہبیت جو موم کی ناک کی مانند ہوتی ہے کہ آدمی جس طرف چاہے اپنی نفسانی خواہشات کے زنبور سے موڑ دے۔ حالانکہ اس ذہنیت، مزاج اور طرزِ عمل کو قرآن مجید میں گمراہی اور بددینی کی ایسی بدترین شکل قرار دیا گیا ہے جس کی بہ دولت انسان آہستہ آہستہ قبولیتِ حق کی استعداد سے بالکلیہ محروم ہوجاتا ہے۔ {أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ وَأَضَلَّہُ اللَّہُ عَلَی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَی بَصَرِہِ غِشَاوَۃً}(جاثیہ،۲۳)’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟‘‘

مغربی آقائوں کو اپنے تیار کردہ ان تجدد پسند مفکرین سے مسلمانوں میں اس طرز کی اجتماعیت قائم کرانا مقصود ومطلوب ہے جو اسلام کے نام پر ایک مسخ شدہ اور محرّف دین کی حامل ہو،جو نہ روح میں حرارت وبالیدگی پید اکر سکے اور نہ ایمان میں سوز وتپش پیدا کر پائے۔اپنی علمی کم مائیگی چھپانے اور عامۃ المسلمین کو فریب دینے کی غرض سے فی الوقت یہ حملہ جدید اسلامی فکر اور جدید مسلم مفکرین کے عنوان سے کیا جارہا ہے۔ عربی وعجمی ممالک میں اسلامی مفکروں کی باڑھ سی آگئی ہے اور چہار جانب برساتی مینڈھکوں کا شور مچا ہوا ہے۔اسی طرزِ فکر وعمل کا تنقیدی جائزہ زیرِ نظر کتاب میں لیا گیا ہے اور اس کا بدعت اور گمراہی ہونا ثابت کیا گیا ہے۔

یہ کتاب اصلاً دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ شیخ محمد صالح المنجد کی کتاب ’’بدعۃ إعادۃ فہم النص‘‘ کا ترجمہ ہے اور دوسرا حصہ مغربیت نواز مفکرین کے اصول وافکار پر تنقید ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں راہِ حق پر چلنے اور فکری وعملی گمراہیوں سے بچنے کی توفیق دے اور اس حقیر کاوش کو ہر ایک کے لیے سود مند ونفع بخش بنائے۔آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔

ذکی الرحمٰن غازی مدنی

کتاب خریدیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *