اسلامی دنیا میں سیدنا عمر ؓ کی تاریخی حیثیت مسلم ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کے بعد امت کی دو بڑی شخصیات میں ایک بڑی شخصیت آپ کی تسلیم کی گئی ہے لیکن کیا دنیا میں سیدنا عمر ؓ کی شخصیت اسی حیثیت میں متعارف ہے جیسی کہ مسلم دنیا میں۔ اس بات کو سمجھے کے لیے ذیل میں دو کتابوں سے اقتباس نقل کیے جارہے ہیں۔ مائیکل ہارٹ اپنی نے اپنی مشہور کتاب دی ہینڈرڈ میں حضور نبی کریم ﷺ کے علاوہ اسلامی دنیا سے صرف سیدنا عمر ؓ کو ہی اپنی کتاب میں جگہ دی ہے وہ لکھتا ہے
عمر کی کامیابیاں موثر تھیں۔ حضرت محمد ﷺ کے بعد فروغ اسلام میں حضرت عمر کا دور نہایت اہم ہے۔ ان تیز رفتار فتوحات کے بغیر شاید اسلام کا پھیلاؤ اس قدر ممکن نہ ہوتا۔ مزید برآں ان کے دور میں مفتوح ہونے والے علاقوں میں سے بیشتر عرب تمدن کا ہی حصہ ہوگئے… ایسی عظیم وسعت عمر کی شاندار قیادت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اس فہرست پر کچھ لوگوں کو تعجب ضرور ہوگا کہ چارلی میگنی اور جولیس سیزر جیسی مشہور شخصیات کے بالمقابل عمر کو بلند درجہ دیا گیا ہے کیونکہ عمر بن خطاب مغرب میں معروف شخصیت نہیں ہے۔ “
تمیم انصاری اپنی کتاب ” قافلہ کیوں لٹا “ میں لکھتے ہیں : ” دس سال تک عمر نے امت کی رہنمائی کی اور اس دوران اسلامی فکریات کو ایک رخ عطا کیا۔ اس کی سیاسی فکر کو استحکام عطا کیا اور اسلامی تہذیب کی اسلامی پہچان واضح کی اور اتنی بڑی سلطنت قائم کردی جو سلطنت روم سے بھی بڑی تھی۔ ان میں سے ایک کارنامہ بھی انھیں تاریخ میں موثر ترین شخصیت قرار دیے جانے کا اہل تھا۔ ان کے کاموں کے مجموعہ کو دیکھیں تو ان کی تنہا شخصیت میں سینٹ پال کارل مارکس، لورینزو ڈی میڈسی اور نیپولین جیسے افراد جمع نظر آتے ہیں۔ لیکن اسلام کے باہر کے لوگ انھیں بس برائے نام ہی جانتے ہیں یا بس ایک دو جملے اور یہ کہ وہ محمد ﷺ کے دوسرے جانشین تھے۔ “
عام مسلم دنیا میں بھی حضرت عمر کی شخصیت کے صرف عدل و انصاف اور جلالی پہلو کو ہی زیادہ کیا جاتا ہے۔ انکی شخصیت وسیع اور دیگر اہم پہلو دب کر رہ جاتے ہیں۔ جدید دنیا کے اڈمنسٹریشن ، انتظامی پہلو اور نظام حکومت کی جدید اصلاحات اور اصطلاحات کے تناظر میں علامہ شبلی نعمانی کی الفاروق سب سے بہترین تصنیف ہے۔ جو سیدنا عمر ؓ کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو اور آپ کے نظام حکومت کے مختلف اجزاء کو بڑی خوبصورت انداز میں بیان کرتی ہے۔
کتاب بتاتی ہے کہ دنیا کے دوسرے فاتحین اور سیدنا عمر کی فتوحات میں کیا فرق ہے، اور یورپی مورخین نے سیدنا عمر ؓ ؓ کے فتوحات کے تجزیہ میں کہاں غلطی کی، بہتر انتظام کے لیے ملک کی تقسیم، ٹیکس کے انتظامات، عدالت کا مکمل نظام، بیت المال کا شعبہ، پبلک ورک کا شعبہ اسکے ذریعے انجام پانے والے رفاہی کام ، بڑے شہروں کی آبادکاری، فوج کا شعبہ اور اس میں اصلاحات، علم کا شعبہ اور علم کے فروغ کی کوششیں، ذمی رعایا کے حقوق، غلامی کا رواج کم کرنا، سیاسی فیصلے، کرپشن ختم کرنے کی کاوشیں، سیاست و تدبیر کے ساتھ عدل و انصاف کا نظام۔ ان کے علاوہ کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے انتظامی امور میں مسلمانوں کے اندر، عرب دنیا میں اور عمومی دنیا میں کیا اور کونسی نئی چیزیں متعارف کروائیں جو ان سے پہلے نہیں پائی جاتی تھیں۔اس سوانح کو مرتب کرنے کے لیے مولانا شبلی نے نہ صرف ہندوستان کے کتب خانوں سے استفادہ کیا بلکہ روم ،مصر اور شام کے کتب خانوں کو بھی چھان مارا ہے۔