عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی
حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کی مایہ ناز تصنیف “تذکرہ علماء اعظم گڑھ “اعظم گڑھ کی تاریخ کا ایک اہم اور اولین ماخذ کا درجہ رکھتی ہے ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی مقدمہ “تاریخ اعظم گڑھ “میں تذکرہ علماء اعظم گڑھ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
جہاں تک ممکن تھا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مآخذ سے علماء کی ایک ایک کاوش کی تفصیل سپرد قلم کردی ہے، اپنے موضوع پر یہ ایک عمدہ تصنیف ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعظم گڑھ کس قدر با کمالوں کا مرکز تھا اور یہاں کیسے کیسے علماء فضلاء پیدا ہوئے ، اس کتاب میں ضلع اعظم گڑھ کی مبسوط تاریخ کے متعدد نقوش موجود ہیں اور اس سے استفادہ کئے بغیر اعظم گڑھ کی مکمل تاریخ لکھی ہی نہیں جاسکتی۔* (ص:12)
استاذ محترم کی یہ معرکۃ الآراء تالیف 604/ صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں اعظم گڑھ کے 240/ علماء و مشاہیر کا تذکرہ کیا گیا ہے، پہلا خاکہ حضرت مخدوم ابراہیم صاحب کا اور آخری خاکہ مولانا نیاز صاحب عمری قاسمی کا ہے، محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب کی تقریظ ہے مولانا اپنی تقریظ میں اس عظیم الشان تصنیف پر شکریہ ادا کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
مولانا حبیب الرحمن جگدیش پوری ہم سب کی طرف سے شکریہ اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے “تذکرہ علماء اعظم گڑھ” لکھ کر ہم سب کو اس قرض سے سبکدوش کردیا
مولانا نجم الدین اصلاحی صاحب کی تقریب ہے جس میں مولانا نے اس دیار کی مختصر تاریخ ، چند مشہور مشاہیر اور راجاوں کا تذکرہ کیا ہے، مولانا اعجاز صاحب علیہ الرحمہ نے “تذکرہ نویسی کا دینی پہلو “کے عنوان سے اسلام میں تذکرہ نویسی اور مختلف مقامات کی تاریخ پر لکھی جانے والی چند کتابوں پر اجمالی روشنی ڈالی ہے، مورخ اسلام قاضی اطہر مبارک پوری علیہ الرحمہ کا چھ صفحات پر مشتمل مقدمہ ہے جس میں اعظم گڑھ کی تاریخ کے سلسلے میں اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور فاضل مصنف کے “علم تاریخ ” سے شغف کو بیان کیا ہے ۔
پیش لفظ (طبع اول) میں استاذ محترم سبب تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس عبرت ناک اور تعجب خیز حقیقت کا احساس مجھے ایک عرصہ سے تھا لیکن اپنی کم مائگی اور وسائل و ذرائع سے محرومی کی وجہ سے خود کچھ کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی ، وقت گزتا رہا اور میں اس متاع گراں بہا کی اضاعت پر کف افسوس ملتارہا کہ ضلع کے مشہور صاحب قلم عالم مولانا قاضی اطہر مبارکپوری سے اتفاقا ملاقات ہوئی ، میں نے اپنی دلی کیفیات کا اظہار مولانا سے کیا ، سنتے ہی فرمایا کہ ایک عرصے سے مجھے بھی اس بات کا شدت سےاحساس ہے اور میں نے ایک زمانہ میں اس سلسلے کی معلومات فراہم کرنا شروع بھی کر دیا تھا ۔ مگر ہجوم کار کی وجہ سے وہ کام آگے نہ بڑھ سکا اور نہ زمانہ قریب میں ادھر متوجہ ہونے کی توقع ہی ہے ، اس لئے کیا اچھا ہوتا کہ تم ہی اس کام کو کرڈالتے میرے پاس جو کچھ مواد ہیں وہ تمہیں دے دوں گا”
یہی حکم و مشورہ دراصل تذکرہ علماء اعظم گڑھ کی تصنیف کا سبب بنا ، مولانا کو اس کتاب کے لکھنے کے لئے کس طرح شب و روز کی جد و جہد کرنی پڑی ؟مولانا نے کس طرح ایک ایک گاوں ، قصبات میں جاکر قبروں کے کتبات وغیرہ اور لوگوں سے معلومات لیکر ایک ایک علماء کا تذکرہ مرتب کیا ہے ؟آئیے اس کی روداد مولانا ہی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
اپنی نا اہلی کے احساس کے باوجود انکار نہ کرسکا اور الله کا نام لے کر کام کی ابتداء کردی ۔ آغاز میں کام کو جتنا آسان سمجھا تھا معاملہ اس کے بالکل برعکس نکلا ، اور انداز ہوا کہ محض کتابوں کی ورق گردانی سے اس سے عہدہ برآں ہونا ممکن نہیں ، اس لیے شب و روز کی قید سے آزاد ہوکر آبادیوں اور ویرانوں کا چکر لگانا شروع کیا ، بزرگوں کے مزارات کو قریب سے جا کر دیکھا ، کتبات، قلمی دستاویزات کی چھان بین کی، ثقہ اور قابل اعتماد لوگوں سے مل کر معلومات حاصل کی ، اور دور و نزدیک جہاں سے مطلب کی بات ملنے کی توقع ہوئی وہاں جانے سے دریغ نہیں کیا ، اس طرح مسلسل تین سال کی جد و جہد کے بعد جو معلومات فراہم ہوسکیں، اسے بغیر کسی خیانت یا دانستہ تقصیر کے ایک غیر جانبدار تذکرہ نویس کی حیثیت سے ماخذ و مصادر کے حوالہ کے ساتھ جمع کر دیا
پیش لفظ (طبع ثانی) میں استاد محترم نے تذکرہ نگاری کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے اور تاریخی کتابوں کا ذکر کیا ہے، تذکرہ علماء اعظم گڑھ کے عوام و خواص میں پذیرائی حاصل ہونے اور اس سلسلے میں محققین اور تبصرہ نگار اور علمائے کرام کے مشوروں اور قیمتی آراء کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ طبع ثانی میں اعظم گڑھ کی مختصر تاریخ کا اضافہ ہے۔ جس میں اعظم گڑھ میں اسلام کب داخل ہوا ہے؟ پر محققانہ تحقیق پیش کی گئی ہے ، سالار مسعود غازی علوی کے اس دیار میں ہونے والے معرکوں، اور ان کے رفقاء کی قبروں کے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے دوسرے ممالک سے آنے والے بہت سے علماء اور خانوادے کا ذکر کیا ہے،خاص اعظم گڑھ کی تاریخ ، یہاں کے راجاوں اور چکلے داروں کا تذکرہ، اور ان کے درمیان ہونے والی سیاسی کشمکش پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
تذکرہ علماء اعظم گڑھ کا اسلوب محققانہ مدققانہ اور ادیبانہ ہے ، بہت سے مقامات پر مولانا نے مختلف اقوال پر نقد کرکے اپنی تحقیقی رائے پیش کی ہے جیسے 471 پر مولانا عبدالرب اثری فلاحی کی مولانا جلیل احسن ندوی کے متعلق ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مگر اسے کیا کہیے کہ مولانا اثری کی یہ پوری تحریر از قبیل زیب داستان ہی ہے، حقیقت واقعہ سے اس کا راست تعلق نہیں ہے ، کیونکہ دارالعلوم دیوبند سے اس وقت جواساتذہ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل منتقل ہوئے تھے ان میں بنز حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی کسی کو بھی دوبارہ دارالعلوم دیوبند آنے کا موقع میسر نہیں ہوا ، اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی بھی ۱۹۳۲ ء میں نہیں بلکہ ۱۹۳۵ ء میں بحیثیت صدر مہتتم کے یہاں آئے تھے ، اور ابتداء میں تقریبا دو سال تک ڈابھیل سے بھی رسمی تعلق برقرار رہا ، کچھ مہینے دیوبند رہتے اور کچھ مہینے ڈابھیل ، اس زمانہ میں صرف انتظامی امور دیکھتے تھے ، درس ان سے متعلق نہیں تھا
مولانا کو اسماء الرجال ، اور محدثین کی اصطلاحات وغیرہ پر باریک نظر تھی ، مولانا کا شمار اسماء الرجال کے ماہرین میں ہوتا ہے، کتاب میں کہیں کہیں اس فن کا غلبہ بھی نظر آتا ہے ، مثلا صفحہ 302/ پر ایک نسب نامے پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
مولانا قائم علی رحمه الله نے نسب نامہ یوں ہی تحریر کیا ہے ،لیکن اس میں شیخ رکن الدین اور حضرت عباس رضی الله عنہ کے درمیان متعدد نام چھوٹ گئے ہیں ، کیونکہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابن خلدون کے حوالے سے انساب کی تحقیق کے بارے میں یہ قاعدہ نقل کیا ہے کہ جس سلسلہ نسب کی تحقیق مطلوب ہو تو یہ دیکھا جائے کہ اس سلسلہ کے پہے شخص اور آخری شخص کے سن وفات میں کتنا فاصلہ ہے، پھر اس فاصلہ کی ہر ایک صدی سو سال میں تین اشخاص رکھے جائیں، اور حساب سے اگرنسب میں مذکور پہلے شخص کی معروف سن وفات سے مطابقت ہوجائے تو نسب نامہ درست ہوگا ورنہ نہیں ۔ حافظ عسقلانی کا بیان ہے کہ ہم نے اس قاعدہ کے مطابق بہت سے معروف شجرہ نسب کی تحقیق کی تو اس میں بھی درست ثابت ہوئے اور بعض نہیں ۔
چنانچہ شیخ رکن الدین سمرقندی متوفی ۵۸۲ھ اور حضرت عباس رضی الله عنی متوفی ۳۲ ھ کے درمیان آٹھ صدیوں کا فاصلہ ہے تو اس قاعدہ کے مطابق شیخ رکن الدین اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سلسلئہ نسب میں چوبیس افراد ہونے چاہئیے، جبکہ مذکورہ نسب میں سولہ افراد ہی ہیں اور مولانا قائم علی کے والد ماجد متوفی ۲۷۹ اور شیخ رکن الدین متوفی ۸۲۰ کے درمیان چار صدیوں کا فاصلہ ہے تو اس قاعدہ سے شیخ رعب علی اور شیخ رکن الدین کے درمیان آٹھ اشخاص ہونے چاہیے، اور مذکورہ نسب نامہ میں آٹھ افراد ہی ہیں ، لہذا شیخ رجب علی سے شیخ رکن الدین تک تو شجرہ نسب صحیح ہے ، اور شیخ رکن الدین سے آگے کا شجرہ درست نہیں ہے ۔ والله اعلم بالصواب”*
یہ صرف دو مثالیں ہیں،اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جہاں اہل خانہ یا کتابوں سے حاصل کردہ معلومات پر مولانا نے اپنی معلومات کے اعتبار سے کھل کر نقد و تبصرہ کیا ہے، طوالت کی وجہ سے بقیہ مقامات کو ہم قلم انداز کرتے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا کی یہ عظیم کاوش کس قدر مستند اور صحیح معلومات پر مبنی ہے۔
تذکرہ اور تراجم کے علاوہ کتاب میں جن شخصیات کا ذکر آیا ہے،حاشیہ میں ان کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ، کل 89/ شخصیات کا تعارف ہے، تراجم اور تذکرے میں اکثر شخصیات پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے ، البتہ کچھ شخصیات کا تعارف ناقص ہے جس کی وجہ مولانا نے پیش لفظ میں تفصیلی معلومات نہ ملنا بتایا ہے۔ اس کتاب کی تیاری کے لیے نہ صرف شخصیات پر لکھی گئی کتابوں اور تاریخی کتابوں سے مدد لی گئی ہے، بلکہ ان شخصیات کے اہل خانہ،متعلقین اور شاگردوں سے معلومات حاصل کرکے اختصار مگر جامعیت کے ساتھ ان شخصیات کی حیات و خدمات کو اجاگر کیا گیا۔
اس کتابوں نے دسیوں گمنام یا کم نام شخصیات کو ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ کیا ہے؛ یہی وجہ ہے اس کتاب کے دونوں ایڈیشن پر اہل علم نے گراں قدر تبصرے کیے اور مولانا کی اس اہم کاوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ دوسرے ایڈیشن میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں کثرت سے ہیں،خاص طور سے سن لکھنے میں اکثر جگہ کاتب سے غلطی ہوئی ہے۔ بعض مقامات پر مولانا اعظمی سے بھی تسامح ہوا ہے، لیکن یہ مقامات بہت ہی کم ہیں، گنتی کے چند۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس اہم علمی و تحقیقی کاوش کا کوئی تحقیق شدہ ایڈیشن شائع کیا جائے۔ امید ہے کہ اہل علم اس جانب توجہ فرمائیں گے۔