نام کتاب: گھروالوں کی اصلاح وتربیت
مصنف: شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
اہلِ خانہ اور اولاد کی نعمت دنیا کی ان عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے جو باری تعالیٰ نے نوعِ انسانی کو بخشی ہیں۔ نعمتوں کا تقاضا ہے کہ انسان منعمِ حقیقی کا شکرگزار اورسپاس مند ہو اور نعمتوں کو اللہ کے بتائے طریقوں پر استعمال کرے اور برتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی اصلاح کے ساتھ گھروالوں کی دینی تربیت واصلاح کے لیے بھی فکرمند رہے، انھیں خیر کی جانب بلائے، علمِ نافع سے آراستہ وپیراستہ کرے، عملِ صالح کی انھیں عادت ڈالے، دنیا وآخرت میں نقصان پہنچانے والی چیزوں اور کاموں سے انھیں خبردار کرے اور روکے اور ہر ممکن طریقے سے انھیں اللہ کی نافرمانی وسرکشی سے بچائے۔
یہ اولاد اور اہلِ خانہ کی شکل میں بخشی گئی نعمت کا حق اور تقاضا ہے اور اس کے بغیر اس نعمت کا شکر ادا نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کے بغیر نہ نعمت کی حفاظت ممکن ہے اور نہ یہی ممکن ہے کہ دنیاوی روابط وتعلقات اور رشتے ناطے آخرت میں باقی رہ جائیں اور طرفین کے لیے منفعت وبرکت کا سرچشمہ ثابت ہوں۔ اللہ کے جو نیک بندے اپنے ساتھ اپنے گھروالوں اور آل اولاد کی اخروی فلاح وبہبود کی فکر کرتے ہیں، ان کے اخروی انجام کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: {جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ وَالمَلاَئِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْْہِم مِّن کُلِّ بَاب}(رعد،۲۳)’’ایسے باغ جو ابدی قیامگاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباء واجداد اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ملائکہ ہر طرف سے ان کے استقبال کے لیے آئیں گے۔‘‘
{ رَبَّنَا وَأَدْخِلْہُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِیْ وَعَدتَّہُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیَّاتِہِمْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ}(مومن،۸)’’اے ہمارے رب، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں جن کا تونے اُن سے وعدہ کیا ہے اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے۔ بے شک تو قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔‘‘
{وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْْء ٍ کُلُّ امْرِئٍ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ}(طور، ۲۱) ’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے، ان کی اس اولاد کو بھی ہم جنت میں ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہر شخص اپنے کسب وعمل کے عوض میں رہن ہے۔‘‘
یہ کتابچہ جو اس وقت قارئین کے ہاتھوں میں ہے،اسی اہم موضوع سے متعلق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گھروالوں کی اسلامی تربیت وتعلیم اور اصلاح وتطہیر کے نتیجے میں کتنے عظیم مصالح ومنافع پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ تدبیریں بھی بیان کی گئی ہیں جنھیں کام میں لایا جائے تو ایک راست باز اور نیکوکار خاندان کی تعمیر وتشکیل ہو سکتی ہے۔
انسان کے گھروالے اس کی اصل، اس کا مرکز، اس کا ماحول اور محیط ہوتے ہیں۔ وہ اس کی ڈھال ہوتے ہیں۔ وہ اس کے محرمِ راز اور گنجینۂ اسرار ہوتے ہیں۔ آدمی کو سب سے زیادہ اس کے گھروالے ہی جانتے اور سمجھتے ہیں اور بالعموم یہی لوگ اس کے سب سے زیادہ چاہنے والے اور خیر خواہ نکلتے ہیں۔تم دیکھ سکتے ہو کہ قرآن میں جہاں زوجین کے درمیان جھگڑا نپٹانے کی تدابیر بیان ہوئی ہیں، وہاں ایک تدبیر یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ دونوں کے گھروں سے ایک ایک فرد آکر اس بات چیت میں شریک ہوجائے۔ارشادِ باری ہے{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْْنَہُمَا إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْماً خَبِیْراً}(نسائ،۳۵)’’اور اگر تم لوگوں کو میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم(Mediator) مرد کے رشتے داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتے داروں میں سے مقرر کرو۔ وہ ودونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔‘‘
گھروالوں، بچوں اور رشتے داروں کے سلسلے میں اس سے بڑھ کر مصلحت طلبی اور خیر خواہی کیا ہو سکتی ہے کہ انھیں اللہ کے عذاب سے اور آتشِ جہنم سے بچایا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اس امرِ عظیم کا تاکیدی حکم فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ}(تحریم،۶)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘
اس وجہ سے اور تاکہ اس منصوبے کے نفاذ میں مدد ملے، ہم اس کتابچے میں جہنم کی آگ سے گھروالوں اور بچوں کو بچانے کے اسباب ووسائل کے بارے میں گفتگو کریں گے اور بتائیں گے کہ گھروں اور خاندانوں کی حفاظت وصیانت کس انداز میں ممکن ہے اور کیسے ہم اپنے خانگی ماحول کو ہر ایسی چیز سے پاک وصاف رکھ سکتے ہیں جو کسی بھی درجے میں اللہ کا غضب بھڑکانے والی ہو۔ ایک مومن کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی بات تکلیف دہ نہیں ہو سکتی کہ جو دنیا میں اس کو سب سے زیدہ پیارے اور محبوب ہیں انھیں وہ آخرت کی ابدی زندگی میں دوزخ کا ایندھن بننے کے لیے تیار ہوتا دیکھے۔ ایسی صورت میں تو بیوی کا حسن اور بچوں کی جوانی ولیاقت اس کے لیے اور بھی زیادہ سوہانِ روح ہوگی، کیونکہ وہ ہر وقت اس رنج میں مبتلا رہے گا کہ یہ سب اپنی ان خوبیوں کے باوصف اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے والے ہیں۔
مومن کی نگاہ میں یہ چند روزہ دنیاوی زندگی اصل نہیں ہے۔ اسے یہاں کی کامیابی پر بے جا فخراور ناکامی پر شدید ملال نہیں ہوتا۔ اس کا مطمحِ نظر آخرت کی کامیابی اورابد الآباد کی جنت ہے۔ وہ عام دنیا پرستوں کی طرح اپنی ساری تگ ودو اور جہد وجستجو کو اس دنیا تک محدود نہیں رکھتا۔ اس عارضی زندگی میں ہر بندۂ خدا کے لیے سب سے اہم اور توجہ طلب اور لائقِ اہتمام مسئلہ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ایمان کا مسئلہ ہے۔ ذریتِ آدمؑ کو ایمان سے بڑھ کر قیمتی کوئی دولت حاصل نہیں ہوئی۔ قلبِ انسانی نے اس سے عظیم کوئی سعادت ومسرت نہیں پائی۔ ایمان کی وجہ سے بندہ دنیا اور آخرت میں بزرگی اور بڑائی سے ہم کنار ہوتا ہے،بلکہ اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی اور کامرانی ایمان کی درستی اور پختگی پر ہی موقوف ومنحصرہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور ہمارے گھروالوں اور بچوں کو ایمان اور عملِ صالح کی توفیق دے اور پاکیزہ اخلاق واطوار سے آراستہ وپیراستہ کرے،اور ہمیں ان بندوں میں شامل فرمائے جو اپنی دعائوں میں ایک یہ دعا بھی ضرور مانگتے ہیں:{وَالَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْیُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ إِمَاماً}(فرقان،۷۴)’’اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔