مسئلہ فلسطین پچھلے ستر سالوں سے مسلمانوں اور عالم اسلام کے لیے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں پر ظلم و ستم، فلسطینی مہاجرین اور فلسطین پر صہیونی قبضہ کے تعلق سے مختلف زبانوں میں گراں قدر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ خود اردو زبان کا دامن اس موضوع سے خالی نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے مسلمان کا اس اہم مسئلہ سے جذباتی اور ایمانی تعلق ہے۔ ان تمام کتابوں میں مشہور و معروف فلسطینی شاعر مرید الغوثی کی گراں قدر تصنیف “رأيت رام الله” کو ایک منفرد اور نماںاں مقام و مرتبہ ہے،یہ کتاب پہلی مرتبہ 1997ء میں شائع ہوئی، اس سے قبل تک مصنف ایک کامیاب شاعر کی حیثیت سے مشہور و معروف تھے، یہ ان کی پہلی نثری تخلیق تھی، کتاب شائع ہوتے ہی عالم عرب میں مشہور و مقبول ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے شائع ہوئے۔اشاعت کے سال ہی امریکن یونیورسٹی قاہرہ نے تخلیقی ادب کے ” نجیب محفوظ ایوارڈ ” سے نوازا۔
مرید البرغوثی رام اللہ کے ایک گاؤں دیر غسانہ میں پیدا ہوئے، ابھی زندگی کی چار بہار ہی دیکھے تھے کہ دنیا کی سپر پاور طاقتوں نے دنیا کے مختلف خطوں سے ظالموں اور جابروں کو اکھٹا کرکے ” اسرائیل” کی شکل میں جابرانہ اور ظالمانہ طریقے سے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ 1967ء کی تاریخی عرب اسرائیل جنگ کے دوران مرید البرغوثی قاہرہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد اسرائیل نے فلسطین سے باھر رہنے والے تمام فلسطینیوں کے داخلہ پر پابندی عائد کردی تھی؛ چناں چہ مرید البرغوثی 30/ سال تک اپنے وطن اور آبائی سرزمین کی دید سے مرحوم رہے، اس دوران انہیں مختلف طرح کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا،یکے بعد دیگرے مختلف حادثات سے دو چار ہونا پڑا؛ حتی کہ مصر سے بھی جلا وطنی کی سزا برداشت کرنی پڑی۔ ان تیس سالوں کے دوران آپ مختلف ممالک میں رہے۔ تیس سال بعد جب آپ اپنی سرزمین میں داخل ہوئے تو پرانی یادوں نے جکڑ لیا،بدلے ہوئے منظر نامہ نے بچن اور جوانی کی ایک ایک یادوں کو تازہ کردیا۔ ہمارے زیر مطالعہ کتاب ” میں نے رام اللہ دیکھا” اسی سفر کی روداد ہے۔
یہ محض ایک سفرنامہ نہیں؛ بلکہ خودنوشت، فلسطین کی تاریخ، صہینوں کے ظلم و ستم کی روداد،مسئلہ فلسطین کے لیے قربانیاں دینے والوں شہیدوں کی یادگار اور فلسطینی مہاجرین کی صعوبت و پریشانی کا صحیح رخ پیش کرنے والی ایک عظیم دستاویز ہے۔ معروف اردو ادیب حقانی القاسمی صاحب اس کے متعلق رقم طراز ہیں :
یہ تمام صنفی تشخصات کو توڑتی ہوئی ایک ایسی تخلیق ہے جوفکشن،خودنوشت، سفر نامہ،رپورتاژ کا خوبصورت مونتاژ ہے۔ اس میں یاد ماضی بھی ہے، فکر فردا بھی اور شخص کی تلاش بھی ۔ یہ ان کی یادوں کا ایک البم ہے، جس میں ان کے اجڑے ہوۓ محلے، ویران گلیاں اور مردہ دستکیں آباد ہیں ۔ یہ المیہ فلسطین پر اپنی نوعیت کی پہلی ایسی سیاسی اور ثقافتی دستاویز ہے جس کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔Diasporic Literature میں یہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اردو میں اس کے ترجمے کی شدید ضرورت تھی ، کہ قضیہ فلسطین کا اردو ثقافت اور صحافت سے ایک گہرا جذباتی رشتہ رہا ہے۔ نایاب حسن نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوۓ اسے اردو کا پیرہن عطا کیا ہے۔انھوں نے ترجمے کے تلازمات کا پورا خیال رکھا ہے اور کتاب کی روح کو بھی زندہ رکھا ہے۔ جب کہ زیادہ تر ترجموں میں تخلیق کی روح مر جاتی ہے۔ ترجمہ کی زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے۔اپنے اندر وہی جادوئی کیفیت بھی رکھتی ہے، جوعربی میں البرغوثی کا امتیاز ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو حلقے میں اس کتاب کی پذیرائی انگریزی اور دیگر زبانوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔
یہ کتاب نو ابواب پر مشتمل ہے جس میں فلسطین واپسی کی روداد،اپنے آبائی گاؤں،فلسطین کے مختلف خطوں کا تذکرہ، اس سے وابستہ یادیں، اپنے محلے، پڑوس،اسکول،باغوں، چوراہوں، اہل محلہ اور خاندان سے وابستہ حسین یادوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اپنے خاندان کے اجڑنے، بچھڑنے، ملنے اور جمع ہونے کی رقت انگیز داستان ہے۔ مزید برآں فلسطینی مہاجرین کو ہونے والی پریشانیوں،صہینوں کے ظلم و ستم، اپنے خاندان اور عزیز و اقارب میں سے شہید ہونے والے نوجوانوں کا بھی تذکرہ ہے۔
اس کتاب میں کرب و درد ، بچپن کی حسین یادیں، ایک معصوم بچے کی طرح طفلانہ باتیں،کہیں مزاح کہ بے ساختہ ہنسی آجائے، ساتھ ہی ساتھ دل و دماغ کو تازگی بخشنے والے فقرے، ایمانی حرارت پیدا کرنے والے واقعات اور بعض مقامات پر ایسے افسوسناک اور کربناک واقعات ہیں کہ اشکوں کو ضبط کرنا مشکل ہے۔ مصنف کے اسلوب، شگفتہ بیانی اور منفرد لب و لہجہ نے اس کتاب کی خوبصورتی میں چار چاند لگادیا۔ زبان و اسلوب میں ایسی چاشنی اور ترتیب و تہذیب میں ایسی کشش کہ قاری کو پوری کتاب ایک دو نششت میں پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے، ہر زبان میں بات کہنے کا اپنا ایک اسلوب اور انداز ہوتا ہے، زبان کے ساتھ ساتھ ہر علاقے کی اپنی تہذیب و تمدن ہوتی ہے،اپنے خاص فقرے اور محاورے ہوتے ہیں؛ اسی لیے ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی کتاب کو منتقل کرنے کے لیے متعدد باتوں کا بطور خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔یہ ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے، جسے ہر کس و ناکس عبور نہیں کرسکتا ہے۔ کتاب کے مترجم مولانا نایاب حسن قاسمی ایک کامیاب انشاء پرداز ادیب ہیں، اس سے قبل بھی ان کی گراں قدر علمی و ادبی کتابیں اور مقالات شائع ہوکر اہل علم و فن کی توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سلاست و روانی،انشاء پردازی، شگفتگہ بیانی اور ایسی چاشنی کہ قاری پڑھتے چلا جائے۔ اس ترجمہ میں ان کی دیگر تحریروں کی طرح یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
جس منفرد اسلوب، شگفتہ بیانی اور زبان و ادب کی وجہ سے اصل کتاب کو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے،لاریب فاضل مترجم اس ترجمے میں ان تمام خوبیوں کو باقی رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک کامیاب ” ترجمہ” کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ دوران مطالعہ قاری کو “ترجمہ” کا احساس نہ ہو۔ لاریب اس ترجمہ کے مطالعہ سے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ کسی کتاب کا ترجمہ ہے؛ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اردو ہی میں لکھی گئی ہے۔
مصنف کی دوسری نثری تخلیق “ولدت ھناک ولدت ھنا” اس کتاب کا تتمہ اور جلد ثانی سمجھی جاتی ہے؛ کیوں کہ یہ ان کے دوسرے سفر فلسطین کی روداد ہے، جس میں ان کے ساتھ ان کے فرزند مشہور شاعر تمیم البرغوثی بھی شریک سفر تھے۔ فاضل مصنف کا اس کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالنے کا ارادہ ہے۔