نام کتاب: فکری مرعوبیت، کل اور آج
مقدمہ کتاب
غالباً پانچویں صدی ہجری کے نصف کا واقعہ ہے کہ شیخ الاسلام امام ابو اسماعیل ہرویؒ (م:۴۸۱ھ) نے مشاہدہ کیا کہ علومِ دینیہ کے بعض حاملین علماء یونانی فلسفے اور تہذیب سے بری طرح مرعوب ہوگئے ہیں اور شرعی نصوص یعنی قرآن وحدیث کو توڑ مروڑ کر یونانی فلسفہ وکلام کے مطابق بنانے کے جتن میں سرگرداں اور پریشاں ہیں۔امام ہرویؒ نے یہ صورتِ حال بڑے ہی بلیغ استعارے میں اس طرح بیان فرمائی ہے: ’’کوئی بھی ہوش مند دیکھنے والا ان لوگوں کی کوششوں کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہے تو پاتا ہے کہ دراصل یہ سب کچھ فلسفے کا مغز ہے جس پر کتاب وسنت کا چھلکا چڑھا دیا گیا ہے۔‘‘[ینظر الناظر الفہم فی جذرھا فیریٰ مخ الفلسفۃ یکسیٰ لحاء السنۃ](ذم الکلام، ہروی، تحقیق:عبداللہ انصاری:۵/۱۳۴)
امام ہرویؒ کے بعد امام غزالیؒ(م:۵۰۵ھ) ہمیں دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اسی طرح کا ریمارک اپنے زمانے کے بعض اہلِ علم کی تحریروں کے بارے میں دیا تھا۔یونانی فلسفے اور تہذیب وثقافت کی چمک دمک سے علمِ شرعی سے انتساب رکھنے والے بعض لوگوں کی نگاہیں خیرہ ہوگئی تھیں۔ اس دور میں فلاسفہ ومتکلمین نے یونانی فلسفے اور معقولات کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ طبقۂ علماء کے بعض افراد بھی ان فلسفیانہ افکار وخیالات سے مرعوب ہوگئے اور ان کی تبلیغ واشاعت شروع کر دی۔ انھوں نے سادہ لوحی میں یہ گمان کررکھا تھا کہ ان افکار وخیالات کو اختیار کرکے مسلمان بھی یونانیوں کی طرح ایک عظیم الشان اور جلیل القدر قوم بن جائیں گے۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں:’’میں نے ایک طائفہ ایسا دیکھا ہے جو اپنے ہم جولیوں پر فوقیت کا متمنی ہے۔ان لوگوں کے عمل کا حال یہ ہے کہ اسلامی فرائض وعبادات بھی چھوڑے ہوئے ہیں۔ ان کے کفر کا محرک یہ ہے کہ انھوں نے ناواقفیت کے کانوں سے بڑے بڑے نام سنے جیسے سقراط، بقراط،افلاطون اور ارسطو وغیرہ۔ان فلاسفہ کی پیروی کرنے والوں کے منہ سے ان کی دانش مندی اور علمی منزلت وجلالت کا مبالغہ آمیز تذکرہ سنا اور یہ بھی سنا کہ یہ فلاسفہ وحکماء اپنی اعلیٰ ذہنی وعقلی صلاحیتوں کے علی الرغم شریعت ونبوت کے منکر تھے۔چنانچہ جب یہ بات ان کم فہموں کے کان میں پڑی تو انھوں نے بھی خود کو عقل مند دکھانے اور طبقۂ فلاسفہ میں شمار کرانے کے پھیر میں کفر والحاد کا راستہ اختیار کر لیا۔‘‘[فإنی قدر رأیت طائفۃ یعتقدون فی أنفسھم التمیز عن الأتراب قد رفضوا وظائف الإسلام من العبادات وإنما مصدر کفرھم سماعھم أسماء ھائلۃ کسقراط وبقراط وأفلاطون وأرسطوطالیس وإطناب طوائف من متبعیھیم فی وصف عقولھم ودقۃ علومھم وأنھم مع رزانۃ عقلھم منکرون للشرائع، فلما قرع ذلک سمعھم تجملوا باعتقاد الکفر والإلحاد] (تہافت الفلاسفۃ،غزالی،تحقیق:احمد شمس الدین:ص۴۱)
امام غزالی کی بیان کردہ یہ نفسیاتی تصویر کہ اس طرح بعض لوگ خود کو حکماء وعقلاء باور کرانے کی خاطر کفر کا راستہ اختیار کرتے ہیں،یہ انسانی کردار اور ذہنیت فی نفسہ مطالعہ وتحقیق کا موضوع ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کردار کے عملی نمونے اکٹھا کیے جائیں۔ ہمارے دور میں ہم بھی نہ جانے کتنے مدعیانِ علمِ دین کو دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب وتمدن کے شعاروں اور نعروں کی بے سوچے سمجھے تکرار اور گردان کرتے رہتے ہیں،اس لیے نہیں کہ یہ لوگ ان مغربی نعروں اور شعاروں کا مفہوم جانتے اور سمجھتے ہیں اور علیٰ وجہ البصیرت ان کی دعوت دے رہے ہیں، بلکہ صرف اس لیے کہ اس طرح خود کو ماڈرن، پڑھا لکھا اور اپ ٹوڈیٹ دکھانا چاہتے ہیں اور مغرب کی مادی ترقیوں سے مرعوب سماج میں نمایاں علمی اور فکری مقام پانا چاہتے ہیں۔
ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں مجددِ دوراں امام ابن تیمیہؒ نے بھی یونانی تہذیب اور یونانی فلسفے سے تاثر پذیری، اور یونانی تہذیب وفلسفے کی روشنی میں اسلامی عقائد وایمانیات کی تشریح وتوضیح، اور بات نہ جمے تو تحریف وتردید کرنے کی تشویش ناک صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کا اس طرح کے بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا اور انھیں ان کے آراء وافکار سن کر یونانی فلسفے اور منطق کے تئیں ان کی گرویدگی وفریفتگی پر ایک گونہ تعجب ہوتاتھا۔مثال کے طور پر وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’جب میں اسکندریہ میں رہتا تھا،اس وقت میری ملاقات متعدد ایسے لوگوں سے ہوئی جو مبالغہ آمیز حد تک یونانی فلاسفہ وحکماء کی تعظیم وتوقیرکرتے تھے اور ان کی اندھی پیروی کو نشانِ عقل ودانش قرار دیتے تھے۔‘‘[لما کنت بالإسکندریۃ اجتمع بی من رأیتہ یعظم المتفلسفۃ بالتھویل والتقلید](الرد علی المنطقیین،ابن تیمیہؒ:ص۴۵)
امام ابن تیمیہؒ نے غالب فکری تہذیب وثقافت کے بے دام غلاموں کی جس خصوصیت پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآنی الفاظ واصطلاحات کے قالب میں یونانی فلسفے اور ثقافت کو گھسادیتے ہیں تاکہ اس طرح ان کے فلسفیانہ تصورات مسلم معاشرے میں سندِ قبول پاجائیں اور عوام الناس دھوکہ کھالیں۔یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ کی تجدیدی مساعی کا ایک میدان یہ بھی رہا ہے کہ وقت کے اس فتنے کے پھیلائو کو روکا جائے اور لفظی قالب اور فکری مضمون کے درمیان تمیز وتفریق کی جائے۔ مثلاً ایک جگہ وہ فرماتے ہیں:’’یہ لوگ اسلامی اصطلاحوں اور قرآنی عبارتوں میں یونانی فلسفے والحاد کے مشرکانہ عقائد اور باطل تصورات بیان کرتے ہیں۔‘‘[یعبرون بالعبارات الإسلامیۃ القرآنیۃ عن الإلحادات الفلسفیۃ والیونانیۃ] (مجموع الفتاوی،ابن تیمیہؒ:۷/۵۹۷)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’یہ بات ہر شک وشبہے سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ قرآن وسنت سے مأخوذ دینی عبارتوں کو پکڑتے ہیں اور اپنی مرضی سے ان کے ایسے نئے معانی تراش لیتے ہیں جو ان کے اپنے فاسد اعتقاد کے موافق ہوں۔‘‘[ولاریب أن القوم أخذوا العبارات الإسلامیۃ القرآنیۃ والسنّیۃ فجعلوا یضعون لہا معانی توافق معتقدھم] (بغیۃ المرتاد فی الرد علی المتفلسفۃ والقرامطۃ والباطنیۃ، تحقیق: موسیٰ سلیمان الدویش:ص۲۳۵)
امام ابن تیمیہؒ کی رائے میں اس طرح کے لوگوں کا یہ طرزِ عمل سادہ لوحی،خیر پسندی یا اخلاص پر مبنی نہیں ہوتا،بلکہ یہ ایک اسٹراٹیجی اور حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے عام مسلمانوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور انھیں بہ تدریج دین سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:’’یہ لوگ فلسفیانہ معانی ومفاہیم کو اسلامی الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں اور حق سے دور ورغلاتے ہیں۔‘‘[ولکن یموھون بالتعبیر علی المعانی الفلسفیۃ بالعبارات الإسلامیۃ](جامع المسائل،ابن تیمیہ،تحقیق:محمد عزیر شمس:۶/۱۳۹)
امام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتابوں میں جابجا اشارے کیے ہیں کہ یونانی تہذیب پر ایمان لانے والے ان دھوکے بازوں کا فریب کاری سے بھرا یہ اسلوب امتِ مسلمہ میں بہت سے فتنوں کے ابھرنے کا سبب بنا ہے، اور ان چکنی چپڑی باتوں میں آکر سیدھے سادے مسلمانوں کے اندر بہت ساری اعتقادی گمراہیاں پیدا ہوگئی ہیں۔امام صاحبؒ فرماتے ہیں:’’یہ لوگ اسلامی الفاظ واصطلاحات پکڑتے ہیں اور ان میں یونانی فلاسفہ کے ملحدانہ افکار وخیالات بھر دیتے ہیں۔ چونکہ قرآن وسنت کے الفاظ پر مشتمل عبارتیں مسلمانوں میں مقبول ہوتی ہیں،اس لیے جب سادہ لوح عوام ان لوگوں کی ایسی باتیں سنتے ہیں تو فی الفور انھیں قبول کر لیتے ہیں۔بعدمیں جب لوگوں کے سامنے ان کے اصل معنی بیان کیے جاتے ہیں تب بھی دین کی حقیقت سے ناواقف ایک بڑی تعداد گمراہی کا شکار بنی رہتی ہے۔‘‘[فیأخذ ہؤلاء العبارات الإسلامیۃ ویودعونھا معانی ہؤلاء وتلک العبارات مقبولۃ عند المسلمین، فإذا سمعوھا قبلوھا ثم إذا عرفوا المعانی التی قصدھا ہؤلاء ضل بہا من لم یعرف حقیقۃ دین الإسلام] (مجموع الفتاوی،ابن تیمیہ:۱۷/۳۳۳)
آٹھویں اور نویں صدی میں علمی افق پر علامہ ابن خلدونؒ کا ستارہ روشن ہوا۔ انھوں نے اپنے تاریخی مقدمے میں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کی مقابلہ آرائی کے حوالے سے بہت سی قیمتی باتیں لکھی ہیں۔انھوں نے اس تہذیبی معرکہ آرائی میں فرد کی سطح پر بھی لوگوں کے رویوں کواجاگر کیا ہے اور اجتماعی وملّی سطح کو بھی موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ان دونوں سطحوں کی تقسیم کے ساتھ انھوں نے ثقافتوں اور تہذیبوں کے غلبے کی جنگ کو نظریاتی اعتبار سے انتہائی حد تک مشرّح ومنقح کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنے مشہورِ زمانہ مقدمے میں پوری ایک فصل اس تہذیبی کشاکش کے حوالے سے تحریر فرمائی ہے۔
اس میں لکھتے ہیں:’’یہ تیئیسویں فصل ہے جو اس بارے میں ہے کہ مغلوب اور ہارا ہوا انسان دیوانوں کی طرح ہمیشہ غالب اور جیتنے والے کی اقتداء واتباع کرتا ہے۔وہ اپنے شعار میں،لباس میں،دوستوں کے انتخاب میں اور دیگر تمام حالتوں اور عادتوں میں فاتح کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔اس نقالی کے جذبے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نفس ہر اس شخص کے بارے میں کاملیت کا اعتقاد رکھنے لگتا ہے جو اسے ہرا دے اور زیر کر لے، چنانچہ وہ مکمل طور سے اس کا تابع بننا چاہتا ہے۔ یا تو اس لیے وہ ایسا کرتا ہے کیونکہ ہر صاحبِ کمال بہ تقاضائے فطرت تعظیم وتقدیس کا مستحق ہوتا ہے، اور غالب کے بارے میں مغلوب کے دل میں یہی عقیدہ اور جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یا اس لیے وہ ایسا کرتا ہے کیونکہ وہ ایک نفسیاتی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے اوپر غلبہ پانے والے کی پیروی اس لیے نہیں کرتا کیونکہ وہ اس پر غالب ہے،بلکہ اس لیے کرتا ہے کہ کیونکہ غلبہ پانے والا فی نفسہ صاحبِ کمال ہے۔جب انسان اس نفسیاتی غلط فہمی کا شکار ہوجائے اور یہ اعتقاد بنا لے تو وہ بہ سرعت غالب شخص کی تمام عادات وخصائل اور مسالک ومذاہب اختیار کر لیتا ہے اور ہر بن ومو سے بہ تکلف اس جیسا دِکھنا چاہتا ہے۔ انفرادی سطح سے اٹھ کر غالب اورمغلوب کا یہ معاملہ اگر دو پڑوسی امتوں اور قوموں کے بیچ پایا جائے تو اس تاثر اور اقتداء کے نتیجے میں غالب قوم اور امت کی بہت ساری باتیں مغلوب قوم کے اندر سرایت کر جاتی ہیں۔‘‘[الفصل الثالث والعشرون فی أن المغلوب مولع أبدا بالاقتداء بالغالب فی شعارہ وزیّہ ونحلتہ وسائر أحوالہ وعوائدہ والسبب فی ذلک أن النفس أبدا تعتقد الکمال فی من غلبھا وانقادت إلیہ إما لنظرہ بالکمال بما وقر عندھا من تعظیمہ أو لما تغالط بہ من أن انقیادھا لیس لغلب طبیعی وإنما ہو لکمال الغالب فإذا غالطت بذالک واتصل لہا اعتقادا فانتحلت جمیع مذاہب الغالب وتشبہت بہ حتی أنہ إذا کانت أمۃ تجاور أخریٰ ولہا الغلب علیھا فیسری إلیہم من ہذا التشبیہ والاقتداء حظ کبیر] (المقدمۃ،ابن خلدون،تحقیق:عبداللہ الدویش:۱/۲۸۳)
سچ پوچھئے تو علامہ ابن خلدون کے مقدمے کی یہ فصل اس مسئلے کے حوالے سے ایک ہمہ جہتی نظریاتی بیانیہ ہے۔ پوری اسلامی تاریخ اور ملت کے علمی سرمائے میں ہمیں تہذیبوں کے ٹکرائو اور غالب تہذیب کے تسلط کے ناقدانہ تجزیے پر مشتمل یہ ایک بہتر تجزیاتی نگارش ملتی ہے۔
بعد کے دور میں،یعنی انیسویں صدی کے نصف اول میں، آج سے تقریبا دوسو سال قبل،امتِ مسلمہ کے تنِ نیم جاں میں زندگی اور بیداری کی لہر دوڑ گئی تھی۔ زوال کی گہری نیند میں ڈوبی صدیوں کے بعد امت کو بیداری نصیب ہوئی تھی، مگر آنکھیں کھولتے ہی اسے جو ماحول نظر آیا وہ یہ تھا کہ مسلم دنیا اور مغربی دنیا میں ترقی وتنزل کی گہری خلیج پیدا ہوگئی تھی۔چنانچہ خودکار فطری ردِ عمل کے تحت مسلمانوں میں بہت سی تحریکیں اٹھیں جن کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ مغربی دنیا کی ترقی کا راز معلوم کیا جائے اور مسلم دنیا کو بھی ایسی ہی مادی ترقی اور خوشحالی سے ہم کنار کرایا جائے۔
رفاعہ طہطاوی (م:۱۸۷۳ئ)، جمال الدین افغانی (م:۱۸۹۷ئ)، سرسید (۱۸۹۶ء)اور ان کے بعد اسلامی بیداری کے داعی ومناد مفکرین ودانشوران کا ایک تانتا بندھ گیا۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان ترقی پسند دانشوروں نے امت کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی کے لیے نادانستہ یا دانستہ طور سے غلط راہ کا انتخاب کیا۔بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کے اندر عزتِ نفس، خودداری،ملّی غیرت، خود اعتمادی اور چیلینج قبول کرنے کی صلاحیت اور ہمت پیدا کرتے کیونکہ امتوں اور قوموں کو اٹھانے اور بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے انہی صفات کی پیدائش وافزائش ضروری اور مطلوب ہوتی ہے؛ان لوگوں نے یہ کیا کہ خود اِن حضرات کے شعور ولاشعور میں مغربی ممالک کی غالب مادی تہذیب وثقافت کے بارے میں جو احساسِ کمتری اور جذبۂ مرعوبیت پایا جاتا تھا، آگے بڑھ کر مسلم عوام الناس کے دلوں میں بھی اس کی تخم ریزی اور آب سیری میں لگ گئے۔
اس کے لیے ان حضرات نے(یاد رہے کہ یہاں اکثریت کو پیشِ نظر رکھ کر بات ہورہی ہے)عملی طریقۂ کار یہ اختیار کیا کہ اسلام کے جملہ احکام واوامر کی اس انداز میں تاویل اور تشریح کرنا شروع کر دی جو غالب مغربی تہذیب اور معاصر یورپین مزاج کے موافق اور سازگارہو۔ مغربی افکار ونظریات کو مسلم معاشرے میں قبولِ عام دلانے کے لیے ان حضرات نے جانے انجانے میں یہ راستہ چنا کہ مسلمانوں کے یہاں مانوس اورمستعمل کسی بھی دینی لفظ کو لیتے اور اصل مفہوم کو ہٹا کر اس کی جگہ کسی مغربی فکر وخیال کو اس میں ملفوف (Pack)کر دیتے۔
گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آغاز(۱۹۶۲ئ) میں مشہور عیسائی مورخ ’’البرٹ حورانی‘‘ [Albert Hourani]نے صدی کے حالات وکوائف پر مشتمل اپنی مشہور کتاب شائع کی تھی۔ یہ کتاب اصلاً انگریزی زبان [Arabic Thought in the Liberal Age]میں ہے۔کریم عزقول نے اس کا عربی ترجمہ ’’الفکر العربی فی عصر النہضۃ‘‘ (بیداری کے دور میں اسلامی فکر) کے نام سے کیا ہے۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے اُن جدید مسلم مفکرین، اور ترقی وآزادی کے اُن کے نام نہاد تصور کے بارے میں بہت سے قیمتی ریمارکس قلم بند کیے ہیں اور بتایا ہے کہ اس طریقِ فہم واستنتاج کا منطقی انجام کیا کچھ ہو سکتا ہے۔
حورانی نے مصر کے مفتی محمد عبدہ(م:۱۹۰۵) کی اصلاحی تحریک کے بارے میں لکھا ہے: ’’اس تحریک کا دعویٰ ہے کہ یہ اصلاحی اور تعمیری ہے کیونکہ یہ اسلام کے تاریخی وعلمی سرمائے کے ایسے عناصر واجزاء کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے جو -بہ قول اس فکری دبستان کے- مہمل چھوڑ دیے گئے ہیں اور ہمارے زمانے میں ان کی اشد ضرورت ہے۔ مگر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ احیاء وتجدید کا یہ عمل یورپ کی لبرل فکر کے زیرِ سایہ انجام پایا جس سے بہ تدریج دین کی یہ تعبیر وتشریح دینی مسلمات وعقائد کی ایک نئی تفہیم میں بدل گئی۔ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ یہ لوگ اپنی فکری کوششوں سے اسلامی مفاہیم وتصورات کو اِس زمانے میں غالب مغربی فکر وفلسفے کے موافق بنانا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کی اصلاحی مساعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابن خلدون کا فلسفۂ عمرانیات دھیرے دھیرے ’’گیزو‘‘ کے فلسفۂ تمدن کی شکل اختیار کر گیا۔مالکی فقہاء اور ابن تیمیہؒ کا نظریۂ مصلحتِ مرسلہ ’’جان اسٹورٹ مل‘‘ کے فلسفۂ منفعت پسندی میں تبدیل ہوگیا۔ فقہِ اسلامی میں پایا جانے والا اجماعِ امت کا مفہوم ان حضرات کے یہاں جدید جمہوری نظام میں رائے عامہ کے مرادف قرار پاگیا۔اصحابِ حل وعقد کی جگہ اب پارلیامنٹ کے اراکین اورممبرانِ اسمبلی نے لے لی۔ ان تمام کارگزاریوں کا بدیہی نتیجہ جو ہماری تعبیر کے مطابق محمد عبدہ کے مدرسۂ فکر کے سیکولر حامیوں کی طرف سے انجام پائی تھیں، یہ نکلا کہ پبلک لائف کا دائرہ اور دین کا دائرہ بالکلیہ الگ الگ ہوکر رہ گیا اور اس طرح عرب ممالک میں سیکولر نیشنلزم (لادینی قوم پرستی)کی آمد کے لیے راستہ ہموار ہوگیا اور عملاً سیکولر مزاج رکھنے والی قوم پرستانہ حکومتیں مسلم دنیا میں ہر جگہ قائم ہوتی چلی گئیں۔‘‘
[Islamic reformism which was formulated by Muhammad Abduh and Rashid Rida was islamic because it stood for a reassertation of the unique and perfect truth of Islam, but reformist in that it aimed at reviving what it conceived to be certain neglected elements in the Islamic tradition. But this revival took place under the stimulus of Euroupean liberal thought, and led to a gradual reinterpretation of Islamic concepts so as to make them equivalent to the guiding principles of European thought of the time: Ibn Khaldun’s umran gradually turned into Guizot’s civilisation, the masalha of the Maliki jurists and Ibn Taymiyya into the utility of John Stuart Mill, the ijma of islamic jurisprudence into the Public opinion of democratic society, and those who bind and loose, arbabe hallo aqad,into memmbers or parliament. The effect of this in what we have called the secularising wing of Abduh’s school was to bring about a de facto seperation of the sphere of civilisation from that of religion and so to open another door to secular nationalism.](عربک تھاٹ ان دا لبرل ایج، البرٹ حورانی:ص۳۴۴)
البرٹ حورانی (م:۱۹۶۲ئ)کے اس فکر انگیز اقتباس کے بعد آگے بڑھنے سے پہلے اس کی ایک اہم بات اور پڑھتے چلیے۔ اس نے تجدید واصلاح کے نام پر اٹھنے والی ان تحریکوں اور مفکروں کے حوالے سے دو قدرِ مشترک چیزیں اور بھی نوٹ کرائی ہیں۔پہلی تو یہ کہ یہ تمام مفکرین اور تحریکیں مغربی تہذیب وثقافت کو حرفِ آخر اور حاکم وفیصل مان کر چلتے ہیں اور ان کے مطابق اسلامی تعلیمات وفرامین کو نئے معنی پہنانا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ان لوگوں نے جو طریقۂ کار استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ قدیم موروثی اصطلاحات اور روایتی دینی الفاظ کے قالب میں مغرب سے درآمد شدہ افکار ونظریات کا مفہوم بھر دیا جائے۔کوئی بالکل نیا لفظ مغربی افکار کے لیے نہ تراشا جائے جیسا کہ علمی دیانت اور ملّی غیرت کا فطری تقاضا تھا۔
یہ بات اپنی جگہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انیسویں صدی میں پیدا ہونے والے اور اصلاح وتجدید کا دم بھرنے والے بیشتر مسلم مفکرین ومصلحین اس خوش فہمی میں مبتلا تھے، یا صدقِ دل سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ وہ اسلامی نظام اور اسلامی شریعت کو وقت کی غالب تہذیب وثقافت کے سازگار بناکر ایک بہت بڑی دینی اور ملّی خدمت انجام دے رہے ہیں، اور نوجوان مسلم نسل کو الحاد وزندقے سے بچانے کا تجدیدی کام اللہ اس طرح اُن سے لے رہا ہے۔ مسلم دنیا اور مغربی دنیا کے بیچ تہذیبی اختلاف کی جو اَتھاہ خلیج دکھائی پڑتی ہے اپنی کوششوں سے یہ اسے کم یا ختم کر رہے تھے۔ مگر ان حضرات کی خوش گمانیوں کے علی الرغم جو نتیجہ سامنے آیا وہ الٹا تھا۔
یہ بات البرٹ حورانی نے بھی نوٹ کی ہے۔ وہ لکھتا ہے:’’محمد عبدہ نے شاید انجانے میں سیلاب کے پانی کا وہ دروازہ کھول دیا جس نے جدید دنیا کی تمام خرابیوں کو آزاد کر دیا اور اسلامی عقائد وقوانین کو خس وخاشاک کی طرح بہا دیا۔محمد عبدہ کی نیت یہ تھی کہ اپنی عقلانیت زدہ دینی تشریحات سے وہ لادینیت کے سامنے دیوار کھڑی کر رہے ہیں۔مگر ہوا اس کے برعکس۔ اب ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ وہ اپنی عقلیت پرستی سے حقیقت میں کوئی دیوار نہیں،بلکہ ایک پل تعمیر کررہے تھے جس پر دوڑتے ہوئے لادینیت اور الحاد کا دیو مسلم دنیا میں گھس آئے اور بہ آسانی ایک کے بعد ایک قلعہ تسخیر کرلے۔اس لیے یہ بات محض اتفاق نہیں ہے کہ محمد عبدہ کے تلامذہ ومعتقدین میں ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جس نے بعد میں مکمل لادینیت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔‘‘
[Without intending it, Abduh was perhaps opening the door to the flooding of Islamic doctrine and law by all the innovetions of the modern world. He had intended to build a wall against secularism, he had in fact provided an easy bridge by which it could capture one position after another. It was not an accident that, as we all see, one group of his disciples were later to carry his doctrines in the direction of complete secularism.] (عربک تھاٹ ان دا لبرل ایج:ص۱۴۴-۱۴۵)
ہم پہلے بھی کہہ آئے ہیں کہ اصلاح وتجدید کے دعوے دار تمام مسلم مفکرین اس ٹائپ کے نہیں تھے۔تاریخ کا یہی وہ عرصہ ہے جب ’’محمد محمد حسین‘‘ نے معاصر ادباء وشعراء کی مغرب نوازی کا قصہ ’’الاتجاہات الوطنیۃ فی الادب المعاصر وصلتہا بالاستعمار الغربی‘‘ نامی اپنی کتاب میں سنایا۔ اس میں انھوں نے تفصیل سے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔ ویسے تو ان کی کتاب کا دائرۂ بحث صرف ملکِ مصر تھا،مگر اپنے مطالعے اور تحقیق کے دوران انہوں نے دیکھا کہ مصری ادباء وشعراء اور دانشوران ومفکرین کا جو حال ہے اسی سے ملتا جلتا حال پوری اسلامی دنیا کے ادباء وشعراء اور مفکرین کا ہوگیا ہے۔چنانچہ انہوں نے کتاب کے مقدمے میں اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ اس تنقیدی مطالعے کے حدودِ اربعہ کو بڑھانا چاہتے ہیں اور جس قدر عبارتیں انہوں نے نقل کی ہیں اور جتنے مفکرین وادباء وشعراء کا انہوں نے جائزہ لیا ہے ان پر مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں جس سے یہ حقیقت بالکل مبرہن ہوجائے۔
انہوں نے اس مسئلے کی تحلیل وتجزیے میں مختلف مکاتب اورمدارسِ فکر کا خلاصہ درجِ ذیل الفاظ میں لکھا ہے: ’’آج پوری دنیا میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ عظمتِ رفتہ کی بازیافت کا، پھر سے پرانی قوت اور طاقت پانے کا اور کمزوری اور اس کے بد اثرات سے پیچھا چھڑانے کا بہترین راستہ اور طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں جو بھی مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں ان سب کو تین بڑے رجحانوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ان میں پہلا رجحان وہ ہے جو اسلام کے ابتدائی سرچشموں کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ دوسرا رجحان وہ ہے جو مغرب کی اقتداء کرنے اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔تیسرا رجحان وہ ہے جو ترقی یافتہ اسلام پسندی کی دعوت دیتا ہے۔ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی تفسیر اس طرح سے کرتا ہے کہ وہ مغربی تہذیب سے ہم آہنگ ہوجائیں اور مغربی تہذیب کے تمام طور طریقوں اور گفتہ ناگفتہ رسموں اور رواجوں کو اس ماڈرن اسلام کے ذریعے جائز باور کرادے۔‘‘
[وکل الأقطار العربیۃ قد شغل بالبحث والمناقشۃ حول أمثل الطرق والأسالیب للنھوض واستعادۃ القوۃ ولاتخلص من أسباب الضعف وآثارہ، ولم یکد الخلاف فیہا جمیعا یخرج عن اتجاھات ثلاثۃ، اتجاہ یدعو إلی العودۃ لینابیع الإسلام الأولیٰ واتجاہ آخر یدعو لاحتذاء الغرب وتتبع خطاہ واتجاہ ثالث یدعو إلی إسلامیۃ متطورۃ یفسر فیھا الإسلام تفسیرا یطابق الحضارۃ الغریبۃ حلوہا ومرہا،صحیحہا وسقیمھا](الاتجاہات الوطنیۃ فی الأدب المعاصر،محمد محمد حسین:۱/۶)
محمد محمد حسین کا یہ تبصرہ سن ۱۹۶۲ء کا ہے جب کہ انہوں نے عالمِ عرب میں پائے جانے والے ادبی رجحانات کا تنقیدی جائزہ لیا تھا۔مگر جدید دور میں اسلامی بیداری اور اسلام پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے اٹھنے والے مفکروں اور تحریکی رہنمائوں کے طریقۂ کار کی تفہیم وتجزیہ کے لیے بھی یہ جامع تبصرہ بڑی حد تک ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
محمد محمد حسین کے بعد بھی اسلامی فکر کے ارتقاء پر نظر رکھنے والے اہلِ علم مغربی تہذیب کے افسوں میں گرفتار مفکروں اور جماعتوں کے بارے میں اس قسم کے ریمارکس پاس کرتے رہے ہیں۔مگر بیسویں صدی کے نصف اول کے بعد سے اس رجحان پر باقاعدہ تنقیدیں شروع ہوگئیں۔ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ہمیں ’’محمد محمد حسین‘‘ کا ایک اور ہم عصر ملتا ہے جو اسلامی فکر کے اس مغرب پرستانہ رجحان پر سخت تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے۔ہماری مراد ڈاکٹر ’’فتحی عبدالکریم‘‘ سے ہے۔
وہ اپنی کتاب ’’الدولۃ والسیادۃ فی الفقہ الاسلامی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ان مغرب نواز مفکرین ودانشوران کے اندر اسلام کی خدمت کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔ مگر غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ گہرائی کے ساتھ دین اور دینی مصادر کا مطالعہ نہیں کرتے اور پورے دھڑلّے سے یہ کارگزاری شروع کر دیتے ہیں کہ مہذب دنیا(یعنی مغربی ممالک) میں جو فیشن یا فکر بھی رواج پاجائے کھینچ تان کر اسلام کے اندر سے بھی اس کی موافقت میں کوئی دلیل نکال لاتے ہیں۔ انھیں یہ وہم لاحق ہوگیا ہے کہ اس طرح اسلام کو مغربیا (Westernised)کر وہ دین کی عظیم الشان خدمت کر رہے ہیں۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کی نگاہوں میں اسلام ایک یتیم اور بے سہارا بچہ ہے جسے شدائدِ حیات سے نبردآزما ہونے کے لیے کسی اثر ورسوخ رکھنے والے بڑے انسان کی سرپرستی اور حمایت درکار ہے۔یا ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ صرف سچے پکے مسلمان بن کر وہ دنیا میں عزت اور شہرت نہیں پا سکیں گے، اور حصولِ جاہ ومنزلت کا راستہ بس یہ ہے کہ وہ اپنی خرقِ عادت اجتہادی صلاحیت سے کام لیتے ہوئے دینِ اسلام کو کھودیں اور اس سے وہ اصول ونظریات نکال کر دنیا کے سامنے پیش کریں جو دورِ حاضر میں ترقی یافتہ ممالک میں قبولِ عام پاچکے ہیں۔چنانچہ جب جمہوریت کا غلغلہ اٹھتا ہے تو یہ لوگ اسلام کو ڈیموکریٹک ثابت کرنے لگتے ہیں اور جب کمیونزم کا زور بڑھتا ہے تو یہ لوگ اسلامی کمیونزم کی وکالت کرتے دکھائی پڑتے ہیں۔ جب دنیا میں ’’پبلک گورنینس‘‘ یعنی عوام کی حکومت کا نظریہ رواج پاتا ہے تو ان کی مساعیِ جمیلہ سے یہ بھی ایک اسلامی نظریہ بن جاتا ہے جسے اسلام نے چودہ صدیوں پہلے ہی پیش کر دیا تھا، مگر دنیا کے سامنے اسلام کے اس تابناک پہلو کو لانے کا سہرا ان جدید مفکروں اور مجتہدوں کے سر جاتا ہے۔‘‘
[دفعھم حماسھم للإسلام إلی أن یثبتوا فیہ بغیر دراسۃ معمقۃ کل ما یرونہ قد راج فی أسواق العالم المتحضر متوہمین أن فی ذلک خدمۃ جلیلۃ للإسلام فکان الإسلام فی أعینھم طفل یتیم ذلیل لا یعیش إلا إذا جعل تحت رجل ذی جاہ ونفوذ أو ھم یخافون أن لا تکون لہم عزۃ من حیث کونھم مسلمین إلا إذا أخرجوا للناس مبادیٔ من دینھم مثل مبادیٔ النظم الاجتماعیۃ السائدۃ فی عصرھم، فإذا راجت الدیمقراطیۃ کان الإسلام دیمقراطیا وإذا راجت الاشتراکیۃ کان الإسلام اشتراکیا وإذا راجت نظریۃ سیادۃ الأمۃ کانت ہذہ النظریۃ من نظریات الإسلام التی تبناھا قبل قرون وعثر علیہا ہؤلاء لأول مرۃ](الدولۃ والسیادۃ فی الفقہ الاسلامی دراسۃ مقارنۃ:ص۱۸)