Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Sawaneh Dr Shakeel Ahmad Mawi, حساب جاں خود نوشت سوانح ڈاکٹر شکیل احمد مئوی

سوانح ڈاکٹر شکیل احمد مئوی

Sawaneh Dr Shakeel Ahmad Mawi, حساب جاں خود نوشت سوانح ڈاکٹر شکیل احمد مئوی

نام کتاب : حساب جاں
مصنف : ڈاکٹر شکیل احمد مئوی

’’ حساب جاں ‘‘ ڈاکٹر شکیل احمد مئوی(ولادت : ۶؍ جنوری ۱۹۵۳ء) کی خود نوشت سوانح ہے ۔کتاب کا نام احمد فراز کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔ ؎

دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب’’ حسابِ جاں‘‘ برسرعام رکھ دیا

اس کتاب میں انھوں نے اپنے خاندانی ،معاشرتی ، معاشی اور تعلیمی احوال و تجربات کو بیان کیا ہے، ابتداء ہی سے شمع علم ان کے سینے میں فروزاں رہی ،معاشی مشکلات ودشواریاں، گھریلو مصروفیات وذمہ داریاں اور حالات کے مدوجزر بھی اس کی لَو کومدھم نہیں کرسکے، ہر حال میں علم کا سودا ان کے سر میں سمایا رہا اوروہ اس کےحصول کے لئے مستعد رہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہے۔ ایک وقت آیا کہ ۱۹۸۳ء میں انھوں نے گورکھپور یونیورسٹی سےپی ایچ ڈی کی ،اوراردو زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے مئو شہر کے پہلے فرد بنے ۔

ڈاکٹر صاحب ایک خاموش مگر اپنے کام پر گہری نظر رکھنے والے متحرک وفعال شخص ہیں، مطالعہ ان کا ذوق ہے اور لکھنا ان کی طبیعت ہے ، وہ تعلیم وتدریس اور تصنیف وتالیف کی دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں ۔ اب تک ان کی نو کتابیں شائع ہوکر اہل علم سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ ان کے والد مولانا عبدالحی قاسمی مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد کے قدیم فاضل ، مولانا سید فخرالدین احمد ومولانا سید محمد میاں کے خاص شاگرد اور قاضی اطہر مبارکپوری کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

کتاب کا پہلا عنوان ’’ میرے خواب ‘‘ ہے ، جس میں ڈاکٹر صاحب نے اجمالاً واشارتاً اپنی پوری داستان حیات کو بیان کردیا ہے ، پوری کتاب اسی اجمال کی تفصیل ہے۔ اس کو پڑھ کر ان کے ذوق ومزاج ، اعلیٰ اخلا ق اور راضی برضائے الٰہی والی صفت کا اندازہ ہوتا ہے۔دوسرا عنوان ’’ میرے زخم ‘‘ ہے ، جس میں انھوں نے اپنے زندگی میں پیش آنے والے حادثات کو بیان کیا ہے۔ ’’بودوباش‘‘ اور ’’رشتے ناتے ‘‘ کے عنوان سے اپنے خاندانی احوال اور رشتہ داریوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جس میں اپنی نانی کی شفقتوں اور محبتوں کا بطور خاص ذکر کیا ہے ، نانی کا انتقال ۱۴؍ ستمبر ۱۹۸۶ء کو ہوا۔ نانی کے انتقال پر لکھتے ہیں کہ : ’’ اس روز سمجھ میں آیا کہ ’’ نانی مرگئی ‘‘ کے محاورے کا اصل مفہوم کیا ہوتا ہے ‘‘ (ص: ۴۲) ۔ خاندانی احوال میں انھوں نے قاضی اطہر مبارکپوری کی ایک نظم لکھی ہے جو ان کے بڑے بھائی ممتاز احمد کے بچپن میں فوت ہونے پر قاضی صاحب نے اپنے دوست مولانا عبدالحی قاسمی کی تسلی وتعزیت کے لئے لکھی تھی ، معلوم نہیں یہ قاضی صاحب کے مجموعۂ کلام ’’مئے طہور ‘‘ میں شامل ہے یا نہیں؟

ایک باب ’’ والدین مکرمین ‘‘ ہے ، اس کو پڑھ کر بہت سی جگہ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ’’میری تعلیم ‘‘ میں تعلیمی سرگرمیوں اور ’’ معاش جوئی ‘‘ اور جہانِ رزق ‘‘ میں حصول معاش کی داستان اور اس سلسلہ میں کی جانی والی سعی وجستجو اور تگ دَو کا ذکر ہے۔ کتاب کا اہم عنوان ’’تعلیم یاری ۱،۲،۳‘‘ ہے ۔ حقیقت میں ڈاکٹر صاحب تعلیم وتعلم کے آدمی ہیں ، قوم کے اندر تعلیمی بیداری کے لئے مختلف اسٹیج سے دامے، درمے ، سخنے ہر طرح کی قربانی دی ، اس وقت جبکہ عمر ۷۰؍ سال ہورہی ہے ان کی تعلیمی سرگرمیاں ہنوز جاری ہیں ۔ ’’سماج یاری ۱،۲،۳‘‘ بھی کتاب کا اہم عنوان ہے جس میں معاشرتی بیداری ،قومی نظم وضبط اورقوم کی ترقی اورصلاح وفلاح کے سلسلہ کی سرگرمیوں کا ذکر ہے۔ ’’ قلم یاری ‘‘ میں قرطاس وقلم سے لگاؤ اور قلمی فتوحات کا ذکر ہے۔ ایک عنوان ’’ سیاسی جذب وشوق ‘‘ بھی ہے، جس میں اس خاردار وادی کی آبلہ پائی کا ذکر ہے۔

آخری باب ’’ یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی ‘‘ میں ماضی کی کچھ خاص یادوں کا ذکر ہے۔ صفحہ ۱۹۰ پر ڈاکٹر صاحب کی متعدد کتابوں پر مولانا انصار احمد معروفی کا منظوم تبصرہ ہے جو بڑا دلچسپ ہے ، اس سے ان کی قادرالکلامی کا پتہ چلتا ہے۔اخیر میں ڈاکٹر صاحب کی کہانی تصویروں کی زبانی ہے ، جس میں متعدد پروگراموں کی تصاویر ہیں ۔یہ پوری کتاب کا ایک سرسری جائزہ اور اجمالی تعارف ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر حوصلوں میں توانائی پیدا ہوتی ہے اور کام کیسے کیا جاتا ہے اس کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے ۔ ہماری نسل نو کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے اور حتی الامکان اس کے مندرجات پر عمل کی کوشش کرنی چاہئے۔ کتاب پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کے تین اوصاف بہت نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں،۱۔غیر معمولی محنت وجفاکشی ، ۲۔ احساس ذمہ داری،۳۔قوم وملت کا درد اور اس کے لئے بے لوث ومخلصانہ قربانی۔

Sawaneh Dr Shakeel Ahmad Mawi

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *