Web Analytics Made Easy -
StatCounter

خطبات دار العلوم دیوبند

خطبات دار العلوم دیوبند

خطبات دار العلوم دیوبند

تقریظ: حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم
استاذِحدیث دارالعلوم وایڈیٹرماہنامہ دارالعلوم دیوبند، خلیفہ محبوب العلما ٕ حضرت مولانا پیرفقیرذوالفقارصاحب نقشبندی مدظلہ العالی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ!

خطبات دارالعلوم دیوبند یعنی ’’احاطۂ دارالعلوم میں اکابر علماء کے خطبات‘‘ ایک نئے انداز کا علمی تحفہ بلکہ تبرکات کا مجموعہ ہے، جس میں حجۃالاسلام حضرت اقدس مولانا نانوتوی قدس سرہٗ سے لےکر، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم تک، دارالعلوم دیوبند کے اکابر وذمہ داران اور اساتذۂ کرام؛ نیز باہر سے تشریف لانے والے مشاہیر کے خطبات جمع کیے گئے ہیں، اور اس خوبصورت اور انوکھے کام کی توفیق ملی ہے دارالعلوم کے ایک باصلاحیت، سلیقہ مند اور علمی وادبی ذوق کے حامل استاذ، جناب مولانا مفتی عمران اللہ صاحب زیدمجدہم کو، جو تدریسی خدمت کے ساتھ، شیخ الہند اکیڈمی کی نگرانی کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔

خطبات اور تقریروں کےمجموعے تو بےشمار ہیں، جن میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن میں متعدد علماء کی تقریریں جمع گئی ہیں؛ لیکن اُن میں عام طور پر چند ہی ناموں کی نمائندگی ہے، اور زیادہ تر خطبات وہ ہیں جو کسی ایک ہی شخصیت کے افادات پر مشتمل ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ اُن میں سے بعض مجموعے، اس قدر نافع ہیں کہ اُن سے ایک زمانہ مستفید ہوتا رہا ہے، مثال کے طور پر ’’خطبات حکیم الامت‘‘، ’’خطبات حکیم الاسلام‘‘، ’’خطباتِ مدارس‘‘، ’’خطبات مفکراسلام‘‘، ’’جواہر الرشید‘‘، ’’خطبات فقیر‘‘ اور ’’اصلاحی خطبات‘‘ وغیرہ، یہ اور اُن کے علاوہ بھی بہت سے مجموعے نہایت نافع اور مقبول ہیں۔

لیکن زیرنظر مجموعہ، اس اعتبار سے بالکل منفرد ہے کہ اس میں مختلف اَدوار اور مختلف میدانوں کی ایک سے زائد ایسی عظیم شخصیات کے افادات شامل ہیں جن میں سے ہرایک اپنی ذات میں ایک انجمن کا مصداق ہے، اور جن کی زمانی وسعت ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے، ان میں علم وفن، سلوک تصوف، دین وادب، صحافت وسیاست، غرض ہرمیدان کی نہایت قدرآور شخصیات شامل ہیں۔

ان میں حضرت نانوتویؒ، حضرت گنگوہیؒ، حضرت شیخ الہندؒ، حضرت تھانویؒ، حضرت مدنیؒ، حضرت علامہ کشمیریؒ اور حضرت حکیم الاسلام جیسے جبالِ علم اور اساطینِ دیوبندیت بھی ہیں، مولانا آزادؒ اور حضرت مولانا علی میاںؒ جیسے عالم ورہنما بھی ہیں، ائمۂ حرم شیخ سبیل، شیخ سُدیس، شیخ شُریم اور عرب علماء کبار ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن ترکی، شیخ عائض القرنی اور شیخ عوامہ جیسے محدث بھی ہیں، اور دارالعلوم دیوبند کے راسخ العلم والعمل کبار اساتذہ بھی ہیں۔

اس کتاب کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان شخصیات کے ناموں ہی سے کیسی دیدہ زیب کہکشاں تیار ہورہی ہے پھر ان کی آفاقی عظمت اور عالمی شہرت، ان افادات کی اہمیت پر کیسی مہر لگاتی ہے، شخصیات کے انتخاب میں زمان ومکان کی اس وسعت کے ساتھ، اس میں تحدید یہ کردی گئی کہ یہ افادات، دارالعلوم دیوبند کی چہاردیواری میں پیش کیے گئے ہوں، اس حدبندی نے، معیار کو کس درجہ بلند کردیا اس کا اندازہ اہلِ نظر ہی لگاسکتے ہیں؛ اِس لیے کہ خطاب کے معیار وتاثیر میں مقامِ خطاب اور مخاطبین کا کردار، ایک طےشدہ حقیقت ہے۔
پھر موضوعات ومضامین پر نظر ڈالیں تو علم وحکمت، دین ودعوت، تزکیہ وسلوک، ایمان وعرفان، تعلیم وتربیت، فتنوں کا تعاقب، نظامِ مدارس، نصابِ تعلیم، منہجِ دارالعلوم جیسے تمام ہی مسائل پر بےشمار عنوانات کے تحت اعلیٰ معیار کی سیرحاصل رہنمائی موجود ہے، فکر ونظر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اس مجموعہ میں شامل کسی نہ کسی شخصیت کے خطاب میںنہ آگیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ یہ مجموعہ یوں تو اب ہرمیدان کے لوگوں کے لیے مفید ہے؛ لیکن اس کی سب سے زیادہ افادیت علمائِ کرام اور دینی خدمت کے کسی بھی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے ہے۔

یہیں سے ذہن اِس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اس موضوع کا انتخاب، خاص توفیقِ الٰہی سے ہی ممکن تھا، پھر اس کام میں مؤلف کو کس درجہ جاںفشانی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کا بھی اندازہ کرنا مشکل ہے، اتنے طویل عرصہ کے دَوران ہونے والے بیانات تلاش کرنا، مختلف کتابوں کو کھنگالنا اور دارالعلوم کے ریکارڈ سے مدد لینا، قریبی علماء میں سے بہت سے حضرات کے بیانات، کیسٹوں سے حاصل کرنا، یارسائل وجرائد کی فائلوں سے برآمد کرنا، مختلف مواقع پر ہونے والے اجلاسوں کی کارروائی سے استفادہ کرنا، اور اسی انداز کی وہ تمام محنت جس کو چیونٹی کی، دانے جمع کرنے کی مشقت سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

یہیں سے ذہن اِس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اس موضوع کا انتخاب، خاص توفیقِ الٰہی سے ہی ممکن تھا، پھر اس کام میں مؤلف کو کس درجہ جاںفشانی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کا بھی اندازہ کرنا مشکل ہے، اتنے طویل عرصہ کے دَوران ہونے والے بیانات تلاش کرنا، مختلف کتابوں کو کھنگالنا اور دارالعلوم کے ریکارڈ سے مدد لینا، قریبی علماء میں سے بہت سے حضرات کے بیانات، کیسٹوں سے حاصل کرنا، یارسائل وجرائد کی فائلوں سے برآمد کرنا، مختلف مواقع پر ہونے والے اجلاسوں کی کارروائی سے استفادہ کرنا، اور اسی انداز کی وہ تمام محنت جس کو چیونٹی کی، دانے جمع کرنے کی مشقت سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

اس کے بعد اس پورے ذخیرے کو اشاعت کے قابل بنانا، بیانات کے مختلف ٹکڑوں پر عنوانات لگانا، حوالے تلاش کرنا اور ان منتشر اجزاء کو مرتب کرنا، بجائے خود ایک مستقل کام ہے، اس پوری محنت کے لیے جناب مولانا مفتی عمران اللہ صاحب ہماری مبارک باد ہی نہیں شکریہ کے مستحق ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *