مولانا عبد الستار صاحب معروفی اعظمی(وفات :٢٥ جولائی ٢٠٢١ء) افہام وتفہیم پر غیر معمولی قدرت رکھنے والے ایک ماہر فن مدرس تھے ، انھوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک مسند تدریس کو آباد رکھا ، بلا واسطہ وبالواسطہ ان کے ہزاروں شاگرد ملک وبیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں، وہ جہاں بھی رہے طلبہ کے درمیان محبوب ومقبول رہے ، ان کے تلامذہ ان پر جان چھڑکتے تھے ۔ وہ ایک بہترین ادیب اور صاحب قلم بھی تھے ، لیکن انھوں نے دائرۂ تدریس سے باہر نکلنا پسند نہیں کیا ۔ جامعہ حسینیہ جون پور آنے کے بعد ان کے محب ومحبوب عزیز مولانا قاری محمود عالم بلیّاوی نے ان پر دباؤ ڈال کر کسی طرح ان سے کچھ لکھوالیا ، جس کے نتیجہ میں ان کے مکالموں کا مجموعہ اور ان کا سفرنامہ حج بشکل مکاتیب لوگوں کے سامنے آیا ، تب لوگوں کو اندازہ ہوا کہ وہ کس پایہ کے ادیب ہیں ۔جو کچھ ان کا تحریری سرمایہ موجود ہے وہ کسی ذوق وشوق کی بنا پر نہیں صرف خیالِ خاطرِ احباب کا نتیجہ ہے ، فطری وطبعی ذوق تدریس کا تھا جس کو انھوں نے پوری دلجمعی اور سرگرمی کے ساتھ اخیر حیات تک جاری رکھا۔
٢٥ جولائی ٢٠٢١ء کو مولانا نے زندگی کی آخری سانس لی ،ان کے حادثۂ وفات کے صدمہ کو بقدر تعلق ہر ایک نے محسوس کیا ۔ مولانا قاری محمود عالم بلیّاوی کو مولانا سے بہت ہی خاص تعلق تھا اس لئے ان پر مولانا کی جدائیگی کا سب سے زیادہ اثر تھا ، انھوں نے مولانا کے تلامذہ ومتعلقین کے ساتھ مشورہ کے بعد طے کیاکہ مولانا کی حیات وخدمات پر ایک خصوصی مجلہ شائع کیا جائے ۔ چنانچہ انھوں نے اس کے لئے محنت وکوشش شروع کی، مولانا کے تلامذہ اور دیگر اہل علم سے رابطہ کیا ، ان سے مضامین لکھوائے ، کسی کے پاس اگر مولانا کے خطوط یا کوئی تحریر تھی تو اسے حاصل کیا ۔ تقریباً چھ ماہ کی محنت کے بعد جب ایک معتدبہ مقدار میں تحریری سرمایہ جمع ہوگیا تو اسے مرتب کرنا شروع کیا ،اس طرح تین سو ساٹھ صفحات پر مشتمل یہ مجموعہ تیار ہوگیا ۔
کتاب کا آغاز مرتب کتاب قاری محمود عالم صاحب کے ” نقش اولیں ” سے ہوتا ہے ،جس میں انھوں نے مولانا مرحوم کے کچھ اوصاف اور اس مجموعہ کی تیاری کی داستان بیان کی ہے ۔ اس کے بعد جامعہ حسینیہ کے ناظم مولانا توفیق احمد صاحب کے دعائیہ کلمات ہیں ۔پہلا مضمون جامعہ حسینیہ کے جواں سال وصاحب قلم استاذ مولانا عظیم الرحمن قاسمی غازی پوری کا ہے جو اس مجموعہ کا سب سے طویل مضمون ہے اور ٦٨ صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں انھوں نے مولانا کی حیات وخدمات ۔ تفسیری آیات ، عربی ادب ، منطق وعلم فرائض اور دیگر امور سے متعلق مولانا کی مختلف تحریروں کو بڑے سلیقہ کے ساتھ یکجا کردیا ہے ، جس سے قلم وقرطاس کے ساتھ مولانا کا لگاؤ اورتعلق آئینہ ہوکر سامنے آجاتا ہے ۔اس کے بعد مولانا نسیم احمد بارہ بنکوی استاذ دارالعلوم دیوبند، مولانا خطیب الرحمن ندوی اور مولانا ضیاء الدین قاسمی ندوی کے مضامین ہیں ، جن میں ان حضرات نے مولانا کے ساتھ تعلقات اور ان کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا ہے۔
پانچواں مضمون مرتب کتاب مولانا قاری محمود عالم بلیّاوی کا ہے ، جس میں انھوں نے اپنے مراسم وتعلقات کی داستان ابتداء سے مولانا کی اخیر حیات تک دلچسپ انداز میں بیان کی ہے ، جس میں ان کی خصوصیات وکمالات ، عادات واطوار، ذوق ومزاج کی جھلکیاں اور زندگی کے لائق عمل نمونے سامنے آتے ہیں ۔ قاری صاحب کا مضمون ١٣ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد مولانا وسیم احمد شیروانی کا مضمون ہے جس سے مولانا کے ذوق علم ، تفسیری نکات کی گرہ کشائی اور عربی عبارات کے ترجمہ پر قدرت ،طلبہ کی تربیت اور ان کے تئیں مولانا کی فکرمندی کا علم ہوتا ہے۔ مفتی منیر احمد بلیّاوی کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا سے ان کا بہت قریبی ربط وتعلق تھا ، ان کے مضمون سے مولانا کا انداز تدریس بالخصوص میبذی ،شرح جامی اور شرح تہذیب کے درس کی کیفیت ، مولانا کا ذوق ومزاج ، عادات واخلاق ،طنز ومزاح ، شعر وادب سے لگاؤ اور قلمی سرگرمیوں کا علم ہوتا ہے۔حافظ محمد خالد صاحب استاذ جامعہ کا مضمون بھی خاصا تفصیلی ہے اور مولانا کی زندگی کے بیشتر احوال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
مفتی محمد اصغر علی اور قاری صاحب کے صاحبزادے مولانا سلمان محمود کے مضامین بھی کافی تفصیلی ہیں ، جس میں مولانا کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی داستان ہے ۔ دیگر مضمون نگاروں میں مفتی محمد صادق مبارکپوری ، مولانا شاکر عمیر معروفی ، مولانا وسیم شاہد دھنبادی ، مولوی عفان بہرائچی ، مولوی نسیم ظفر بلیّاوی ، مولوی آفتاب الدین پرتاب گڈھی ہیں ۔ آخری مضمون مولانا مطیع اﷲ مسعود معروفی کا ہے، جس میں مولانا کا ایک خط جو ان کے صاحبزادے کے نام ہے ، بڑے کام کی چیز ہے۔
مضامین کے بعد پانچ تعزیتی تحریریں ہیں ، جن میں سے چار منظوم ہیں ۔ ١۔ مولانا حافظ قمر الدین نوناروی کی تعزیتی نظم ہے جو پچاس سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ ٢۔قاری محمود عالم بلیّاوی کا منظوم تعزیت نامہ ہے۔ ٣۔مولانا انصار احمد معروفی کی تعزیتی نظم ” ہدیۂ منظوم ” ہے۔ ٤۔ مفتی منیر احمد بلیّاوی کی نظم ” نالۂ غم ” ہے۔ ٥۔ مدرسہ سراج العلوم پورہ معروف کے ناظم کا تعزیتی خط مولانا مرحوم کے صاحبزادگان کے نام ہے۔ مولانا پر لکھے گئے مضامین ومقالات ، مرثیے اور تعزیتی تحریریں صفحہ ٢١٤ تک ہیں ۔
صفحہ ٢١٥ سے اخیر تک خودمولانا کی نگارشات اور قلمی فتوحات ہیں۔ سب سے پہلے مولانا کے دو مکالمے ہیں ،ایک ” مکالمہ قرآنی آیات ” اور دوسرا ”نیتاجی و ملاّجی ) ہے ۔ اس کے بعد ١٢ خطوط ہیں جن میں بیشتر مفتی منیر احمد بلیّاوی اور مولانا عیاض احمد قاسمی کے نام ہیں ۔اس کے بعد مولانا کا سفرنامہ حج ” نسیم حجاز ” مکمل شامل کردیا گیاہے ،جو ایک مستحسن عمل ہے ، یہ سفرنامہ بیس سال پہلے شائع ہوا تھا اور اب کمیاب ہے، اس طرح اب وہ پھر عام ہوجائے گا۔
اخیر میں مولانا کی ایک دو صفحہ کی چار تحریریں شامل ہیں، جن کی نوعیت خود نوشت کی ہے۔
اس کے حصول کے لئے مرتب کتاب سے رابطہ کریں۔
اس کی ترتیب واشاعت پر قاری صاحب ہم سب کے شکرئیے کے مستحق ہیں، انھوں نے جو کچھ پیش کیا، انتہائی بنیادی کام ہے ، اب آگے مولانا مرحوم پر جو کچھ بھی کام ہوگا اس کی اساس وبنیاد یہی مجموعہ ہوگا اور آئندہ مولانا مرحوم کے بارے میں یہ حوالہ اور مآخذ بنے گا۔
مولانا کی تاریخ ولادت جنوری ۱۹۴۱ء ہے،بعض مضمون نگاروں نے ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۳ء لکھ دیا ہے۔ایک جگہ مفتی محمد یاسین صاحب مبارکپوری کو رسولپوری لکھا گیا ہے، اگلے ایڈیشن میں ان کی تصحیح ہوجائے۔
ضیاء الحق خیرآبادی
Maulana Abdul Sattar Maroofi Hayat o Khidmat, مولانا عبد الستار معروفی حیات وخدمات