نام کتاب: مسند الحارث بن محمد بن أبي أسامة (186-282)
تحقیق وتخریج: مولانا ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی
حارث بن محمد بن أبی اسامہ مشہور حافظ حدیث تھے، ان کی ولادت صحاح ستہ کے مصنفین سے پہلے کی ہے، لیکن وفات اکثر کے بعد ہوئی ہے، ان کے بہت سے شیوخ حدیث ایسے جن سے امام بخاری وغیرہ بالواسطہ روایت کرتے۔ ان کا تصنیف کردہ یہ مجموعۂ حدیث صدیوں تک ائمہ حدیث ومحدثین کے درمیان معروف ومتداول رہا ہے، لیکن بعد کے دور میں اس کے نسخے نایاب اور ناپید ہوتے چلے گئے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ محدث کبیر مولانا ابو المآثر حبیب الرحمن الاعظمی علیہ الرحمہ کی ملک میں تھا، جو ان کا حرف حرف پڑھا ہوا ہے، اور جگہ جگہ ان کے حواشی سے مزین ہے، حضرت محدث الاعظمیؒ نے حدیث کی دوسری کتابوں پر اپنی تعلیقات میں اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔
حضرت کو یہ نسخہ اس وقت ملا جب وہ علامہ طاہر پٹنی کی کتاب’’مجمع بحار الانوار‘‘ کی تحقیق کے سلسلہ میں ان کے وطن پٹن گجرات تشریف لے گئے تھے ، وہاں کی لائبریری میں انھوں نے یہ کانسخہ دیکھا تو لائبریری کے ناظم سے اجازت لے کر اسے اپنے وطن لے آئے اور اس کا دوسرا نسخہ اپنی نگرانی میں تیار کروایا اور اصل سے اس کا موازنہ ومقارنہ کیا ،اور اصل کو بحفاظت پٹن بھیج دیا۔ اس نسخے کے علاوہ علمی دنیا میں اس کے کسی اور نسخے کا سراغ نہیں ملتا،اس سے اس کی ندرت، اہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ ہوتا ہے، اور اس کے نادر و نایاب ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ علامہ اعظمی کو اپنے دوسرے علمی مشاغل کی وجہ سے اسے ایڈٹ کرنے کا موقع نہ مل سکا ۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا رشید احمد الاعظمی کی تحریک وتشجیع پر ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی نے اس کی تحقیق وتخریج کا کام شروع کیا۔اہل علم جانتے ہیں کہ ایسی کتاب کی تحقیق جس کا کوئی دوسرا نسخہ نہ ہو کس قدر مشکل اور دشوار کام ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جوہر اسی دشواریوں میں کھلتے ہیں،ایسے ہی لوگوں میں محقق کتاب بھی ہیں ، جن کامختصر تعارف اسی سلسلہ کی قسط 58 میں ان کی کتاب ’’ پیکر مہرووفا‘‘ کے تعارف کے ضمن میں آچکا ہے۔
انھوں نے اس نسخہ کی ایک ایک حدیث کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اس کی ایک ایک روایت کو حدیث شریف کے دوسرے مجموعوں میں موجود روایتوں سے مقابلہ کرکے تصحیح، تخریج اور تعلیق وتحشیہ کی خدمت انجام دی اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھا، جس میں مصنف کتاب کے حالات زندگی ، ان کا علمی مقام اور محدثین کے درمیان اس مسند کی اہمیت ومقبولیت کے ساتھ ان تمام شیوخ کی مختصر سوانح بھی لکھی جن سے مصنف نے روایت کی ہے،ان شیوخ کی تعداد 93 ہے۔ ہر ایک کی سوانح کے بعد ان سے مروی احادیث کی تعداد بھی لکھی ہے ، جیسے پہلا نام احمد بن اسحاق کا ہے ، ان سے 8؍ حدیثیں مروی ہیں ۔غرض اس کو بہتر سے بہتر بنانے میں اپنی تمام امکانی کوشش صرف کی گئی ہے۔2019ء میں یہ کتاب نہایت اہتمام اور آب وتاب کے ساتھ پانچ جلدوں میں جائزۃ دبی الدولیۃ للقرآن الکریم سے طبع ہو کر شائع ہوئی ہے۔
جلد اول 522؍ صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں 652؍ احادیث ہیں ۔
جلد دوم448؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں کل 625؍ احادیث ہیں ۔
جلد سوم344؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں کل 485؍ احادیث ہیں ۔
جلد چہارم572؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں کل 829؍ احادیث ہیں ۔
جلد پنجم440؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں کل416؍ احادیث ہیں ۔ اس جلد میں صفحہ 239 سے اخیر تک دو سو صفحات میں فہرست ہے۔
ابتداء میں مولانا رشید احمد لاعظمی کے تمہیدی کلمات ہیں۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث وشعبۂ تخصص فی الحدیث کے صدر مولانا نعمت اللہ الاعظمی مدظلہ کی تحریر ہے جس میں ا ختصار کے ساتھ تدوین حدیث کی تاریخ ، علم حدیث سے علماء ہند کا اشتغال اور اس کتاب کی اہمیت پر گفتگو کی گئی ہے۔
اس کتاب کی تحقیق وتعلیق پر ڈاکٹر صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی سعی وکاوش سے پہلی مرتبہ یہ کتاب علمی دنیا کے سامنے آئی ۔ عمدہ ونفیس کاغذ اور شاندار ودیدہ زیب طباعت کے ساتھ اس کی اشاعت ناشرین کے حسن ذوق کا ثبوت ہے۔