مولانا مستقیم احسن اعظمی( و:1939ء) شیخوپور اعظم گڑھ کے رہنے والے ایک صاحب نظر عالم وفاضل ہیں ، تقریباً پچپن سال سے ممبئی میں مستقل قیام پذیر ہیں، اپنی سرگرم قومی وسماجی ا وررفاہی خدمات کی وجہ سے ممبئی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ پچھلے بارہ سال سے جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹر کے منصب صدارت پر فائز ہیں۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں ہوئی جو اس وقت ابھی بالکل ابتدائی حالت میں ایک معمولی مکتب تھا ۔ اس کے بعد جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں فارسی اور عربی متوسطات تک تعلیم حاصل کرکے مدرسۃ الاصلاح چلے گئے ، وہاں دوسال پڑھنے کے بعد دارالعلوم دیوبند گئے جہاں شعبان 1381(1962ء) میں مولانا سید فخرا لدین احمد علیہ الرحمہ سے بخاری شریف پڑھ کر سند فضیلت حاصل کی ۔ اس کے بعدندوہ میں تخصص فی الادب میں داخلہ لیا ، مگر اس کی تکمیل نہ ہوسکی ، اور جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں درس وتدریس سے منسلک ہوگئے ، اس وقت برصغیر کے عظیم تصنیفی مرکز دارالمصنفین اعظم گڑھ سے بھی گہرا تعلق قائم ہوگیا جو اب تک باقی ہے، اس کی وجہ سے تحریری صلاحیتوں میں دن بدن نکھار آتا گیا ۔ اس زمانہ میں ان کے کئی مضامین مولانا قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنے رسالہ ’’البلاغ‘‘ میں شائع کئے ۔ شعر وشاعری سے بھی لگاؤ تھا ،باقاعدہ فخر مشرق شفیق جونپوری کےحلقۂ تلمذ میں داخل ہوگئے ، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں برقرار نہ رہ سکا۔ شفیق جونپوری کی وفات کے بعد ان پر شائع ہونےوالے ایک مجموعۂ مضامین میں مجھے مولانا کامضمون دیکھنایاد ہے جو اس مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔
ممبئی جانے کے بعد وہاں کی مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی میں قلم وقرطاس سے وہ تعلق باقی نہیں رہا ، پھر بھی لکھنے پڑھنے کا جو فطری ذوق تھا اس کی وجہ سے گاہے بگاہے کسی پروگرام کی وجہ سے یا کسی تقاضے پر مولانا کچھ نہ کچھ لکھتے رہے ، اس میں سے جو کچھ محفوظ رہا وہ ان کے لائق وفائق صاحبزادے مولانا محمد عارف عمری کی ترتیب اور ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی توجہ وعنایت سے ’’ متاع نقد ونظر ‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آگیا ۔
متاع نقد ونظر مولانا اعظمی کے ۲۰؍ علمی ، ادبی ، تاریخی ، تنقیدی اور مذہبی مضامین ومقالات کامجموعہ ہے ، جو تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ حصہ اول کا عنوان ’’اشخاص وافکار ‘‘ ہے ، حصہ دوم کا ’’ بحث ونظر ‘‘ اور حصہ سوم کا ’’ خطبات ‘‘۔ حصہ اول میں سات مقالات ہیں ، پہلا مقالہ امام حریت حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ پر ہے ، جس میں ان کی تحریک ریشمی رومال اور تحریک آزادی میں ان کی قربانیوں اور خدمات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ دوسرا ’’ حضرت نانوتوی اور سرسید کے تعلقات پر ایک نظر ‘‘ہے ، اس میں ان دونوں بزرگوں کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور سرسید کا وہ مضمون نقل کیا گیا ہے جو انھوں نے مولانا نانوتوی کی وفات پر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں لکھا تھا ۔ یہ مضمون اہل مدارس اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ دونوں کے لئے بہت اہم ہے۔
تیسرا مقالہ ’’ مولانا شبلی اور تحریک ندوۃ العلماء ‘‘ ہے ، جس میں تحریک ندوہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے لئے علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ کی گئی جد وجہد اور قربانیوں کا ذکر ہے ، اس مقالہ کے اخیر میں مولانا لکھتے ہیں
مولانا شبلی کا ندوہ سے علاحدہ ہونا درحقیقت تحریک ندوہ کا خاتمہ ہے ، اور اسی پر یہ عظیم تحریک ایک مدرسہ کی صورت میں سمٹ کر رہ گئی ، جب کہ ایک صدی سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باوجود آج بھی اس کی ضرورت ہے ۔ (ص:۴۴)
اس کے بعد ایک دلچسپ مضمون ’’ مولانا ابوالکلام آزاد اور نظریۂ متحدہ قومیت ‘‘ ہے ۔ اس کے بعد بالترتیب مولانا سید اسعد مدنی ، مولانا حامد الانصاری غازی اور ڈاکٹر عبدالستار دلوی پرتاثراتی مضامین ہیں ، اول الذ کر دونوں مضمون ان بزرگوں کی وفات کے موقع پر لکھے گئے ۔
دوسرے حصہ میں دس مقالات ہیں
۱۔ سرسید کی تحریک کا سیاسی پس منظر ،۲۔مولانا آزاد کا انانیتی ادب ،۳۔۱۸۵۷ء کا انقلاب اور ہندوستان کے مسلم عوام ،۴۔ ایران کا اسلامی انقلاب ،۵۔مذہب اور انسانیت کاا ٹوٹ رشتہ ، ۶۔ ہندوستان میں عربی زبان کی اہمیت ،۷۔ قادیانی مذہب کا تاریخی پس منظر ،۸۔شخصیت پرستی ،۹۔ قوم سبا ( ایک عبرت آموز تاریخی حقیقت)، ۱۰۔ یوم الفرقان ۔ اس حصہ کو پڑھ کر مولانا اعظمی کے افکار وخیالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔
تیسرے حصہ میں تین خطبات ہیں ، جن میں سے ایک یوپی بیت الحجاج کی تعمیر کی طرف باشندگان یوپی کو متوجہ کرنے کے سلسلہ میں ہے ۔ دوسرا ایک عید ملن تقریب میں دیا گیا خطبہ ہے۔ تیسرا آزادی کی پچاسویں سال گرہ کی مناسبت سے ہے۔ اول الذکر دونوں خطبے اسی وقت1979ء میں رسالہ کی شکل میں شائع ہوگئے تھے ۔ اس پر مولانا کی ایک مختصر سی تمہید بھی ہے ، اس کا ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیں اور مولانا کی سلیس وشگفتہ نثر اور پرشکوہ الفاظ وعبارت کا لطف لیں
’’ پندرہ سالوں سے علمی وادبی راہ کو یکسر ترک کر کے کاروبار کی چکی میں اس طرح نتھ کر رہ گیا ہوں کہ اب ضروری خطوط لکھنا بھی طبیعت پر گراں ہوتا ہے ۔مگر ایک نیک مقصد کی لگن اور ایک ناگزیر ضرورت کے شدتِ احساس نے ان چند سطروں کوقلم بند کرنے پر مجبور کیا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ عظمت مقصود نے میری ژولیدہ بیانی کو اپنے پر توِ نور سے کچھ اس طرح نوازا کہ بارگاہ رب شکور سےبے پناہ شرف قبول حاصل ہوا۔ سیکڑوں اصحاب ذوق نے ان کو نقل کرنے کی خواہش اور سیکڑوں ارباب نظر نے ان کی اشاعت کے لئے زور دیا۔‘‘(ص:۱۵۴)
کتاب خریدیں
Mata e Naqd o Nazar Maqalat Maulana Mustaqim Ahsan Azmi, متاع نقد ونظر