حضرت الشیخ مولانا محمد یونس صاحب جونپوری ثم السھارنپوریؒ نے علم ومطالعہ اور درس وتدریس اور إفادہ عام کے لئے اپنے آپ کو جیسے وقف کر دیا تھا ،علم اور خاص کر علم حدیث آپ کی پہچان اور علامت بن گئی تھی، آپؒ کی قیامگاہ چہار جانب کتابوں سے اس طرح مزین تھی کہ لگتا تھا دیواریں بھی کتابوں سے اٹھا ئی گئی ہیں ،ہر طرف کتابیں وہ بھی اہم مراجع ومصاد ر کی، بڑی قیمتی کئی کئی جلدوں پر مشتمل جن کا خریدنا اور جمع کرنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اور نہ ہر ایک کیلئے ضروری ہے، چہ جائے کہ اس کا مطالعہ، اس سے استفادہ اور اس پر تبصرہ وتعلیق، یہ تو اچھے اچھوں سے نہیں ہو پاتا چاہے، وہ برسہابرس سے مدارس سے جڑا رہا ہو، درس وتدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ ہو اور تلامذہ کی ایک بڑی تعداد اس سے مستفید ہوچکی ہو اور اس کی طرف اپنا انتساب کرتی ہو۔
اس کیلئے تو ہمارے حضرت الشیخ جیسا فنا فی العلم انسان ہی چاہیے، جسکی رہبری اسکا پروردگار کر رہا ہو، جس کیلئے علم اورمطالعہ صرف ذوق وشوق نہیں بلکہ عبادت اور روحانیت کے اعلیٰ درجات کے حصول کا ذریعہ ہو، جسکا صرف دل ودماغ ہی نہیں بلکہ اسکا جسم اور اسکا مزاج بھی کتابوں اور مطالعہ سے وابستہ ہوگیا ہو ۔
ذیل میں ان کے کچھ صفات حمیدہ کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
تعلیم وتعلّم:۔
یہ حضرت ؒ کی پوری زندگی کا خلاصہ وماحصل ہے کہ جب سے حصول علم سے وابستہ ہوگئے ،پھر اللہ تعالیٰ نے ظاہری اسباب کے بالکل نہ ہونے کے باوجود بھی اسی سے جوڑے رکھا پوری زندگی اسی میں گزار دی ،رات دن اسی کا معمول اور یہی مشغلہ ، یہی عبادت ، اسی سے تزکیہ واحسان کے مراحل کا طے کرنا ، جب دیکھئے کتاب ہاتھ میں لئے یا تپائی پر رکھے مطالعہ کررہے ہیں، اور اطراف میں کتابیں ہیں ،اور پھر اپنے تلامذہ کو مستفید کرنا ،درجہ جب تشریف لاتے تو پھر علم کا سمندر بہنے لگتا ،شیخ کی مرتب تدریس کہ آپ فرماتے رہیں اور ہم لوگ سنتے رہیں، جب تک حضرت والا کی صحت قابلِ تحمل رہی ایسا ہی درس جاری رہتا اور اس میں نت نئے علمی تحقیقی نکات بیان کئے جاتے رہتے کہ وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا
تحقیق و تتبع:۔
آپؒ کے مزاج میں تحقیق کا مادہ تھا، شراح ومحققین میں سے کسی ایک کے نقل کرنے پر کلی اعتماد کرکے نہیں بیٹھ جاتے یا اپنے اساتذہ ومشائخ کی بات کو حرفِ آخر سمجھ کر اُس سے آگے قدم بڑھانے کو بے ادبی اور حصولِ علم سے محرومی کا سبب نہیں سمجھتے تھے ،بلکہ ان سے محبت، ان کی قدر اور ان کے پورے احترام کے ساتھ صحیح بات اور حق کی تلاش میں لگے رہتے، اس کیلئے یہ کوشش کرتے رہتے کہ فلاں نے یہ بات لکھی ہے یا نقل کی ہے، تو انھوں نے کہاں سے نقل کیا ،انھوں نے فلاں کتاب سے لی تو اس کتاب میں کہاں سے آگئی ،اسکا تتبّع کرتے پھر کہیں نقل کرنے میں یا اُن حضرات کے سمجھنے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی ،تو اسکی تحقیق کرتے اورصحیح بات اور صحیح نتیجہ تک پہونچنے کی حتی الإمکان کوشش کرتے، اسمیں کبھی اپنے مشائخ یا متقدم علماء پر ایک طرح کا نقد یا اعتراض بھی ہوجایا کرتا، جس کوبعض کم علم یا ظاہر بیں حضرات سوء ادب پر محمول کرتے، جبکہ وہ دراصل حق کو ظاہر وواضح کرنے کی کوشش ہوتی، والحق أحق أن یُتّبع شیخ تو اپنی محبوب اور بڑی محسن کتاب فتح الباری کے بارے میں جوکہ اچھے اچھے فاضل ومحقق علماء کے لئے مرجع اور حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے، فرمایا کرتے تھے ’’میں سب باتیں فتح الباری سے بیان نہیں کرتا ہوں بلکہ چُنتا ہوں اسلئے قدر کرنا چاہیے‘‘ اسی طرح ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’میں کوئی بات کہتا ہوں تو نقل کی بنیاد پر کہتا ہوں، جذبات کی بنیاد پر نہیں‘‘ اسی طرح فرمایا کہ ’’جب ہم کسی کا وہم بیان کرتے ہیں، تو اسکا مقصد صرف یہ ہوتاہے کہ آدمی اس کے وہم میں مبتلا نہ ہو ، یہ نہیں کہ کسی کی تحقیر مراد ہے ، کسی کی غلطی اسلئے بیان نہ کی جائے کہ اس نے غلطی کی ہے بلکہ اسلئے کہ دوسرے اس میں مبتلا نہ ہوں، ائمہ پر تحقیق کے لئے اعتراض کوئی بات نہیں لیکن اگر تنقیص کی نیت سے کی جائے تو اچھی بات نہیں ہے، اسی طرح ایک مرتبہ اپنے تعلق سے فرمایا کہ ’’جب میں بڑوں کی کسی بات پر اعتراض کرتا ہوں تو نیتِ اعتراض سے پرہیز کرتا ہوں، اللہ سے ڈرتا ہوں، صرف تحقیق کی نیت سے بتاتا ہوں‘‘ احادیث احکام کی تشریح میں اختلافات أئمہ کو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے ، شیخ فرماتے تھے کہ ’’ اختلافات ائمہ اس لئے بیان کیا جاتا ہے کہ عادت پڑی ہوئی ہے اور مشائخ بیان کرتے تھے ،أئمہ اربعہ کے اقوال اسلئے بیان کئے جاتے ہیں تاکہ کچھ تسہیل ہو، اور بھئی ہم تو تراجم کو سمجھانے کیلئے بتاتے ہیں ،بہر حال ائمہ کے اقوال سے تسلی ہوتی ہیں‘‘۔
بہر حال شیخ کا مزاج تھا تحقیق وتتبع کا بسا اوقات کسی حدیث یا اسکے صحیح مقصود تک پہونچنے کے لئے سالوں محنت کرتے رہتے ، اور مختلف کتابیں کھنگال کر صحیح نتیجہ تک پہونچنے کی کوشش کرتے ،آپ فرمایا کرتے تھے ’’کسی کا اجتھاد نص کے خلاف اسکے حق میں تو معذرت بن سکتا ہے دوسروں کے حق میں نہیں‘‘۔
تنقید وتبصرہ:۔
اسی طرح شیخ کا مزاج خالص علمی تھا، اور جن کا مزاج و ذوق علمی ہوتا ہے خاص کر فن اسماء الرجال اور جرح وتعدیل وغیرہ کی کتابوں سے واسطہ پڑتا ہے، تو ان کو تنقید وتبصرہ کرنا پڑتا ہے، کھرے کھوٹے کی تمیز کرنی پڑتی ہے اور اسکو دیانۃً اپنے تلامذہ وشاگردوں کو بتانا پڑتاہے، بعض محدود ذہن والے اس کو ھضم نہیں کرپاتے، ہمارے حضرت الشیخ بھی گاہ بگاہ اپنے دروس یا مجلس میں بقدر ضرورت اس طرح کی باتیں فرما تے رہتے تھے، اوراس کو علمی دیانت سمجھتے تھے ،ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’میں دیانۃً اچھی طرح پڑھانا چاہتا ہوں اور اس قول کو تو بار بار نقل کرتے تھے ’’کُلّ یؤخذ ویترک إلا رسول اللہ ﷺ‘‘ اور اس فن میں جن علماء کی کتابوں سے فائدہ پہنچا، انکا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ’’مجھے نقد حدیث میں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ ،امام ذھبی، علامہ ابن القیم ؒ ابن عبدالھادی ؒ ابن رجب ؒ اور ابن حجرؒ وغیرہ کی کتابوں سے فائدہ پہنچا”، دو سال قبل ۱۴ ؍اگست ۲۰۱۵ ء کو سہارنپور حضرت والا کی خدمت میں ایک دو دن کے لئے حاضر ہوا تھا تو علامہ ابن تیمیہ ؒ کی کتابوں کا تذکرہ کرتے ہوئے امام ذھبی کی کتابیں خصوصاً ان کی میزان الاعتدال، ابن رجب ؒ و ابن عبد الھادیؒ کی کتابیں علامہ ابن القیم ؒ کی کتابیں خاص کر زاد المعاد اسی طرح علامہ زیلعیؒ کی نصب الرایۃ اور ابن کثیر ؒ وابن حجرالعسقلانی ؒ کی کتابوں کا تذکرہ کرتے کرتے اپنے اس مبتدی شاگرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں اسلئے کہہ رہاہوں کہ شاید تم ان سے فائدہ اٹھاؤ‘‘ ایک مرتبہ تخریج احادیث کے لئے امام زیلعیؒ کی نصب الرایۃ ،حافظ صاحب کی الدرایۃ اور البدر المنیر دیکھنے کے لئے کہا اور دین کی ابتدائی اور عمومی معلومات کے تعلق سے فرمایا کہ مشکوٰۃ المصابیخ دیکھ لی جائے اور علمی و تفصیلی معلومات کیلئے فتح الباری ۔
اُسی سال یعنی ۲۰۱۵ ء ماہ اپریل کے ایک سفر میں حاضری کے موقع سے ارشاد فرمایا کہ’’میری حدیث کی سندیں شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ مولانا اسعد اللہ صاحب ؒ مولانا منظور صاحبؒ سہارنپوری اور دوسرے اساتذۂ مظاہر علوم سے ہیں اور حدیث کے معانی ومفاھیم کی اسانید تو علامہ ابن تیمیہؒ ابن عبد الھادی ؒ ابن رجب ؒ ابن کثیر ؒ ذھبی ؒ ابن حجر عسقلانیؒ امام زیلعیؒ اور ابن دقیق العیدؒ وغیرہ کی کتابوں سے ہے‘‘ نیز فرمایا کہ ابن عبد الھادی ؒ کی کتابیں کم ہیں لیکن اسمیں بہت سی اچھی چیزیں ملیں‘‘۔ ان حضرات کی کتابوں کا جن لوگوں نے مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہے، کہ انکے یہاں علمی تنقید کا کیسا رنگ ہوتا ہے، اسی لئے حضرت الشیخ ان حضرات کی تعریف بھی کرتے رہتے تھے کہ ان حضرات کے یہاں عقیدت ومحبت میں غلو نہیں تھا، اور علمی تنقید کو خلاف عقیدت واحترام نہیں سمجھا جاتا تھا، یہی حال ہمارے حضرت الشیخ کا تھا کہ تنقید وتبصرہ کو عقیدت ومحبت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے، کہیں کسی قول کو رد کرتے ہوئے کسی کی تحقیق پر سخت نقد کیا تو دوسری مرتبہ کسی موقع پر انکی تعریف بھی کردی، ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد کا واقعہ سنایا کہ وہ اپنے استاد یعنی حضرت الشیخ ؒ پر سخت ناراض ہوئے اور حضرت بھی ان پر، پھر دس سال بعد انکا خط آیا کہ آپ بزرگوں پر رد کرتے تھے، اس پر میں ناراض ہوتا تھا، لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ حق پر تھے، اسلئے آپ مجھے معاف فرمائیں، میں نے جواب میں لکھا کہ میں نے تمھیں معاف کردیا،لیکن تمھیں علم نہیں آئے گاکہ میں تنقید کرتا تھا تحقیق کی وجہ سے نہ کہ تنقیص کی وجہ سے، ہمارے دل میں ان کا احترام رہتا ہے ۔
اسی طرح کتابوں اور شخصیات پر آپ کے تبصرے بھی بڑے وقیع ہوتے تھے، صاحب کشاف جن کا شمار ائمہ معتزلہ میں ہوتا ہے، ان کے بارے میں ایک مرتبہ فرمایا ’’لغت نحو وصرف بلاغت اور حدیث کے امام تھے، غریب الفاظ الحدیث پر بڑی نظر تھی، پھر فرمایا معتزلی تھے، لیکن انکے علم اورمہارت وبراعت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اور صرف اعتزا ل کی بنا پر ان کو چھوڑنا اور انکے علوم سے استفادہ نہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
مشہور محدث و فقیہ اور شارح مسلم علامہ نووی کے بارے میں فرمایا کہ ’’اللہ نے ان میں بڑی برکت رکھ دی تھی، بڑے ہی زاھد ومتقی ، ان کی عبارتیں آسان ہوتی ہیں، اور اس میں تسلسل پایا جاتا ہے، مختصر سی عبارت میں تمام مطالب اور ضروری باتیں بیان فرماتے ہیں، لیکن قاضی عیاضؒ ان سے فائق ہیں، اور کبھی کبھار امام نوویؒ اپنی عبارت میں پورے مطالب پیش نہیں کر پاتے تو قاضی عیاض کی عبارت نقل کردیتے ہیں–
اسی طرح قاضی عیاض ؒ کے بارے میں فرمایا کہ انکا علم اور اسلوب بہت بلند ہے، اور فرمانے لگے کہ کیسے بلند معانی اخذ کرتے ہیں، سیرت رسولﷺ پر لکھی گئی ان کی کتاب الشفا کی بڑی تعریف کی اور مجھے اس کے مطالعہ کا بھی حکم دیا۔
فقہ حنبلی بلکہ فقہ اسلامی کی ممتاز کتاب ’’المغنی‘‘ کے مصنف علامہ موفق بن قدامہ ؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فقہ وحدیث پر ان کی بڑی نظر ہے، اور باریک باریک مسائل کا بھی اچھا استحضار ہے۔
ایک مرتبہ اس عاجز کی حاضری کے موقع سے امام شافعی کی جلالت شان، علمی مقام، لغت وادب پر عبور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امام صاحب اگر کوئی بات بغیر دلیل بھی کہیں تو لوگ خاموش ہوجاتے ہیں، اور اس کا توڑ مشکل ہوجاتا ہے، پھر فرمایا کہ آپ اصیل النسب او رعالی الھمہ تھے، عرب کے صحرا وبادیہ میں جاکر اصل عربی زبان کی تحصیل کی تھی، اس کے بعد اپنے خاص انداز میں ارشاد فرمایا کہ لیکن حدیث میں امام احمد ؒ اور اسحاق بن راہویہ کا پایہ ان سے بلند تھا اور محدثین اس سلسلہ میں کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے،
فروری۲۰۱۴ ء کی ابتدائی تاریخوں میں ایک دو دن کے لئے حضرت الشیخ کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا، حضرت کی طبیعت ناساز چل رہی تھی اورٹھنڈک بھی زیادہ محسوس ہورہی تھی تو اپنے اس مبتدی شاگرد سے کمرے ہی میں چند شاگرد وخدام کی موجودگی میں جمعہ پڑھانے کا حکم دیا، مختصر خطبہ اور نماز کے ذریعہ حکم کی تعمیل کی گئی، اس کے بعد ہم لوگ وہیں بیٹھ گئے تو باتوں باتوں میں اپنے اس مبتدی شاگرد سے محبت وتعلق کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمھاری قرأت مجھے بہت پسند ہے، تمھارے قرآن پڑھنے سے دل لگتا ہے اور دوسری وجوہات کے ساتھ ایک عجیب وجہ یہ بیان فرمائی کہ اور تم شافعی ہو اگر میں کسی امام کی مکمل تقلید کرتا تو امام شافعی کی کرتا لیکن میرے امام تو محمد بن اسماعیل البخاری ہیں ۔
اپنے محسن استاذ ومر شد شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’حضرت شیخ میں عبدیت اور عشق رسول ﷺ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اوپر سے بات آتی تھی۔
ہمارے حضرت الشیخ علامہ جونپوریؒ کو علامہ شبلی ؒ سے بھی بڑی محبت تھی، علامہ شبلی ؒ کن راستوں کو طے کرتے ہوئے درِ رسالت ﷺ کی چوکھٹ پر آکر پڑگئے تھے اس سے بھی آپ خوب واقف تھے :
مگر اب لکھ رہاہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
اور قرآن مجید کا بتایا ہوا قانون (إن الحسنٰت یذھبن السیٰات) پر نظر تھی، اسلئے آپ علامہ شبلیؒ کے بڑے قائل اور سیرت النبیﷺ کے بڑے مدّاح تھے، آپ فرماتے تھے کہ سیرت النبیﷺ میں علامہ شبلی ؒ کا اخلاص نظر آتا ہے، اسی طرح ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’علامہ نے دفاع عن الرسول کے لئے لکھی تھی اس لئے بہت چلی علامہ ایک نئے اسلوب کے بانی تھے، اور دوسرے حضرات ان کے شاگرد ومقلّد، ریزہ ریزہ کو چن کر جمع کرتے ہیں، ذھن تخلیقی تھا ادبی اسلوب میں ایجاز کے ساتھ لکھتے ہیں۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ کے بارے میں ارشاد فرمایا، سید صاحب صرف عالم ہی نہیں علامہ تھے، اسی کے ساتھ تصوف کا ایک زبرست حصہ عطا فرمایا گیا تھا، سید صاحب میں بندگی اور عبدیت جھلکتی ہے، بقدر ضرورت الفاظ کا استعمال اور معانی بھر پور، کتابوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں، احادیث پر اچھی نظر ہے بڑے ذی علم متواضع اور اخلاقِ عالیہ کے حامل تھے۔
اپنے ایک سینیر دوست اور فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین صاحبؒ کے چھوٹے بھائی مولانا اطہر حسین صاحب ؒ جو عربی کے بڑے اچھے ادیب وشاعر تھے بڑے متواضع اور خلوت پسند، ان کے بارے میں فرمایا بڑے ہی صائب الرائے، مخلص اور صاحب فراست تھے، تعبیرِ خواب میں بڑی مہارت تھی، اس طرح کے ہمارے حضرت الشیخ کے تبصرے بہت ہیں، جس کے لئے خود ایک کتا ب درکار ہے۔
اسی طرح بڑی بڑی اہم کتابوں پر آپ کے جو دو تین جملے میں تبصرے ہوتے تھے، گویا عطر کشید کردیتے اور وہ کتاب جو کسی بڑی کتاب کو سامنے رکھ کر یا دو ایک کتابوں کے خلاصہ کے انداز میں لکھی گئی ہو اس پر بھی ایک دو جملوں میں زبرست ریمارک کردیتے تھے ۔
بخاری کی ایک شرح کے بارے میں جو خاصی مقبول و متداول ہے، فرمایا کہ انھوں نے دو بڑی شرحوں کو سامنے رکھ کر لکھا ہے، لیکن جہاں انھوں نے غلطی کی ہے وہاں یہ بھی ٹھوکر کھا گئے ہیں، امام ابن حجرؒ کی تقریب کے بارے میں فرمایا کہ امام مزّیؒ کی کتاب نہ ہوتی تو تقریب کا وجود نہ ہوتا، اپنے محبوب محقق اور بخاری شریف کے عظیم شارح علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ کے تعلق سے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا ’’ابن حجر پوری دنیا پر حاوی نہیں تھے لیکن کام بہت کیا ہے‘‘۔
تصحیح وتنبیہ:۔
حضرت الشیخ کی ایک اہم صفت یہ تھی کہ آپ اپنے تلامذہ ومتعلقین کی اصلاح وتربیت کے لئے انکی غلطیوں پر تنبیہ فرماکر اسکی تصحیح واصلاح بھی فرماتے رہتے تھے، حدیث کی عبارت جب آپکے سامنے پڑھی جائے توآپ خطیبانہ اور مغنیانہ انداز دونوں کو ناپسند فرماتے تھے، فوراً کہتے کہ بھائی جلدی جلدی نرمی کے ساتھ پڑھو اسی طرح عبارت پڑھتے پڑھتے طالب علم غلطی کرجائے، اور حضرت اسکی تنبیہ نہ کریں یہ ہو نہیں سکتا تھا، فوراً متنبہ کرتے اور پھر اسکی تصحیح کرتے کہ یوں پڑھئے، اسی طرح جو آپکی خدمت میں رہتے ان کی چھی تربیت ہوجاتی تھی، بسا اوقات ایک بٹن کی جگہ دوسرا بٹن دبا دیتا تو ڈانٹ پڑ تی کتابوں کو بھی ایک ترتیب اور سلیقے سے نکالنا اور رکھنا پڑتا تھا، اس میں ذراسی غفلت ہوگئی تو پھر خاصی گرفت ہوجاتی بسا اوقات کپڑے پہننے اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز پر بھی تنبیہ فرماتے اور اسکا صحیح طریقہ بتاتے، ایک مرتبہ اپنے طلباء سے مخاطب ہوکر تنبیہی انداز میں فرمایا ’’اپنے آپ کو چھوٹا سمجھو، اپنے بڑوں کا احترام کرو، اگر ان سے کسی وجہ سے محبت نہیں تو بے ادبی نہ کرے، ہر ایک سے محبت نہیں ہوتی، اسی طرح ایک مرتبہ فرمایا ’’اگر استاد سے موافقت نہ ہو تو سکوت اختیار کیجئے‘‘ اسی طرح ایک مرتبہ متنبہ کرتے ہوئے فرمایا : ’’نیت صحیح کر لو ورنہ جیسے آؤگے ویسے ہی جاؤگے اور اس کا بدلہ جلد دیکھ لوگے ‘‘۔
تنوع و توسع:۔
حضرت والا کا مطالعہ بڑا متنوع تھا، اصلاً تو آپ کا موضوع حدیث و علومِ حدیث اور اس میں بھی اصل اوڑھنا بچھونا صحیح بخاری اور اس سے متعلق علوم کی کتابیں تھیں، لیکن آپ نے فقہ اصول فقہ ادب شعر وشاعری، تاریخ، تفسیر اصول تفسیر،سیرت وسوانح، نحو وصرف، علم کلام، عقائد وفرق وغیرہ سے متعلق چیزوں اور اسکی اہم کتابوں کا خوب مطالعہ کیا تھا، اور اکثر موضوعات کی اہم اور اصولی کتابیں آپ کی ذاتی لائبریری میں موجود تھیں، مدارس وجامعات کے ترجمان, ماہانہ رسائل، مصنفین اور مؤلفین کی طرف سے ارسال کردہ کتابوں پر ایک نظر ڈال لیتے تھے، اچھے ممتاز شعراء کے اشعار بھی خوب یاد تھے، جس کو حسب موقع وضرورت پڑھتے بھی رہتے تھے، ایک مرتبہ فرمانے لگے ’’میں درمیان درمیان میں اشعار پڑھتا ہوں تو تم لوگ کہتے ہوکہ یہ کیا بات ہے، یہ تمھاری جہالت ہے ورنہ ہم تو طالب علمی کے دور میں بھی اس طرح کی دلچسپیاں رکھتے تھے، علامہ اقبال ؒ کے اشعار پڑھتے تھے، میں علامہ اقبال، جوش، غالب وغیرہ کی کتابیں دیکھتا تھا، ملفوظات پڑھتا تھا ،مثنوی سے بہت محبت تھی، لیکن طالب علمی کے دور میں نہیں ملی ذرا ذرا وقت نکال کر اس طرح کی کتابیں پڑھتے رہنا چاہیے،(البتہ حضرت والا کو اِدھر چند سالوں سے مثنوی، اس کے مؤلف اور اس کے مضامین سے ایک سخت قسم کا تنفر پیدا ہوگیا تھا، جس کا اظہار بھی آپ فرماتے رہتے تھے، جبکہ آپ کے مشائخ اور علماء دیوبند کے ایک بڑے حلقہ میں مثنویِ مولانا روم کا شمار بڑی اہم اور مفید ونافع کتابوں میں ہوتا ہے) ۔
اسی طرح آپ کے علمی وعملی مزاج میں توسع تھا، طبیعت تو بڑی نازک پائی تھی ، اور مستقل امراض نے تو اور نڈھال کردیا تھا، مزاج کے خلاف ذراسی بات بھی بار خاطر ہوجاتی، لیکن علماً وذھناً مزاج و فکرمیں بڑا توسع تھا، اورعملی زندگی میں بھی موقع بموقع احادیث کی روشنی میں اس پر عمل پیرا ہوتے ۔
جبکہ آپ جس مدرسہ سے تعلیمی وتدریسی طور پر وابستہ ہوئے اور جہاں سے وابستگی دنیا کے ظاہری اسباب میں آپ کے نافع ہونے اور آپ کے فیوض علمی وروحانی کے دور دور تک پہونچنے کا سبب بنی، اس کا ایک علمی واعتقادی وعملی طریقِ کار ہے، جس کا وہاں کے بزرگوں نے ہمیشہ لحاظ رکھا ۔
ہمارے حضرت الشیخ بھی اس سے بالکل الگ تھلگ نہیں تھے، لیکن حدیث سے خصوصی تعلق اور اسکے مطالعہ نے آپ میں وسعتِ علمی کے ساتھ توسع عملی بھی پیدا کر دیا تھا، ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ’’میں نے اپنا علم حضور ﷺ کے آئینہ سے حاصل کیا ہے، نہ میں شافعی ہوں نہ کوئی اور یہ میں اسلئے کہہ رہاہوں کہ عبدالسلام اور اسکی برادری (یعنی اس وقت کے شافعی طلبہ ) مجھے شافعی سمجھتی ہے ۔
ایک مرتبہ میری ایک دودن کی حاضری کے موقع سے اپنے درجہ میں مزاحاً فرمایا ’’گذشتہ سال ایک عبد السلام بڑامتعصب شافعی تھا ،تمام حنفیوں کو دبائے رکھتا تھا ، اسلئے کہ اسکے پاس حدیث کے دلائل بہت تھے ،میرے بارے میں بھی شافعی ہونے کا گمان رکھتا تھا تو میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ بھئی میں تو حنفی ہوں، لیکن حدیث کے آگے پیچھے رہتا ہوں، اسی پر عمل کرتا ہوں جہاں نہ ملے وہاں احناف پر عمل کرتا ہوں ،
(متعصب بظاہرمزاحاً فرمایا ہوگا، ورنہ ہم لوگ مسلکی سختی کو پسند نہیں کرتے بلکہ احناف وغیرہ کی مساجد میں انہی کے نظام وترتیب کے مطابق عمل کرتے ہیں اور خاص کر برِ صغیر میں حنفی مسلک کو اصل اور احناف کو اپنا بڑا بھائی سمجھتے ہیں )۔
حضرت نے حنفی ماحول میں پرورش پائی تھی، حنفی فقہ پڑھی، فقہ حنفی واصول فقہ حنفی کی اہم کتابیں پڑھی بھی ہیں، اور پڑھائی بھی ہیں، لیکن یہ سب باتیں حضرت والا کے لئے کوئی بہت اہمیت کی حامل نہیں تھیں، کہ مسلک کی تعیین کرکے حرف بحرف اس پر عمل کیا جائے، اور اس پر سختی کی جائے بلکہ آپ کا مسلک بقول آپ ہی کے ’’میں خاندانی حنفی ہوں لیکن جوّال سیاّل ہوں‘‘۔
اسی طرح ایک مرتبہ لباس کے بارے میں فرمایا ’’میں لباس وغیرہ کے بارے میں مولویت نہیں جانتا بلکہ جو بھی ہوغیر شرعی نہ ہو اور ہاں چونکہ ہمارے بلاد میں لمبا کرتا پہنتے ہیں تو اسلئے پہنتا ہوں‘‘۔
محسنین کا تذکرہ اور سادات سے محبت:۔
حضرت الشیخ اپنے دروس ومجالس میں اپنے محسنین کا بار بار تذکرہ فرمایا کرتے تھے، اپنے خاندانی لوگوں میں اپنی نانی کا جنھوں نے والدہ کی قائم مقامی کی تھی، والد صاحب کی بعض خوبیوں کا اور دوسرے احباب کا ۔
اپنے اساتذہ میں حضرت کے ابتدائی اور بڑے ہی محبوب استاد مولانا ضیاء الحق صاحبؒ فیض آبادی کا تو بار بار تذکرہ کرتے تھے کہ میں جو ہوں انھی کا فیض ہے، انھی کی تربیت، انھی کا احسان، اسی طرح مولانا عبد الحلیم صاحب جونپوری ؒ حضرت مولانا اسعداللہ صاحب رامپوریؒ جن کی ہمارے حضرت الشیخ پر خصوصی نگاہ شفقت رہی، فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین صاحبؒ جنھوں نے ہمیشہ حضرت کو ایک شاگرد سے زیادہ چھوٹے بھائی کی طرح رکھا، ان کے کھانے پینے اورقیام وغیرہ کی فکر کی، اسی طرح مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی اور ہمارے حضرت الشیخ کے دوست مولانا اطہر حسین صاحب ؒ ان حضرات کو بھی خوب یاد کرتے رہتے تھے۔
اسی طرح اپنے وہ استادومرشد جوکہ اپنے دور کے مرجعِ خلائق تھے، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحبؒ جنھوں نے اپنے کئی عزیز شاگردوں، ذھین وفطین ،ذی علم اقرباء ومحبین کی موجودگی میں اپنے اس عزیز شاگرد کو انکی حدیث سے مناسبت تامہ کو محسوس کرتے ہوئے اپنی جگہ مدرسہ کاشیخ الحدیث مقرر کیا تھا کہ ان کے بھی اقوال وملفوظات کو بیان کرتے رہتے تھے، خاص کر بخاری میں ترجمۃ الباب کے حدیث سے تعلق کو بیان کرتے ہوئے ، اسی طرح حضرت شیخ الحدیثؒ کے صاحبزادے، داماد اور اس خانوادے کے تمام افراد سے اخیر تک محبّانہ ومخلصانہ تعلق رہا، اور ان حضرات نے بھی ہمارے حضرت الشیخ کو اپنے خانوادے کا ایک محبوب و محترم فرد اور اہم مہمان سمجھا، خصوصا حضرت مولانا طلحہ صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ، صاحبزادی حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم وہمشیرہ مشہور محقق ومصنف مولانا نور الحسن راشد صاحب کاندھلوی زید مجدہ اور مدرسہ کے انتظامی اور دوسرے معاملات کی نگرانی کرنے والے او ر حضرت الشیخ کے مہمانوں کے اکرام اور ان کو اپنا مہمان سمجھنے کے تعلق سے اس خانوادے کی ایک ممتاز شخصیت بڑے ہی عقلمند وبردبار، معاملہ فہم اور سنجیدہ عالم دین، ناظم مدرسہ مظاہر علوم حضرت مولانا سید سلمان صاحب سہارنپوری دام ظلہ۔
اسی طرح اپنے ان خاص محسنین کا تو بڑا ذکر فرماتے جن کی کتابوں کا زیادہ مطالعہ رہا، ایک مرتبہ فرمایا ’’بخاری، ابن تیمیہ ؒ, ذھبی، ابن حجر ہم نے انہی کے دسترخوان پر کھا نا کھایا انہی کی گیت گاتے ہیں۔
اسی طرح صحیح النسب سادات سے بھی ہمارے حضرت الشیخ بڑا قلبی تعلق رکھتے تھے، ان حضرات کا اکرام کرتے، ان سے محبت کو دین کا ایک حصہ سمجھتے۔ اس سلسلے میں مفکر اسلا م حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ سے جو محبت وعقیدت تھی، وہ تو بہت مشہور ہے، اپنے مدرسہ کا تعلیمی نصاب مکمل کرنے کے بعد ندوہ ضرور تشریف لاتے حضرت مولاناؒ کے پاس بیٹھتے، حضرت مولانا ؒ کی آخری بیماری کے دوران عیادت کیلئے دو مرتبہ تشریف لائے، انتقال کی خبر سن کر سخت سردی، کہرے اور رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے ہونے کے باوجود تعزیت کے لئے فوراًتکیہ کلاں رائے بریلی پہونچے، حضرت مولاناؒ کی تصنیفات اور معتدل آراء کے بھی بڑے قائل تھے، تکیہ کے اس پورے گھرانے سے حضرت الشیخ کو بڑی محبت وانسیت رہی۔
اسی طرح جنید وقت حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی،ؒ ان کی اولاد واحفاد اور انکے ھتوڑا باندہ میں واقع مدرسہ سے بھی بڑا ربط تھا، ہر سال ختم بخاری کے لئے تشریف لے جاتے تھے ۔
حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے احفاد سے بھی بڑ ی محبت رہی، اپنے تلامذہ میں بھی سادات میں سے کسی کو دیکھتے تو مشفقانہ تنبیہ کے ساتھ ان سے محبت فرماتے، اور تو اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحبؒ جوکہ اپنے محبین کے نزدیک کتنے ہی بڑے متکلم اسلام، مفسر قرآن، سلیس زبان میں اسلامیات کے موضوع پر لکھنے والے بڑے ہی کامیاب اسکالر ہوں۔ لیکن ہمارے حضرت الشیخ جس ادارے سے وابستہ تھے ، وہاں اور اسکے قریب کے دوسرے بڑے اداروں کے بہت سے علماء ومشائخ کا موقف مولانا مودودی ؒ کے سلسلے میں ذرا سخت اور درشت تھا، لیکن اسکے باوجود میں نے خود اپنے کانوں سے سنا کہ حضرت الشیخ فرمارہے تھے کہ ’’ارے بھئی وہ تو سید ہیں‘‘ اور ایک موقع سے فرمایا کہ’’ وہ تو وہی باتیں لکھتے ہیں جو ہمارے بڑوں نے لکھی ہیں‘‘ (یعنی عربی زبان میں تاریخ و تفسیر لکھنے والوں نے) نیز دوسرے اوقات میں کچھ تردیدی باتیں بھی کہیں ہیں ۔
تعلق مع اللہ اور اتباع سنت:
یہ دو صفتیں ایسی ہیں کہ اس کے بغیر کوئی اللہ کا محبوب اورولی نہیں بن سکتا، حضرت الشیخ کی تو پوری زندگی ہی قال اللہ اور قال الرسول میں گذری تو ان جیسی شخصیات کے بارے میں کیا کہا جائے، اللہ کے حضور حاضری کا بڑا استحضار رہتا تھا، ہمیشہ اس کی فکر رہتی کہ کام اخلاص کے ساتھ، اللہ کے لئے کیا جائے، اپنے دروس ومجالس میں بھی اس طرف توجہ دلاتے رہتے تھے، آخر آخر میں تو معافی تلافی کی بھی بڑی فکر ہوگئی تھی کہ بڑے دربار میں حاضری صفائی ستھرائی کے ساتھ ہو، جنازے پر اُمنڈآئی تعداد اور مستقل آپ پر لکھا جانا بھی تعلق مع اللہ ہی کی مضبوطی پر دلالت کرتاہے ۔
اتباع سنت کی تو ایسی فکر اور حدیث و سنت کو اقوال آخرین پر غالب رکھنے کا ایسا جذبہ کہ جو آپ کے دروس میں خالی الذھن ہوکر بیٹھے تو وہ عشق نبی اور سنت رسول ﷺ پر عمل کا جذبہ اور اس کی ہمت لے کر ہی اُٹھے گا ،آپ تو ہر ایک کو قرآن مجید کی تلاوت اور مسنون دعاؤں اور مسنون اذکار کے اہتمام کی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے، نمازوں کی سنتوں اور رہن سہن کی سنتوں کے التزام کی بابت بھی ترغیب دیاکرتے تھے، اپنے استاد ومرشد حضرت شیخ الحدیث ؒ کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’حضرت فرماتے تھے طریقِ سنت بے خطر ہے، سنت ہی میں کامیابی ہے‘‘۔
اپنے بارے میں فرمایاکہ ’’مجھ کو مجاہدہ نہیں کرنا پڑا، جہاں کوئی چیز خلاف سنت دیکھ لی فوراً چھوڑ دیا‘‘ اسی طرح فرمایا ’’جب ہم حدیث پڑھتے تھے تو جب بھی عمل کی حدیثیں آتی تھیں، تو عمل کا داعیہ پیدا ہوتا تھا، حضرت امام بخاری ؒ سے بھی اسی لئے انتہائی درجہ کی عقیدت ومحبت تھی کہ انھوں نے حدیث رسولﷺ کو اصل بنایا، اور اسی میں اپنی زندگی، مال اور صلاحیتیں کھپائیں، اور حدیث رسول ہی ان کی علامت اور ان کی زندگی کا جلی عنوان تھا ۔
یہ مضمون بانگ حراء رسالہ سے لیا گیا ہے
مولانا عبدالسلام بھٹکلی ندوی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدے بانگ حراء قیمت صرف ٢٠٠ سالانہ