“انکار حدیث کی ناکامی اور عام مسلمانوں میں نا مقبولیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انکارِ حدیث کے علم بردار تمام لوگ -بلا استثنائ- اپنی نگارشات میں آخرت کی نسبت اس دنیا کی ترقی اور خوشحالی پر غیر معمولی زور دیتے ہیں اور مادی مفادات واغراض کو اصل مان کر دینی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کی یاد اور دنیا کی بے ثباتی، سطحیت اور ناپائیداری پر توجہ آدمی کو راسخ العقیدہ اور خدارسیدہ انسان بناتی ہے۔ مگر منکرینِ حدیث کی تحریروں میں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ لوگ آخرت کو بالکل نظرانداز کرکے چلتے ہیں یا محض ضمناً اس کا تذکرہ ان کی تحریروں اور تقریروں میں سامنے آتا ہے۔ ان میں جو زیادہ منھ پھٹ اور جری وجود واقع ہوئے تھے انھوں نے اخروی حقائق کو خیالی اور فرضی تک باور کرایا ہے۔
بہرحال انکارِ حدیث انسان کو رنگینیِ حیات کی طرف لے جاتا ہے۔ منکرینِ حدیث خود کے لیے یا اوروں کے لیے اس دنیاوی زندگی کو زیادہ سے زیادہ لطف اندوز اور آسان تر بنانے کے طریقے تجویز کرتے ہیں۔ سرسید، محمد عبدہ، رشید رضا کا حال دیکھو کہ یہ لوگ جب تک روایتی فہمِ دین اور راسخ العقیدگی اور تمسک بالکتاب والسنت کے دور میں رہے، خود ان کے اپنے بیانات سے ظاہر ہے کہ ان پر نیکی اور ورع وتقویٰ کا غلبہ تھا، اور وہ دنیوی نازونعم کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے۔ نہ صرف خود دنیوی نام ونمود اور حرص وہوس سے دور ونفور تھے، بلکہ دوسروں کو بھی اس گریز واتقاء کی دعوت دیتے تھے۔ لیکن جونہی ان کی زندگی میں دنیوی اور مادی ترقی کی اہمیت وعظمت داخل ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو اس کی اہمیت اور اس کے حصول پر توجہ دینے کی دعوت دی اور اس بارے میں اسلامی مزاج ومذاق کو بدلنے اور نبوی تعلیمات وہدایات کو جھٹلانے یا رد کرنے لگے۔
اسلام بلاشبہ دنیا سے اپنا حصہ لینے اور فراموش نہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے[لا تنس نصیبک من الدنیا]،مگر اس کا اصل زور آخرت پر ہے[وإن الدار الآخرۃ لھی الحیوان]۔وہ اس دنیا کو کھیل تماشا[وما الحیاۃ الدنیا إلا لھو ولعب]،متاعِ قلیل[متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقی] اور دھوکے کا سامان [وما الحیاۃ الدنیا إلا متاع الغرور] قرار دیتا ہے اور جہاں دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑ جائے وہاں آخرت کی کامیابی کے حصول کی طرف پُر زور طریقے سے متوجہ کرتا ہے [وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون]۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نگاہ میں اہلِ ایمان کے لیے مطلوبہ زندگی اور طرزِ عمل وہی ہے جس میں آخرت طلبی کی جھلک ہو اور یہ جھلک انسان کے اندر زہد واتقاء اور راسخ العقیدگی اور اتباعِ سنت اور التزامِ شریعت سے پیدا ہوتی ہے۔یقینا اس میں بھی غلو کرنا غلط اور قابلِ مذمت ہے اور دینِ فطرت اسلام نے اس سے روکا ہے، تاہم یہ بھی اپنی جگہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اسلامی تناظر میں آخرت اور اخروی کامیابیوں کے مقابلے میں دنیا اور دنیاوی منافع وملذات کی حیثیت پرِ کاہ کے مساوی بھی نہیں ہے۔
اللہ کے نبیﷺ نے صحابۂ کرامؓ کا یہی مزاج ومذاق بنایا تھا اور یہی مزاج ومذاق ورثے میں امت کی ہر نسل کو ملا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس ذہن ومزاج کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والوں کی تعداد ہر دور میں کم وبیش اور متفاوت ہوتی رہی ہے۔مگر یہ اسی مزاج کی کارفرمائی ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشروں میں اور دین پر عمل آوری سے دور مسلم عوام الناس میں آج بھی دینی ومذہبی حوالے سے مقبولیت وعوامیت ان لوگوں کو نہیں ملتی جو دنیوی ترقی وخوش حالی کا نعرہ لگاتے ہوئے اٹھتے ہیں، بلکہ ان حضرات کوملتی ہے جو اس دنیا کی بے حیثیتی اور بے ثباتی واضح کرتے ہیں اور اخروی کامیابی کے لیے سعی وجہد پر ابھارتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ عامۃ المسلمین خود اکثر وبیشتر مادی ترقی وخوش حالی کی جائز وناجائز کوششوں میں منہمک ومصروف رہتے ہیں، لیکن مذہبی حوالے سے گفتگو اور قیادت کے لیے وہ انھی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو مادیت کے بجائے روحانیت اپناتے ہیں اور دنیا کے بجائے آخرت کا درس دیتے ہیں۔
آخرت کی طرف میلان و رجحان آدمی میں خوفِ الٰہی، عجز وانکسار اور نیکی وتقویٰ جیسے اعلیٰ خصائص پید اکردیتا ہے، جب کہ دنیا اور اس کی ترقی وخوشحالی میں انہماک وانغماس ان اخلاقی خوبیوں کو سخت نقصان پہنچاتا ہے اور گاہے انسان کو جانور بناکر چھوڑتا ہے۔ اس دعوے پر دلیل لانے کے لیے مشہور منکرینِ حدیث کی زندگیوں کا مطالعہ مفید رہے گا۔دوسرے لفظوں میں ہم کہنا چاہیں گے کہ احادیث کی حجیت وآئینی حیثیت کا قائل ایک مسلمان لازماً سنت کا انکار کرنے والے شخص کے مقابلے میں اسلامی اخلاقیات اور قرآنی تعلیمات پر زیادہ عمل پیرا ہوگا۔”
ذکی الرحمٰن غازی مدنی