حجة الاسلام حضرت مولانا امام محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت اپنے علم و فضل ، ورع و تقوی ، تقریر و تحریر ، مذہبی و سیاسی اور تعلیمی خدمات کے لحا ظ سے بلا شبہ ایک ایسی شخصیت تھی، جس کی مثالیں ہر زمانے کی تاریخ میں گنی چنی ہوتی ہیں۔حضرت حجة الاسلام رحمة اللہ علیہ نے اپنی علمی عملی کاوشوں سے اس خطے کی تاریخ پر انمٹ ثرات مرتب کیے ہیں اور تاریخ کے دھارے کو اسلام اور اہلِ اسلام کے حق میں موڑا ہے۔یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ آج برصغیرمیں جہاں جہاں علمِ دین کی کو ئی کرن موجود ہے وہ زیادہ تر اس آفتابِ علم کا عکس ہے بحرِ علم و حکمت کے اس شناور کو اللہ رب العزت نے جو علوم و معارف عطا فرمائے تھے، ان کی مثال اس دور میں خال خال ہی ملتی ہے، اس مرد ِباخدا نے اس زمانے میں ہندوستان کے اندر حق کی آواز بلند کی جب وہاں حق کے پر ستاروں کے لیے دار کے تختے لٹکے ہوئے تھے، انھوں نے اپنی زندگی میں جہاد بالسیف و جہاد بالقلم، جہاد باللسان خوب کیا اور آخر میں دیوبند میں دارالعلوم کے نام سے ایک ایسا چشمہٴ فیض جاری کیا، جس سے ایک عالم سیراب ہورہاہے۔
تنویر النبراس علی من انکر تحذیرالناس: حضرت امام محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی وہ تصنیف ہے، جس میں آپ نے ”تحذیر الناس“ پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں اور اس کے ساتھ عظمت و مقامِ نبوت اور عقائد اہل السنة والجماعة کو احسن انداز میں تحریر کیا ہے۔ مثلاً
ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کون و مکان زمین و زمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف حاصل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے شرف نہیں۔ (ص:۵۰)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام زمینوں کے نبی اور بادشاہ ہیں۔( ص:۸۳)
:معترض کو خطاب کرکے فرماتے ہیں
کیا صاحبِ تحذیر کی ان تصریحات پر آپ کی نظر نہیں پڑی جن میں منکرِ ختمِ نبوت کا کافر ہونا ظاہر ہے اور کیا ان کی وہ تقریر نہیں دیکھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہ نسبت انبیائے ماتحت بھی خاتمِ زمانی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (ص:۹۷)
۴- ہمارا ایمان ہے کہ عالم شہادت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد نہ کوئی نبی ہوا ، نہ ہوگا ، نہ اس زمین پر نہ کسی اور زمین پر اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہوا نہ ہوگا ، نہ یہاں نہ کہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے لیے مثل خاتمیت زمانی خاتمیت مرتبی کے بھی اسی لفظ خاتم النّبیین کی دلالت کے باعث قائل ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سید الانبیاء علیہم السلام کہنا ضروری ہے اور پھر بہ ایں نظر کہ ہر صفت اپنے موصوف بالذات میں بوجہِ اتم ہوتی اور اوروں میں اس کا فیض اور اس سے کم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاطلاق افضل کہنا لازم ہوگا۔( ص:۹۸-۹۹)
یہ ”مشتے نمونہ از خروار ے“ ہے، پوری کتاب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور عظمتِ شان سے بھری ہوئی ہے، جسے پڑھ کر دل عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے معمور ہوتا ہے اور قلب و دماغ کے دریچے کھلتے ہیں، کتاب مجموعی طور پر عام فہم ہے؛ لیکن بعض جگہ پر دقیق مباحث بھی آگئے ہیں۔
عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بانٹنے والی یہ مبارک کتاب ابھی تک مخطوطہ کی شکل میں تھی اور اس کی طباعت کی نوبت ابھی تک نہیں آئی تھی مرکز اہل السنة والجماعة سرگودھا کے مایہ ناز مدرس مولانا محمد اسحاق نے بڑی جستجو سے اس کو حاصل کیا اور بڑی محنت کے ساتھ اس پر کام کیا۔عنوانات اور مختصر حواشی لگائے اور افادئہ عام کے لیے اہتمام کے ساتھ شائع کرکے علمِ دین کی ایک گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔اس کے آخر میں ختمِ نبوت اور صاحبِ ”تحذیر الناس“ کے نام سے مولانا محمد سیف الرحمن قاسم حفظہ اللہ کا مقالہ بھی ملحق ہے، جس میں قادیانی اور ان کے ہم نواوٴں کے اعتراضات کے جواب دیے گئے ہیں ۔بہر کیف!کوئی شک نہیں کہ ختمِ نبوت ، مقامِ نبوت اور عقائدِ اہل السنة والجماعة جاننے کے لیے یہ کتاب ایک مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی اشاعت سے اسلامی ادب کی ثروت میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہو ا ہے، ہماری رائے میں یہ کتاب ہر لائبریری اور ہر دینی اور علمی ذوق رکھنے والے مسلمان تک پہنچنی چاہیے۔