سرزمین اعظم گڑھ ؛ بلکہ مشرقی یوپی میں جن دینی و علمی اداروں سے علم و حکمت کے سرچشمے پھوٹیں، دین و ادب کے کرنیں نمودار ہوئیں اور معاشرہ کو اسلامی رنگ میں رنگا،انہیں عظیم الشان اور سر زمین اعظم گڑھ کے قدیم اداروں میں سے مشہور و معروف دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر ہے، جس کا آغاز آج سے تقریبا ایک صدی قبل حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری ( پیدائش : 1293ھ وفات : 1383ھ) کے ہاتھوں 3/ ربیع الاول 1349ھ مطابق 28/ جولائی 1930ء کو ہوا۔ مدرسہ عربیہ بیت العلوم نے اپنے قیام ہی سے معاشرہ کو اسلامی ماحول میں رنگنے کے لیے،معاشرہ کی اصلاح اور باطل افکار و خیالات کے بیخ کنی کرنے کے لیے، معاشرہ میں رائج بدعات و خرافات کا سد باب کرنے کے لیے اور عوام الناس میں علمی و دینی بیداری پیدا کرنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس نوے سالوں کے دوران ہزاروں کی تعداد میں علماء اور حفاظ علم و دین کے اس سرچشمے سے اپنی علمی تشنگی بجھاکر مختلف اداروں اور ذاتی طور پر قوم و دین کی خدمات انجام دی ہیں۔
اس عظیم ادارہ کی تاریخ اور اس کے لازوال کارنامے ابھی تک پردہ خفا میں تھے، یا تو دستاویزات،دفتری کاغذات اور روداد کی دبیز جلدوں میں مخفی تھے،یا مدرسہ سے وابستہ معمر بزرگوں کے سینوں میں پوشیدہ تھے،ضرورت تھی کہ ان دفتری ریکارڈ اور دستاویزات کو ضائع ہوجانے سے قبل ہی مدرسہ کی جامع تاریخ مرتب کی جائے، اس کے ابتدائی احوال، قیام کے پس منظر اور آغاز و ارتقاء پر روشنی ڈالی جائے۔
زیر نظر تازہ تصنیف ” تاریخ بیت العلوم” کے مصنف مولانا ابن الحسن قاسمی نے منتظمین کے پروجیکٹ کے مطابق تاریخ کے گمشدہ اوراق اور مدرسہ سے وابستہ شخصیات سے ایک ایک معلومات حاصل کرکے مدرسہ کی تاریخ مرتب کی۔ انہوں نے مختلف کاغذات،سالانہ روداد، دفتری کاروائی وغیرہ کے رجسٹروں سے معلومات حاصل کرکے بحسن خوبی تاریخ کے ایک ایک جزء کو بیان کیا ہے۔مزید برآں فاضل مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے مدرسہ سے وابستہ شخصیات، اراکین عاملہ، منتظمین اور اساتذہ کا خاکہ مرتب کیا ہے، مدرسہ کے تعلق سے ان کی خدمات کو ہویدا کیا ہے۔ یقینا اس کے لیے ان کو مختلف علاقوں کا سفر کرنا پڑا ہوگا، شخصیات کے اھل خانہ سے معلومات حاصل کرنی پڑی ہوگی اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا ہوگا۔
ہم آج بیٹھے ہیں ترتیب کرنے دفتر کو
ورق جب اس کا اڑا لے گئی ہوا اک ایک
زیر نظر کتاب 415/ صفحات اور آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مدرسہ کی ابتدائی تاریخ، قیام کا پس منظر، نصب العین، دستور العمل اور مدرسہ کی مختلف کمیٹیوں کو بیان گیا ہے مزید برآں زمین کے مختلف وقف نامے نقل کئے گئے ہیں۔ دوسرے باب میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی سرپرستی، مدرسہ کے جملہ شعبہ جات کا تعارف، اس کی تاریخِ آغاز و ارتقاء کو بیان کیا گیا ہے اور مدرسہ کے نظام تعلیم و تربیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرا باب نظام اور نصاب تعلیم، قواعد اور شرائط داخلہ پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد فاضل مصنف نے مدرسہ کی تاریخ کو چار ادوار میں منقسم کیا ہے پہلا دور مدرسہ کے قیام سے 1960ء تک کا ہے۔ دوسرا دور 1990ء تک اور تیسرا دور 2017ء تک ہے۔ آخری موجودہ دور ہے۔
چوتھے باب میں پہلے دور کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ باب صرف سات صفحات پر مشتمل ہے۔ یہاں بات ملحوظ خاطر رہے کہ مدرسہ کی مکمل ابتدائی تاریخ ابھی بھی پردہ خفا میں ہیں۔ اس کتاب میں دور اول کی سرسری تاریخ ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مدرسہ میں شعبہ حفظ کا آغاز کب ہوا؟ اس کا کوئی حتمی سن نہیں ذکر کیا گیا؛ البتہ مدرسہ کے قیام کے 19/ سال بعد 1949ء میں حافظ نسیم بکھراوی کی شعبہ حفظ میں تقرری سے اس شعبہ کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔ یقینا اس کتاب کے مصادر و مراجع سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولف نے کس طرح عرق ریزی سے مختلف کتابوں سے یہ معلومات جمع کی ہے۔
مولف کتاب کو بھی یہ احساس تھا؛ یہی وجہ ہے کہ انہوں اپنے مقدمہ میں اہل علم سے کمیوں کو دور کرنے اور معلومات میں اضافہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ مقدمہ میں لکھتے ہیں:
راقم نے اسے خوب سے خوب تر بنانے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن مدرسہ بیت العلوم کی تقریبا سوسالہ تاریخ کی ترتیب کا یہ نقش اول ہے اور نقش اول میں جو کمیاں اور کوتاہیاں راہ پاجاتی ہیں اس سے یہ کتاب مبرا نہیں ہوسکتی، مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی باک نہیں ہے کہ اس وقیع اور وسیع کام کے لئے جن وسائل اور ذرائع کی ضرورت تھی اس کا بہت کم حصہ مجھے دستیاب ہو سکا ،اس لئے بہت سے واقعات اور لوگوں کا تذکرہ کتاب میں درج ہونے سے رہ گیا ہوگا، بہت سی تاریخیں ادھر سے ادھر ہوگئی ہوں گی ، بہت سی باتیں احاطہ تحریر میں نہیں آپائی ہوں گی ،اس لئے مدرسہ بیت العلوم سے محبت رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ اسے بغور پڑھیں اور جو کمی محسوس کریں اس کی نشاندہی کریں اور جو کچھ اضافہ کر سکتے ہوں اس سے ہرگز دریغ نہ کریں تا کہ نقش ثانی بہتر سے بہتر صورت میں آسکے۔
پانچویں باب میں دور اول کی اہم شخصیات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اس باب میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ماجد علی مانوی، مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری، مولانا علی احمد کوئریا پاری ثم سرائے میری،مولانا مسلم جونپوری، قاری ضیاء الدین الہ آبادی مولانا سعید ہمئی پوری، حافظ نسیم بکھراوی، مولانا قاسم کوٹلاوی، مولانا محمد خان چھتے پوری اور مولانا حسن علی چھانوی کا تذکرہ ہے۔چھٹا باب دور ثانی کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب کا سب سے طویل باب ہے ایک سو ایک صفحات پر مشتمل ہے، اس باب میں 1960ء سے 1990ء تک مدرسہ کی سالانہ روداد پیش کی گئی ہے جس میں عام طور پر اساتذہ کی تقرری و استعفی، مختلف عہدوں کے لیے انتخاب، تعمیراتی منصوبہ، تنخواہوں میں اضافہ، سالانہ اجلاس اور اس میں مدعو علماء کرام کا نام، تعلیمی ترقی اور اس کا جائزہ اور مدرسہ سے وابستہ نیز مختلف مشہور شخصیات کی وفات پر تعزیتی نشست وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
ساتواں باب دور ثانی کی اہم شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے، اس باب میں 31 شخصیات کا تذکرہ ہے۔ آخری باب میں مجلس عاملہ کی چھ اہم شخصیات کا ذکر ہے۔ 415/ صفحات کی اس کتاب میں مشکل سے چار پانچ مقامات پر پروف ریڈنگ کی غلطیاں ہیں۔ورنہ آج کل کی بیشتر کتابوں میں پروف ریڈنگ کی غلطیوں کی بہتات ہوتی ہے۔ مصنف نے بہت سی گمنام شخصیتوں کا تذکرہ کیا، ظاھر سی بات ہے اس کے لیے انہوں نے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مضامین و کتابیں، اہل خانہ کی یاداشت کے سہارے ان کا قلمی خاکہ مرتب کیا ہے، جس کا حوالہ بھی مصنف نے دیا ہے ۔
البتہ چند شخصیات جیسے مولانا عبدالرحمن جام منڈیاروی، مولانا عبدالقیوم بکھراوی اور مولانا عبدالحفیظ اعظمی قاسمی کے تذکرہ میں چند اقتباسات نقل کئے گئے ہیں جن کا حوالہ رقم نہیں ہے۔ مولانا عبد الغنی پھول پوری رح کے تذکرہ میں مصنف نے اپنی کتاب ” حیات پھول” کا حوالہ دیا ہے، وہ میرے خیال سے یہ وضاحت ضروری تھی کہ یہ کتاب غیر مطبوعہ ہے۔
کتاب کا دیدہ زیب سر ورق اور کاغذ و طباعت وغیرہ مولفِ کتاب کے نفیس اور پاکیزہ ذوق پر دال ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ باطنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات افسوس کے ساتھ رقم کرنی پڑ رہی ہے کہ اس عمدہ تحقیقی کتاب کے سرورق پر مولف کا نام ہی نہیں ہے ۔ ستم ظریفی کہ دو سطر میں “ناظم اعلی صاحب” کا نام رقم ہے۔ منظمین کے اس عمل کی کوئی لاجیکل وجہ سمجھ میں نہیں آئی؛ جب کہ ” عرض ناشر” اور ناظم اعلی صاحب کے “پیش لفظ ” میں مولف محترم کی محنت اور کوششوں کو سراہا گیا ہے۔ اس کے باوجود بھی نام نہ لکھنا سمجھ سے پرے ہے۔
لاریب اس فانی میں دنیا بھول چوک اور خطا ہر انسان سے ممکن ہے خواہ وہ وقت ولی ہو ہا فاسق فاجر، بقول مولانا آزاد “غور کیجئے وہ زندگی ہی کیا ہوئی جس کے دامن خشک کو کوئی غلطی تر نہ کرسکے؟ وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر معصوم ہو۔ ؟ ” لیکن بہترین قوم اور لوگ وہ ہیں جو اپنی غلطیوں اور بھول چوک کا وقت پر ادارک کرکے اس سے سبق حاصل کریں، حتی الامکان اس کو درست کرنے کی کوشش۔ “كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ، وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون”۔