دین اسلام میں زندہ افراد کی طرح فوت شدگان کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے اور بعد از وفات کچھ ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن کے ذریعے سے فوت شدگان کو قبر میں فائدہ پہنچتا ہے۔
اس مسئلے میں کہ وفات کے بعد انسان کو کون سے اعمال کا نفع ملتا ہے اور زندہ لوگوں کی طرف سے انھیں کن افعال کا ثواب پہنچتا ہے، ہمارے یہاں افراط و تفریط پایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کئی بدعات رائج ہو چکی ہیں، جب کہ ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ ان غیبی امور کے متعلق صرف شرعی ہدایات کی پابندی کرے اور فوت شدگان کو نفع رسانی کی خاطر اپنا مال اور وقت انہی کاموں میں صَرف کرے جو شریعت میں بتائے گئے ہیں اور ایسے تمام اعمال سے اجتناب کرے جو لوگوں نے از خود ایجاد کیے ہوئے ہیں۔
زیر نظر رسالے میں اسی مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ فوت شدہ افراد کو ثواب پہنچانے کا کون سا طریقہ جائز ہے اور کون سا ناجائز؟ نیز کون سا طریقہ قرآن و سنت کی نصوص کے مطابق ہے اور کون سا ذریعہ مخالف؟
’’وَلِبَعْضِ شُیُوْخِنَا رِسَالَۃٌ لَطِیْفَۃٌ فِيْ الْأُرْدِیَّۃِ فِيْ ھَذِہِ الْمَسْأَلَۃِ رَتَّبَھَا عَلَیٰ مُقَدَّمَۃٍ وَمَقْصَدٍ وَخَاتِمَۃٍ، وَسَمَّاھَا ’’إِھْدَاءَ الثَّوَابِ‘‘ وَبَسَطَ الْکَلَامَ فِيْ تَحْقِیْقِ الْمَقَامِ فَأَجَادَ، فَعَلَیْکَ أَنْ تُطَالِعَھَا‘‘
اس موضوع پر یہ رسالہ اپنی حسن ترتیب، وسعتِ معلومات اور علمی اصول و قواعد پر مشتمل مباحث کی بنیاد پر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ اس رسالے کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر مصنف رحمہ اللہ کے تلمیذِ رشید محدثِ زماں علامہ عبید ﷲ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے شیوخ میں سے بعض کا اس مسئلے میں بزبانِ اردو ایک رسالہ ہے جو ایک مقدمہ، مقصد و موضوع اور خاتمہ پر مشتمل ہے، اس کا نام ’’إہداء الثواب‘‘ ہے، جس میں اس مسئلے کی بڑی بہترین تفصیلی بحث ہے۔ تمھیں چاہیے کہ تم اس کا مطالعہ کرو۔‘‘ (مرعاۃ المفاتیح: ۲/ ۵٠٨)
Pls send