سرزمین ہندوستان میں مسلمانوں کا معاشرہ جن مصائب و مشکلات کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے،بالفاظ دیگر معاشرہ کی اکثر مشکلات کا تانا بانا مسلمانوں کے عائلی اور خانگی مسائل سے جا ملتا ہے۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک ایک گھر، خاندان، محلہ اور علاقہ بعض عائلی مسائل سے دو چار ہے۔ در حقیقت ہندوستان میں ایک طویل عرصہ غیر مذاہب کی صحبت سے بہت سے غیر اسلامی طریقہ کار اور رسوم نے مسلمانوں کے معاشرہ میں نہ صرف جگہ بنائی ہے؛ بلکہ ایک طبقہ کے ذھن و دماغ میں ان غیر اسلامی رسوم و رواج کی اتنی اہمیت و افادیت ہے کہ اس پر عمل اسلام کے کسی ضروری حکم کی طرح کرتے ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ جن عائلی مسائل سے دو چار ہے وہ شادی بیاہ سے شروع ہوتا ہے اور طلاق و وراثت وغیرہ پر جاکر ختم ہوجاتا ہے۔ اسلام کے پیغام اور طریقہ کار میں غیر اسلامی رسوم و رواج اس طرح رچ بس گئی ہیں کہ اکثر مسلمان اسے اسلامی طریقہ کار سمجھتے ہیں، اس کے بغیر نکاح وغیرہ کا تصور ہی نہیں ہوتا ہے۔ یہ غیر اسلامی رسوم و رواج کے اثرات محض انہیں چند تقریبات پر نہیں پڑتے ہیں؛ بلکہ اس کی وجہ سے بہت سارے مسائل و مشکلات کا سامنا مسلمانوں کو ہما وقت کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے زیر مطالعہ کتاب “اسلام کا مثالی خاندان” محدود عائلی مسائل کے تعلق سے ایک عمدہ کتاب ہے، یہ در اصل ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کے ان مختصر مضامین کا مجموعہ ہے،جو انہوں وقتا فوقتاً بغرض اصلاح شوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر لکھا تھا۔ زیر نظر کتاب 5/ ابواب پر مشتمل ہے، پہلا باب ” نکاح کو آسان بنائیے” ہے، جس میں نکاح کی ضرورت و اہمیت، اسلام میں نکاح کا طریقہ کار، آسان نکاح کا فروغ، نکاح میں اسراف، مختلف غیر اسلامی رسوم و رواج، مثلا بارات،مگنی، جہیز وغیرہ کی قباحت اور عہد نبوی میں ہونے والے آسان نکاح کی مثال پیش کی ہے، اخیر میں ” آسان نکاح کے چند قابل تقلید نمونے ” کے تحت اپنے مشاہدہ میں ہونے والے پندرہ نکاح کا تذکرہ کیا ہے، جس میں سادگی کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور غیر اسلامی رسوم و رواج سے انحراف کیا گیا ہے۔ اس پورے باب میں مصنف نے ایک بات بار بار دوہرائی ہے کہ ہمیں چاھئے کہ آسان نکاح پر عمل کرکے معاشرہ کو عملی مثال پیش کریں، آسان نکاح کو ہائی لائٹ کریں، عملی مثال تقریر و تحریر سے زیادہ کارگر ثابت ہوگی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
” ہندوستانی مسلمانوں کے بہت سے ادارے، بورڈ، تنظیمیں اور جماعتیں عرصے سے اصلاح معاشرہ کی کوششیں کررہی ہیں، لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں ارہے ہیں، اس لیے کہ تحریک چلانے والے خود جب اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کا نکاح کرتے ہیں تو اس میں سادگی کو ملحوظ نہیں رکھتے اور وہ شادیاں بھی دوسری شادیوں کی طرح نام و نمود، دکھاوا، فضول خرچی اور بے جا اسراف کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔
اصلاح معاشرہ کی کسی مہم میں اگر 100/ نکاح سادگی سے کرکے عوام کو دکھایا جائے تو اس کا اثر 5000/ عظیم الشان جلسوں اور اجتماعات عام میں کی گئی دھواں دھار تقریروں سے کہیں زیادہ ہوگا۔ “
دوسرا باب ” خوشگوار خاندان کیسے؟” ہے، جس میں مثالی خاندان کے عناصر،میاں بیوی کے درمیان خوشگوار زندگی گزارنے کے لائحہ عمل، خاندان کے افراد پر ایک دوسرے کے حقوق،بیوی کے حقوق، شوہر کے حقوق، ساس کا بہو سے رویہ، بہو کا ساس سے رویہ، سسرالی رشتہ داروں سے رویہ وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تیسرا باب ” خاندانی تنازعات کا ازالہ کیسے؟” ہے، اس میں مختلف خاندانی تنازعات، مثلا میاں بیوی کے تنازع،ساس بہو کے تنازعے،ماں بیٹے کے تنازع، سسرالی رشتے داروں کے تنازع وغیرہ کے حل کے سلسلے میں قرآن کریم اور احادیث سے ثابت شدہ طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، خاندانی تنازعات کے اسباب اور میاں بیوی کے دمیان تلخی کی وجوہات پر کلام کیا گیا ہے۔ ان تنازعات کے حل کے لیے مختلف اسٹیج کے مختلف طریقے کار بتائے گئے ہیں، ان میں حکمت کو پیش نظر رکھنے کی بظور خاص تلقین کی گئی ہے،اکثر تنازعات کو بڑھاوا صرف جذباتیت کی وجہ سے ملتا ہے، اسی لیے سنجیدگی سے ان مسائل کا حل تلاشنا ضروری ہے۔ چوں کہ فاضل مصنف الشرعیہ کونسل سے وابستہ ہیں اور ان کے پاس خاندانی تنازعات کے سلسلے میں فریقین اکثر آتے رہتے ہیں،مصنف نے ایک ساس اور ایک بہو سے ہونے والی اپنی گفتگو کو بھی نقل کیا ہے۔
چوتھا باب ” طلاق و خلع” ہے، جس میں طلاق کے صحیح طریقہ، طلاق کے بعض احکام و مسائل اور احکام خلع پر روشنی ڈالی ہے۔
آخری باب” خواتین کو وراثت دیجیے” ہے، جس میں ہندوستان میں خواتین کی وراثت کے سلسلے میں ہونے والی لاپرواہی، وراثت میں عورتوں کے کے مختلف حصوں،اس میں پنہاں حکمتوں، وراثت پر اعتراضات کے جوابات، وراثت کے طریقہ کار اور وقت، اسلامی قانون میں وراثت کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے،کتاب کی زبان بہت ہی سہل ہے،ہر شخص بآسانی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے،چوں کہ فاضل مصنف شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کے سیکرٹری ہیں، ان کے پاس عائلی مسائل کے تعلق سے فریقین برابر آتے رہتے ہیں،انہیں خاندانی مسائل و مشکلات، مختلف تنازعات کے اسباب و وجوہات کا بطور خاص علم ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اس تعلق سے ان کی گفتگو دل کو چھو لیتی ہے اور یہی چیز کتاب کی اہمیت و افادیت اور تاثیر میں چار چاند لگاتی ہے۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر شخص اس کا مطالعہ کریے، لاریب جن مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے وہ ہر شخص کے مسائل ہیں، ہر عام و خاص ان مسائل سے دو چار ہے، ان مسائل کو اور ان کے اسباب و حل کو جاننے اور سمجھنے کی ہر شخص کو ضرورت ہے۔