مصنف: مولانا الیاس نعمانی
شکیل بن حنیف دربھنگہ بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا،مہدی ہونے اور پھر مہدی ومسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی، لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلاتا رہا، دہلی کے اس زمانۂ قیام میں اس نے بالخصوص ان سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آتے تھے، لیکن جیسے ہی لوگوں کو ان حرکتوں کی اطلاع ہوتی وہ اس کے خلاف ایکشن لیتے اور اسے اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا، بالآخر اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے ’’حواری‘‘ رہتے ہیں۔
ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے،اور ہزاروں نوجوان اس کے فتنہ کے شکار ہوچکے ہیں، اور الحمد للہ ہر جگہ کچھ نہ کچھ لوگوں نے اس کے تعاقب کی فکر بھی شروع کردی ہے۔
دو ڈھائی برس پہلے تک ہم سمجھتے تھے کہ یوپی اس فتنہ سے محفوظ ہے، اور اب تک یہاں شکیلیوں نے اپنے پاؤں نہیں پھیلائے ہیں،لیکن معلوم ہوا کہ ہم ناواقف تھے، یوپی میں بلکہ لکھنؤ میں بھی کچھ لوگ اس فتنہ کے داعی بن کرتقریبا ڈیڑھ برس سے سر گرم ہیں، اور بڑی راز داری لیکن تیز رفتاری کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، اور افسوس کہ ان کے فتنہ کا شکار ہمارے کچھ سادہ لوح نوجوان بن بھی رہے ہیں، بلکہ غالبا ہر کچھ دنوں کے بعد لکھنؤ ومشرقی یوپی کے مختلف اضلاع کے چند افراد اس فتنہ کا شکار ہوکر اس جھوٹے مسیح ومہدی کے ہاتھ پر بیعت کرنے جارہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فتنہ گر اپنی پوری سرگرمی اس طرح خفیہ انداز میں چلانے میں کامیاب ہیں کہ وہ ہمارے علاقہ میں ہمارے نوجوانوں پر محنت کررہے ہیں اور ہم کو خبر تک نہیں ہے، ہماری ناواقفی یا بے خبری کی یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے، اور ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
اس فتنہ کی دعوت اور اس کے داعیوں کا طریقۂ کار
ان لوگوں کا طریقۂ کار یہ ہے کہ یہ بہت خفیہ طور پر کسی نوجوان سے رابطہ کرتے ہیں، یہ نوجوان عام طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی کا ایسا طالب علم ہوتا ہے کہ جس کا کسی عالم، دینی جماعت یا دینی تنظیم سے کوئی رابطہ نہ ہو، یہ پہلے اس سے عام دینی گفتگوئیں کرتے ہیں، اور چونکہ اس فتنہ کے تمام داعی اپنا حلیہ ایسا بنائے پھرتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ بہت متبع سنت قسم کے دین دار نوجوان ہیں،مثلا لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں، لباس میں لمبے کرتے اور اونچی شلوار کا اہتمام کرتے ہیں، گفتگو میں بار بار الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ اور ان جیسے دیگر الفاظ کی کثرت رکھتے ہیں، اس لیے وہ سادہ لوح اور ناواقف نوجوان ان سے بہت زیادہ متاثر ہوجاتا ہے، اور انہیں بہت دین دار سمجھنے لگتا ہے،اپنی بابت یہ تاثر قائم کرنے کے بعد یہ اپنے مخاطب سے علامات قیامت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کا مصداق نئے انکشافات، نئی ایجادات اور معاصر دنیا کے بعض حالات وواقعات کو قرار دیتے ہیں، اس درمیان یہ بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اپنے مخاطب کے ذہن میں علما کی تصویر ایسی بنادیں کہ وہ ان کی کسی بات کی تصدیق علما سے کرانے کی ضرورت نہ سمجھے، مثلا یہ کہتے ہیں کہ علما کو ان علامات قیامت کا کچھ علم نہیں ہوتا، اس لیے کہ انہیں زمانۂ طالب علمی میں یہ حدیثیں پڑھائی ہی نہیں جاتیں، انہیں بس حدیث کی کتابوں کے چند منتخب ابواب پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کا تعلق نماز، روزہ جیسے مسائل سے ہوتا ہے، تاکہ یہ کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔ انکا مخاطب جو اب تک ان کے دین دار ہونے کا تاثر رکھتا ہے یہ باتیں سن کر ان کو دین کا ایسا ماہر بھی سمجھنے لگتا ہے کہ جو علما سے زیادہ دین کو جاننے والا ہے، اور اب اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ یہ اسے جو بتادیں وہ اس پر یقین کرلے۔
اس کے بعد یہ اپنے مدعو کو یہ باور کراتے ہیں کہ دجال کی آمد ہوچکی ہے، وہ امریکا وفرانس کو دجال بتاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک حدیث میں جو یہ بتایا تھا کہ دجال کی پیشانی پر ’کافر‘ لکھا ہوگا اس سے آپ (ﷺ) کا اشارہ یہی دونوں ممالک تھے، اس لیے کہ جب ان دونوں کا نام ایک ساتھ لکھا جائے (امریکا فرانس) تو بیچ میں کافر لکھا ہواہوتا ہے، دجال کی ایک آنکھ ہونے کا مصداق وہ سیٹلائٹ کو قرار دیتے ہیں، بعض روایات میں دجال کے بارے میں ہے کہ وہ ایک گدھا ہوگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فائٹر پلین ہے، اور اسی طرح کی کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
دجال کی بابت اپنی ایسی گفتگووٗں کے بعد یہ داعیانِ شکیلیت کہتے ہیں کہ دجال کی آمد کے بعد مہدی ومسیح کو آنا تھا، اور وہ آچکے ہیں، اور اب نجات کا بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، اگر مخاطب بہت سادہ لوح ہوتا ہے اور یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مجھے بھی اس ’سفینۂ نجات‘ میں سوار ہونا ہے تو اسے (عام طور پر) پہلے صوبائی امیرکے پاس بھیجا جاتا ہے، مثلا یوپی میں بنارس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان سے اس کی ملاقات ہوتی ہے،یہ صاحب یوپی میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کے مشن کے امیربتائے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اورنگ آباد بھیج کر شکیل کے ہاتھ پر بیعت کرادی جاتی ہے، لیکن اس بات کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیعت سے پہلے اس جھوٹے مہدی ومسیح کا اصلی نام سامنے نہ آئے، یہاں تک کہ لوگوں کے دریافت کرنے پر بھی یہ لوگ اس کا اصلی نام نہیں بتاتے ہیں،تاکہ اگر یہ شخص کہیں کسی سے تذکرہ کر بھی دے تو بھی لوگوں کو معلوم نہ ہوپائے کہ یہ کس ’مسیح‘ کی دعوت دی جارہی ہے۔
ذیل کی سطروں میں دجال اور حضرت مہدی وحضرت عیسیؑ کی بابت صحیح احادیث میں بتائی گئی چند علامتوں کا تذکرہ کرکے شکیلی فتنہ کے دعووں کا جائزہ لیا جارہا ہے ، تاکہ یہ بات بالکل واضح ہوجائے کہ شکیل بن حنیف جھوٹا ہے، حضرت مہدی وحضرت عیسیٰؑ علیہ السلام سے اس کو وہی نسبت ہے جو رات کو روز روشن سے۔
شکیلی دجال بمقابلہ حقیقی دجال
دجال کی بابت شکیلیوں کا دعوی اتنا بدیہی غلط ہے کہ کوئی بھی آدمی جسے اللہ نے عقل سلیم سے نوازا ہو انہیں صحیح مان ہی نہیں سکتا، اور اس لیے اس سلسلہ میں کسی تفصیلی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے، لیکن پھر بھی اتنا عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے دجال کی بابت جو کچھ بتایا ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک انسان ہی ہوگا، دو ممالک کا مجموعہ یا سیٹلائٹ یا فائٹر پلین نہیں، آپ (ﷺ) نے اس کا حلیہ بھی بالکل واضح طور پر بتادیا ہے، مثلا بخاری کی ایک حدیث (۷۰۱، کتاب ذکر الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم) میں ہے کہ آپ کو خواب میں دجال دکھایا گیا، تو وہ ایک سرخ رنگ کا موٹا شخص تھا، اس کے بال گھنگھریالے تھے، داہنی آنکھ سے کانا تھا، یہاں تک کہ اس حدیث میں آپ (ﷺ) نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ قبیلہ خزاعہ کے ایک آدمی ابن قطن کے مشابہ تھا، ان واضح نشانیوں کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ کوئی بھی عقل مند شخص یہ کہے کہ دجال ایک شخص نہ ہوکر دو ممالک کا مجموعہ ہے، اور اس کی آنکھ سیٹلائٹ ہے۔
علامات مہدی کی روشنی میں شکیل کا جائزہ
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ شکیل غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔
حضرت مہدی کی بابت رسول اکرم (ﷺ) کی حدیثوں میں متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کریں گے، اور پھر ان کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیں گے:
۱- رسول اللہ (ﷺ) نے بتایا تھا کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا، (ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل شکیل بن حنیف ہے، محمد بن عبد اللہ نہیں۔
۲- رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بھی بتایا تھا کہ مہدی آپ کی ہی نسل سے ہونگے،اور ان کا سلسلۂ نسب حضرت فاطمہ تک پنہچے گا، (ابوداود:۴۲۸۴، کتاب المہدی)۔ جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہی ہے۔
۳- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی کے ہونگے یعنی گورے رنگ کے ہوں گے،(ابوداود:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایسا نہیں ہے۔
۴- رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
۵- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمراں بھی ہونگے، (ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)، اور شکیل حکمرانی کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
۶- احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے (ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)، جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے،(ابوداود: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعوائے مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
شکیل اور حضرت عیسیٰ ؑ
حضرت عیسیٰؑ کی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کی بابت بھی قرآن اور حدیث میں کچھ ایسی واضح باتیں بتادی گئی ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر شکیل وقادیانی جیسے ہر جھوٹے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ذیل میں ایسی ہی چند علامتیں درج کی جاتی ہیں:
۱- اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کے سلسلہ میں آں حضرت (ﷺ) نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس سے یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ وہی عیسی بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور جن کی والدہ حضرت مریم تھیں اور جو بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے، صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں ایسی کئی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں قیامت کے قریب آپ کی آمد کا تذکرہ ہے اور آپ کا نام عیسیٰ بن مریم ہی لیا گیا ہے، ان میں سے چند روایتیں ابھی آپ پڑھیں گے۔ اور مہدی وعیسی ہونے کا یہ دعوے دار شکیل بن حنیف ہے، ہندوستان کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ عیسیٰ بن مریم نہیں ہے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے اور جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جن کی والدہ کا نام مریم تھا۔
۲- حضرت عیسی کی دوبارہ آمد کے سلسلہ میں متعدد احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اتریں گے، (مثلا ملاحظہ ہو: بخاری: ۲۲۲۲، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، )،جب کہ یہ شکیل بن حنیف عثمان پور نامی ایک گاؤں میں اپنے والد حنیف کے یہاں پیدا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اترا ہے۔
۳- صحیح بخاری وصحیح مسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمراں بن کرضرور نازل ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہوجائے گی)، خنزیر (کی نسل) کو قتل کردیں گے۔۔۔، اور مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ (بخاری: ۲۲۲۲،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، مسلم: ۱۵۵؍۲۴۷۶، کتاب الایمان، باب نزول عیسی بن مریم)۔
اب ذرا اس حدیث کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیجیے، وہ نہ اب تک حکمراں بنا ہے اور نہ حکمرانی کا کوئی ارادہ رکھتا ہے، وہ تو اورنگ آباد، مہاراشٹر کے پاس کی ایک بستی میں چھپا بیٹھا ہے، اور وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور اس نے نہ کبھی کوئی صلیب توڑی ہے اور نہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، نہ خنزیروں کوقتل کیا ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں مال ودولت کی فراوانی ہوئی ہے، اور نہ غربت کا خاتمہ ہوا ہے کہ صدقات لینے والا کوئی نہ ملے۔
۴- قرآن مجید نے سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے تمام اہل کتاب (یہودی وعیسائی) مسلمان ہوجائیں گے، :’وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ‘، اور شکیل کے ہاتھ پر اب تک ایک بھی عیسائی اسلام نہیں لایا۔
ان کے علاوہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کی بابت اور بھی علامتیںیا پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں، لیکن قرآن وصحیح احادیث میں مذکور یہی چار علامتیں شکیل کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اس مختصر سے مضمون میں مزید کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
اس فتنہ کا مقابلہ کیسے ہو؟
یہ فتنہ چونکہ بہت رازداری کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے اس لیے عام طور پر جب کسی علاقہ کے خادمانِ دین کو اپنے علاقے کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اس فتنہ کے داعی سرگرم ہیں،تو اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے اور کئی نوجوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے ہیں، خود لکھنؤ میں اس فتنہ کے سرگرم ہونے کی اطلاع تب ملی جب اس کو ایک سال کا عرصہ گزرچکا تھا، دہلی، بہار، مہاراشٹر،گجرات اور یوپی سمیت ملک کے جس حصہ میں بھی اس فتنہ کی سرگرمی کی آج اطلاع ہے ان تمام مقامات پر خادمان دین کو جب اس فتنہ کی موجودگی وسرگرمی کی اطلاع ملی تو کافی دیر ہوچکی تھی،اس لیے کسی بھی علاقہ میں اس انتظار میں نہیں رہنا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں فتنہ کی آمد کی خبر ملے گی تو پھر فکر کریں گے، اس لیے کہ عین ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں یہ سرگرم ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو، صورت حال کی خطرناکی کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن علاقوں کے سلسلے میں یہ اطمینان تھا کہ یہاں یہ فتنہ موجود نہیں ہے، وہاں کے ائمۂ مساجد نے بھی جب اپنی مسجدوں میں اس مسئلہ پر گفتگو کی تو کچھ نوجوانوں نے ان میں سے کچھ ائمہ کو بتایا کہ اس طرح کے لوگوں نے ہم سے بھی رابطہ کیا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی علاقہ کے سلسلہ میں اطمینان نہ کیا جائے، اور پہلے سے ہی عوام کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، تاکہ اگر یہ فتنہ آپ کے علاقہ میں نہ پنہچا ہو تو اس کی آمد کو روکا جاسکے، اور اگر خدانخواستہ پہنچ گیا ہو تو اس کا ازالہ کیا جاسکے۔
اس فتنہ کے مقابلہ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر علاقہ کی تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر اس سلسلہ میں گفتگو کرکے لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، اسی طرح ہم ان لوگوں کو فتنہ سے آگاہ کرسکتے ہیں جن کو اس فتنہ کے داعیان اپنا مخاطب بناتے ہیں، نماز جمعہ کے علاوہ ان لوگوں کا کوئی رابطہ کسی دینی راہ نمائی کے نظام سے نہیں ہوتا ہے،اگر ہر علاقہ کے سرگرم خادمانِ دین اپنے اپنے علاقہ کی فکر کرلیں اور یہ کوشش کرلیں کہ ان کے علاقہ کی ہر مسجد میں نماز جمعہ سے قبل اس طرح کی گفتگو کرلی جائے تو امید ہے کہ اس فتنہ کو روکا جاسکے گا۔
ہمارے یہاں عام طور پر کسی فتنہ کی فکر اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے شکار ہزاروں لاکھوں لوگ ہوجاتے ہیں، اور اس وقت فتنہ اپنے پاؤں اتنے جما چکا ہوتا ہے کہ اس کو ختم کرنا ناممکن ہوچکا ہوتا ہے، قادیانیت کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، اس لیے اس نئی قادیانیت کا تعاقب ابھی سے کرنا لازمی وضروری ہے، ورنہ بعد میں یہ فتنہ اگر تناور درخت بن گیا تو پھر اس کا خاتمہ ویسے ہی ناممکن ہوجائے گا جیسے قادیانیت کا ہوگیا ہے۔ع
جاگو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ظہور امام مہدی اب قریب ہی معلوم ہوتا ہے