مصنف: اشتیاق احمد ظلی
تاریخ التراث العربی: پروفیسر سزکین کی زندگی کا حاصل اور سب سے اہم کارنامہ جس نے علم و تحقیق کی دنیا میں انہیں ایک نہایت بلند مقام پر فائز کردیا ہے یہی سلسلہ ہے۔ ان کی زندگی میں اس کی سترہ جلدیں مکمل ہوچکی تھیں اور انتقال کے وقت اٹھارہویں جلد پر کام جاری تھا۔ بلاشبہہ یہ ایک غیرمعمولی اور انقلاب آفریں کارنامہ ہے۔ حجم کے لحاظ سے بھی یہ ایک بے نظیر علمی کاوش ہے اور موضوع بحث کی وسعت اور تنوع کے لحاظ سے بھی۔ جتنی محنت اور پتہ ماری اس کام میں صرف ہوئی ہے اس کے لیے ایک عام زندگی ناکافی ثابت ہوتی۔
علم، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں تحقیق و تفتیش اور اکتشاف و اختراع کا جو غیرمعمولی کارنامہ مسلمان علماء اور محققین نے انجام دیا تھا اور جو مسلمانوں کی کم علمی اور غفلت اور اغیار کی چالاکی اور عیاری کی وجہ سے آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تھا اس کو اس وضاحت اور صراحت سے دنیا کے سامنے پیش کردینا کہ اس کا انکار ممکن نہ رہ جائے پروفیسر سزکین کا وہ ناقابل فراموش کارنامہ ہے جس پر آیندہ نسلیں بھی فخر کریں گی۔
علم کی جیسی پیاس مسلمانوں کے یہاں پائی جاتی رہی ہے اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔ بایں ہمہ وہ ایک علم فراموش اور علم دشمن قوم کی حیثیت سے معروف ہوگئے اور خود مسلمانوں کی نئی نسل اس پروپگنڈہ کی شکار ہوگئی۔ ایک علم دوست اور علم پرور قوم کی حیثیت سے ان کی امیج کی بحالی کا سہرا سب سے زیادہ پروفیسر سزکین کے سر ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے شروع میں اس کام کا منصوبہ کارل بروکلمان کی مشہور تصنیف تاریخ الادب العربی کا تکملہ لکھنے کا تھا۔ مزید غور و خوض کے نتیجہ میں جب اس موضوع کے جملہ مضمرات سامنے آئے تو دائرہ کار کو وسعت دی گئی اور طے کیا گیا کہ ایک اعلیٰ درجہ کی ببلیوگرافی کے بجائے اسے اسلامی علوم، مسلمان معاشرہ میں سائنس و ٹکنالوجی کی ابتدا، ارتقاء اور اس کے درجہ کمال تک پہنچنے کی ایک مفصل اور مکمل تاریخ کے طور پر پیش کیا جائے۔
ایک ببلیوگرافی اور علوم کی تاریخ میں جو جوہری اور اساسی فرق ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ چنانچہ یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں کہ یہ عظیم الشان سلسلہ بروکلمان کی کتاب کی تجدید یا تکملہ ہے۔ عظیم شخصیات اور ان کے کارناموں کے درمیان موازنہ کوئی بہت مناسب عمل نہیں لیکن کبھی کبھی یہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قرینِ انصاف بات یہی ہے کہ یہ بدرجہا مشکل اور کہیں زیادہ بڑا کام ہے۔
۱۹۸۳ء میں تاریخ التراث کی پہلی جلد کا عربی ترجمہ شائع ہوا۔ اس کے لیے پروفیسر سزکین نے ایک مقدمہ لکھا۔ اس میں انہوں نے بڑی وضاحت سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابتداءً ان کا منصوبہ بروکلمان کی تاریخ الادب العربی کا ملحق لکھنے کا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ انہوں نے سوچا کہ بہتر یہ ہوگا کہ کتاب کو نئے انداز میں مرتب کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے پہلی جلد بڑی حدتک بروکلمان ہی کے منہاج کے مطابق لیکن اسے نئے انداز میں لکھنے کی کوشش کی۔
یہ کتاب ابھی طباعت کے مراحل ہی میں تھی کہ بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ کتاب کا نام تو وہی باقی رکھاجائے البتہ اس منہج کو چھوڑ دیا جائے جو بنیادی طور پر کتابیاتی ہے اور اس کے بجائے عربی زبان میں جن علوم پر لکھا گیا ہے ان کی تاریخ لکھی جائے اور اس میں موضوع زیر بحث پر لکھے جانے والے مخطوطات اور مطبوعات کا احاطہ کیا جائے۔ عربی ترجمہ کی اشاعت کے موقع پر اپنے لکچر میں بھی انہوں نے یہی بات دہرائی۔ بعد میں اس سلسلہ کی کتابوں نے جو انداز اور قالب اختیار کیا وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں پوری کامیابی حاصل کی۔
منہج کے علاوہ دونوں مصنّفین کے درمیان جو دوسرا اہم فرق ہے وہ مقاصد، اپروچ اور فکری رویوں کا ہے۔ بروکلمان نے انہی فکری رویوں کی پاسداری کی ہے جن کے لیے مستشرقین شہرت حاصل کرچکے ہیں اور اپنی اس کتاب کے ذریعہ بھی وہ وہی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جن کے حصول کے لیے استشراق کی تحریک وجود میں آئی۔ مثال کے طور پر یہ بات معلوم ہے کہ حیاتِ طیبہ پر مطبوعہ اور مخطوطہ کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے لیکن اس سلسلہ میں محمد (ﷺ) کے عنوان کے تحت جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سب مستشرقین کی لکھی ہوئی ہیں۔
مسلمان مصنّفین کی کتابوں میں صرف فجر الاسلام کا ذکر ہے اور احمد امین کے ساتھ طہ حسین اور عبدالحمید العبادی کا نام مذکور ہے لیکن ان کی کسی کتاب کا ذکر نہیں ہے۔ یہ مستشرقین کا پرانا اور آزمودہ طریقہ ہے کہ اسلام کے سلسلہ میں صرف وہی معلومات قابل بھروسہ ہیں جو اسلامی مآخذ کے بجائے معاندینِ اسلام کی تحریروں سے ماخوذ ہوں۔ چنانچہ حضورؐ کی حیات مبارکہ کا معاملہ ہو یا قرآن و حدیث کا معاملہ ان سب کے سلسلہ میں اسی بددیانتی کا ثبوت دیا گیا ہے جو مستشرقین کی غالب اکثریت کا طرہ امتیاز رہا ہے اور اسی کج فہمی اور افترا پردازی کا ثبوت دیا گیا ہے جو اس طبقہ کے ساتھ مخصوص ہے۔
اسلام کو پڑھنے، سمجھنے اور پیش کرنے کے سلسلہ میں جو بنیادی امور مستشرقین کے پیش نظر رہے ہیں ان کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
۱۔ اسلام وحی الٰہی پر مبنی نہیں ہے۔ ۲ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ ۳۔قرآن مجید کلام الٰہی نہیں ہے۔ ۴۔حدیث بعد کی صدیوں کی اختراع ہے اور دوسری اور تیسری صدیوں کے دوران مسلم معاشرہ کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے معرض وجود میں آئی ہے۔
اس وجہ سے ان موضوعات پر معلومات حاصل کرنے کے لیے ان کے نزدیک اسلامی مآخذ قابلِ اعتماد اور لائق استناد نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کے نقطہ نظر سے اس سلسلہ میں صرف ان معلومات پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے جو غیراسلامی مآخذ سے حاصل کی جائیں۔ اس سے مراد دراصل مستشرقین کی اپنی کتابیں ہیں جو اسلام دشمنی کے شدید جذبہ کے تحت لکھی گئی ہیں اور اسلام کے خلاف بدترین افترا پردازیوں اور غلط بیانیوں پر مشتمل ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی پہلی دہائی میں University of Utrecht کے پروفیسر ایڈریان ریلینڈ نے اسلام کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرنے کے خواہاں طلبہ کو یہ مشورہ دیا تھا کہ انہیں اس مقصد کے حصول کے لیے مغربی مصنّفین کی کتابیں پڑھنی چاہیے۔ عربی زبان سیکھنا اور اصل مآخذ تک رسائی کی کوشش وقت کے ضیاع اور ایک سعیِ لاحاصل سے زیادہ کچھ نہیں۔
بروکلمان نے اس رائے سے اس حدتک تو اختلاف ضرور کیا کہ عربی زبان سیکھنے کی زحمت اور مشقت برداشت کی لیکن انہوں نے بھی اسی راستہ پر چلنے کو ترجیح دی جس پر ایک زمانہ سے مستشرقین چلتے آئے تھے۔ یہ طریقہ اسلام، پیغمبر اسلامؐ ، قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام کے سلسلہ میں یکسر منفی رویہ سے عبارت ہے۔ پروفیسر سزکین کئی امور میں بروکلمان کے ممنون احسان ہونے کے باوجود اپنے آپ کو یہ لکھنے پر مجبور پاتے ہیں کہ ’’غیر ان ہذا الرجل لم یکن یحب العالم الاسلامی کما ان کتابہ۔ للاسف۔ لا یتضمن اي حکم ایجابی بشان المسلمین بل علی العکس والنقیض من ذالک اذ کانت بہ احکام سلبیۃ لمستشرقین آخرین لیست خاصۃ بـہ وانما ہی احکام اطلقہا آخرون‘‘۔
اس سلسلہ میں دوبارہ کسی قدر تفصیل کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اس کے بغیر پروفیسر سزکین کے علمی ورثہ کی نہ تو صحیح ابعاد و جہات سامنے آسکتی ہیں اور نہ اس کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ بات پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ اسلامی تاریخ کی کیسی عظیم الشان خدمت ہے جو ایک فرد واحد نے انجام دی اور مغربی دنیا کے منصوبہ بند فریب کا پردہ چاک کردیا۔
اس کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوئی کہ یہ تصور کہ پروفیسر سزکین کا کام دراصل بروکلمان کے کام کی تکمیل ہے علمی حلقوں میں اس طرح جڑ پکڑ چکا ہے کہ اس کی صدائے بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے اور بالعموم برصغیر میں جہاں کہیں ان کے بارے میں ان کی وفات کی مناسبت سے لکھا گیا ہے یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے۔ اس تصور کے عام ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شیخ نذیر حسین صاحب جیسے شخص جو تاریخ التراث العربی کی پہلی جلد کے مترجم بھی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’علمی حلقوں میں ایک عرصہ سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ بروکلمان کی کتاب پر نئی معلومات اور جدید مطالعات کی روشنی میں نظر ثانی کی جائے۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ عظیم الشان کام ایک ترک فاضل فواد محمد سزکین نے کر دکھایا‘‘۔
شیخ صاحب اسی بات کو تاکید مزید کے طور پر دوسری جگہ اس طرح لکھتے ہیں: ’’سزکین صاحب کا تیسرا اور زندہ و جاوید کارنامہ بروکلمان کی تاریخ ادبیات عربی کی نئی اور نظر ثانی شدہ اشاعت ہے… . جو لائیڈن سے آٹھ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہے‘‘۔ اس بیان سے مترشح ہے کہ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ کام ابھی جاری ہے۔ انہوں نے پہلی جلد کا ترجمہ عربی سے کیا ہے۔
عربی ترجمہ ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا تھا اور اس کے لیے جو مقدمہ پروفیسر سزکین نے لکھا تھا جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اس میں انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے موقف کی وضاحت کردی تھی۔ معلوم نہیں کن وجوہ سے اردو ترجمہ میں نہ تو پہلے مقدمہ کا ترجمہ شامل اشاعت ہے اور نہ دوسرے کا۔
کتاب کی پہلی جلد علوم قرآن، حدیث، فقہ، تصوف اور تاریخ وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے۔ فن حدیث پروفیسر سزکین کی خصوصی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ تاریخ التراث کے منصوبہ پر کام شروع کرنے سے پہلے وہ ’’مجاز القرآن‘‘ پر تحقیق کے علاوہ ’’مصادر بخاری‘‘ پر اپنی مشہور تصنیف شائع کرچکے تھے۔ مغربی اسکالر اسلام میں حدیث کی اہمیت اور مقام سے واقف تھے اس لیے انہوں نے ابتدا سے ہی نہ صرف حفاظت حدیث کے پورے نظام ہی کو مشکوک بنانے کی ہر ممکن کوشش بلکہ ذخیرہ حدیث کو بہت بعد کی اختراع قرار دیا۔
ایک طرف تو انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ اسلامی تاریخ کی ابتدائی دو صدیوں میں احادیث کی کتابت کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا اور روایت حدیث کا پورا سلسلہ زبانی روایت پر منحصر تھا اس لیے ذخیرہ حدیث میں نہ صرف بھول چوک کے فطری امکان کی وجہ سے غلطیوں کے درآنے کی گنجائش تھی بلکہ ارادی اور شعوری طور پر اس میں غلط اور موضوع احادیث کے راہ پاجانے کا پورا پورا امکان تھا۔
دوسری طرف ان کا اصرر یہ تھا کہ حدیث لٹریچر کا کوئی تاریخی وجود نہیں ہے بلکہ یہ دوسری اور تیسری صدی میں اس وقت کے مسلم معاشرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وجود میں آیا تھا اور یہ مکمل طور پر جعلی ہے۔ اگر علمی سطح پر ان کے پہلے اعتراض کا شافی اور مسکت جواب دے دیا جائے اور پوری طرح یہ ثابت کردیا جائے کہ حدیث کی حفاظت کا انتظام ابتدا ہی سے تحریری اور زبانی دونوں طرح قائم تھا تو اس قضیہ کی دوسری بنیاد خود ہی منہدم ہوجاتی ہے۔ جو چیز تدوین حدیث کے دور تک بلا انقطاع تحریری طور پر ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہی ہو دو صدیوں کے بعد اس کے اختراع کا سوال کہاں سے پیدا ہوسکتا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بالکل ابتدا ہی سے کتابت حدیث کا کام شروع ہوگیا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے احادیث رسولؐ کو اپنے سینوں ہی میں محفوظ نہیں رکھا بلکہ اس کی کتابت کا بھی اہتمام کیا۔ اس ابتدائی عہد کے بعض مجموعے دریافت بھی ہوچکے ہیں۔ اس سلسلہ میں خاص طور سے صحیفہ ہمام بن منبہ کا ذکر کیا جاسکتا ہے جو حضرت ابوہریرہؓ کی یادداشتوں سے تیار کیا گیا تھا۔ اسے ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے ۱۹۵۳ء میں دمشق سے شائع کیا۔ پروفیسر سزکین نے مستشرقین کے نظریات کا بہت باریک بینی سے تجزیہ کیا۔
وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مغربی مصنّفین نے اس سلسلہ میں شعوری طورپر بددیانتی کے علاوہ جو بنیادی غلطی کی وہ یہ تھی کہ وہ کتابت حدیث، تدوین حدیث اور تبویب حدیث کی اصطلاحوں کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ چنانچہ یہ اصطلاحات حفاظت حدیث کے جن مختلف مراحل کی نشان دہی کرتی ہیں وہ ان کی گرفت میں نہیں آسکا۔ انہوں نے تبویب حدیث کے مرحلہ کو حفاظت حدیث کا پہلا مرحلہ تصور کیا اور وہیں سے اس غلط فہمی نے راہ پائی کہ حدیث کو تحریری شکل میں محفوظ رکھنے کا سلسلہ بہت تاخیر سے شروع ہوا اور اس طویل عرصہ میں حفاظت حدیث کا تمام تر انحصار زبانی روایت پر رہا۔ ابوطالب مکی (وفات ۳۸۶؍ ۹۹۶) نے ۳۰ ہجری اور ۱۳۰ ہجری کے درمیانی عرصہ کو حفاظت حدیث کے سلسلہ میں ہونے والی کوششوں کا ابتدائی عہد قرار دیا ہے۔
تحمل حدیث کو آٹھ طریقوں میں منقسم کیا گیا ہے؛ سماع، قرأت، اجازت، مناولہ، کتابت یا مکاتبت، اخبرنی یا عن کے ذریعہ، وصیت اور وجادہ۔ ان تمام صورتوںمیں صرف پہلی دو صورتوں میں حافظہ اہمیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ کہ ان دونوں صورتوں میں بھی نصوص کی مدد کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ یہ ’’روشن خیال‘‘ مستشرقین ان آٹھ طریقوں میں سے صرف تین یعنی اجازہ، مناولہ اور وجادہ سے واقف تھے اور لطف کی بات یہ ہے وہ یہ بھی معلوم نہیں کرسکے کہ ان اصطلاحات کا رواج کب سے ہوا۔
پروفیسر سزکین کی تحقیق یہ ہے کہ روایت کے ان تمام طریقوں کی اصل صدر اسلا م میں ملتی ہے۔ مزید یہ کہ شروع ہی سے نقل روایت کے سلسلہ میں مدون نصوص پر اعتماد کیا جاتا رہا ہے۔ روایات میں مذکور اسانید دراصل روایات کے مولفین پر مشتمل ہوتی ہیں (۳۶)۔ اس نکتہ کو پروفیسر سزکین نے تفصیلی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ اس سے واضح طور پر یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان بڑے پیمانے پر کتابت حدیث کا رواج تھا، تابعین کے عہد میں اس میں بہت اضافہ ہوا۔ چنانچہ تابعین کے عہد میں حدیث کو لکھنے کا اتنا رواج ہوگیا تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے عاریتاً کتابیں لیتے تھے اور ان کی نقل تیار کرنے کے بعد انہیں واپس کردیتے تھے۔
قرأت حدیث کے سلسلہ میں پروفیسر سزکین نے کئی مثالیں پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے محدثین اپنی کتابوں سے قرأت کرتے تھے۔ مشہور محدث شعبہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’شعبہ اپنے مدونات اور خاص کر اپنی کتابوں اور اپنے لکھے ہوئے احادیث کے مجموعوں پر اعتماد کرکے بھی احادیث بیان کرتے تھے۔ کتابوں کو وہ کم ہی حفظ کرتے تھے‘‘ ۔ انہوں نے اس کی کئی اور مثالیں بیان کی ہیں جن کا استقصاء طوالت کا باعث ہوگا۔ جن حضرات محدثین کے بارے میں یہ شہرت عام ہے کہ وہ کسی کتاب سے رجوع کیے بغیر احادیث بیان کرتے تھے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بھی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ گولڈزیہر، حدیث کے بارے میں بیشتر غلط فہمیوں کا نسب نامہ جن کے اوپر منتہی ہوتا ہے، مشہور محدث وکیع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے کاغذ اور قلم کو بالکل الگ رکھ دیا تھا۔ حالانکہ جن کتابوں کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ گولڈزیہر کے استعمال میں رہی ہیں خود ان میں مصنفات وکیع کا ذکر ہے۔ یا تو موصوف کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی یا اسلام دشمنی میں انہوں نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر محدث کے پاس ایک یا کئی کتابیں ہوتی تھیں۔ ایسے محدث کو تعظیماً صاحب کتاب کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا۔
اسانید کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اسانید زبانی مرویات کی طرف اشارہ نہیں کرتیں بلکہ اس کے علی الرغم ثقات مولفین کو ان کے نام کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ مثال کے طورپر قطعیت کے ساتھ یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ جب طبری اپنی تاریخ میں یہ اسناد بیان کریں کہ حدثنـا ابن حمید قـال حدثنا سلامـہ قـال حدثنـا ابن اسحـاقتو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یہ اقتباس ابن اسحاق کی کتاب المغازی سے لیا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنی تفسیر میں یہ اسناد بیان کریں کہ حدثنا محمد بن عمرو الباہلی قال حدثنا ابو عاصم النبیل قال حدثنا عیسی بن میمون عـن ابـن ابـی نجیـح عـن مجـاہـدتو وہ اس تفسیر قرآن سے اقتباس کررہے ہیں جو مجاہد کی تصنیف ہے۔
اس طرح انہوں نے اسناد اور ان میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے گہرے مطالعہ اور خود اپنے متعین کیے ہوئے منہاج سے قطعیت کے ساتھ یہ بات ثابت کردی ہے کہ باوجود اس کے کہ تاریخ اسلام کے ابتدائی عہد میں بعض اسباب کی وجہ سے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، کتابت حدیث کے سلسلہ میں کسی قدر تحفظات تھے لیکن احادیث اور آثار نبویؐ کو محفوظ کرنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ صحابہ کرامؓ نے متعدد صحیفے اور مجموعے یادگار چھوڑے اور وقت گذرنے کے ساتھ اس رجحان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس لیے یہ بات کسی طرح بھی قرینِ صواب نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ کی پہلی دو صدیوں میں حفاظت حدیث کا انحصار مکمل طور پر زبانی روایت پر تھا۔ اس سے پروفیسر سزکین کی تحقیقات کے منہاج ، انداز اور معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کتاب کی دوسری جلد شاعری کے لیے مخصوص ہے۔ چونکہ عرب شاعری کو عالمی شاعری کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی اور خاص طور سے یونانی شاعری کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے، اس لیے مواد کی فراہمی میں مشکلات کی وجہ سے اس جلد کی تیاری میں کافی دیر لگی۔ اس وجہ سے اس کی اشاعت سے پہلے اس کے بعد کی دو جلدیں شائع ہوگئیں۔ عرب شاعری کو دیوان العرب کہا گیا ہے۔ جاہلی شاعری نہ صرف اس دور کے عرب معاشرہ کی تاریخ و تہذیب سے واقفیت کے لیے نہایت اہم ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ کتاب اللہ کے فہم اور اس کے اسالیب کو سمجھنے کا بھی اہم ذریعہ ہے۔
خاص طور سے فہم قرآن کے لیے اس کی اس اہمیت کی وجہ سے مستشرقین نے اس کے استناد کو مشکوک بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حدیث کی طرح جاہلی شاعری کے سلسلہ میں یہ کہا گیا کہ چونکہ یہ طویل مدت تک زبانی روایت پر منحصر رہی ہے اس لیے وہ قابل اعتماد نہیں ہے اور اس کا بڑا حصہ منحول ہے۔ یہ بات اتنے زور شور سے کہی گئی کہ کئی عرب مصنّفین نے بھی اس نظریہ کو قبول کرلیا۔ طہ حسین کی فی الشعر الجاہلی اسی کی صدائے بازگشت ہے۔ پروفیسر سزکین نے پختہ شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کردیا ہے کہ عرب شاعری کو لکھنے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہ دعویٰ درست نہیں ہے، اس کا انحصار صرف زبانی روایت پر تھا۔
تاریخ التراث العربی کی تیسری جلد طب، صیدلہ، علم الحیوان اور البیطرہ جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ چوتھی جلد سیمیاء، کیمیاء، علم نباتات اور زراعت سے متعلق ہے۔ پانچویں جلد ریاضیات پر ہے۔ چھٹی جلد کا موضوع فلکیات ہے۔ ساتویں جلد احکام نجوم اور اس کے متعلقات پر ہے۔ آٹھویں جلد علم اللغۃ اور نویں جلد نحو پر ہے۔ دسویں، گیارہویں اور بارہویں اور تیرہویں جلدیں جغرافیہ اور نقشہ نویسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چودہویں اور پندرہویں جلد انتھراپولوجی سے متعلق ہے۔
اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان میں سے کئی کتابیں ایک سے زیادہ اجزاء پر مشتمل ہیں۔ اس سے پہلے یہ ذکر ہوچکا ہے کہ ابتدا میں پروفیسر سزکین نے اپنے دائرہ تحقیق کو ۴۳۰ ہجری تک محدود رکھا تھا۔ پہلی نو جلدوں میں تو ان کی تحقیقات اسی زمانی دائرہ تک محدود ہیں۔ بعد میں انہوں نے اپنی تحقیقات کو بہت وسعت دے دی تھی اور اسے اٹھارہویں صدی تک بڑھا دیا تھا۔
اس سلسلہ کی کئی جلدیں ایسے علوم اور موضوعات سے متعلق ہیں جن کی تاریخ پر اس سے پہلے کوئی کام نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر علم کیمیا (کیمسٹری) میں مسلمانوں کی خدمات پر اس سے پہلے کسی مصنف نے توجہ نہیں دی تھی۔ موجودہ زمانہ میں سائنس کی اس شاخ کو انسانی زندگی میں جو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔
جن بنیادوں پر یہ علم آگے بڑھا وہ مسلمانوں نے فراہم کی تھیں۔ جن علوم میں مسلمانوں کے اکتسابات غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے ہیں لیکن پروفیسر سزکین سے پہلے کسی محقق اور مورخ نے ان کی تاریخ اور ان کی ابتدا اور ارتقاء کو اپنے مطالعہ کا موضوع نہیں بنایا ان میں علم نباتات، علم فلک اور علم ارصاد الجویہ شامل ہیں۔ ان کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یوروپی سائنس دانوں نے اٹھارہویں صدی تک اس میدان میں جو بھی کام کیا وہ مسلمانوں کے کام کے چربہ سے زیادہ کچھ اور نہیں۔
ہواؤں کے پیدا ہونے کے سلسلہ میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کی تحقیق جرمن فلسفی عمانویل کانٹ کا کارنامہ ہے جو اٹھارہویں صدی سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلمان علما نویں صدی میں اس سے متعلق پوری تحقیقات کرچکے تھے۔ اسی طرح مد و جزر کے سلسلہ میں ان کو پوری معلومات حاصل تھیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلہ کی ہر جلد اپنی جگہ پر ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے اور اس بات کی غماز ہے کہ انسان اپنی محنت، عزم اور حوصلہ سے کن ناقابل یقین بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ حیرت کی بات صرف یہ نہیںہے کہ ایک فرد نے تنہا اتنا بڑا کارنامہ کس طرح انجام دیا۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پروفیسر سزکین نے اس کام کے علاوہ کئی اور بھی نہایت عظیم الشان علمی اور تحقیقی فتوحات یادگار چھوڑی ہیں جن کا ذکر انشاءاللہ آیندہ آئے گا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے مختلف النوع موضوعات جو علم و ادب کی تقریباً ہر شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، کا حق ایک تنہا شخص نے کیسے ادا کیا۔ بلاشبہہ ان کو دور جدید کی فراہم کردہ سہولیات دستیاب تھیں لیکن اس کے باوجود اصل کام کی منصوبہ بندی اور انجام دہی تو انہی کو کرنی تھی۔ اتنے مختلف النوع اور وسیع الاطراف موضوعات پر اتنی اعلیٰ درجہ کی تحقیقات یقیناً ایک نہایت غیرمعمولی کارنامہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
پروفیسر سزکین کی بعض تحقیقات معرض بحث میں بھی آئی ہیں اور ان پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ یہ استدراک حکمت بشیر یاسین اور ابوبکر بن علی وغیرہ کئی مصنّفین کے قلم سے ہے اور استدراکات علی تاریخ التراث العربی کے نام سے مجمع الفقہ الاسلامی، دار ابن الجوزی سے ۲۰۰۲ء میں آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ بعض اصحاب علم کا خیال ہے کہ یہ استدراک پروفیسر سزکین کے تسامحات سے زیادہ ان کے منہج سے لاعلمی پر مبنی ہے۔
علم و دانش اور بحث و تحقیق کی دنیا میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ عجیب۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ یہ ہر انسانی کاوش کا مقدر ہے۔ کوئی بھی انسانی کاوش چاہے وہ کتنی ہی اعلیٰ درجہ کی ہو ہر حیثیت سے مکمل نہیں ہوسکتی اور اس درجہ کمال کو نہیں پہنچ سکتی جہاں اس میں کسی کمی کا امکان باقی نہ رہے۔ یہ صفت صرف اللہ کی ذات پاک سے مختص ہے جو ہر کمی سے پاک ہے۔ بحیثیت محقق اپنی تمام تر عظمت کے باوجود پروفیسر سزکین اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے ان کے کام کی عظمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ ایسا کارنامہ ہے جسے دیکھ کر انسان مبہوت رہ جاتا ہے۔ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔
ان کتابوں کا مکمل ترجمہ تو شاید ابھی تک کسی زبان میں نہیں ہوا ہے۔ البتہ متفرق جلدوں کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔ عربی میں سات جلدیں ترجمہ ہوچکی تھیں۔ پھر یہ کام رک گیا۔ یہ ترجمے جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ، ریاض اور جامعۃ الملک سعود، ریاض سے شائع ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے جلد اول کے ایک حصہ کا ترجمہ ۱۹۷۱ء میں قاہرہ سے چھپا تھا، پھر اسی جلد کے دو تہائی حصہ کا ترجمہ قاہرہ ہی سے ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ اردو میں شیخ نذیر حسین، دائرہ معارف، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور نے پہلی جلد کا اردو ترجمہ دو جلدوں میں کیا تھا اور اس کا نام تاریخ علوم اسلامیہ رکھا تھا۔
جلد اول ۱۹۹۶ء اور جلد دوم ۱۹۹۷ء میں پاکستان رائٹرس کوآپریٹیو سوسائٹی، لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ پہلی جلد میں شامل تاریخ و تدوین حدیث پر پروفیسر سزکین کے قیمتی مقدمہ کو سعید احمد نے اردو کا قالب عطا کیا اور مقدمہ تاریخ تدوین حدیث کے نام سے ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کے شعبہ دعوت و ارشاد کی طرف سے شائع کیا گیا۔ ہندوستان میں ہمیں کسی اور ترجمہ کی اطلاع نہیں ہے۔