₹300.00
سرگزشتِ حیات ” مولانا ڈاکٹر محمد ابواللیث خیرآبادی (قاسمی پروفیسرواستاذ کرسی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، کوالالمپور، ملیشیا) کی خود نوشت سوانح ہے ۔یہ جہد مسلسل سے عبارت ایک ایسے حوصلہ مند شخص کی داستان حیات اورتجربات زندگی ہیں جو ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہونے اور نامساعد حالات اور ناموافق ماحول کے باوجود پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ حصول علم میں سرگرداں رہا۔ توفیق الٰہی اور نصرت خداوندی اس کے قدم بہ قدم رہی۔ تمام تعلیمی مراحل میں اس نے امتیازی نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور آج وہ ایک انٹرنیشنل لیول کی یونیورسٹی ”انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور ” میں پروفیسر اور علم حدیث کی ترویج واشاعت کے لئے قائم کئے گئے چیئر” جمل اللیل للسنة ” کے چیئر ہولڈر ہیں ۔
اس وقت ان کی عمر ٧٠ سال سے زائد ہوچکی ہے، ان کی داستان حیات میں بعد والوں کے لئے نصیحت کا بڑا سامان ہے ، اس لئے میں نے گزارش کی کہ وہ اپنے بِیتے ہوئے لمحات کو قلم بند کردیں ۔ میر ے اصرار کے نتیجہ میں یہ داستان وجود میں آئی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان سب سے زیادہ عملی نمونوں سے متاثر ہوتا ہے ، جب اس کے سامنے عملی نمونہ ہوتا ہے تو راستہ کا طے کرنااس کے لئے آسان ہوجاتا ہے،اسی لئے آپ بیتیوں اہمیت وافادیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے ،کہ یہ شخصیت کو بنانے ، کردار کو سنوارنے اور زندگی کی راہ متعین کرنے میں اور کسی کو اسوہ ونمونہ بناکر زندگی کا سفر طے کرنے میں بہت معاون ہوتی ہیں، خاص طور سے جب وہ کسی ایسے شخص کے قلم سے ہوں جو ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا ہو اور اس کا کوئی خاص خاندانی پس منظر نہ ہو، اس کی سیرت وشخصیت کی تکمیل میں خود اس کی اپنی ذاتی محنت وکوشش اور جد وجہد کا دخل ہو، ایسی آپ بیتیوں کو پڑھ کر ایک عام انسان اور طالب علم کے اندر بھی یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے جیسا ایک عام انسان اپنی ذاتی محنت وکوشش سے علم وفضل کی بلندیوں پر پہنچ سکتا ہے تو ہم بھی اگر ویسی ہی محنت وجانفشانی سے کام لیں تو ہم کیوں وہاں تک نہیں پہنچیں گے، یہ چیز اس کے جذبۂ عمل کو بیدار کرتی ہے اور اس کے حوصلوں کو مہمیز کرتی ہے ۔جیسے ہمارے دور میں مولاناقاضی اطہر مبارکپوری ، مولانا عبدالرحمن حیدرآبادی، احسان دانش اور استاذی مولانا اعجازاحمد اعظمی رحمہم اللہ کی آپ بیتیاں، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی ذاتی کاوش سے اپنا مقام بنایا،یہ آپ بیتی بھی اسی نوعیت کی ہے ۔
٢٥٦ صفحات کی یہ کتاب ١٨ ابواب پر مشتمل ہے جس کی تفصیل یہ ہے :
١۔خاندانی ماحول،٢۔تعلیمی سرگزشت،٣۔دارالعلوم دیوبندمیںتین سال،٤۔ تدریس،٥۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ،٦۔جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ،٧۔تعلیمی زندگی کا ایک جائزہ،٨۔انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیامیں،٩۔میری اولادیں،١٠۔تصنیفات و تالیفات،١١۔مقالات،١٢۔مراجعات کتب]بک ریویو[ ،١٣۔تقاریظ ، ١٤۔تحقیقات وتعلیقات،١٥۔وقائع وحوادث،١٦۔کچھ یادگارسفر،١٧۔میرے شیوخ و تلامذہ ،١٨۔میرے دوست و احباب۔
ان اٹھارہ ابواب میں مصنف نے اپنی داستان حیات کو سمو دیا ہے ، اس آپ بیتی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے، اس کے لئے مئو کے معروف ادیب ومصنف ڈاکٹر شکیل احمد کی اس تحریرکو پیش کرتا ہوں:
”سرگزشت حیات ”کے مطالعہ سے سب سے قیمتی ، حوصلہ افزا،اور سبق آموز تعلیم یہی ملتی ہے کہ حالات کی ستم ظریفی سے صبرو شکر کے ساتھ نبرد آزما رہتے ہوئے ، ہمت و حوصلہ اور خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے ،بہتر مستقبل کے لئے کوشاں رہنے میں ہی ہمارے ذاتی اور اجتماعی معاملات اور مسائل کا حل موجود ہے ۔مولانا کی اس خود نوشت کے مطالعہ سے موجودہ نسل ،اور نامساعد حالات میں آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنے والوں کو اپنی جدوجُہد کی راہ ہموار کرنے کا حوصلہ ضرور ملے گا ۔معاشی مشکلات اور غربت و افلاس میں ہوش سنبھالنے والے زیرک نونہالوں کو بھی مولانا کی اس کتاب سے یقیناً ڈھارس بندھے گی کہ وہ اس راستے کے تنہا راہی نہیں ہیں بلکہ ماضی قریب میں ،اس دیار کے درجنوں بے اختیار ، مفلوک الحال ذہن و فطین نونہالوں نے اپنے وقت میں ،اپنے محدود وسائل کے ساتھ حصول علم میں جانفشانی کا ثبوت دیا ، اور پھر وقت بھی آیا جب اِن کی محنت رنگ لائی اور انہوں نے اپنے اپنے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے اور اب بھی دے رہے ہیں ۔ ”سرگزشت حیات ”کا سب سے قیمتی سبق میرے نزدیک یہی ہے کہ یہ ہماری اور نئی نسل کو ہمت و حوصلہ عطا کرنے والی اور مایوسی و پژمر دگی کی دلدل سے قدم بچاکر آگے بڑھنے کا حوصلہ دینے والی کتاب ہے ۔
سچے انسانی جذبات ، عزم و حوصلہ ، پامردی اور ثبات قدمی ”سرگزشت حیات ”کے اکثر صفحات میں بکھرے پڑے ہیں ،انہیں چننے اور دل و دماغ میں سجانے کے لئے اس کا مطالعہ نفع بخش ہوگا ،طلباء و طالبات ،ان کے سرپرستوں اور والدین نیز علمی و ادبی حلقوں میں بھی اس کی اہمیت کو یقیناً سمجھاجائے گا ،بشرطیکہ اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے گا ۔
ضیاء الحق خیرآبادی
In stock
Reviews
There are no reviews yet.