Kagaz Se Screen Tak | کاغذ سے اسکرین تک منظر نامہ مسائل اور امکانات
₹395.00
محمد علم اللہ کی بے چین طبیعت مجھے خوب بھاتی ہے ۔ اس لیے کہ یہ بے چینی ہی ہے ، جو انہیں ایک مدرسے سے برطانیہ کی یونیورسٹی تک لے گئی ہے ۔ درمیان میں کئی پڑاؤ آئے مگر وہ تھم کر کہیں بیٹھے نہیں ، بے چین رہے ، حرکت کرتے رہے کہ حرکت ہی میں برکت ہے ۔ ان کی بے چین طبیعت نے ان سے وہ کام کروائے ہیں ، جو ان کے جاننے اور نہ جاننے والوں کے لیے ، رشک اور حسد کا باعث بنے ہوں گے ۔ ایسا ہی ایک کام یہ کتاب ‘ کاغذ سے اسکرین تک : منظر نامہ ، مسائل اور امکانات ‘ ہے ۔
وہ ایک صحافی رہے ہیں ، اب بھی ہیں ، اسی لیے میڈیا ان کا پسندیدہ موضوع ہے ، لیکن صرف اسی لیے پسندیدہ نہیں ہے ، اس لیے بھی پسندیدہ ہے کہ وہ میڈیا کی طاقت کو سمجھتے ہیں ، اور یہ یقین رکھتے ہیں ، کہ اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے ، عزت کی زندگی جینی ہے اور اپنے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈوں کا رد کرنا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے ، تو خود کا طاقتور میڈیا ضروری ہے ۔ کتاب میں گیارہ مضامین کا ایک پورا باب ‘ میڈیا اور مسلمان ‘ کے نام سے شامل ہے ، جس میں وہ بہت صاف صاف کہتے ہیں ” میڈیا کا اسلام کو بدنام کرنے میں بہت اہم رول ہے ، میڈیا بد عقیدگی اور فحاشی کو عام کر رہا ہے ۔” اور زور دیتے ہیں کہ ” ضروری ہے کہ مسلمان میڈیا کو اپنے استعمال میں لائیں ۔” زور اس لیے کہ اپنا میڈیا اپنی بات صاف لفظوں میں لوگوں کے سامنے رکھ سکے گا ۔ مصنف کی پوری کوشش ہے کہ مسلمان اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے وابستہ ہوں کیونکہ ” اطلاعات نے دنیا کی فوجی اور سیاسی طاقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔” اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے دوری کو وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ” المیہ ” قرار دیتے ہیں ۔
یہ کتاب اپنے پڑھنے والوں کو صحافت اور صحافتی دنیا کے نئے نئے مسائل سے آگاہ کرتی ہے ، بتاتی ہے ، کہ پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور سائبر و جدید میڈیا نے لوگوں کے لیے ، بشمول فارغین مدارس ، امکانات کا ایک در وا کر دیا ہے ، بس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ محمد علم اللہ اردو زبان کے اخبارات سے شاکی ہیں ، اور بجا طور پر شاکی ہیں ۔ سچ کہیں تو اردو میڈیا ، استثنا کے ساتھ ، طفیلی میڈیا بن گیا ہے اور صحافیوں کو سرقے کا چسکا لگ گیا ہے ۔ لیکن مایوسی حرام ہے ، اچھے لوگ ہنوز جدوجہد میں لگے ہیں ، مصنف نے اس کی مثالیں بھی دی ہیں ۔ مضامین کا اسلوب سہل ہے لیکن ان میں جگہ جگہ تلخی اور طنز کی کاٹ محسوس ہوتی ہے ، پر لکھنے والے کا خلوص بھی نظر آتا ہے ۔
یہ مضامین مثبت تبدیلی کے لیے لکھے گیے ہیں، ان میں مفید مشورے اور تجاویز ہیں ، منفی رویوں پر سخت تنقید ہے ، اور پوری کوشش آئینہ دکھانے کی ہے ، تاکہ اپنے گرد و غبار نظر آ جائیں ، اور انہیں صاف کرنا ممکن ہو جائے ۔ محمد علم اللہ کی یہ کاوش صحافت کے طالب علموں کے لیے تو لازمی ہے ہی ، عام پڑھنے والوں کے لیے بھی مفید ہے ، کہ وہ ان مضامین کو پڑھ کر یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا میڈیا کیوں کمزور ہے اور اسے طاقتور بنانے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے ۔











