Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Maulana Naseem Ahmed Ghazi Mazahiri, حضرت مولانا نسیم احمد غازی مظاہری

Mazahir Uloom Saharanpur

Maulana Naseem Ahmed Ghazi Mazahiri, حضرت مولانا نسیم احمد غازی مظاہری

مصنف: مفتی زعیم احمد قاسمی

دنیا ایک گزر گاہ ہے جس میں روز اول سے انسانوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے پھر آنیوالے بھی مختلف کوئی تو دنیا کی رنگینی اس کی حسن و زیبائش میں گھرے ہوئے ہیں ،مال و اسباب کی کثرت کی باعث عیش و آرام کے خوگر ،مال میں اضافہ کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے اور کوئی طاقت و قوت کے سہارے اقتدار پر جما ہوا ہے اپنی کمال ہوشیاری سیاسی معرفت سے دنیا کو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے انھیں میں سے بعض اللہ کے بندے انسانوں کی ہمدردی و خیر خواہی میں مشغول عوام کی رہبری اور ہدایت کیلئے فکر مند معاشرہ سے ناخواندگی مٹانے اور دین کی اشاعت میں ہمہ وقت مصروف مگر جانا سبھی کو پڑتا ہے۔ لیکن کچھ جانے والے اپنے پیچھے یادگار لمحات کا ایسا تسلسل چھوڑ جاتے ہیں جو بعد والوں کیلئے سامان و سکون اور عبرت و موعظت کا عنوان بن جاتا ہے ،ایسی ہی نمایاں شخصیات میں شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا نسیم احمد غازی مظاہری ؒ تھے ۔

ولادت با سعادت شعبان المعظم۱۳۵۷ھ مطابق ۱۹۳۸ء ؁ کو مردم خیز علاقہ تھے پورضلع بجنور یوپی میں صدیقی النسب خانوادے میں ہوئی ۔  ابتدائی تعلیم اردو ہندی دینیات ناظرہ قرآن پاک اپنے قریہ میں رہ کر حاصل کی ۔  فارسی اور عربی کی کتابیں کافیہ تک مدرسہ حسینیہ قاسم العلوم پہاڑی دروازہ دھامپور میں حاصل کی۔شوال المکرم ۱۳۷۲ھ میںآپ نے مظاہر علوم میں داخلہ لے کر شرح جامی ، کنز الدقائق، اصول الشاشی وغیرہ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ۱۳۷۷ھ میں فراغت حاصل کی۔

آپ نے اپنااصلاحی تعلق سب سے پہلے حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ رامپوری ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، ان کے بعد شیخ المشائخ حضرت مولانا زکریا صاحب شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور،پھرفقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صاحب نوراللہ مرقدہ ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور،پھر حضرت مولانا عبد الجبار صاحب نور اللہ مرقدہ شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مرادآباد،اس کے بعد حضرت مولانا الشاہ عبد الرحیم صاحب نور اللہ مرقدہ تھے پور ضلع بجنورسے اصلاحی تعلق تھا ۔آخر کے تینوں حضرات سے خلافت و اجازت بیعت بھی حاصل تھی۔

فراغت کے بعدمختلف مقامات پرتدریسی خدمات انجام دیں،اس کے بعد تقریباً ۶؍ ماہ مدرسہ کاشف العلوم چھٹملپور،پھر۶؍سال مدرسہ رشیدیہ اشرف العلوم گنگوہ میں، مدرسہ حیات العلوم مرادآباد میں ۶؍سال،پھر مدرسہ امدادیہ مرادآباد ۳؍سال،پھر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد میں ۳؍ سال۔ اس کے بعد تا حیات تقریباً ۴۲؍سال دار العلوم جامع الہدیٰ میں خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ مرکز والی مسجد سرائے پختہ میں تقریباً ۴۶؍سال بے مثال امامت و خطابت کا فریضہ انجام دیا۔

فن خطابت میں آپ کو بے مثال مہارت حاصل تھی ،علمائے عصر میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا بے باکی کے ساتھ حق گوئی اور اللہ اور اس کے رسول کا پیغام بلاخوف و خطرعوام و خواص تک پہنچانا آپ کی خاص صفت تھی گویا کہ ایک موجیں مارتا بیکراں سمندر تھا ،بیان ایسا موثر و دل پذیر اوردلچسپ وشیریں کہ سامعین کئی کئی گھنٹے سراپا گوش ہوکر محظوظ و لطف اندوز ہوتے،آپ کے بیان سے عوام وخواص جدید و قدیم تعلیم یافتہ اور امت کا ہر طبقہ یکساں موثر ہوتا ۔جمعہ کے روز ہونے والا بیان سننے کیلئے مقامی افراد کے علاوہ قرب و جوار کے بڑی تعداد میں افراد و ائمہ شرکت کرتے۔آپ کے بیانات میں توحید، عشق رسولﷺ اور محبت الٰہی صاف ظاہر ہوتا تھا ،آپ اپنے بیانات میں اکثر یہ شعر کہا کرتے تھے ۔

تونہ چھوٹے مجھ سے یارب تیرا چھوٹنا ہے غضب
یوں میں راضی ہوں چاہے زمانہ مجھے چھوڑ دے

آپ جس طرح بے مثال خطیب تھے اسی طرح بے نظیر شاعر بھی تھے جب شعر گوئی پر آتے تو طویل نعتیں، نظمیں،رخصتیاں اور مراثی کہہ ڈالتے ،آپ کے منظوم کلام کے پانچ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ہر ایک منظوم مجموعہ سات رسائل پر مشتمل ہے اور’’ نغمات سرور و غم‘‘ آٹھ منظوم رسائل پر مشتمل ہے اس طرح کل منظوم رسائل کی تعداد۳۶؍ ہے ۔

شعر میں چلتا ہے غازی ؔ آپکا ایسے قلم
فین جیسے چل رہا ہو ریگو لیٹر کے بغیر

آپ کے گہر بار قلم سے مطبوعہ و غیر مطبوعہ ۷۰؍ سے زائد تصنیفات و تالیفات منصہ شہود پر آکر علم و ادب کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں ،یہ کتابیں جو علمائے اسلام میں بہت مقبول و معتبر ہیں جیسے درسی تفسیر پارہ ۲۹،۳۰، مراۃ الانوار شرح مشکوٰۃالاثار،اخلاص للہیت (بخاری شریف کی پہلی حدیث ) ، بخاری شریف کی آخری حدیث ، حیات اسعد ،مجموعہ بیان رمضان،مجموعہ تحفۃ النساء،محرم پر ماتم ، حدیث جبریل،تحفۂ عید رمضان، مجموعہ انوارحیات ،مجموعہ اسرار حیات ، مجموعہ فیضان حرم، مجموعہ اشکوں کی بارشیں ،مجموعہ نغمات سرور و غم،علماء کا ادب و احترام ، عباد الرحمن (اللہ کے خاص بندو ں کی پہچان ) ،تبلیغی چہل حدیث ،ارشاد السالکین،دلچسپ مکالمات اول دوم،خلاصۂ تورات،مشعل حیات وغیرہ وغیرہ ۔طالبان علوم دینیہ ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔

درس و تدریس وعظ و خطابت،ارشاد و اصلاح، بیعت و سلوک، تصنیفات و تالیفات اور درس قرآن کریم جیسے مبارک اور قیمتی اعمال سے معمور رہے۔ ان اعمال حسنہ میں تین معمولات ایسے ہیں جو غازی اسلام کی زندگی میں طلب علم کے دور سے تا دم آخر جاری ہے۔ (۱)امامت(۲)تفسیر کلام پاک (۳)نماز جمعہ سے قبل تقریر اور وعظ و نصیحت ۔

جس طرح تدریس و تصنیف و تالیف کے ذریعہ علوم نبویہ کی بے مثال خدمات انجام دی ہیں اسی طرح آپنے تصوف و سلوک کے ذریعہ بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں، آپ کے فیوض بیعت و صحبت اور آپ کے تعلق کی برکت سے ہزاروں انسانوں کو ہدایت میسر آئی بے شمار لوگوں کو آپ کی برکات سے فیضیاب ہونے کا موقع میسر آیا اور سینکڑوں لوگوں کو دین برحق کی رہنمائی ملی آپ سے خلعت خلافت و اجازت بیعت کے بعد وہ باطنی علوم اور نسبت سلوک کے افادے و افاضے میں مصروف ہوئے۔

حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے آپ کی ذات گرامی سے علوم ظاہری و باطنی کے بے شمار چشمے جاری فرمائے،جو انشاء اللہ تا قیامت تشنگان و طالبان امت کو سیر و سیراب کرتے رہیں گے۔

۱۳؍ شوال المکرم ۱۴۳۸؍ھ مطابق ۸؍جولائی ۲۰۱۷؍بروز ہفتہ پونے دس بجے شب میں یہ علم وفضل کا آفتاب غروب ہو گیا۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

نماز جنازہ مرادآباد عید گاہ کے وسیع میدان میں مولانا قاری جسیم احمد نسیمی کی اقتداء میں صبح ۱۰؍بجے لاکھوں محبین متعلقین و متوسلین نے ادا کی اورعلوم و معارف اور اسرار و حکم کے گنجینہ کو اسلام نگر کرولہ پر واقع مسجدِ غازی سے ملحق قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

مفتی زعیم احمد قاسمی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں آئینہ مظاہر علوم رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *