Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Maulana Abdullah Kapodravi Apne Muntakhab Ashar Ke Aaine Mein, مولاناعبداللہ کاپودرویؒ ۔

Maulana Salman Husaini Nadwi

Maulana Abdullah Kapodravi Apne Muntakhab Ashar Ke Aaine Mein, مولاناعبداللہ کاپودرویؒ ۔

مصنف:   مولانا سید سلمان حسینی ندوی

جہاں تک یاد پڑتاہے، اور ہماری ڈائری اس کی تائیدکرتی ہے کہ ۱۹۷۵ ؁ء میں پہلی مرتبہ مجھے گجرات کے دورہ کا موقعہ ملاتھا، اس میں گجرات کے تمام بڑے علماء سے ملاقاتیں ہوئی تھیں،غالباً ان میں مولانا عبداللہ صاحب بھی تھے،دوسری تفصیلی ملاقات مارچ ۱۹۸۴ ؁ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں نصاب تعلیم پرکانفرس کے دوران ہوئی تھی،جس میں میں اور مولانا مجاہد الاسلام صاحب زیادہ سرگرم تھے، مولانا عبداللہ صاحب کی دلچسپی اور فکر مندی بھی ہمت افزائی کررہی تھی،مقالات اور بحثوں کے دوران مولانا عبداللہ صاحب نے بڑے اصرار سے فرمایاتھا کہ سابقہ نظام پر تنقید بجا،لیکن آئندہ کا لائحہ عمل اور نظام طے ہونا چاہئے،محض تنقید کافی نہیں،حل چاہئے،بہر حال پھر تجاویز کی ترتیب میں ہم سب کی کوشش رہی کہ اصلاحات کا ایک جامع خاکہ مرتب کیا جائے، اس موقعہ پر اور اس طرح دارالعلوم ندوۃ العلماء میں رابطہ ادب اسلامی کے اجلاس کے موقعہ پر مولانا مرحوم نے مجھے محبت واصرارسے فلاح دارین ترکیسر حاضر ہونے کی دعوت دی تھی۔

فروری ۱۹۸۵ ؁ء میں میں مولانا مرحوم کی دعوت پر فلاح دارین حاضر ہوا، مولانا اس کے ناظم اعلی تھے،اور مولانا قاسم بن غلام محمد صاحب اس کے نئے نئے مہتمم بنے تھے،۶/فروری جمعرات کو میں مدرسہ پہونچا تھا،اور ۹/ فروری اتوار تک مدرسہ میں میرے اردواور عربی میں متعدد خطابات ہوئے، جلسوں کی صدارت اور سرپرستی مولانا مرحوم فرماتے تھے،اور دل کھول کر ہمت افزائی فرماتے تھے۔

مولاناعبداللہ کاپودرویؒ مرحوم کے ملاقاتوں میں جوچیزان کی تمام ظاہری خوبیوں کے ساتھ سب سے زیادہ پرکشش تھی،وہ ان کی محبت ، شفقت، قدر افزائی اور ہمت افزائی تھی، مولانا صاف شفاف دل رکھتے تھے،روشن دماغ کے مالک تھے،خیر کے ہر پہلو کے متجس رہتے تھے،وسیع الفکری، کشادہ قلبی، فراخ ذہنی ، مولانا کے ایسے امتیازات تھے،جن میں کم علماء ان کے شریک ہوں گے،وہ ہندوستان کے تمام حلقوں سے تو واقف تھے ہی،اورتمام حلقوں کے ذمہ داروں سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات رکھتے تھے،جن میں ان کی تواضع وفروتنی ،اعتراف وقدردانی کے صفت اتنی غالب ہوتی تھی، کہ چھوٹا بھی یہ سمجھنے لگتا تھا کہ وہ ان کا معاصر ہے،بلکہ ان کی شرافت نفسی اور اعلی ظرفی کا یہ عالم تھا کہ و ہ ہر صاحب علم اور صاحب فکر سے اپنے استفادہ کا ہی تذکرہ کرتے رہتے تھے۔

مولانا کی حیات،مولانا کے علم وفضل ، مولانا کے خطبات،تقریظات،تصنیفات پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے،اور یہ ان حضرات کا حق ہے جو مولانا کے شاگرد ہیں،جنہوں نے مولانا کی صحبتیں اٹھائی ہیں، اور ان سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔

مجھے تو مولانا مرحوم کے اس مضمون میں بڑالطف آیا ،جو مولانا مرحوم نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ادبی ذوق،اورخصوصا فارسی ادب سے حضرت کی دلچسپی سے طلباء کو متعارف کرانے کیلئے ۱۵۔۱۴۱۶ ؁ھ میں لکھا تھا، حضرت تھانوی تو اپنے دور کے ’’جامع المجددین‘‘ تھے، فقیہ بھی تھے،اور ادیب بھی،ذوق شاعرانہ بھی رکھتے تھے،اور مزاج ادیبانہ بھی، ان کے ملفوظات اور اشعار کے انتخاب میں ان کی تصویریں جھلکتی ہیں، یہ تو ایک مسلم حقیقت ہے، لیکن مولانا مرحوم نے ملفوظات حسن العزیز سے جو انتخاب تیار کیا ،اسکے آئینہ میں جابجاخود ان کی تصویریں دعوت نظارہ دے رہی ہیں،آئیے آئینوں سے سجے ہوئے اس حجرۂ خلوت میں مولانا کا دیدار کیجئے ۔

مولانا میں رنگا رنگ خوبیاں تھیں،وہ حسن ظاہر ی کے ساتھ حسن باطن سے مزین تو تھے ہی، ان کا ذہن بلند و ارجمند تھا،نگہ پاک،اور دہن شیریں تھا، ان کی سیر چشمی،فیاضی،سخاوت،کشادہ قلبی،اور حسن اخلاق دیدنی تھے،لیکن دامان نگہ ان کے حسن بسیار کیلئے تنگی کاشکوہ کناں ہے۔

داماں نگ تنگ ،گل حسن تو بسیار
گل چین بہار تو زداماں گلہ دارد

وہ اس کے دل ودماغ سے قائل تھے، کہ صحبت اولیاء نری طاعت سے بہتر ہے۔

یک زمانے صحبتے بااولیاء
بہتر از صدسالہ طاعت بے رہا

لیکن وہ صرف اس حقیقت کے قائل ہی نہیں تھے،بلکہ اس کے رنگ میں رنگے،اور اس کے سانچہ میں ڈھلے تھے، صحبت اولیاء،صلحاء یہاں تک کہ عام علماء کے نہ صرف قائل تھے ،بلکہ اس پر پورے خلوص کے ساتھ عامل ،اور اس کی معطر مجلسوں سے ایسے مشکبارتھے،کہ لگتا تھا کہ شاعر نے شاید ان کا ہی نقشہ کھینچا ہے :

گلے خوشبو ئے درحمام روزے
رسیداز دست محبوبے بدستم
بدوں گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دل دلآویزتومستم
بگفتا من گل ناچیز بودم
ولیکن مدتے باگل نشستم
جمال ہم نشین درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

مولانا پر بے نفسی اور تواضع کا ایسا غلبہ تھا،اور جبہ ودستار سے وہ ایسے بے نیاز واقع ہوئے تھے،کہ عام آدمی انہیں آدمی سمجھ لیتا،ان کا حال یہ تھا، نہ کہ قال

ماہیچ نداریم، غم ہیچ نداریم
دستار نداریم،وغم پیچ نداریم

مولانا پرہروقت دین وملت کی فکر غالب رہتی تھی،دین اور اہل دین کی ترقی سے خوش ہوتے،ان کے غم سے غمگین،قیل وقال سے انہیں کوئی کارنہ تھا، مہرووفا کے علاوہ ان کا کوئی موضوع نہ تھا۔

ماقصہ سکندر ودارانہ خواندایم
ازما بجز حکایت مہرووفا مپرس

اسی نے انہیں یکجہت ویکسو کررکھاتھا، توحید ان کا صرف قال نہ تھی،بلکہ حال تھی:
ہرکہ بینم درجہاں غیرے تونیست یاتوئی ، یاخوئی تو،یابوئے تو

مولانا کو جدید وقدیم دنیا کو دیکھنے کا جتنا موقعہ ملا،کم ہی لوگوں کو ملا ہوگا،انہوں نے جدید وقدیم کو صرف پڑھانہ تھا ،بلکہ دیوبند ، سہارنپور،وگجرات کی گلیوں سے لندن، کینڈا، امریکا،اور یوروپ کے چکا چوند والے شہروں تک،اداروں اور یونیورسیٹیوں تک نگاہوں کو خیرہ کرنے والے مناظر بھی دیکھے تھے، لیکن دین کی دیوانگی نے عقل دوراندیش، اورمصلحت کیش کواس کا ایسا تابع وخادم بنادیاتھا کہ کبھی دین کے آگے اس کی چلنے نہ دی، زبان حال سے وہ کہتے تھے۔

آزمودم عقل دور اندیش را
بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را

مولانا پر عبدیت اوربندگی ،فنائیت اور بے نفسی کا ایسا غلبہ تھا،کہ کوئی دعوی باقی نہ رہا تھا،بارگاہ ایزدی میں توان کی یہ حالت تھی ہی اور بندگان سے تعلق میں بھی اس کااثر ظاہر تھا۔

من نہ گویم کہ طاعتم بپذیر
قلم عفو برگناہم کش

اسی حالت نے صفت مومن کامل، خوشی وغمی میں، سراء اور ضراء میں، فدائیت اورفناکا یہ مقام عطا کررکھا تھا۔

دردازیاراست ودرماں نیزہم
دل فدائے اوشد وجاں نیز ہم

دینی فکر،اور ایمانی ترقی کا یہی وہ خاموش جنون تھا جس نے مولانا کو برطانیہ اور کناڈا میں بھی یکسو کررکھاتھا۔

فارغ از دغدغہ جیب وگریباں کردی
اے جنونِ گردتو گردم کہ چہ احسان کردی

آپ کے رسمی مریدین ومسترشدین تو نہ تھے،لیکن محبین،وشائقین ہر طرف تھے، محبت وشوق سے آپ سے ملتے،اور آپ کی قند محبت سے شیریں دہن ہوتے،آپ کی ملاقات سے محرومی پر ان کا وہی حال ہوتا،جو ایک زائر کامولانا فتح محمد کی ملاقات سے
محرومی پر ہوا تھا۔

چوں غریب مستمند ے، بہ درت رسیدہ باشد
چہ قدر طپیدہ باشد ،چوں ترا نہ دیدہ باشد

ملکی اور عالمی حالات کے بگاڑ پر کڑہتے تھے،درد دل ظاہر کرتے ،اصلاح کی بات کرتے،اس کی دعوت دیتے،اور گویا بارگاہ نبوی میں عرض پر داز ہوتے:

اے بسراپردہ یثرب بخواب
خیزکہ شد مشرق ومغرب خراب

مولانا اس پرافسوس کا اظہار کرتے تھے ، کہ بڑے بڑے القاب سے لوگ نوازے جاتے ہیں،بڑا شورہے ڈگریوں کا، عہدوں کا،لیکن انسانوں کو انسان کی تلاش ہے ،کہ وہ گمشدہ ہے،وہ بڑے ناموں والوں سے گویا دبی زبان سے بلکہ زبان بندی کے ساتھ دل کی دردمندی سے یوں کہتے تھے:

زاہد شدی وشیخ شدی ودانشمند
ایں جملہ شدی ولیکن انساں نہ شدی

مولانا طلباء پر بہت شفیق تو تھے ہی ،ہر غریب وخستہ حال کے مشفق باپ تھے، بلکہ ہرخورد کے لئے گھرکے بزرگ،اور پدرانہ شفقت سے نہال کر دینے والے ، گویا کہ ان کا یہ مسلک تھا۔

من غم تومیخورم،تو غم مخور
برتومن مشفق ترم ازصدپدر

مولانا کا تصوف رسمی اور ادووظائف ،اور تسبیح وسجادہ کے مظاہروں کا نہیں تھا،خوش خلقی، خندہ پیشانی،اور خدمت خلق ان کے تزکیہ نفس کا جوہراصلی تھا،وہ اس کے قائل تھے۔

طریقت بجز خدمت خلق نیست
بہ تسبیح وسجادہ ودلق نیست

مولانا پر چشتی نسبت کے مقابلہ میں نقشبندی رنگ غالب تھا ،اس لئے ’’افروختن وسوختن وجامہ دریدن‘‘ پر وہ عامل نہیں تھے،لیکن چشتی عاشقوں کی اس حقیقت کا انکاربھی نہیں کرتے تھے:

افروختن، سوختن وجامہ دریدن پروانہ زمن،شمع زمن،گل زمن آموخت
پروانہ نے افروختن،شمع نے سوختن،اور گل نے جامہ دریدن انہیں سے سیکھا۔

مولانانام ونمود اور شہرت طلبی سے فطری طورپر ایسے دور تھے کہ شاعر کی اس نصیحت کی انہیں ضرورت ہی نہیں تھی،ان کی بے حجاب فطرت ہی ان کی رہبرتھی،وہ کبھی اس بندآہن کے شکارہی نہ ہوئے، کہ زارزاراور ربخور ہوکر اسے توڑتے اور آزاد ہوتے:

خویش را ربخورساز وزار زار تاترابیروں کنداز اشتہار

اشتہار خلق بند محکم است
بندایں از بندآہن کئے کم است

بہر حال حضرت مرزامظہرجان جاناں کے بقول جان مقتل عشق میں دے دی، سرتن سے جداتو نہ ہوا،جان جسم سے ضرور جداہوگئی،اور قصہ کوتاہ کیا :

سرجداکردازتنم یارے کہ بامایار باد
قصہ کوتاہ کرد،ورنہ دردسر بسیار باد

فاناللہ وانا الیہ راجعون ۔خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را، یاأیتھا النفس المطمئنۃ ارجعی إلی ربک راضیۃ مرضیۃ۔

مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی اردو کتابیں

مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی عربی کتابیں

مولانا سید سلمان حسینی ندوی  کے مزید مضامین 

اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

مولانا سید سلمان حسینی ندوی  کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے  خریدیں ماہنامہ بانگ حراء رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *