مصنف: اشتیاق احمد ظلی
برصغیر میں مسلمانوں نے ایک طویل عرصہ تک حکومت کی۔ اس ملک کو انہوں نے کئی عظیم الشان حکومتیں اور بہت سے جلیل القدر حکمراں دیے جن کا شمار دنیا کے عظیم حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ تہذیب و تمدن اور علم و ادب کے میدان میں انہوں نے وطن عزیز کو جو کچھ دیا اس کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے اپنے خونِ جگر سے اس کو سجایا اور سنوارا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ان کے عہد حکمرانی سے وابستہ بعض ایسے مسائل بھی ہیں جن کی توجیہہ مشکل ہے۔
اسلام انسانی مساوات اور عالم گیر اخوت کا علم بردار ہے۔ اس نے رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دیا۔ قرآن مجید کے اس اعلان نے کہ ’’اللہ کی نگاہ میں تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘‘ عزت و ذلت کے معیار کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ چنانچہ ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ عزت و شرف کی بات اس کا مسلمان ہونا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کوئی اور چیز فخر و مباہات کے قابل نہیں، نہ رنگ نہ نسل:
ابی الاسلام لا اب لی سواہ اذا افتخروا بقیس او تمیم
یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی گئے وہاں کے مظلوم و مقہور اور دبے کچلے ہوئے طبقات کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوئے اور ان کے لیے باعزت زندگی کے لا محدود امکانات کا دروازہ کھول دیا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی اسلام پہنچا اس کے فیض سے نیچ اونچ کی غیر فطری تقسیم حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی، اور وہاں کے باشندوں کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوگیا اور امیدوں اور امکانات کی ایک نئی اور روشن صبح طلوع ہوئی۔ بدقسمتی سے اس قاعدہ میں ایک صدیوں تک حکومت کے باوجود یہاں کی وسیع تر آبادی تک مسلمان نہ تو اسلام کا پیغام پہنچا سکےاور نہ ہی یہاں پر رائج ذات پات کے ظالمانہ اور غیر انسانی نظام کی شدت کو کم کرنے کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت ہوسکی۔
یہاں کی ’’نچلی ذاتوں‘‘ پر جن کے لیے زندگی ایک عذاب مسلسل سے کم نہیں تھی، اس خطہ میں مسلمانوں کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور کم و بیش صورت حال ویسی ہی باقی رہی جیسی کہ پہلے تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کے طویل دور حکوت کے اختتام کے بعد بھی وہ وہیں تھے جہاں ان کے آنے سے پہلے تھے۔ اسلام جو ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت بن کر آیا تھا اس کے ابر کرم کی تردستیاں ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ان مظلوم انسانوں تک نہیں پہنچ سکیں اور ان کی کشت ویران میں کبھی امید و آرزو کا کوئی غنچہ نہیں کھلا اور وہ ظلم و جبر کی چکّی میں اسی طرح پستے رہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں ذات پات کی صورت حال پر تو یہاں مسلمانوں کی طویل موجودگی کا کوئی اثر نہیں پڑا البتہ خود مسلم معاشرہ پر اس کا اثر یہ پڑا کہ اسلام کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس کے نام لیوا خود اس لعنت کے شکار ہوگئے۔ انہوں نے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کو گلے لگالیا اور یہ مہلک بیماری ہندوستان کے مسلم معاشرہ کے رگ و ریشہ میں سرایت کرگئی۔ بعض علماء تک نے اس موضوع پر جو کچھ لکھا ہے اس پر یقین نہیں آتا۔
اس دردناک صورت حال کا ادراک اور اس پر گہرے دکھ کا احساس بہت سے اہلِ نظر کو ہے۔ وہ جب ملک کی موجودہ صورت حال اور اس کے اسباب و علل اور اس کے ممکنہ مضمرات اور عواقب کا تجزیہ کرتے ہیں تو احساسِ کرب کی شدت دوچند ہوجاتی ہے۔ لیکن جب ان کو کسی ایسی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے جیساراقم حروف کے ساتھ گذشتہ دنوں دہلی میں ہوا تو اس دکھ میں ندامت اور پشیمانی کے دوگونہ جذبات کی بھی آمیزش ہوجاتی ہے۔
اسی گذرے ستمبر کی آخری تاریخوں میں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس- آئی- آو) نے دہلی کے تین مورتی ہال میں ایک دو روزہ ہسٹری سمّٹ کا اہتمام کیا۔ اس کے افتتاحی اجلاس میں راقم حروف کو شرکت کا موقع ملا۔ اس اجلاس میں ممتاز دلت اسکالر پروفیسر کنچن ایلیا نے بھی شرکت کی اور مسلمانوں سے متعلق مسائل پر اظہار خیال کیا۔ دلتوں کے تعلق سے مسلمانوں کے رویہ کے بارے میں بھی انہوں نے گفتگو کی۔ ان کی تقریر کے دوران بار بار یہ خیال کچوکے لگاتا رہا کہ اس خطہ ارض کے مسلمانوں کو توحید الٰہی اور عالمی انسانی اخوت کا پیغام یہاں کے کمزور طبقات تک پہنچانے کا صدیوں پر محیط ایک غیر معمولی موقع ملا تھا لیکن وہ ضائع ہوگیا اور اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا اور فرض منصبی کی ادائیگی میں شدید کوتاہی ہوئی۔
ماضی تو گذر گیا وہ اب لوٹ کر نہیں آئے گا۔ البتہ حال اور مستقبل میں ماضی کی غلطیوں کی تلافی کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔ خودترحمی اور خودملامتی صحت مند معاشرہ کی علامتیں نہیں ہیں البتہ زندہ قوموں کے لیے خود احتسابی ضروری ہے۔ پروفیسر ایلیا اس بات پر حیرت کا اظہار کررہے تھے کہ البیرونی (۹۷۳– ۱۰۵۰) کے بعد گذشتہ تقریباً ایک ہزار سال کے عرصہ میں کسی مسلمان مصنف اور محقق نے ہندوستان میں رائج ذات پات کے نظام اور اس میں مضمر اونچ نیچ کی غیر فطری تقسیم کو لائق توجہ نہیں سمجھا گویا یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
یہاں تک کہ دور حاضر میں تحریک آزادی کے روشن خیال مسلم رہنماؤں کو بھی ہندوستانی معاشرہ کا یہ انسانی المیہ متاثر نہیں کرسکا چنانچہ ان کے افکار و خیالات میں اس سلگتے ہوئے مسئلہ کی کوئی بازگشت نہیں سنائی دیتی۔ اس مسئلہ کی غیر معمولی اہمیت اور نزاکت کا کسی قدر اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پروفیسر ایلیا کی گفتگو کے بعد وہاں موجود ایک لائق مسلمان مورخ نے کہا کہ جب مسلمانوں کے اندر خود ذات پات کا نظام موجود ہے تو وہ اس کے خلاف کیسے لکھتے۔ اسے آپ اظہار واقعہ کہیں یا اس سلسلہ میں مسلمانوں کے عقیدہ اور عمل میں اتنے بڑے تضاد پر طنز لیکن کیا اس سے انکار ممکن ہے؟
میرٹھ کے محلہ ہاشم پورہ کے ۴۲ معصوم اور نہتے مسلمانوں کے قتلِ عام پر ۳۱ سال کی طویل مدت گذر چکی۔ یہ جاں گداز واقعہ ۲۲؍ مئی ۱۹۸۷ کو پیش آیا تھا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں حراست کی حالت میں قتل کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تاخیر سے ملنے والا انصاف دراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود دہلی ہائی کورٹ کے ۳۱؍ اکتوبر کے فیصلہ کا ہر طرف استقبال کیا گیا۔ اس قتل عام میں بچ جانے والوں اور مقتولین کے ورثہ نے بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے تاریخی فیصلہ سے تعبیر کیا۔ اس فیصلہ میں پی۔ اے۔ سی کے سولہ کارکنوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور انہیں ۲۲؍ نومبر تک خودسپردگی کی ہدایت کی گئی۔
اصل مقدمہ میں ملزمین کی تعداد انیس تھی لیکن اس طویل عرصہ کے دوران ان میں سے تین کی موت واقع ہوگئی۔ ۴۲ افراد کو جس منصوبہ بند طریقے سے اور جس بے رحمی سےقتل کیا گیا تھا اس کا حق تو یہ تھا کہ قاتلوں کو سزائے موت دی جاتی۔ اس سے کم میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ لیکن ایسے حالات میں جب حکومت اور تفتیشی ایجنسیاں ہر ممکن طریقے سے ثبوتوں کو مٹانے اور ملزمین کو بچانے میں مصروف تھیں، یہ سزا کم نہیں ہے۔ اس سے یقینی طورپر عدلیہ پر اعتماد بڑھا ہے اور یہ یقین مزید مستحکم ہوا ہے کہ اعلیٰ سطح پر عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اسی مقدمہ میں ۲۱؍ مارچ ۲۰۱۵ کو ایڈیشنل شیشن جج نے ناکافی ثبوت کی بنیاد پر ملزمین کو بری کردیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ثبوت اس وقت بھی کم نہیں تھے۔ عینی شاہد تھے، انڈین ایکسپرس کے فوٹو جرنلسٹ پروین جین کی وہ منھ بولتی تصویر تھی جو اس مقدمہ کا عنون بن چکی ہے۔ بہرحال فاضل جج کا خیال تھا کہ حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کیا جاسکا تھا کہ اس قتل کے ذمہ دار یہی ملزمین تھے۔ عدالت عالیہ نے پرانے ثبوتوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا، اس کے علاوہ ایک نیا اور حتمی ثبوت بھی سامنے آیا۔ یہ پی۔ اے۔ سی کا جنرل ڈائری رجسٹر اور ٹرک ڈرائیونگ رجسٹر تھا۔
اسے اب تک چھپایا گیا تھا۔ جنرل ڈائری رجسٹر میں پی۔ اے۔ سی کی نقل و حرکت کی تفصیل ریکارڈ کی جاتی ہے۔ اس کے اندراجات سے یہ بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس کمپنی کے کتنے لوگ کس دن کس مشن پر بھیجے گئے۔ٹرک ڈرائیونگ رجسٹر سے یہ بآسانی معلوم ہوجاتا ہے کہ کون لوگ کس ٹرک سے گئے اور اسے ڈرائیو کون کررہا تھا۔ یہ ثبوت فیصلہ کن ثابت ہوا اور اس سے حتمی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ اس قتل عام میں کون لوگ شریک تھے۔ عدالت نے اسے ٹارگٹ کلنگ کا نام دیا ہے جو مذہبی تعصب کے زیر اثر انجام دیا گیا۔
پی۔ اے۔ سی کے سپاہیوں کو تو سزا مل گئی لیکن ظاہر ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ عام سپاہی اپنی سطح پر نہیں کرسکتے تھے۔ اس سطح کے لوگ فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اپنے اوپر کے افسروں کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ چنانچہ اس بات میں شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ فیصلہ افسرانِ بالا کی سطح پر کیا گیا ہوگا جس کا نفاذ ان سپاہیوں نے کیا۔ انہی افسران بالا کے اثرات اتنے دنوں تک ملزموں کو قانون کی دسترس سے بچاتے رہے، انہی کے زیر اثر ثبوتوں کو مٹانے کا کام انجام دیا گیا۔
نیز یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے جرم کے باوجود ان ملزمان کی سالانہ کانفیڈنشیل رپورٹ میں اس کا ذکر تک نہیں آسکا۔ آر۔ٹی۔ آئی کے تحت حاصل ہونے والی معلومات کے تحت کم از کم ۲۰۰۷ تک تو ایسا ہی تھا۔ چنانچہ اس سزا سے انصاف کے تقاضے مکمل طور پر پورے نہیں ہوتے اس لیے کہ جن لوگوں نے یہ فیصلہ لیا اور جن کے احکام کے تحت یہ جرم انجام دیا گیا وہ ابھی تک پردۂ خفا میں ہیں۔ اب تو بظاہر ان کی نقاب کشائی کے لیے یوم جزا کا انتظار کرنا پڑے گا۔