مصنف: اشتیاق احمد ظلی
وہ آٹھ سال کی ایک معصوم ننھی سی بچی تھی جس کے دودھ کے دانت بھی ابھی نہیں ٹوٹے تھے۔ اس کا نام آصفہ بانو تھا۔ وہ ایک نہایت غریب خانہ بدوش قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی جس کو بکروال کہتے ہیں۔ بھیڑ بکریاں پالنا ان کا ذریعۂ معاش ہے۔ یہ لوگ اپنے ریوڑوں کے ساتھ گرمیاں پہاڑوں پر گذارتے ہیں اور سردیاں گذارنے کے لیے میدانی علاقہ میں اپنی بستیوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اسی غربت اور افلاس کے مارے ہوئے ماحول میں آصفہ پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔
اس کا بچپن ان آسائشوں سے واقف نہیں تھا جو کھاتے پیتے گھروں کے بچوں کو عام طور پر نصیب ہوتی ہیں اور نہ ہی اسے تعلیم کی نعمت میسر تھی۔ وہ فطرت کی آغوش میں پلی تھی اور آس پاس کی وادیوں اور مرغزاروں ، اپنے گھوڑوں کے ساتھ گھومتی پھرتی تھی۔ اس معصوم ننھی سی جان کو پتہ نہیں تھا کہ انسان جنگلی درندوں سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ جنگلی درندے بھی ان نوامیسِ فطرت کے پابند ہیں جن کو خالقِ کائنات نے ان کے لیے مقرر کردیا ہے لیکن انسان کی بہمیت اور پستی کی کوئی انتہا نہیں۔
آصفہ کا خاندان جموں میں کھٹوعہ کے رسنا علاقہ میں رہتا تھا۔ اس خطہ میں غیر مسلموں کی اکثریت کے باوجود یہ لوگ یہاں رہتے آئے تھے لیکن ملک میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا اثر اس خطہ پربھی پڑا۔ ملک میں روز افزوں لاقانونیت اور مسلم مخالف ماحول سے یہ علاقہ بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ آر،ایس، ایس اور بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے یہاں آباد بکروال مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اکثریتی فرقہ وہاں سے مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا۔ کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو اتنا خوف زدہ کردیا جائے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہ کریں۔
منصوبہ بندی کا کام ایک ریٹائرڈ گورنمنٹ آفیسر سنجی رام نے انجام دیا۔ یہ ایک نہایت گھناؤنی اور قابل نفرت سازش تھی جو ایک ننھی سی بچی پر مرکوز تھی۔ انسان کن پستیوں تک گرسکتا ہے یہ اس کا ایک مکمل نمونہ تھی۔ نفرت، عداوت، مذہبی انتہاپسندی اور ہوس رانی کے آمیزے سے تیار کی گئی اس سازش کا نشانہ ننھی آصفہ بنی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان تھی حالانکہ وہ ابھی عمر کی اس منزل میں تھی جہاں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ ہندو اور مسلمان میں کیا فرق ہے۔ بچی اپنے گھوڑوں کو چرانے کے لیے تنہا وادی میں چلی جاتی تھی۔ ان انسان نما درندوں نے اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی اور ایک دن اسے اغوا کرلیا۔ یہ جنوری کی دس تاریخ تھی۔ ۱۷؍ جنوری کو اس کی لاش جنگل میں ملی۔
اس دوران اس ننھی سی جان پر جو قیامت گذر گئی اس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کی مظلومیت، جنسی تشدد، ایذا رسانی اور خون ناحق کی داستان آپ نے ضرور پڑھی ہوگی۔ آنسوؤں نے اگر آپ کے دامن کو نہیں تر کیا ہوگا تو آنکھیں ضرور بھر آئی ہوں گی۔ ایسا سنگ دل کون انسان ہوسکتا ہے جو یہ داستان پڑھے اور فرط غم سے اس کی آنکھیں نہ چھلک پڑیں اور گہرے دکھ کی ایک لہر اس کے وجود سے نہ گذر جائے۔ اس ننھی سی جان پر جو کچھ گذری اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اذیت، کرب، دکھ اوربے بسی کی جس کیفیت سے وہ دوچار ہوئی ہوگی اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ جس طرح اس کو بھوکا پیاسا دواؤں کے زیر اثر رکھا گیا اور جس طرح درندوں کی یہ ٹولی اس کو نوچتی اور بھبھوڑتی رہی اس کے تصور سے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔ اور یہ سب اس کے ساتھ اس لیے کیا گیا کہ وہ مسلمان تھی اور مقصد یہ تھا کہ اسے مسلمانوں کے لیے نمونہ عبرت بنادیا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر جس نفرت اور عداوت کی کاشت گذشتہ چند برسوں سے خاص طور سے کی جاتی رہی ہے اس کی فصل اس معصوم کے جسم و جان پر کاٹی گئی۔
ایک معصوم بچی کے ننھے سے جسم کو جس طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اس کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ ژرف نگاہی کی ضرورت نہیں ہے۔ ستم یہ ہے کہ اسے آبائی قبرستان میں دفن بھی نہیں کرنے دیا گیا اور بالآخر کسی اور جگہ مٹی کی امانت مٹی کے سپرد کردی گئی۔ یہ چند بالشت کی چھوٹی سی قبر جب تک رہے گی انسانیت کو شرمسار کرتی رہے گی اور انسان کی پستی کی آخری حدوں کی ایک علامت کے طور پر باقی رہے گی۔
آصفہ تو ظلم اور نفرت سے بھری ہوئی اس دنیا سے دور چلی گئی اور اسے اپنے رب کریم کے دامن رحمت میں ابدی سکون نصیب ہوچکا۔ لیکن ہمارے لیے بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ گئی۔ یہ صحیح ہے کہ یہ وحشت، بربریت اور درندگی اس ملک کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ آصفہ کی اس درد بھری داستان کے ساتھ اناؤ کی اس مظلوم بچی کی المناک داستان بھی سامنے آئی جو ایک سال سے انصاف کے لیے در در بھٹک رہی تھی اور یوپی حکومت ملزم کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہی تھی۔
جب اس نے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے سامنے خودسوزی کی کوشش کی تب یہ بات دنیا کے سامنے آئی۔ لیکن ملزم کے بجائے اس کے باپ کو گرفتار کرلیا گیا اور ملزموں کے شہ زوروں نے جیل کے اندر اسے مار مار کے ختم کردیا۔ اگر الٰہ آباد ہائی کورٹ اس معاملہ میں ازخود نوٹس نہ لیتا تو بات وہیں ختم ہوگئی ہوتی۔ اس کے باوجود ملزم کو بچانے کی مسلسل کوشش ہورہی ہے۔ اسی دوران سورت، جھارکھنڈ، ایٹہ، سہسرام اور ملک کے دوسرے حصوں سے چھوٹی بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کی مسلسل خبریں آرہی ہیں۔ اب تو حیوانیت اس منزل کو پہنچ گئی ہے جہاں آٹھ مہینے اور پانچ مہینے کی بچیاں ان مظالم کی شکار ہورہی ہیں۔
ان مظالم کی شناعت اور ان میں ظاہری یکسانیت کے باوجود آصفہ کا معاملہ کئی پہلوؤں سے ان سب سے الگ ہے اور ملک کی سالمیت کے ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔ اس سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ یہ پوری طرح ایک منصوبہ بند جرم تھا اور اسے منصوبہ بند انداز میں انجام دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس بدترین درندگی اور گھناؤنے جرم کو قوم پرستی کا لبادہ پہنا دیا گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس شرمناک واقعہ کو ہندو مسلم منافرت کی ایک ملک گیر علامت بنادیا جائے۔
مقامی طور پر بکروال قبائل کو اس علاقہ سے بے دخل کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جائے اور ملک گیر پیمانے پر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے اور ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کے جذبات کو ابھارنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ یہ دراصل اس طویل المیعاد اسٹریٹجی کا حصہ ہے جس پر فرقہ پرست قوتیں ایک مدت سے کام کررہی ہیں۔ اس دردناک واقعہ کی تفصیلات حادثہ کے کئی مہینہ بعد اس وقت سامنے آئیں جب جموں اور کشمیر پولس کی کرائم برانچ نے ملزمین کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی۔ یہ چارج شیٹ بہت محنت اور ایمانداری سے تیار کی گئی تھی۔ فرقہ پرور طاقتیں بہرصورت ملزمین کو بچانا چاہتی تھیں، اس لیے انہوں نے اس واقعہ کی سی۔ بی۔ آئی کے ذریعہ انکوائری کا مطالبہ کیا۔ اس سے وہ جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اتنے واضح ہیں کہ ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔
انصاف کا راستہ روکنے کے لیے ہندو ایکتا منچ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی۔ ملزمین کے دفاع میں مظاہرے کیے گئے جن میں مردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں عورتوں نے بھی حصہ لیا۔ ایک معصوم بچی کے خلاف جنسی تشدد اور اس کا سفاکانہ قتل ان خواتین کے نزدیک بھی کوئی جرم نہیں تھا، اس لیے کہ بچی مسلمان تھی۔ وکلاء جن کا فرض منصبی انصاف کے حصول کو یقینی بنانا ہے وہ ملزمین کے دفاع میں اور انصاف کا راستہ روکنے کے لیے کھل کے میدان میں آئے۔ صرف کھٹوعہ کے وکیلوں نے ہی نہیں بلکہ جموں ہائی کورٹ کے بار ایسوسی ایشن نے ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا اور چارج شیٹ کو داخل کرنے میں مزاحمت کی۔ بچی کے لیے انصاف کی لڑائی لڑنے والی بہادر اور فرض شناس خاتون وکیل دیپکا راجاوت سنگھ کو دھمکیاں دی گئیں۔ ان مظاہروں میں حکومت جموں و کشمیر کے دو کابینی وزراء دلال سنگھ اور چندر پرکاش شامل تھے اور انہوں نے ملزمین کے دفاع میں مجمع کو خطاب کیا۔ ا س سلسلہ میں مرکزی حکومت کا رویہ بھی نہایت درجہ افسوسناک رہا۔
مرکزی وزراء اور پارٹی کے ترجمان اس واقعہ کی طرح طرح سے توجہیں کرتے رہے۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کام خواتین وزراء اور ایک خاتون ترجمان سے کرایا گیا۔ وزیر خارجہ محترمہ ششما سوراج جنہوں نے ایک انسانیت دوست کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کرنے کی خاصی کامیاب کوشش کی ہے، اس پورے قضیہ میں بالکل خاموش رہیں۔ اپنی تمام تر طلاقتِ لسانی کے باوجود کئی دن تک وزیر اعظم نے اپنی خاموشی نہیں توڑی۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوجائیں گی۔ لیکن جب چارج شیٹ عدالت میں داخل ہونے کے بعد اس دردناک واقعہ کی تفصیلات سامنے آئیں تو پورے ملک میں شدید غم و غصہ کا ایک لاوا سا پھوٹ پڑا۔ پورا ملک سراپا احتجاج تھا۔
ننھی آصفہ اور اناو کی بچی کو انصاف دلانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں بے شمار ریلیاں اور کینڈل مارچ نکالے گئے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی مثبت اور موثر کردار ادا کیا۔ ملک کے باہر بھی بڑے پیمانے پر اس کا نوٹس لیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اس سلسلہ میں ایک سخت بیان جاری کیا۔ آئی۔ ایم۔ ایف کی خاتون سربراہ نے خود وزیر اعظم کو اس سلسلہ میں اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔
کئی دن کی خاموشی کے بعد حالات کے دباؤ میں وزیر اعظم نے اس موضوع پر ایک مبہم اور غیر واضح بیان جاری کیا۔ اس میں نہ تو کھٹوعہ کا براہ راست ذکر تھا اور نہ اناؤ کا۔ اس کے لب و لہجہ سے واضح ہے کہ یہ بیان حالات کے دباؤ میں دیا گیا۔ ان دونوں وزیروں نے استعفا دے دیا جنہوں نے ملزمین کی حمایت میں نکلنے والی ریلی میں حصہ لیا تھا اور وہاں تقریر کی تھی۔ جموں بار ایسوسی ایشن نے اپنی ہڑتال واپس لی۔
ایک طرف الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ازخود اناؤ کے واقعہ کا نوٹس لیا تو دوسری طرف سپریم کورٹ نے آصفہ کے اہل خانہ اور وکیل دیپکا راجاوت سنگھ کو مکمل حفاظت فراہم کرنے کی ہدایت دی۔ جموں سے باہر مقدمہ کی سماعت کا معاملہ عدالت کے زیر غور ہے۔ حکومت ہند نے کمسن بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے لیے موت کی سزا کا قانون منظور کیا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صورت حال بڑی حد تک اب قابو میں ہے لیکن درحقیقت ایسا ہے نہیں۔ یہ محض فریبِ نظر ہے۔ سمندر کی پرسکون نظر آنے والی سطح کے نیچے جو طوفان کروٹ لے رہا ہے اس کا اگر بروقت اور صحیح ادراک نہیں کیا گیا تو اس کے نتائج بہت تلخ اور خطرناک ہوں گے۔
ملکوں کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسا لمحہ آتا ہے جو اسے کسی ایسے رخ پر ڈال دیتا ہے جس کا اس وقت کے مخصوص حالات میں بظاہر کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ابھی کسی درجہ میں بھی وثوق کے ساتھ کچھ کہنا تو ممکن نہیں ہے لیکن یہ بات بعید از امکان نہیں ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے ایک معصوم ننھی سی بچی پر توڑا جانے والا یہ ظلم ملک میں ایک نئے سلسلہ واقعات کا آغاز ثابت ہو۔ ملک کے طول و عرض اور گوشے گوشے میں مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر جس طرح مرد، عورتیں اور خاص طور سے بچے اور بچیاں اس ظلم کے خلاف احتجاج کے لیے باہر نکل آئے اور اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اس کی توقع موجودہ ماحول میں شاید ہی کسی کو رہی ہو۔
جس طرح مسلسل یہ مسئلہ سوشل میڈیا پر چھایا رہا اسے دیکھ کر یہ یقین ہوگیا کہ ہندوستانی معاشرہ کا اجتماعی ضمیر ابھی زندہ ہے، ابھی انسانیت مری نہیں ہے اور ابھی سب کچھ ہاتھ سے نکل نہیں گیا ہے۔ جب تک دوسروں کا درد محسوس کرنے والے لوگ باقی ہیں، اس وقت تک امید باقی ہے۔ لیکن اس امر میں بھی شبہہ کی گنجائش کم ہے کہ وقت بہت تیزی سے گذر رہا ہے۔ جو لوگ نفرت کی اس سیاست سے اتفاق نہیں کرتے ان کے پاس اس سیلاب کو روکنے کے لیے بہت زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس امید کو باقی رکھنے کے لیے سب سے بڑی ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کو وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اس کے تقاضوں کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
لیکن یہ کام آسان نہیں ہے اس راہ کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ جذبات میں کسی وقتی اُبال کا نتیجہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک سوچے سمجھے طویل المیعاد منصوبہ کا حصہ ہے اوراس منصوبہ پر قریب ایک صدی سے بھرپور انداز میں کام ہورہا ہے۔ اس کی جڑیں وی۔ ڈی ساورکر اور ایم۔ ایس گول والکر کے نظریات میں پیوست ہیں۔ ہندو مہاسبھا کا قیام ۱۹۱۵ میں ہوا تھا جبکہ آر ایس ایس کی تاسیس ۱۹۲۵ میں ہوئی۔ ہندو معاشرہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کا زہر پھیلانے کا کام پوری منصوبہ بندی اور مستعدی سے گذشتہ سوسال سے انجام پارہا ہے۔
تقسیمِ وطن کے بعد فطری طورپر اس میں بہت تیزی آگئی۔ گذشتہ چند برسوں میں جب سے ان نظریات کو ماننے والے اقتدار میں آئے ہیں اس میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ حالات میں تبدیلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب ساورکر کی تصویر پارلیمنٹ میں آویزاں ہے۔ اس منصوبہ کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں سے ماضی کی مفروضہ زیادتیوں کا انتقام لینا ہے۔ اس منصوبہ میں مسلم خواتین پر جنسی تشدد کو اس انتقامی کارروائی کے ایک حصہ اور ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔
ان خیالات پر یقین رکھنے والوں کی نظر میں جن لوگوں نے یہ شرمناک کام انجام دیا انہوں نے ایک بڑی قومی خدمت انجام دی۔ اسی وجہ سے ہندو ایکتا منچ سے لے کر بار ایسوسی ایشن تک ملزمین کو بچانے کے لیے اتنی سرگرمی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملزمین کے دفاع میں جو مظاہرے کیے گئے ان میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک ہوئیں اس لیے کہ اس قومی خدمت میں کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ ان میں جے شری رام کے نعرے لگائے گئے اور قومی جھنڈا لہرایا گیا۔ اس درندگی کو انجام دینے کے لیے ’’مندر‘‘ کا انتخاب کیا گیا۔ بچی کو قتل کرنے سے پہلے پوجا پاٹ کی گئی۔ یہ سب باتیں واضح طور پر اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ان مظاہروں میں حصہ لینے والے بی جے پی کے دو وزراء نے جب اپنے عہدوں سے استعفا دیا تو اسے وزیر اعلیٰ کی کامیابی سمجھا گیا۔ عام طور پر یہ سمجھا گیا کہ ملک میں وسیع پیمانے پر ظاہر ہونے والے غم و غصہ کے دباؤ میں ایسا کیا گیا، لیکن چند دنوں بعد ہی یہ ظاہر ہوگیا کہ یہ بی جے پی کی اسٹریٹجی کا ایک حصہ تھا۔ ان وزراء نے مستعفی ہونے کے بعد جو بیانات دیے ان سے ظاہر تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا تھا وہ پارٹی کی ہدایت پر کیا تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ مستعفی ہونے والے یہ وزراء اب پوری آزادی اور یکسوئی سے علاقہ کے ایک ایک گاؤں میں وہی کام انجام دے رہے ہیں بظاہر جس کی وجہ سے ان کو استعفا دینا پڑا تھا۔ مزید براں وزارت کی تشکیلِ نو میں کھٹوعہ کے ایم۔ ایل۔ اے راجو جسرویٹا کو وزارت دی گئی جو خود بھی ان مظاہروں میں شریک رہا تھا۔ سابق نائب وزیر اعلیٰ کو جنہوں نے اس معاملہ میں وزیر اعلیٰ کا ساتھ دیا تھا، اس منصب سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ پر اسپیکر کوبندر سنگھ کو نائب وزیر اعلیٰ کے منصب پر مقرر کیا گیا۔
نئے نائب وزیر اعلیٰ نے حلف برداری کے فوراً بعد یہ بیان دیا کہ کھٹوعہ کا معاملہ ایک معمولی واقعہ تھا جس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ جموں اور کشمیر کے لیے پارٹی انچارج رام مادھو نے اپنے بیان میں رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور اس سلسلہ میں کسی حسن ظن کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ حلف برداری کے بعد میڈیا کی طرف سے کیے جانے والے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزارت میں تبدیلی کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا فیصلہ تو ابتدا ہی میں کیا جاچکا تھا۔
حکومت تین سال پورے کرچکی تھی اس لیے نئے لوگوں کو موقع دینے کے مقصد سے ایسا کیا گیا۔ چنانچہ جہاں تک اس دردناک واقعہ کا تعلق ہے اس سلسلہ میں بی جے پی کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ باقی جہاں تک اس کی مذمت میں دیے جانے والے بیانات اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے لیے سزائے موت کے قانون کا معاملہ ہے تو یہ سب محض دباؤ میں لیے گئے فیصلے ہیں۔ ان سے کسی خوش گمانی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہی صورت بار کونسل آف انڈیا کی مقرر کردہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کی ہے۔ اخبارات ان خبروں سے بھرے رہے کہ وکلاء نے چارج شیٹ عدالت میں داخل نہیں ہونے دی۔
جموں ہائی کورٹ نے اس سلسلہ میں جو رپورٹ سپریم کورٹ کو بھیجی ہے اس میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ لیکن بار کونسل آف انڈیا کی مقررہ کردہ کمیٹی کو نہ تو اس کا ثبوت مل سکا کہ وکلاء کی مزاحمت کی وجہ سے چارج شیٹ عدالت میں داخل نہیں کی جاسکی اور نہ ہی اس بات کی تصدیق ہوسکی کہ دیپکا راجاوت کو دھمکی دی گئی۔ ملزمین کے حق میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ مظلومین کو ہر طرح ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اور اب تو اس واقعہ کا سرے سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ ملک میں صحیح سوچ رکھنے والے ہر فرد کے لیے خصوصاً مسلمانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر اس کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا تو اس میں صرف اضافہ ہی نہیں ہوگا بلکہ یہ روز کا معمول بن جائے گا۔
اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دے
اشتیاق احمد ظلی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدے معارف رسالہ