کلیلہ و دمنہ قدیم ہندوستان کی دانش و حکمت پر مشتمل کتاب ہے۔جس کو بیدپا فیلسوف نامی ایک عاقل برہمن نے ہندوستانی بادشاہ دالبشلیم کے سامنے پرندوں و جانوروں کی کہانیوں کے انداز میں پیش کیا اور کو پند و نصائح کیے۔ کچھ روایات کے مطابق دالبشلیم پر یہ نصحیتیں کافی گراں گزریں جس پر اس نے بیدپا فیلسوف کو قید کروا دیا مگر اسی رات تاروں کی گردش نے اس کو سوچنے پر مجبور کیا اور اس نے برہمن فلسفی کو قید خانے سے بلا کر اس کی نصحیتیں سنیں۔پھر دالبشلیم کے حکم پر ایک سال کے اندر بیدپا فیلسوف نے ان پند و نصائح اور کہانیوں کو کتاب کی صورت میں مکمل کیا۔ دالبشلیم کا زمانہ سکندر اعظم کے ہندوستان کے حملے کے بعد کا ہے، سکندر کے تعینات کردہ یونانی گورنر کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں رائے دالبشلیم راجا بنا۔ یہ کتاب سب سے پہلے سنسکرت زبان میں لکھی گئی.بیدپا فیلسوف نے بادشاہ دالبشلیم سے یہ خواہش کی کہ اس کی یہ کتاب ہندوستان سے باہر نہ جائے بالخصوص ایرانیوں کے ہاتھ یہ کتاب نہیں لگنی چاہیے ، برہمن فلسفی کی خواہش کے احترام میں اس کتاب کو شاہی خزانے کا حصہ قرار دیا گیا اور اس کی حفاظت کا خصوصی انتظام کیا۔
اس کتاب کے ایران آنے کی داستان بھی کافی دلچسپ ہے۔ ایرانی بادشاہ نوشیرواں عادل کو اس کتاب کی شہرت کا پتہ چلا تو اس نے اس کو ایران لانے کے لیے اپنے وزیر بزر جمہر سے مشاورت کی تو بزر جمہر نے ایک ادیب بروزیہ جو کہ اچھی شہرت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی و ہندی زبان پر عبور رکھتا کا انتخاب کیا کہ وہ کسی طرح اس خزانے کو حاصل کرے۔ بروزیہ ہندوستان آیا اور یہاں پر بادشاہ کے خواص سمیت صاحب مرتبت افراد ، فلاسفہ اور صاحبان علم و فضل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کیے ۔ اس نے اپنے اصلی وطن اور مقصد کو چھپایا اور بتایا کہ وہ علم کا متلاشی ہے۔ اس نے طویل قیام کے دوران بہت سے دوست بنا لیے اور ایک ایسے ہی انتہائی قریبی دوست جس کو وہ آزما بھی چکا تھا سے اس نے اس کتاب کو حاصل کیا اور اس کو پہلوی میں منتقل کیا اور اس کے بعد وہ ایران واپس چلا گیا۔ کسری نوشیرواں عادل بروزیہ کی اس کوشش سے بے حد خوش ہوا اور اس کو منہ بولے انعام حتی کہ آدھی سلطنت تک کی پیشکش کی تو بروزیہ نے کہا کہ اس کتاب کے شروع میں اس کا ذکر اور روداد نقل کر دی جائے یہ ہی اس کا انعام ہے۔ اس سے بروزیہ کی دور اندیشی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، وہ بیشمار دولت لیکر اپنی زندگی آسان کر سکتا تھا اور پھر گمنام ہو جاتا مگر اس نے ایک کتاب میں اپنا ذکر درج کروا کر اپنے نام کو زندہ کر لیا۔ اب جب تک یہ کتاب موجود رہے گی بروزیہ کا ذکر باقی رہے گا۔ بروزیہ نے اپنی روداد میں ایک زبردست بات کی ہے کہ
“میں نے یہ دیکھا کہ غافل لاپروا شخص جو بالکل حقیر اور کمتر شے کو جو آج حاصل ہو کر کل ختم ہونے والی ہوتی ہے اس غیر معمولی اور عظیم چیز پر ترجیح دیتا ہے جس کا نفع برقرار رہنے والا ہوتا ہے
بروزیہ نے اپنی قول کے موافق عمل بھی کیا بظاہر دولت و سلطنت کے مقابلے میں ایک کتاب میں اپنا ذکر اور روداد بہت ہی معمولی اور عجیب بات معلوم ہوتی ہے مگر اس کے نتیجے پر غور کیا جائے تو ہمیں بروزیہ کی عقلمندی کا اندازہ ہوتا ہے۔
فارسی سے یہ کتاب عربی میں بنو عباس کے دور میں ہوئی اور اس کو عربی میں ترجمہ کرنے والا عبداللہ بن مبارک المقفع تھے جو ایرانی النسل تھے۔ ان کا آبائی مذہب مجوسی تھا۔ ابن القفع کے والد اموی گورنر حجاج بن یوسف کے لیے خراج اکٹھا کرتا تھا، ایک بار جب اس نے خیانت کی تو حجاج نے سخت سزا دی اس کو شکنجوں میں کس دیا۔ جس سے اس کے دونوں ہاتھ لنج ہو گئے اس وجہ سے اس مقفع (ٹوٹے ہوئے ہاتھوں والا) کہا جانے لگا۔ اس کے بیٹے کو اس ہی وجہ ابن القفع کہا جاتا ہے ۔ ابن القفع عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے یہاں سرکاری کاتب مقرر ہوا۔ وہ اپنی علم دوستی کی وجہ سے دربار خلافت میں قریب ہوا، اس نے متعدد فارسی کتب کے اردو تراجم کیے جن میں ارسطو کی کتب بھی تھیں اور کلیلہ و دمنہ کا عربی ترجمہ بھی اس نے کیا۔ ابن القفع نے اسلام قبول کر لیا تھا مگر اپنی ذہانت اور مرتبہ کے باعث یہ لوگوں کے حسد کا شکار ہوا اور اس کو ملحد و بے دین کہا گیا، دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے باوجود اس کی زندگی اور انفرادی معاملات میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ ایک دن خلیفہ کی ایما پر اس کو قتل کر دیا گیا۔ قتل کے وقت ابن القفع کی عمر چھتیس سال تھی۔
اس کتاب کا عربی سے اردو میں ترجمہ ہند کے مفتی رفیع الدین قاسمی صاحب جو دارلعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں نے کیا ہے۔ کتاب کے شروع میں ان کی لکھی دیگر کتب کی فہرست کے ساتھ مفتی صاحب کا مختصر تعارف بھی ہے۔
پاکستان میں اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ جو کہ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں نے کیا، تدون کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ نے اس کے مشکل الفاظ کی تسہیل کا بھی کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کتاب میں ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ کے دو مضامین بھی شامل ہیں۔ پہلا مضمون مختصر ہے جس میں داستان گوئی اور اس میں دانش کے چھپے ہونے کو بیان کیا اور بتایا کہ کلیلہ و دمنہ کی تدریس سے وہ ہندوستان کے اس خزانے سے مکمل روشناس کیا۔
ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ کا دوسرا مضمون بہت اہم ہے، جس میں قصہ گوئی کی تاریخ کو بیان کیا اور بتایا ہے جانوروں کی حکایات بھی ایک قدیم طریقہ ہے جس سے قصہ گوئی کا کام لیا جاتا ہے۔یہ انسان کے زرخیز دماغ کا ایک ثبوت ہے کہ تخیل کرکے وہ مختلف جانوروں کی زبانی سبق آموز کہانیاں بناتا ہے۔ جانوروں کی حکایات سب سے پہلے مصری تہذیب و ادب میں پائی جاتی ہیں۔ وہاں سے یہ قصہ دوسری تہذیبوں میں داخل ہوئے۔ حکایات لقمان، ایسوپ کہانیاں، جاتک کہانیاں، الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ ایسی حکایات کی کتابیں ہیں۔ جن میں علامتی طور پر جانوروں کے ذریعے پیغام دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس ہی طرح کی مثال جو کہ ماضی قریب کی ہے ایمنل فارم کی دی ہے جو کہ علامتی انداز میں لکھی طنزیہ کہانی ہے۔جس میں انقلاب کے نام پر دھوکہ دہی کو بےنقاب کیا گیا ہے۔
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحبہ نے ہندوستان میں دیگر تمثیلی حکایات پر مبنی کتابوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسے کہ مہابھارت اور پنج تنتر وغیرہ۔ کلیلہ و دمنہ کا سنسکرتی نام کرتک و دمنک ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا یہ مضمون اس کتاب کا ایک اجمالی تعارف اور اس کی تاریخ بھی ہے جس کو پڑھنے کے بعد اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس کے بروزیہ اور بزر جمہر کی زبانی اس کتاب کا تعارف بہت دلچسپ ہے، جس کو پڑھنے کے بعد قاری کی کتاب سے دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔ اس تعارف کے اندر بھی کئی قابلِ ذکر باتیں ہیں جیسے کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ
میں نے کتبِ طب میں دیکھا ہے کہ بہترین طبیب و ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو اپنے پیشے سے مکمل وابستہ رہے، اور اس سے آخرت کا طالب ہو
یہ بات اور آگے بیان کی گئی کہانیوں میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بروزیہ اور بیدپا فیلسوف دونوں آخرت اور اس کے سزا و جزا پر یقین رکھتے تھے۔ یا دوسری ممکن بات یہ ہے کہ یہ ابن المقفع یا بعد میں کسی مسلمان کی طرف سے کیا گیا اضافہ ہے۔ البتہ بروزیہ کی بات ضرور قابلِ توجہ ہے اور ہمارے زمانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ طب سمیت کسی بھی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے اس میں غور وفکر کا سامان ہے۔ یہاں پر بروزیہ نے اپنے کام میں اخلاص اور سپشیلٹی کی بات کی ہے۔
کتاب کی پہلی کہانی شیر اور بیل کی ہے۔ یہ دو محبت کرنے والے دوستوں کی کہانی ہے جس میں مکار دشمن نے پھوٹ ڈالی۔
اس کہانی میں شیر اور بیل میں دوستی ہوتی ہے جو کہ ایک گیدڑ جس کا نام دمنہ ہے کو پسند نہیں آتی، کیونکہ دمنہ پہلے اپنی باتوں کی وجہ سے شیر کے قریب ہوتا ہے مگر جب بیل سے شیر کی دوستی ہوتی تو اس کی عقلمندی اور دانائی سے شیر جلد اس کو اپنے قریب کر لیتا ہے۔ یہ دمنہ کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا اور وہ ان دونوں کے کان بھرتا ہے اور شیر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بیل پر حملہ کرے جبکہ بیل بھی پہلے کوشش کرتا ہے کہ وہ شیر سے لڑائی نہ کرے مگر دمنہ اپنی باتوں سے بیل کو بھی قائل کر لیتا ہے کہ شیر اس کا دوست نہیں رہا بلکہ دشمن ہے۔ بالآخر شیر اپنے قریبی دوست بیل پر حملہ کر کے اس کو مار دیتا ہے مگر جلد ہی اس کو بیل کی یاد آتی ہے۔ اس کو دمنہ کا کردار مشکوک لگتا ہے۔ دمنہ کو اس مکاری اور عیاری سے ایک دوسرا گیدڑ کلیلہ روکتا بھی ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری چالاکی اور مکاری تمہیں ایک دن نقصان پہنچائے گی۔ بیل کے قتل کے بعد ان کی گفتگو ایک چیتا سن لیتا ہے جو کہ دمنہ کے گناہ گار ہونے کا ثبوت ہے۔ چیتا یہ سب شیر کی ماں کو بتاتا ہے۔ شیر دمنہ کو قید کرتا ہے۔ قید خانے میں ایک تیندوا بھی دمنہ کا اعتراف جرم سن لیتا ہے جس پر آخر میں دمنہ کو اس کی مکاری کی عبرت ناک سزا ملتی ہے۔
اس کہانی کے اندر بھی کہیں کہانیاں چلتی ہیں اور اکثر جگہ حکمت سے بھرپور جملے اور نصحیتیں ملتی ہیں۔
ایک جگہ بیدپا یوں کہتا ہے
دنیا والے تین چیزوں کا طالب ہوتا ہے جن کی وہ چار چیزوں حاصل کرتا ہے۔
۱.رزق میں کشادگی
۲.لوگوں میں قدر و منزلت
۳.آخرت کے لیے زادِ راہ
ان تینوں کو ان چار چیزوں سے حاصل کرنے ہوتی ہے
۱.بہترین طریقے سے مال حاصل کرنا
۲.مال کی بہترین حفاظت کرنا
۳.اس میں اضافہ کرنا
۴.اس کو بہترین جگہ خرچ کرنا جس سے اس کے اہل و عیال ، اپنی معاش اور آخرت کا فائدہ ہو
بیدپا کی بتائی اس بات پر ہم غور کریں تو اس کی گہرائی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس میں فقط آخری طریقے کو دیکھا جائے کہ اگر کوئی اپنا مال کسی غلط جگہ صرف کرے گا تو ناصرف وہ دنیا کی نظروں میں بے وقعت ہو جائے گا، بلکہ اس کا مال بھی جلد ختم ہو جاتا ہے
ایک اور جگہ لکھا ہے
جب انسان کی مدت حیات ختم ہو جاتی ہے اور اس کا موت کا وقت آ پہنچتا ہے تو وہ جن چیزوں سے اپنی ہلاکت کا اندیشہ کرتا ہے اس سے بچنے کی کس قدر کوشش کیوں نہ کر لے اسے اس سے فائدہ نہیں ہوتا بعض اوقات اس کے اپنے بچاؤ کی کوشش خود اس کے لئے وبال جان بن جاتی ہے
موت ایک حقیقت ہے، اور اس کا وقت بھی مقرر ہے۔انسان اس سے بچنے کے لیے سینکڑوں تدبیر کر لے مگر اس سے بچاؤ ممکن نہیں ہے
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ
آدمی کی انسانیت اسے حقیر درجے سے بلند درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ جس میں انسانیت نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو بلند مرتبے سے نچلے مرتبے پر لے آتا ہے۔ کم رتبہ سے بلند مرتبے پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور بلند مرتبہ سے نچلے درجے پر آنے میں تکلیف کم ہوتی ہے
اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں مگر جس خوبصورتی اور مختصر الفاظ میں انسانیت کو آدمی کی معراج قرار دیا گیا ہے وہ قابل تحسین ہے
ایک جگہ دمنہ بڑی دلچسپ بات کرتا ہے
“جانکار ادیب اگر چاہے تو حق کو باطل یا باطل کو حق باور کرا سکتا ہے”
جب یہ بات پڑھی تو ذہن فوری طور پر قلم فروش اہل صحافت و دانش کی جانب گیا۔ جو اپنے ممدوح کی مداح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ کسی مالی بددیانت شخص کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر وقت باوضو رہتا ہے ، درود شریف پڑھتا ہے یا وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا از خود آڈٹ کرا رہا ہے۔ کچھ لوگ مبالغہ آرائی میں اس حد تک بڑھ گئے کہ اپنے ممدوح کو منصور حلاج ، مارٹن لوتھر اور نیلس منڈیلا سے جا ملایا۔
ایک جگہ لکھا ہے
“جو شخص خطرات کی سواری نہیں کرتا وہ مرغوبات کو حاصل نہیں کر سکتا”
یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کو کم سے کم الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ہمیشہ کوئی بھی چیز پانے کے لیے اپنا چین و سکون چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس کو محنت کی چکی میں پسنا ہوتا ہے اور تسلسل سے اپنے آرام کی قربانی دینی ہوتی ہے اس کے بعد ہی کوئی اپنے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ
“کام کی تکمیل معاونین کی کثرت و زیادتی سے نہیں ہوتی ہے بلکہ ان کی صلاحیت اور صالحیت سے ہوتی ہے “
یہ قابلِ غور بات ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی شخص میں کسی کام کی صلاحیت ہو اور وہ خلوصِ دل سے اس پر کام کرے تو وہ اس کو ضرور پورا کرتا ہے۔ اس میں اگر اس کو معاونین کم بھی میسر ہوں تو وہ اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام از خود سر انجام دے سکتا ہے
بادشاہ کے مشیروں اور معاونین کی ذمہ داریوں کے حوالے سے لکھا ہے
بادشاہ کے معاونین کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ بادشاہ کو اس چیز کی ترغیب دیں جس سے اس کی قوت و طاقت اور اس کی زیب و زینت میں اضافہ ہو اور اس کو نقصان دہ اور عیب دار چیزوں سے روکیں۔ سب سے بہتر بھائی اور بہترین مددگار وہ ہوتے ہیں جو خیر خواہی اور نصیحت میں بہت کم نرم گوشہ اختیار کرتے ہیں
اکثر زندگی میں والدین بچوں سے تلخی کا رویہ اپناتے ہیں اور ان کو دنیا کے حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں تو یہ سب جذبہ خیر خواہی ہوتا ہے جس کو ہم اس وقت سمجھ نہیں پاتے۔ ایسے دوست غنیمت ہوتے ہیں جو ہم خیر کا مشورہ دیتے ہوئے تلخ ہو جاتے ہیں یا اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ
جب شاطر اور چالاک لوگ ایک ناکردہ جرم ،بے گناہ شخص کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں تو وہ اسے ہلاک کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام لوگ کمزور ہی کیوں نہ ہوں اور وہ تنہا شخص کس قدر طاقتور کیوں نہ ہو
جب یہ پڑھا تو مجھے رجیم چینج آپریشن یاد آ گیا جس میں تمام شاطر اور اخلاقی طور پر کمزور لوگ ایک شخص جو کہ اپنے مخالفین سے زیادہ عوامی طور پر مضبوط تھا کے خلاف اکٹھے ہوئے اور اس کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ گو کہ اس فتح سے اس شاطر گروہ نے اپنی شہرت کو داغدار کیا ہے۔ بظاہر ہارنے والا ویسے تو مضبوط نہ سہی مگر جس طرح عوام میں اس کی مقبولیت ہے اس لحاظ سے اس سے زیادہ مضبوط اس کے مدمقابل گروہ میں کوئی بھی نہیں۔
ایک جگہ یہ لکھا ہے
“بات وہی بہتر ہوتی ہے جو عمل کے ساتھ ہو، وہی سمجھ وہی سوچ بہتر ہوتی ہے جو تقویٰ پرہیزگاری کے ساتھ ہو۔ وہی صدقہ بہتر ہوتا ہے جو خلوص کے ساتھ ہو۔ وہی مال بہتر ہوتا ہے جو سخاوت کے ساتھ ہو۔وہ سچائی بہتر ہوتی ہے جو وفاداری کے ساتھ ہو ،وہی زندگی اچھی ہوتی ہے جو صحت کے ساتھ ہوں، وہی امن وامان بہتر ہوتا ہے جو خوشی کے ساتھ ہو
اس میں ایک ایک بات ناصرف ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے بلکہ نتائج کے پیچھے حکمت عملی اور اس کی مصلحت کو بھی بیان کیا ہے۔ اس میں ایک ایک بات پر الگ سے بھی لکھا جا سکتا ہے البتہ اس کے بارے میں ایک دوسری کہانی میں اس کی کچھ وضاحت کی گئی ہے
کلام کا حسن ،حسن عمل کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ جو مریض اپنے مرض کی دوا کا علم رکھتا ہے اور وہ اس دوا کو استعمال نہ کرے تو اس کا علم محض کس کام کا، جبکہ اپنی بیماری سے راحت اور چین ہی حاصل نہ ہو سکے
ایک جگہ لکھا ہے کہ
جو نیکی کرنے کا عادی ہوتا ہے ، اس کے لیے نیکی کرنا بالکل آسان ہوتا ہے ، اگرچہ یہ نیکی اس کے لیے نقصان دہ کیوں نہ ہو
اس پر صحیح البخاری میں درج حدیث نمبر ۱۳۶۲ سامنے آتی ہے جس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اہل سعادت کے لیے نیک کام اور اہل شقاوت کے لیے برائی آسان کر دی جاتی ہے۔
دوسری کہانی اخوان الصفا کے نام سے یہ کہانی خالص دوستی کے بارے میں ہے۔ مخلص اور عقل مند دوست کتنی بڑی نعمت ہوتے ہیں اس کہانی میں اس کو کبوتر ، چوہے ، ہرن اور کوئے کی مثال سے دی ہے کہ کس طرح آپس میں خلوص سے یہ شکاری سے محفوظ رہے۔
دوستوں کی اہمیت کو بتاتے ہوئے ایک جگہ برہمن فلسفی کہتا ہے
سب سے زیادہ مسرت و شادمانی کا حق اس شخص کو ہے جس کے گھر کی چہار دیواری اس کے نیک ساتھیوں اور دوستوں سے آباد رہتی ہو
دوست سرمایہ ہوتے ہیں اور پھر دوستوں کے درمیان تعلقات اور ملنا ملانا مستقل ہو تو انسان کی خوش نصیبی میں اضافہ ہوتا ہے
تیسری کہانی الو اور کوئے کی ہے جس میں چاپلوس اور خوشامدی دشمن سے دھوکے سے بچنے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
اس میں کوؤں اور الوؤں کی دشمنی کا ذکر ہے، الو ایک بار رات کو کوؤں پر حملہ کر کے بہت سے کوؤں کو قتل کر دیتے ہیں تو ایک کوا اپنے بادشاہ کوے کے کہنے پر الوؤں کے پاس ان کا دوست اور کوؤں کا دشمن بن کر جاتا ہے وہ اپنی چاپلوسی اور خوشامد سے الوؤں کے بادشاہ کو گھیر لیتا ہے۔ ایک مشیر اس سے شاکی ہوتا ہے اور وہ اپنے بادشاہ کو اس کے قتل کا کہتا ہے مگر کوا بادشاہ کا دل جیت لیتا ہے۔ پھر وہ آلوؤں کے راز اور ان کمزوریاں اور ان کے ٹھکانے جان کر کوؤں کے بادشاہ کو اس کی اطلاع دیتا ہے اور وہ بروقت حملہ کر کے الوؤں کو قتل کر دیتے ہیں
اس کہانی میں بادشاہ کو نصحیت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ
“بادشاہ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے معاملات سے غافل ہو جائے”
یہ نصیحت ہر ذمہ دار شخص کے لیے ہے کہ جن چیزوں اور لوگوں کے بارے میں وہ ذمہ دار ہے ان سے غفلت نہ برتے کیونکہ یہ غفلت اس کو اس کے کام پر اثر ڈالتی ہے جس سے وہ نقصان اٹھاتا ہے
حکمران یا کسی بھی عہدیدار کے لیے مناسب وقت پر فیصلہ کرنا ایک اہم چیز ہے۔ جو کہ اس کی ناکامی و کامیابی کا تعین کرتا ہے۔ اس بارے میں لکھا گیا ہے کہ
جو شخص اس گھڑی کو پا لیتا ہے جس میں کامیابی ہو سکتی ہے اور وہ اس وقت کے مناسب حال کام کو نہیں کر گزرتا تو وہ شخص دانا نہیں شمار ہوتا ،جو شخص کسی بڑی کارروائی کو کرنا چاہتا ہے پھر اس پر قدرت حاصل ہو جاتی ہے پھر وہ اس سے غفلت برتتا ہے تو وہ چیز اس سے چھوٹ جاتی ہے پھر اس کو دوبارہ موقع نہیں مل پاتا
کھیل کا میدان ہو یا پھر کاروبار ، سیاست ہو یا پھر کوئی اور شعبہ بروقت فیصلہ لینا کامیابی کی لازمی شرائط میں سے ہے۔
ایک اور کہانی بندر اور کچھوے کی ہے جس اس شخص کی مثال ہے جو اپنی مطلوبہ شے کو پاس پا کر بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ بھی دلچسپ کہانی ہے جس میں بندر اور کھچوے کی دوستی کچھوے کی بیوی کو ناپسند ہوتی ہے تو وہ بیماری کا بہانہ کر کے علاج کے لیے بندر کا دل مانگتی ہے۔ کچھوے بندر کو اپنا ٹھکانہ دیکھانے کے بہانے اپنا ارادہ بھی بتا دیتا ہے جس پر بندر اس سے یہ کہہ کر اس کا دل درخت پر ہے اپنی جان بچا لیتا ہے
فیصلہ میں جلدبازی سے بچنے اور اس کے نقصان سے آگاہ کرنے کے لیے عابد اور نیولے کی کہانی سنائی ہے۔ جس میں عابد اور نیولے میں دوستی ہوتی ہے ایک دن عابد کی غیر موجودگی میں اس کے بیٹا نیولے کے پاس ہوتا ہے تو وہاں سانپ نکل آتا ہے جس پر نیولے حملے کرکے اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ عابد جب آ کر دیکھتا ہے کہ نیولے کے منہ پر خون لگا ہے تو سمجھتا ہے کہ اس کے بیٹے کو نیولے نے مار ڈالا تو وہ بغیر سوچے سمجھے نیولے کو مار ڈالتا ہے، اندر آ کر جب وہ اپنے بچے کو سہی سلامت اور پاس مرے ہوئے سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کو اپنی جلدبازی کا خیال آتا ہے جس پر اس کے لیے ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوتا
ایک اور کہانی چوہے اور بلی کی جس میں بیشمار دشمنوں میں گھرے شخص جو کہ ہلاکت کے قریب ہوتا ہے اپنے کچھ دشمنوں سے صلح کر کے اپنی نجات کی راہ نکالتا ہے۔
اس میں ایک جگہ نصحیت ہے کہ
عقلمند اپنی درست رائے کے وقت خوف نہیں کرتا اور نہ کسی حالت میں اس کا ذہن ودماغ اکٹھے الگ ہوتے ہیں، عقل اس سمندر کی مانند ہوتی ہے جس کی گہرائی کو معلوم نہیں کیا جا سکتا ، ذی رائے اور عقلمند پر مصیبت اس حد تک نہیں پہنچتی کہ وہ اسے ہلاک کر دے
عاقل آدمی میں صبر بھی خوب ہوتا ہے اس لیے وہ دوسرے لوگوں کی نسبت مصیبت یا ناموافق حالت میں مختلف طرزِ عمل اختیار کرتا ہے اور اپنی عقل سے اس مشکل سے نکلنے کی تدبیر کرتا ہے۔
ایک اور جگہ لکھا ہے
بہت سی ظاہری دوستیوں کے اندر دشمنی چھپی ہوتی ہے ،یہ ظاہری دشمنی سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ جو شخص اس سے بچاؤ نہیں کرتا ہے اس کی حالت اس شخص کی سی ہوتی ہے جو پاگل ہاتھی کی پیٹھ پر سوار ہوتا ہے پھر اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے پھر وہ ہاتھی کے پیروں کے نیچے بیدار ہوتا ہے وہاں سے لون قتل کر دیتا ہے
جب یہ بات پڑھی تو عمران خان کے ساتھ باجوہ کی دوستی کا خیال آیا جس کے اندر دشمنی چھپی ہوئی تھی جس کا ادراک عمران خان کو نہ ہو سکا۔
ایک اور کہانی بادشاہ اور فنزہ نام کے ایک پرندے ، یہ کہانی ان بدلہ لینے والوں کے بارے جن سے بچاؤ کرنا چاہیے۔
اس کہانی میں بادشاہ اور پرندے میں دوستی ہوتے ہے پھر دونوں کے بچے ہوتے ہیں تو ان میں بھی دوستی ہوتی ہے۔ پرندہ جو پھل اپنے بچے کے لیے لاتا ہے وہ ہی بادشاہ کے بچے کے لیے توڑ کر لاتا تھا۔ ایک دن چوزہ جب لڑکے کی گود میں پیشاب کرتا ہو تو لڑکا غصے میں چوزے کو مار ڈالتا ہے۔ اس کے بعد فنزہ بھی بادشاہ سے دور ہو جاتا ہے ، بادشاہ اپنے لڑکے کیے کی معافی بھی مانگتا ہے مگر فنزہ کہتا ہے کہ اپنے چوزے کے قتل کا قلق اس کے دل میں ہمیشہ رہے گا لیکن وہ بادشاہ سے بدلہ بھی نہیں لے سکتا اس لیے اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
اس میں ایک جگہ لکھا ہے کہ
“عقلمندوں نے مقتول کے اس وارث کے قریب جانے سے منع کیا ہے جو بدلہ نہ لے سکے”
دوسری جگہ لکھا ہے
عقلمند کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ سمجھ بیٹھے کہ وارث اپنے مورث کے قتل کی تکلیف کو بھول بیٹھا ہے اور اس نے اس حوالے سے سوچنا ترک کر دیا ہے
یہ نصیحت کہاں تک درست ہے اس پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر مقتول کے ورثاء کمزور ہیں تو ان کی بددعائیں یا پھر ان کی چالوں سے بچنا مشکل ہے۔ بظاہر تو وہ بدلہ نہیں لے سکتے مگر ان کے نقصان پہنچانے کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔
ایک کہانی شیر اور گیدڑ کی ہے جس میں اس شخص کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس کو بے گناہی میں سزا دی گئی ہو۔
اس میں شیر اور گیدڑ میں دوستی ہوتی جس کو باقی جانور پسند نہیں کرتے اور وہ گیدڑ کے خلاف چال چلتے ہیں اور شیر کو اس کے خلاف کر دیتے ہیں۔ شیر گیدڑ کو سزا کے طور پر قید کرتا ہے مگر بعد میں اس کے معتبر مشیروں سے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ گیدڑ بے گناہ ہے تو وہ گیدڑ سے معافی مانگ کر اس کو عہدے پر بحال کر دیتا ہے۔
ایک جگہ لکھا گیا ہے
“تھوڑے سے ساز و سامان کے ساتھ معمولی زندگی، خوف و اندیشہ کے ساتھ بہت ساری زندگی سے بہتر ہے”
ان مختصر الفاظ میں قناعت کی خوبی کو عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ قناعت کی زندگی بہت سے اندیشوں اور پریشانیوں سے نجات دیتی ہے
ایک کہانی عابد اور مہمان کے نام سے ہے جس میں عابد مہمان کے پاس لذیذ کھجوریں کھاتا ہے تو ان کو اپنے علاقے میں کاشت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو مہمان اس کو روکتا ہے کہ اس کے علاقے کی زمین اس کے لیے زرخیز نہیں ہے وہاں کے اپنے پھل ہیں۔
اس میں ایک جگہ بہت عمدہ بات کی ہے کہ
وہ شخص عقلمند شمار نہیں کیا جاتا جو ناقابل حصول چیز کی تلاش و جستجو کرتا ہے تم نیک بخت اسی وقت شمار ہوں گے جب تو قابل حصول چیز پر اتفاق کرو گے اور ناقابل حصول کی سے کنارہ کشی کرو گے
یہ ایک اور بہترین بات ہے جو پرسکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ انسان کی زندگی میں اکثر بےچینی اس وجہ سے ہے کہ ناقابلِ حصول چیزوں کے پیچھے جاتا ہے جس سے نہ تو وہ چیز ملتی ہے اور اپنا سکون بھی ختم ہوتا ہے۔ یہ قناعت پسندی کو ایک اور انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک کہانی مسافر اور سنار کی ہے جس میں کم ظرف کے اوپر احسان اور پھر اس سے بدلے کی امید رکھنا ہے۔ اس میں ایک گڑھے میں گرے سانپ ، شیر ،بندر اور سنار کو ایک مسافر نکالتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب وہ اس علاقے میں آتا ہے تو بندر اس کے لیے پھل توڑ کر لاتا ہے، شیر بادشاہ کی لڑکی کو مار کر اس کا زیور اتر کر اپنے محسن کو لا دیتا ہے، وہ زیور لاکر جب سنار کو لاکر اس کی قیمت لگواتا یے تو سنار زیور دیکھ کر پہچان جاتا ہے کہ یہ بادشاہ کے محل کا زیور ہے تو وہ اس کو وہاں بہانے سے چھوڑ کر اس کی شکایت بادشاہ کو لگاتا ہے، جس پر مسافر کو قید کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں سانپ بادشاہ کے بیٹے کو کاٹتا ہے اور جیل میں مسافر کو اس پتے کا بتاتا ہے جس سے اس کے زہر کا اثر ختم ہو ، پھر وہ اس اپنے لیے رہائی حاصل کرتا ہے
آخری کہانی کبوتر ، لومڑی اور بگلے کی ہے۔ اس میں اس شخص کی مثال دی گئی ہے جو دوسروں کو رائے اور مشورہ دیتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا
اس میں ایک لومڑی ، کبوتر کو ڈراتی ہے اور اس کے بچے کھا لیتی ہے۔ لومڑی کبوتر کو ڈراتی ہے کہ اگر اس نے بچے نہ قربان کیے تو وہ اس کو اوپر آ کر کھا جائے گی ۔کبوتر بلند گھونسلے سے لومڑی کے ڈر سے بچے اس کو نیچے پھینک دیتا ہے۔ کبوتر اپنی پریشانی بگلے کو بتاتا ہے تو بگلا کبوتر کو مشورہ دیتا ہے کہ اس بار جب لومڑی تمہیں ڈرائے تو کہنا کہ بیشک اوپر آ کر مجھے کھا لو، کبوتر نے ایسا ہی کیا تو لومڑی اس کو کچھ نہ کہہ سکی، لومڑی کے پوچھنے پر کبوتر نے بتایا کہ یہ مشورہ بگلے کا تھا۔ اس کے بعد لومڑی بگلے کے پاس جا کر اس کو باتوں باتوں میں ایسا مگن کرتی ہے اور اس کی خوشامد کرکے اس کے پاس جا کر اس کو کھا جاتی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ مختصر اور سبق آموز کہانیاں ہیں جن میں حکمت بھرے جملے ، نصحیت آموز اور قیمتی باتیں ہیں۔جو کہ انسان کی زندگی میں بہتری لا سکتی ہیں۔
یہ کتاب قدیم ہندوستان کی دانش پر ہے مگر اس میں کچھ باتیں بالخصوص آخرت پر ایمان اور اللہ کی واحدنیت وغیرہ سے کچھ باتوں کے بارے میں یقین سے نہیں کیا جا سکتا کہ یہ باتیں اس وقت بیدپا فیلسوف نے کہی یا بعد میں شامل کی گئیں۔
ہندوستان کی قدیم دانش پر مشتمل اس کتاب کی تدوین و تسہیل پر ڈاکٹر حنا جمشید صاحبہ داد کی مستحق ہیں اور جہلم بک کارنر نے اس کی عمدہ اشاعت کی ہے۔
آخر کتاب سے ایک اور اقتباس
“دنیا والے آپس میں دو چیزوں کی لین دین کرتے ہیں اور انہی دو چیزوں پر ان کے تعلقات کی بنیاد ہوتی ہے
ایک تو دل والے ہوتے ہیں اور دوسرے ہاتھ والے
دل کو نچھاور کرنے والے سچے دوست ہوتے ہیں
ہاتھ سے نچھاور کرنے والے یہ آپس میں ایک دوسرے کا تعاون اور امداد کرنے والے ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے نفع اندوزی کے طالب ہوتے ہیں
جو دنیا کی تھوڑی سی منفعت کو حاصل کرنے کے لیے بھلائی کرتا ہے اس کے خرچ کرنے اور اس کے دینے کی مثال اس شکاری اور اس کے پرندے کو دانہ ڈالنے کی ہے جو اپنے عمل سے پرندے کا نفع نہیں چاہتا بلکہ اسے خود اپنا ذاتی نفع مقصود ہوتا ہے
-دل کی معاملت ہاتھ کی معاملت سے بہتر ہوتی ہے
راجہ قاسم محمود