Web Analytics Made Easy -
StatCounter

حضرت میمونہ بنت حارث رضی ﷲ عنہا

حضرت میمونہ

حضرت میمونہ بنت حارث رضی ﷲ عنہا

حضرت عبد ﷲ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کے مطابق حضرت میمونہ کا اصل نام برہ تھا ۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے انھیں میمونہ کے نام سے موسوم کیا۔ حارث بن حزن سیدہ میمونہ کے والداور ہند بنت عوف کنانیہ (یا حمیریہ) والدہ تھیں۔بارھویں پشت پرحضرت میمونہ کا سلسلۂ نسب ہوازن بن منصور سے اور سولھویں پشت پر مضر کے پوتے قیس بن عیلان سے جا ملتا ہے۔ اپنے ساتویں جد ہلال بن عامر کی نسبت سے ہلالیہ کہلاتی ہیں۔ حضرت میمونہ حضرت خالد بن ولید اورحضرت عبدﷲ بن عباس کی خالہ تھیں۔حضرت ابوسفیان بن حرب کی والدہ صفیہ بنت حزن حضرت میمونہ کی پھوپھی تھیں۔

سیدہ میمونہ کی بہنیں :حضرت ام فضل بنت حارث زوجۂ عباس بن عبدالمطلب ، حضرت لبابۂ صغریٰ بنت حارث والدۂ حضرت خالد بن ولید ،حضرت عصما بنت حارث ز وجۂ ابی بن خلف،حضرت عزہ بنت حارث زوجۂ زیاد بن عبدﷲاور ہزیلہ (ام حفید )بنت حارث ان کی سگی بہنیں تھیں۔حضرت جعفر بن ابوطالب کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی اہلیہ حضرت سلمیٰ بنت عمیس ،عبدﷲ بن کعب کی اہلیہ حضرت سلامہ بنت عمیس اور حضرت زینب بنت خزیمہ سیدہ میمونہ کی ماں شریک بہنیں تھیں، جب کہ محمیہ بن جزاور عون بن عمیس ان کے ماں شریک بھائی تھے ۔ حضرت جعفر کی شہادت کے بعد حضرت اسماء حضرت ابوبکر کے عقد میں اور ان کی وفات کے بعد حضرت علی کی زوجیت میں آئیں۔اسی طرح حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد حضرت سلمیٰ کا نکاح حضرت شداد بن اسامہ (ہاد) سے ہوا۔ابن حجر نے حضرت لبابۂ صغریٰ کوحضرت میمونہ کی باپ شریک بہنوں میں شامل کیا ہے ،کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کا نام فاختہ بنت عامر تھا۔

زمانۂ جاہلیت میں اسلام کی آمدسے کچھ ہی دیر قبل حضرت میمونہ بنت حارث کا بیاہ مسعود بن عمرو ثقفی سے ہوا۔ حضرت میمونہ کے مسلمان ہونے کے بعد مسعودنے انھیں چھوڑ دیا۔تب ان کا نکاح ابورہم بن عبدالعزیٰ سے ہوااور ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ ابورہم نے وفات پائی تووہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی زوجیت میں آگئیں۔یہ آپ کا آخری نکا ح تھا۔ طبری کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کے عقد میں آنے سے پہلے حضرت میمونہ ثقیف کی شاخ بنو عقدہ سے تعلق رکھنے والے عمیر بن عمرو سے بیاہی ہوئی تھیں اور ان کی کوئی اولاد نہ تھی ۔زہری نے عمیر کے بجاے ابن عبد یا لیل کا نام نقل کیا ہے۔ابن اثیر اور ابن حجرنے حویطب بن عبدالعزیٰ، سخبرہ بن ابورہم اور فروہ بن عبدالعزیٰ کے نام بھی بتائے ہیں۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب نے عمرہ ادا نہ کیا تھا۔ ایک سال گزرنے کے بعد ذی قعدہ ۷ھ(فروری ۶۲۹ء) میںآپ دو ہزار صحابہ کے جلو میں عمرۂ قضا(یا عمرۂ قصاص) ادا فرمانے کے لیے مکہ روانہ ہوئے ۔تب حضرت جعفر بن ابوطالب حبشہ سے واپس آ چکے تھے۔ حضرت عبدﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ آپ نے اس سفر میں حالت احرام میں حضرت میمونہ سے نکاح کیااور احرام کھولنے کے بعد سرف کے چشمہ پر شب عروسی منائی(بخاری، رقم ۴۲۸۵۔ مسلم، رقم ۳۴۳۴۔ نسائی، رقم ۲۸۴۲۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۹۲)۔ مکہ سے آٹھ میل اِدھر واقع مقام یاجج پر پہنچ کر آپ نے تلوار کے علاوہ تمام اسلحہ جسم مبارک سے اتار دیا اور حضرت جعفر کو نکاح کا پیغام دے کر ان کی سالی حضرت میمونہ بنت حارث کے پاس مکہ بھیجا۔ ابھی آپ نے عمرۂ قضاادا نہ کیا تھا۔اس تفصیل کے برعکس ابن جوزی، ذہبی (سیر اعلام النبلاء) اور ابن خلدون کا اصرار ہے کہ آپ نے عمرہ اداکرنے کے بعد سندیسہ بھیجا۔ سیدہ میمونہ نے یہ معاملہ اپنی بہن حضرت ام فضل کے سپرد کر دیا، انھوں نے اپنے شوہرحضرت عباس بن عبدالمطلب کو والی مقرر کیا۔ چنانچہ حضرت عباس نے چار سو درہم (پانسو:ابن سعد،ابن حجر) مہر کے عوض حضرت میمونہ کا آپ سے نکاح کر دیا،مہر کی رقم بھی انھوں نے خود ادا کی۔حضرت ابن عباس کے برعکس حضرت میمونہ خود روایت کرتی ہیں کہ وہ اورنبی صلی ﷲ علیہ وسلم دونوں حلا ل تھے، یعنی آپ احرام کھول چکے تھے (مسلم، رقم ۳۴۳۷۔ ابوداؤد، رقم ۱۸۴۳۔ ابن ماجہ، رقم ۱۹۶۴۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۱۵)۔ حضرت میمونہ کی عمر اس وقت اکاون برس تھی۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے آزادکردہ حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے نکاح کیا ، تب آپ محرم نہ تھے (ترمذی، رقم ۸۴۱۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۷۱۹۷)۔ صفیہ بنت شیبہ، حضرت یزید بن اصم اورسعید بن مسیب اسی بات کی تائید کرتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت میمونہ سے آپ کا نکاح ماہ شوال میں ہوا۔

عمرہ ادا کرنے کے بعد آپ نے تین روز مکہ میں قیام فرمایا۔تیسرے روز قریش نے سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ کوآپ کے پاس بھیجا۔ آپ سعد بن عبادہ کے ساتھ مصروف گفتگو تھے کہ حویطب پکارا: مکہ میں آپ کی مدت قیام پوری ہو چکی ہے، اس لیے واپس چلے جائیں۔ آپ نے فرمایا: کیا حرج ہے کہ میں آپ کے ہاں اپنا ولیمہ کر لوں؟ہم کھانا بنائیں گے جسے آپ بھی تناول کر لیں۔قریش کے نمایندوں نے کہا: ہمیں آپ کے کھانے کی حاجت نہیں۔ چنانچہ آپ حضرت ابورافع کوحضرت میمونہ کے پاس چھوڑ کر مکہ سے چلے آئے اور مکہ سے چھ میل (دس میل: ابن سعد) باہر ،تنعیم سے آگے واقع وادئ سرف میں قیام فرمایا۔بعد میں حضرت ابورافع حضرت میمونہ کو بھی وہاں لے آئے تو آپ نے شب زفاف منائی۔ذہبی کہتے ہیں کہ آپ نے ابوعروہ کے مکان میں قیام فرمایا۔آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے مکہ سے رخصت ہو جانے کے بعد قریش کے اوباشوں نے سیدہ میمونہ اور آپ کے بارے میں دل آزار باتیں کیں۔ حضرت ابورافع نے آپ کو خبر کی تو فرمایا: وﷲ، بطن یاجج میں ہمارے پاس گھوڑے اور ہتھیار موجود ہیں، ہم اس موقع پر قریش سے جنگ کر کے بدعہدی نہیں کرنا چاہتے۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے سیدہ میمونہ سے نکاح کرنے کے بعد مکہ کی دو نام ور شخصیتیں مائل بہ اسلام ہوئیں۔حضرت میمونہ کے بھانجے خالد بن ولید اور ان کے دوست عمرو بن عاص نے اسلام قبول کرکے اہل ایمان کی قوت میں اضافہ کیا ۔

اکثر فقہاعام مسلمانوں کو حالت احرام میں نکاح کی اجازت نہیں دیتے۔وہ حضرت عبدﷲ بن عباس کی روایت میں بیان کردہ عمل کو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے لیے ایک استثنا سمجھتے ہیں۔کچھ علماے حدیث حضرت ابن عباس کے قول کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ آپ نے حالت احرام میں نہیں، بلکہ ماہ حرام (ذی قعدہ)میں عقد فرمایا۔عطا ہر محرم مسلمان کے لیے نکاح کو روا سمجھتے تھے۔

حضرت عبدﷲ بن عباس سے مروی ہے ،رسول ﷲصلی ﷲ علیہ وسلم نے جب عمرۂ قضا کے لیے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ فرمایاتو حضرت اوس بن خولی (دوسری روایت: ایک انصاری) اورحضرت ابورافع کوحضرت عباس کے پاس مکہ بھیجا جنھوں نے سیدہ میمونہ سے آپ کا نکاح کرایا۔ ان دونوں کے اونٹ گم ہو گئے تو یہ کچھ دن بطن زابغ میں رک گئے۔اس اثنا میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بھی پہنچ گئے ۔قدید کے مقام پر حضرت اوس اور حضرت ابورافع سے آپ کی ملاقات ہوئی۔دونوں نے اپنے اونٹ تلاش کیے اور آپ کے ساتھ مکہ کی طرف سفر شروع کیا۔آپ حضرت عباس کے گھر پہنچے جہاں نکاح ہوا۔ ایک تیسری روایت میں مذکور ہے کہ عمرۂ قضیہ کے دوران میں حضرت عباس جحفہ کے مقام پرنبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے ملے اور کہا کہ حضرت میمونہ بیوہ ہو چکی ہیں۔ پھر خود ان سے عقد کی تجویز پیش کی جو آپ نے قبول فرمائی۔

ابن ہشام کی روایت ہے کہ حضرت میمونہ کے پاس آپ کا پیغام نکاح پہنچا تب وہ اونٹ پر سوار تھیں۔انھوں نے فوراً جواب دیا: اونٹ اور اس کی سواری ﷲ ورسول کی ہے۔زہری کا کہنا ہے، ﷲ کا یہ ارشاد انھی کے اس عمل کا بیان ہے: ’وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَھَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَھَا‘، (اے نبی، آپ کے لیے حلال ہے) مومنہ عورت اگر وہ اپناآپ نبی کو سونپ دے بشرطیکہ نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں (الاحزاب ۳۳: ۵۰)۔ دوسری روایات میں اس فرمان الٰہی کو حضرت زینب بنت جحش یاحضرت غزیہ بنت جابرسے متعلق قرار دیا گیا ہے (السیرۃ النبویۃ ۴/ ۲۲۱)۔ ابن کثیرکا کہنا ہے کہ درست بات یہ ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے خود حضرت ابورافع کے ہاتھ حضرت میمونہ کو پیغام نکاح بھیجا، یعنی اس آےۂ مبارکہ کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت ایک سے زیادہ ازواج پر صادق آتی ہو۔

سیدہ میمونہ کی والدہ ہند بنت عوف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ معزز داماد رکھنے والی خاتون ہیں۔ان کے دامادوں کے نام اس طرح ہیں: حضرت میمونہ کے شوہرنبی صلی ﷲعلیہ وسلم،حضرت لبابۂ کبریٰ کے میاں حضرت عباس بن عبدالمطلب اورحضرت سلمیٰ کے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب تھے۔ حضرت حمزہ کی شہادت کے بعدحضرت سلمیٰ کابیاہ حضرت شداد بن ہاد(اسامہ) سے ہوا۔حضرت لبابۂ صغریٰ کی شادی ولید بن مغیرہ سے ہوئی، حضرت خالد بن ولید انھی کے بیٹے تھے۔ حضرت اسماء کی شادی پہلے حضرت جعفر بن ابو طالب، پھرحضرت ابوبکر صدیق اور آخر میں حضرت علی سے ہوئی۔

امہات المومنین کے کمرے کچی اینٹوں سے یاکھجور کی ٹہنیوں پرگارالیپ کر بنائے گئے تھے۔دروازوں کی جگہ سیاہ بالوں سے بنے ہوئے ٹاٹ لٹکے رہتے تھے۔ حسن بصری بتاتے ہیں ،عہد عثمانی میں ان کمروں میں جاتا تو آسانی سے چھتوں کو چھو لیتا۔ سیدہ میمونہ ایسے ہی گھر میں مقیم رہیں، سیدہ ام سلمہ نے اپنے گھرمیں پختہ اینٹیں لگوا ئیں تو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مال مسلم کا بدترین استعمال عمارتیں بنانا ہے۔حضرت میمونہ کی وفات کے بعدان کی وصیت کے مطابق ان کا گھر ان کے بھانجے عبدﷲ بن عباس کے تصرف میں رہا۔وہ جمعہ کی نماز کے بعد یہاں بیٹھ کر لوگوں کو تعلیم دیتے (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۳۷۷)۔ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں ازواج النبی کے گھروں کو ڈھا کر مسجد نبوی میں شامل کر لیا گیا۔تب لوگ زار و زار روئے، حضرت سعید بن مسیب نے کہا: ان گھروں کو نہ گرایا جاتا توان کی حالت مسلمانوں کے زہد و تقویٰ میں اضافہ کا سبب بنتی۔

اشعب بن جبیر حضرت عثمان کا غلام تھا۔اس کی ماں ام خلندج(یاام جمیل) حضرت عثمان کی بیٹی حضرت عائشہ (یا حضرت ابوسفیان )کی باندی تھی۔ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد سیدہ میمونہ اسے اپنے ساتھ لے آئیں۔ یہ باقی امہات المومنین کے پاس جاتی ، لگائی بجھائی کرتی اورانھیں ایک دوسرے کے خلاف اکساتی۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اسے بددعا دی تو وہ مر گئی۔

۹ھ میں سیدہ میمونہ ہلالی کے قبیلے بنوہلال بن عامر کا وفد مدینہ آیا ۔اس میں حضرت میمونہ کا بھانجا زیاد بن عبدﷲ بھی تھا۔وہ اپنی خالہ سے ملنے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے گھر چلا آیا ۔آپ گھر آئے تو اسے دیکھ کر غصہ میں آگئے اور لوٹنے لگے تھے کہ حضرت میمونہ پکاریں: یا رسول ﷲ، یہ میرا بھانجا ہے۔جب آپ ظہر کی نماز پڑھانے نکلے تو زیاد کو ساتھ لے لیا۔ نمازکے بعد آپ نے زیاد کو گلے لگایا ، سر پر ہاتھ پھیرکر اس کے حق میں دعا فرمائی اورہاتھ نیچے لا کر ناک کو سہلایا۔ قبیلۂ بنوہلال کے لوگ کہا کرتے کہ ہم زیاد کے چہرے پر ہمیشہ آپ کا ہاتھ مس ہونے کی برکت محسوس کرتے رہے۔ایک ہلالی شاعر نے زیاد کے بیٹے علی کی یوں مدح کی:

یا بن الذي مسح الرسول برأسہ

ودعا لہ بالخیر عند المسجد

’’اے اس شخص کے بیٹے، جس کے سر پر رسول صلی ﷲ علیہ وسلم نے شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اپنی مسجد کے پاس اس کے لیے دعائے خیر و برکت فرمائی ۔‘‘

ما زال ذاک النور في عرنینہ

حتی تبوأ بیتہ في مُلحد

’’یہ نور نبوی برابر اس کی اونچی ناک پر جگمگاتا رہا، حتیٰ کہ اس نے قبر میں مستقل ٹھکانا کر لیا۔‘‘

۹ھ میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت میمونہ تمام ازواج کے ساتھ آپ کے ہم راہ تھیں۔آپ نے ارشاد فرمایا: یہ تو حج ہے، پھر تمھیں گھر میں بیٹھنا ہو گا۔ چنانچہ سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہ زینب بنت جحش نے آپ کی وفات کے بعد حج نہ کیا۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب نے بھی امہات المومنین کو حج پر جانے سے منع کیا،البتہ ۲۳ھ میں انھوں نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا تو ازواج النبی کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ تب سیدہ زینب وفات پا چکی تھیں، جب کہ سیدہ سودہ گھر سے نہ نکلیں۔ یوم نحر (۱۰؍ ذی الحجہ)کو حضرت میمونہ نمازوں کے بعد تکبیریں کہتی رہیں (بخاری، باب العیدین، رقم ۳۷۶)۔

ام المومنین میمونہ بنت حارث بتاتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پروقوف عرفات کے روز صحابہ کو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے روزہ دار ہونے میں شبہ تھا۔کچھ نے کہا کہ آپ روزہ رکھے ہوئے ہیں، جب کہ دوسروں کا خیال تھا کہ آپ کا روزہ نہیں۔ میں نے یہ دیکھتے ہوئے دودھ سے بھرا ہوابرتن آپ کو بھیجا۔ آپ میدان عرفا ت میں کھڑے تھے، آپ نے دودھ نوش فرما لیا، جب کہ لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے (بخاری، رقم ۱۹۸۹۔ مسلم، رقم ۲۶۰۶)۔ دوسری روایت میں یہی واقعہ حضرت ام فضل سے منسوب ہے ( بخاری، رقم ۱۹۸۸۔ مسلم، رقم ۲۶۰۲۔ ابوداؤد، رقم ۲۴۴۔ مسند احمد، رقم ۲۶۸۷۲)۔ ابن کثیراسے ارسال قرار دے کر کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ایک ہی بار رونما ہوا اگرچہ اس کی نسبت دو خواتین کی طرف کی گئی ہے۔

حضرت عبدﷲ بن عباس بتاتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ کے ہاں بسر کی ۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم عشا کی نماز پڑھا کر تشریف لائے اور چار رکعت نفل ادا کر کے سو گئے۔آپ اورسیدہ میمونہ بستر کی لمبائی کے رخ لیٹے اور میں چوڑائی کے رخ پڑ گیا۔نصف رات سے کچھ پہلے یا بعدآپ بیدار ہوئے اور پوچھا: منے نے سو لیا ہے؟پھروضو کر کے تہجد کے لیے کھڑ ے ہوئے تو میں بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے پکڑ کر داہنے طرف کر دیا۔پہلے پانچ پھر دو (دوسری روایت:بارہ) رکعتیں ادا کرنے کے بعد آپ سو گئے ۔کچھ دیرکے بعد مؤذن حضرت بلال نے آ کر جگایاتو آپ دو رکعت ادا کر کے فجر پڑھانے چلے گئے (بخاری، رقم ۱۱۷، ۴۵۷۲۔ مسلم، رقم ۱۷۳۹۔ ابوداؤد، رقم ۱۳۶۷۔ نسائی، رقم ۱۶۲۱۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۱۶۴) ۔

حضرت عبدﷲ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ کے گھر تہجد کے وقت میں نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھا۔سیدہ میمونہ نے آپ کو بتایا: یا رسول ﷲ، یہ پانی ابن عباس نے رکھا ہے تو آپ نے دعا فرمائی،ﷲ! اسے دین کی سمجھ دے اور تاویل کا علم عطا کر (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۳۰۳۲)۔

حضرت میمونہ بنت حارث کی ایک باندی تھی جسے انھوں نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر آزاد کر دیا۔پھر جب آپ کوبتایا تو آپ نے فرمایا: تو اگر اسے اپنے مامووں کو دے دیتی تو تمھیں زیادہ اجر ملتا (بخاری، رقم ۲۵۹۲۔ مسلم، رقم ۲۲۸۰۔ابوداؤد، رقم ۱۶۹۰۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۱۷)۔ آپ کے فرمان کا مطلب ہے کہ صلۂ رحمی کرنا صدقہ کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، کیونکہ اس سے صدقہ اور صلۂ رحمی دونوں کا ثواب مل جاتا ہے ۔ابن حجر کہتے ہیں کہ اس حکم کا اطلاق احوال کے مطابق بدل بھی سکتا ہے ،ہو سکتا ہے کبھی مسکین کو دینا قرابت داروں کو عطا کرنے سے زیادہ ضروری ہو۔

حضرت عبدﷲ بن عباس اورحضرت خالد بن ولید ایک بار اپنی خالہ سیدہ میمونہ سے ملنے آئے۔ ان کے پاس بھنی ہوئی گوہ پڑی تھی جو ان کی بہن ام حفیدہ بنت حارث نے نجد سے بھیجی تھی۔حضرت میمونہ نے گوہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو پیش کی، پاس کھڑی ایک عورت نے بتایا: یہ گوہ ہے تو آپ نے ہاتھ کھینچ لیا۔حضرت خالد نے سوال کیا: یارسول ﷲ، کیا گوہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ ہماری قوم کی سرزمین میں نہیں پائی (یا کھائی) جاتی، اس لیے مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے۔یہ سن کر حضرت خالد نے چبا چبا کر گوہ کھا لی (بخاری، رقم ۵۳۹۱۔ ابوداؤد، رقم ۳۷۹۴۔ نسائی، رقم ۴۳۲۲)۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے گوہ سے کراہت محسوس کرتے ہوئے تھوک دیا توحضرت میمونہ نے دودھ پیش کیا ۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے نوش فرما لیا تو داہنی طرف موجود حضرت ابن عباس کو دیا اور فرمایا: اگر تم چاہو تو بائیں طرف بیٹھے خالد کو پہلے دے سکتے ہو۔ انھوں نے کہا: میں آپ کے بچائے ہوئے (جھوٹے) پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے جس کو بھی ﷲ دودھ پلائے ،یہ دعا مانگے: اے ﷲ، ہمارے لیے اس میں برکت دے اور اضافہ کر (ترمذی، رقم ۳۴۵۵۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۶۹)۔ سیدہ میمونہ نے یہ کہہ کر گوہ کو چھوڑ دیا: میں وہ کھانا نہ کھاؤں گی جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے نہیں کھایا(موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۴) ۔

سیدہ میمونہ بتاتی ہیں کہ ایک بار رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بیدار ہوئے توغمگین اور خاموش تھے۔ میں نے پوچھا: یا رسول ﷲ، کیا بات ہے ،آپ کی کیفیت بدلی بدلی ہے؟ فرمایا: حضرت جبریل علیہ السلام نے رات آنے کا وعدہ کیا تھا پر نہیں آئے۔ پورا دن اسی طرح گزرا ،پھر آپ کو یاد آیاکہ ہمارے بچھونے کے نیچے کتے کاایک پلا ہے۔آپ نے اسے نکالنے کو کہا اور اپنے دست مبارک سے اس جگہ پانی چھڑک دیا۔ اگلی رات جضرت جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو یا تصویر ہو (مسلم، رقم ۵۵۶۴۔ ابوداؤد، رقم ۴۱۵۷۔ نسائی، رقم ۴۲۸۸۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۰۰)۔ دوسری روایت میں ہے کہ کپڑے میں نقش تصویر رکھنے کی اجازت ہے (مسلم، رقم ۵۵۶۸)۔

حضرت میمونہ فرماتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کے ہاں شانے( دستی)کاگوشت کھایا، پھر دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھائی (بخاری، رقم ۲۱۰۔ مسلم، رقم ۷۲۲۔ موسوعۂ مسنداحمد، رقم ۲۶۸۱۳)۔

ایک بار ام المومنین ام سلمہ اورام المومنین سیدہ میمونہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس موجود تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم حاضر ہوئے۔ آپ نے دونوں کو پردے میں ہو جانے کو کہا۔ انھوں نے کہا: یا رسول ﷲ، کیا یہ نابینا نہیں؟ ہمیں دیکھتے ہیں نہ پہچانتے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ ان کو دیکھ نہیں رہیں؟ (ابوداؤد، رقم ۴۱۱۲۔ ترمذی، رقم ۲۸۷۸۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۵۳۷)

آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے آزادکردہ حسن بن علی (ابو رافع )بتاتے ہیں کہ میں کسی اہم کام پر مامور تھا کہ آپ نے حکم دیا: میمونہ کو لے آؤ۔میں نے کہا: میں اس کام میں مصروف ہوں۔ فرمایا: کیا تم وہ کام نہ کرنا چاہو گے جو مجھے پسند ہو؟جاؤ ،میمونہ کو لے آؤ (مسند احمد، رقم ۲۷۱۸۵۔ التاریخ الکبیر، بخاری، رقم ۲۵۲۹۔ صحیح ابن خزیمہ ۲۵۲۸)۔ شاید یہ ۷ھ میں آپ کے سیدہ میمونہ سے نکاح کرنے کے بعد انھیں مکہ سے سرف لانے کا واقعہ ہے۔

جمعرات ۲۸ ؍ صفر ۱۰ھ (۶۳۲ء) کو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ام المومنین میمونہ کے ہاں تھے جب آپ کو شدید درد ہوا۔ یہ اس مرض کی ابتداتھی جس میں آپ کی وفات ہوئی،ایک قول کے مطابق آ پ اس میں تیرہ دن اور دوسرے کے مطابق سات دن مبتلا رہے۔ ام المومنین ام سلمہ ،ام المومنین میمونہ اور ام المومنین عائشہ نے آپ کی تیمارداری کی۔ایک موقع پر حضرت اسماء بنت عمیس بھی موجود رہیں۔آپ سیدہ میمونہ ہی کے گھر میں تھے جب آپ نے عبدﷲ بن زمعہ کو ارشاد کیا کہ لوگوں کونماز پڑھنے کا کہو۔ابن زمعہ نے حضرت عمر کو امامت کرنے کا کہہ دیا۔آپ حضرت عمر کی آواز سن کر ناراض ہوئے اور دوبارہ حکم دیا کہ ابوبکر کو نماز پڑھانے کا کہو۔ جب بیماری نے شدت اختیار کر لی تو آپ تمام ازواج سے اجازت لے کر سیدہ عائشہ کے ہاں منتقل ہو گئے ۔وہیں آپ نے دنیا کے بجاے دارآخرت کو ترجیح دی (بخاری، رقم ۳۰۹۹۔ مسلم، رقم ۸۶۷۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۰۶۱)۔ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم پرغشی طاری تھی جب آپ کے چچا عباس نے حبشہ سے لائی ہوئی نمونیا (ذات الجنب)کی دوا آپ کو پلادی ۔افاقہ ہونے پر آپ نے اسے نا پسند کیااور سزا کے طور پریہ دواحضرت عباس کے علاوہ سب کو پلوا دی ۔ سیدہ میمونہ کا روزہ تھا، انھیں بھی دوا پینا پڑی (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۸۷۰، ۲۷۴۶۹)۔

نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: چار بہنیں مومنہ ہیں: حضرت ام فضل ،حضرت میمونہ ،حضرت اسماء اورحضرت سلمیٰ (الاستیعاب ۴/ ۱۹۰۹)۔

ایک بار آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے حضرت میمونہ ،حضرت ام فضل اور ان کی بہنوں حضرت لبابۂ صغریٰ، حضرت ہزیلہ ،حضرت عزہ ،حضرت اسماء اورحضرت سلمیٰ کا تذکرہ ہوا تو فرمایا: ’’یہ سب بہنیں پکی مومنہ ہیں‘‘ (طبقات ابن سعد ۶/ ۲۰۳)۔

ایک عورت بیمار ہوئی تو اس نے منت مانی کہ اگر میں صحت یاب ہوئی تو بیت المقدس میں نماز پڑھوں گی۔ شفا پانے کے بعداس نے سفر کی تیاری کی اور ام المومنین میمونہ کو سلام کرنے آئی۔انھوں نے فرمایا: گھر میں بیٹھی رہو، جو چاہو کھاؤ (پیو) اوررسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھو، کیونکہ میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: ’’ اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب مسجد کعبہ کے علاوہ باقی تمام مساجد میں پڑھی جانے والی ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے‘‘ (مسلم، رقم ۳۳۶۳۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۲۶)۔

ایک بار حضرت عبدﷲ بن عباس حضرت میمونہ سے ملنے آئے تو ان کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ انھوں نے پوچھا: بیٹا، تمھارے بالوں کو کیا ہوا ہے؟ ابن عباس نے کہا: مجھے کنگھا کرنے والی بیوی ام عمار حائضہ ہے۔ سیدہ میمونہ نے کہا: ہاتھوں میں حیض کہاں سے آ گیا؟ ہمیں حیض آتا تھا تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھتے اور قرآن پڑھتے تھے (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۱۰)۔

سیدہ میمونہ قرض بہت لیتی تھیں۔ ان کے گھر والے اسے اچھا نہ سمجھتے اور ملامت کرتے تو کہتیں: میں قرض لینا نہ چھوڑوں گی۔ میں نے اپنے دوست اور محبوب صلی ﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: جو کوئی ادھار پکڑتا ہے اور ﷲ جانتا ہے کہ یہ اسے واپس کرنے کی نیت رکھتا ہے تووہ یہ قرض اس کی طرف سے دنیا ہی میں چکا دیتا ہے (نسائی، رقم ۴۶۹۰۔ ابن ماجہ، رقم ۲۴۰۸۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۱۶)۔

خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب نے شام کے شہر جابیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ﷲ نے مجھے بیت ا لمال کا خزانچی اور تقسیم کنندہ بنایاہے۔میں سب سے پہلے ازواج النبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا حصہ مقرر کرتا ہوں۔انھوں نے حضرت جویریہ ،حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ کے سوا سب ازواج کے لیے دس دس ہزار وظیفہ مقرر کیا۔سیدہ عائشہ نے جب کہا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم تو ہمارے درمیان عدل کرتے تھے تو حضرت عمر نے ان سب کا وظیفہ یکساں کر دیا (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۱۵۹۰۵)۔ حضرت عائشہ نے وہ دو ہزار لینے سے بھی انکار کر دیا جو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی ان سے خاص محبت کی وجہ سے حضرت عمرنے بڑھائے تھے۔ طبری اور ابن اثیر نے حضرت جویریہ اورحضرت صفیہ کا وظیفہ کم ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ مملوکہ رہی تھیں، تاہم سیدہ میمونہ کا اعزازیہ کم رکھنے کی وجہ ہمارے سامنے نہیں آ سکی۔

حضرت میمونہ نے اپنے بیماربھانجے عبدالرحمن بن سائب سے کہا: میں تمھیں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم والا دم نہ کروں؟ آپ فرماتے تھے: ’بسم ﷲ أرقیک وﷲ یشفیک من کل داء فیک اذہب البأس رب الناس واشف أنت الشافي لا شافي إلا أنت‘، ’’ﷲ کے نام سے میں تمھیں دم کرتا ہوں، ﷲ تمھاری ہر بیماری سے تم کو شفا دے گا۔لوگوں کے پروردگار تکلیف دور کر دے ،شفا دے دے ، تو ہی شفا کرنے والا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی شفا دینے والا نہیں‘‘ (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۶۸۲۱) ۔

واقدی اورابن جوزی کہتے ہیں: ام المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث کا انتقال ۶۱ھ میں مکہ میں ہوا۔تب اقتدار یزید کے پاس آ چکا تھا۔ابن اثیر ،ابن حجر، حاجی خلیفہ اور ایک جگہ پر ابن کثیر نے ۵۱ھ کو درست سن وفات بتایا۔ ابن کثیر نے دوسرے مقام پر ۶۳ھ کہا،جب کہ ایک شاذروایت میں ۳۹ھ مذکور ہے ۔ حضرت میمونہ کے بھانجے حضرت یزید بن اصم ان کے آخری وقت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ مکہ میں بیمار ہوئیں تو ان کے بھتیجوں میں سے کوئی بھی وہاں نہ تھا۔ انھوں نے کہا: مجھے مکہ سے نکالو ، میں یہاں مرنا نہیں چاہتی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے خبر دی تھی کہ میں مکہ میں نہ مروں گی۔لوگ انھیں سرف لے آئے اوریہاں ان کا انتقال ہوا۔جنازہ اٹھانے سے پہلے حضرت عبدﷲ بن عباس نے کہا: میت کو آرام سے اٹھانا اور درمیانی چال چلنا، جھٹکے نہ دینا، کیونکہ یہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں (بخاری، رقم ۵۰۶۷۔ مسلم، رقم ۳۶۲۳۔ نسائی، رقم ۳۱۹۸۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۰۴۴)۔ سیدہ میمونہ کی تدفین اسی خیمے(یا چبوترے ) کی جگہ کی گئی جہاں ان کا ولیمہ ہوا تھا۔ ان کے بھانجے حضرت عبدﷲ بن عباس نے نماز جنازہ پڑھائی۔ وہ اورسیدہ میمونہ کے دوسرے بھانجے حضرت یزید بن اصم،حضرت عبدﷲ بن شداد اور ان کی پرورش میں رہنے والے عبیدﷲ خولانی قبر میں اترے۔میت قبر میں رکھی گئی تو سر ایک طرف مڑ گیا۔حضرت یزید بن اصم نے اپنی چادر نیچے رکھ کر سر سیدھا کیا، لیکن حضرت عبدﷲ بن عباس نے اسے ہٹا کر ایک روڑا رکھ دیا۔ حضرت یزید بن اصم بیان کرتے ہیں کہ میمونہ نے عمرہ ادا کرنے کے بعد سر منڈا دیا تھا۔ وفات کے وقت ان کے سر پر تھوڑے تھوڑے بال تھے۔ محدثین کہتے ہیں کہ شاید انھیں علم نہ تھا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا ہے۔ ابن سعدکہتے ہیں کہ سیدہ میمونہ نے اکاسی برس کی عمر پائی۔یہ اس روایت سے میل نہیں کھاتی جس میں آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم سے عقد کے وقت ان کی عمر اکاون برس بتائی گئی ہے۔اس حساب سے ان کی عمرکم و بیش سو سال ہونی چاہیے۔

حضرت یزید بن اصم بتاتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے بھانجے ،حضرت طلحہ بن عبیدﷲ کے بیٹے کے ساتھ مدینہ کے ایک باغ میں کھڑاتھا ۔ہم نے باغ میں سے پھل کھا لیا۔ سیدہ عائشہ کو پتا چلا تو اپنے بھانجے کو سرزنش کی پھر مجھے نصیحت کی ،ﷲ تعالیٰ نے تمھارا رشتہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے گھرانے سے جوڑ دیا ہے ۔تمھاری خالہ سیدہ میمونہ جو رخصت ہو چکی ہیں ،ہم سب سے زیادہ متقی اور سب سے بڑھ کر صلۂ رحمی کرنے والی تھیں۔ابن حجر یہ روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ کا انتقال سیدہ میمونہ کے بعد ہوا اور حضرت عائشہ کے ۶۰ھ میں وفات پانے پر سب کا اتفاق ہے۔

ام المو منین حضرت میمونہ نے وضو ، غسل اور نماز کے اہم مسائل کے بارے میں آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کی سنتوں اور ارشادات سے امت کو آگاہ کیا۔ ان سے مروی روایتوں کی تعداد اس طرح ہے ،کل مرویات: تیرہ، بخاری: ایک، مسلم: پانچ، متفق علیہ: سات (سیر اعلام النبلاء: ۲/ ۲۴۵)۔ ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: ان کے چار بھانجے حضرت عبدﷲ بن عباس ،حضرت عبدﷲ بن شداد،حضرت عبدالرحمن بن سائب اور حضرت یزید بن اصم، ان کے آزادکردہ حضرت سلیمان یسار، حضرت عطاء بن یسار، حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ حضرت کریب ، حضرت عبید بن سباق، حضرت ابراہیم بن عبدﷲ، حضرت عبدﷲ بن سلیط، حضرت عبیدﷲ بن عبدﷲ، حضرت عمران بن حذیفہ، حضرت عالیہ بنت سبیع اور سیدہ میمونہ کی باندی ندبہ (یا بدیہ)۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبوےۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجامع المسند الصحیح (بخاری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاغانی (ابوفرج اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جو زی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البداےۃ و النہاےۃ (ابن کثیر)، الاصابہ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)، محمد رسول ﷲ (محمد رضا)۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *