مصنف: مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
دینی مدارس میں عصری مضامین کے شامل کرنے سے متعلق تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس میں امت کے معتبر علماء اور بزرگوں کی کیا سوچ رہی ہے؟ اس سلسلہ میں اگر مختلف اہل علم کے افکار کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ عصری تعلیم اور انگریزی زبان پڑھنے پڑھانے کے مخالف نہیں تھے، شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا عبد الحئی فرنگی محلیؒ جیسے اکابر علماء نے انگریزی زبان کے پڑھنے کی اجازت دی ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اجازت بھی دی ہے اور بہتر مقاصد کے لئے اس کے حاصل کرنے کو مستحن بھی قرار دیا ہے، حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب بلیاوی (مؤلف: مصباح اللغات) نے اس موضوع پر مستقل ایک رسالہ لکھا ہے، اور علماء دیوبند کے بارے میں جویہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے انگریزی زبان پڑھنے پڑھانے کو ناجائز قرار دیا تھا، اس کی تردید کی ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے سر سید احمد خاں مرحوم کو ایک خط لکھا اور اس میں تحریر فرمایا:
’’اس کے بعد (یعنی دارالعلوم دیوبند کے تعلیمی نصاب سے فارغ ہونے کے بعد) اگر طلبۂ مدرسہ ہذا مدارس سرکاری میں جا کر علوم جدیدہ کو حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤید ثابت ہوگی‘‘
مشہور مصنف حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ نے حضرت مولانا مفتی محمد احمد صاحبؒ (سابق صدر مفتی ریاست دکن ومہتمم دارالعلوم دیوبند) سے نقل کیا ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے آخری سفر حج کے دوران پانی جہاز میں اٹلی کے رہنے والے کپتان سے ملاقات ہوئی، مولانا کی طرف لوگوں کے رجوع کو دیکھ کر اس کے دل میں آپ کی عقیدت پیدا ہوگئی، اور اس نے آپ سے اسلام کے متعلق بعض باتیں دریافت کرنی چاہیں، آپ نے ایک انگریزی جاننے والے شخص کی وساطت سے اس کے جوابات دیئے، وہ اس قدر متأثر ہوا کہ قریب تھا کہ اسلام قبول کر لے؛ لیکن خود آپ درمیانی شخص کی ترجمانی سے مطمئن نہیں تھے،ذہین آدمی چاہے کسی زبان سے واقف نہ ہو؛ مگر ترجمانی کس درجہ صحیح ہو رہی ہے؟ اس کا اندازہ کر لیتا ہے، اس وقت آپ نے ارادہ کیا کہ دیوبند واپس آنے کے بعد میں انگریزی زبان سیکھوں گا، ظاہر ہے اس کا مقصد یہی تھا کہ ان کو ان کی زبان میں اسلام کی دعوت دی جائے، اور شکوک وشبہات دور کئے جائیں۔
حضرت نانوتویؒ نے ابتدائی دور میں دارالعلوم کا جو نصاب بنایا ،اس میں سنسکرت زبان کو بھی شامل رکھا تھا؛ کیوں کہ اس زمانہ میں آریہ سماجیوں کی طرف سے فتنہ ارتداد پھیلانے کی جان توڑ کوششیں ہو رہی تھیں، پھر یہ بات محسوس کی گئی کہ ابتدائی سنسکرت سے واقفیت کافی نہیں ہے، تو دارالعلوم کی شوریٰ نے طے کیا کہ سنسکرت کی معیاری تعلیم کے لئے کچھ طلبہ کوخصوصی وظائف دیے جائیں؛ تاکہ جہاں سنسکرت زبان کی تعلیم ہوتی ہے، وہ وہاں جا کر اچھی تعلیم حاصل کر سکیں، اور یہ کچھ زبان ہی پر موقوف نہیں ہے؛ بلکہ تمام ہی عصری علوم کو دارالعلوم کے اکابر اہمیت دیا کرتے تھے، دارالعلوم نے شروع سے فلکیات، ریاضی، جیومیٹری اور علم طب کو داخل نصاب کیا تھا، ۱۲۹۵ھ میں دارالعلوم کی شوریٰ نے طے کیا تھا کہ تعلیم طب کے ساتھ ساتھ طریقۂ مطب، جراحی اور دواسازی یعنی سرجری اور فارمیسی کی بھی تعلیم دی جائے، اس کا ذکر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی حیات ہی میں پیش کی جانے والی روداد میں موجودہے ،جو حضرت مولانا محمدیعقوب نانوتویؒ نے پیش کی تھی (تاریخ دارالعلوم:۱؍۱۰۶)
خود دارالعلوم دیوبند کے نصاب مرتّبہ ۱۹۹۳ء میں تیسری جماعت میں تاریخ ہند، تاریخ اسلام، علم شہریت، عالم اسلام کا جغرافیہ اور جغرافیہ عالم شامل نصاب ہے، اور عربی کی چوتھی جماعت میں جنرل سائنس (کیمیا، طبیعات، علم الحیوان، علم النباتات) کے علاوہ اصول حفظان صحت، دستور ہند کے کچھ ضروری ابواب، معاشیات کی مبادیات اور جدید فلاسفہ کے نظریات شامل رکھے گئے ہیں، تاریخ دارالعلوم میں اس کا ذکر موجود ہے، گویا انگریزی زبان کے علاوہ تمام ہی عصری علوم کے بنیادی مضامین کو شامل نصاب رکھا گیا ہے۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے تلمیذ رشید حضرت مولاناسید حسین احمد مدنیؒ نے تقریباََ ۱۹۳۳ء میں آسام اور بنگال کے دینی مدارس کے لئے ایک نصابِ تعلیم مرتب کیا تھا، یہ نصاب قدیم صالح اور جدید نافع کے امتزاج کا بہترین نمونہ ہے، انہوں نے اس نصاب کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے، ابتدائیہ: جس کی مدت ۳؍سال ہے، ثانویہ: جس کی مدت ۵؍سال ہے اور مرحلۂ عالیہ جس کی مدت ۸؍سال ہے، اس نصاب میں انہوں نے اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ معاون اسلامی وعصری علوم کو بڑی فراخدلی کے ساتھ شامل کیا تھا، تاریخ میں تاریخ ہند بھی، تاریخ اسلام بھی اور تاریخ یوروپ بھی، جغرافیہ میں ملکی وایشیائی جغرافیہ اور اس کی نقشہ سازی کی مشق، قانون میں دستور برطانیہ؛ کیوں کہ اس وقت ہندوستان آزاد نہیں ہوا تھا، معاشیات میں ہندوستان کی معیشت اور زرعی نظام سے مربوط مسائل، سیاست میں اصول سیاست پر قدیم وجدید کتابیں، ریاضی، جدید سائنس، عمارت کی نقشہ نویسی اور پیمائش، فلکیات ،ٹکنالوجی میں کپڑا بُنائی، نجاری، گھڑی سازی وغیرہ، اور زبان میں انگریزی زبان، نیز مولاناؒ نے اس میں مقامی زبان کو بھی بڑی اہمیت دی ہے؛ چوں کہ یہ نصاب بنگلہ زبان کا تھا؛ اس لئے بنگلہ زبان کو خصوصی اہمیت کے ساتھ شامل نصاب کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مولاناؒ نے پریڈ اور فزیکل ورزش نیز یونیفارم کو بھی تعلیمی نظام کا حصہ بنایا ہے، واقعہ ہے کہ یہ نصاب بے حد اہم اور قابل استفادہ ہے، اور مولاناؒ کی وسیع الظرفی موجودہ دور کے بعض شدت پسند نوجوان فضلاء کے لئے مشعل راہ ہے کہ آپ نے قدیم طرز کی درسگاہ میں تعلیم حاصل کی، مدینہ منورہ میں حدیث کا درس دیا؛ لیکن آپ کے اِس مجوّزہ نصاب میں تمام عصری مضامین شامل ہیں، اور علی گڑھ، جامعہ ملیہ اور عثمانیہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی کتابیں بھی ہیں، نیز اپنے زمانہ سے باخبری کے لئے بعض ایسی کتابوں کا بھی مشورہ دیا گیاہے، جو ہندو فرقہ پرستوں کی ہیںیا اس زمانہ کے احوال پر تبصرہ سے متعلق ہیں۔
میں نے خاص طور پر دارالعلوم اور اس کے اکابر کا ذکر اس لئے کیا کہ ان کا مطمح نظر خالص اسلامی علوم ہی کو پڑھانا تھا، رہ گیا ندوۃ العلماء یا جنوبی ہند کی معروف درسگاہ جامعہ نظامیہ وغیرہ، تو ان اداروں کا مقصد ہی یہی تھا کہ عصری علوم کے ایک حصہ کو شامل کرتے ہوئے دینی علوم کی تعلیم دی جائے، اور اسی تصور کے ساتھ ان اداروں کے نصاب تیار کئے جائیں؛ لیکن افسوس کہ اس کے باوجود عمومی طور پر دینی مدارس میں اس سوچ کی پذیرائی نہیں ہو سکی، اور آج بھی بیشتر مدارس میں عصری علوم کو شامل کرنے کی فکر نہیں پائی جاتی۔
ایک تصور ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے کہ جو نصاب زمانۂ قدیم سے آرہا ہے، اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ ہر گز نہیں کرنی چاہئے؛ لیکن جس مبالغہ کے ساتھ یہ بات کہی جاتی ہے، وہ صحیح نہیں ہے، ہمارا یہ نصاب درس نظامی کہلاتا ہے، اس کی بنیاد تو ملا قطب الدین سہالویؒ نے رکھی ہے؛ لیکن اس کو فروغ ملا نظام الدین فرنگی محلی کے ذریعہ حاصل ہواہے؛ اسی لئے یہ درس نظامی کہلایا، اصل درس نظامی ۵۲؍کتابوں پر مشتمل تھا، جس میں ۲۵؍کتابیں منطق کی تھیں، ۶؍ریاضی کی اور ۱۲؍کتابیں اسلامی علوم کی، تفسیر میں جلالین اور بیضاوی، حدیث میں صرف مشکوٰۃ شریف، فقہ میں شرح وقایہ کا پہلا اور دوسرا حصہ اور ہدایہ کا تیسرا اور چوتھا حصہ، اصول فقہ میں تین، علم کلام میں معقولی انداز کی چار کتابیں، یہی پورا نصاب تھا، جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ معقولات پر کتنی زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور خالص اسلامی علوم پر کتنی کم، اور حدیث جیسے اہم مضمون میں صرف مشکوٰۃ المصابیح پر اکتفاء کیا جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کو، کہ انہوں نے درس نظامی کے بعض مضامین کو شامل کرتے ہوئے ایک نیا نصاب بنایا، جو ۲۹؍کتابوں پر مشتمل تھا، اس میں تفسیر کی دو، حدیث کی تین، علم کلام کی تین، اصول فقہ کی دو، تصوف کی چار کتابیں اور فقہ میں صرف شرح وقایہ پڑھائی جاتی تھی، یہ یقیناََ ایک بہتر تبدیلی تھی کہ ملا نظام الدین کے نصاب میں تو۵۲؍کتابوں میں سے صرف بارہ ایسی کتابیں تھیں ،جن کا تعلق براہ راست اسلامی علوم سے تھا، اور شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے یہاں ۲۹؍میں سے ۱۵؍کتابیں براہ راست علوم اسلامی سے متعلق تھیں، مولانا عبد الحئی حسنیؒ کی نصاب تعلیم سے متعلق کتاب اور شاہ ولی اللہ صاحب کی ’’الجزء اللطیف‘‘ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں؛ اس لئے حقیقت میں دارالعلوم دیوبند اور موجودہ دور کے دیگر مدارس کے نصاب میں ملا نظام الدین کے نصاب سے زیادہ شاہ ولی اللہ صاحب کے نصاب سے استفادہ کیا گیا ہے؛ لیکن اس سے بہر حال یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر دور میں علماء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق نصاب میں تبدیلی کی ہے، اور اگر یہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ ہو تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے وحشت محسوس کی جائے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، مگر اس تبدیلی میں عصری علوم کی شمولیت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے جس نصاب کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، مولانا نے اس میں لکھا ہے کہ ہر تین سال میں نصاب پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔
چوتھا قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگر مدارس کے مروّجہ نصاب میں عصری علوم کو شامل کیا جائے تو ایسی کیا شکل ہو سکتی ہے کہ دینی تعلیم کو متأثر کئے بغیر عصری مضامین کی تعلیم دی جا سکے، راقم الحروف کے خیال میں اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
اول یہ کہ دسویں جماعت تک مشترکہ نصاب ہو، جو کتابیں عصری درسگاہ میں پڑھائی جاتی ہیں،بعض تبدیلیوں کے ساتھ وہ مدارس میں بھی پڑھائی جائیں، عصری درسگاہوں میں درس کا دورانیہ کم ہوتا ہے، چالیس منٹ کی پانچ سے سات گھنٹیاں ہوتی ہیں، بعض جگہ تو صرف۳۵؍ منٹ کی گھنٹیاں ہوتی ہیں، اس طرح اوقاتِ تعلیم کم وبیش چار گھنٹے ہوتے ہیں، دینی مدارس میں چھ گھنٹے تو لازماََ اسباق پڑھائے جاتے ہیں، اور بعض دفعہ فجر بعد ہی سے اسباق شروع کر دیے جاتے ہیں، اس لحاظ سے مدارس کے مروجہ آٹھ سالہ نصاب میں سے پہلے تین سال کے وہ مضامین جو عربی زبان اور فن کی ابتدائی کتابوں سے متعلق ہیں، بآسانی اس دس سال میں سموئے جا سکتے ہیں، اس دس سالہ نصاب کے بعد جیسے عصری تعلیم حاصل کرنے والے مزید پانچ سال میں گریجویشن کرتے ہیں، اسی طرح جو طلبہ عالم کورس کرنا چاہیں، وہ پانچ سال میں درس نظامی کے مروجہ نصاب کو مکمل کرلیں، پھر عصری تعلیم حاصل کرنے والے جیسے مزید دو سال کا وقت لگا کر ماسٹر کی ڈگری حاصل کرتے ہیں، اسی طرح دینی تعلیم حاصل کرنے والے افتاء اورتکمیل وتخصص وغیرہ کا کورس کر سکتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو طلبہ دسویں جماعت کے بعد عالم کورس کی تعلیم حاصل کریں گے، وہ بنیادی عصری علوم سے واقف ہوں گے، اور جو آگے عصری علوم حاصل کرنا چاہیں گے، وہ بنیادی دینی تعلیم حاصل کر چکے ہوں گے، اور ایک ساتھ دینی وعصری تعلیم کا ایسا بوجھ نہیں پڑے گا، جو طلبہ کے لئے ناقابل تحمل ہو جائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لئے ایک تین سالہ نصاب ڈیزائن کیا جائے؛ تاکہ وہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آشنا ہو جائیں، فی الحال کئی اداروں نے فارغین مدارس کے لئے انگریزی کا دو سالہ نصاب شروع کیا ہے، اس سے زبان تو آسکتی ہے؛ لیکن دوسرے عصری مضامین سے مناسبت پیدا نہیں ہو سکتی؛ حالاں کہ یہ بھی ضروری ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ درس نظامی کی تعلیم کے ساتھ اعدادیہ تا درجہ چہارم عربی پانچ سال کے عرصہ میں ہر جماعت میں ۴۵۔۴۵؍ منٹ کی دو گھنٹیوں کا اضافہ کیا جائے، ایک گھنٹی انگریزی زبان کے لئے مخصوص ہو اور ایک گھنٹی میں ہفتہ میں دو دودِن جنرل سائنس، حساب اور تاریخ ہند کے مضامین شامل کئے جائیں، پھر پنجم عربی سے لے کر دورۂ حدیث تک کے مرحلہ کو مروجہ درس نظامی کی کتابوں ہی کے لئے خالص رکھا جائے، ابتدائی پانچ سالہ مدت میں انگریزی اور عصری مضامین کو شامل کرنا بہت دشوار نہیں ہے، اگر منطق وفلسفہ کے مضامین کو اصطلاحات کے تعارف تک محدود کر دیا جائے اور جو مضامین مقصود ہیں، یعنی تفسیر، حدیث، عقیدہ، اصول کے علاوہ دوسرے مضامین سے مکررات کوکم کر دیا جائے،توبسہولت یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کو دینی مقاصد کے لئے زیادہ مؤثر اور مفید بنانے کی غرض سے مروجہ نصاب تعلیم پر غور مکرر کی ضرورت ہے، اس بات کی ضرورت نہیں کہ بہت زیادہ تبدیلی کی جائے؛ بلکہ معمولی حذف واضافہ کے ذریعہ ضروری حد تک عصری مضامین کو شامل کیا جاسکتا ہے،بدلتے ہوئے حالات میں اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی اور جیسے ہمارے بزرگوں نے اپنے زمانہ کے احوال کے لحاظ سے تعلیم وتربیت کا نظام بنایا تھا، اگر ہم نے اس کو ملحوظ نہیں رکھا تو علماء پر اسلام کی دعوت وحفاظت کا جو فریضہ عائد ہوتا ہے، اندیشہ ہے کہ مستقبل میں وہ اس کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پائیں۔ وباللّہ التوفیق وھو المستعان
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی کی اردو کتابیں
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی کی عربی کتابیں
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی کے مزید مضامین
اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں