Web Analytics Made Easy -
StatCounter

ابو المعتمر سلیمان بن طرخان التیمی البصری

ابو المعتمر سلیمان بن طرخان التیمی البصری

ابو المعتمر سلیمان بن طرخان التیمی البصری

ابو المعتمر سلیمان بن طرخان التیمی البصری کی کتاب سیرۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت اور دستیابی

سیرت کے حوالے سے اب تک اپنی اصل شکل میں ملنے والے مخطوطات اور شائع ہونے والی کتاب محمد بن اسحاق کی سیرت طیبہ کے مختلف نسخے ہیں، جن کے کئی ایک مخطوطے الگ الگ شائع شدہ صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ محمد بن اسحاق کی وفات 150 ہجری بتائی جاتی ہے۔لیکن ان کے معاصرین میں کئی ایک ایسے نمایاں حضرات موجود ہیں جن کی طرف کتب سیرت منسوب ہیں، لیکن وہ کتب قریب کے زمانے تک ہم تک نہیں پہنچ سکی تھیں،ان میں سلیمان بن طرخان بھی شامل ہیں۔سلمان بن طرخان التیمی نے 143 ہجری میں بصرے میں وفات پائی۔ان کے والد طرخان نے نے بنی مرۃ سے مکاتبت کر لی تھی، یوں وہ آزاد ہوگئے تھے،اس لئے سلیمان آزاد ہی پیدا ہوئے۔سلیمان نے نے اپنے عہد کے نہایت بہت معروف آصف اور اور اپنے فن کے ماہر اساتذہ سے استفادہ کیا یا ان میں حضرت حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں،ابو عثمان النہدی،ابو مجلز،ابو نضرۃ،حسن بصری،ابن سیرین،ابی العالیہ،ابو قلابہ اور دیگر شامل ہیں۔

اسی طرح آپ سے روایت کرنے والوں میں بھی مشاہیر اہل علم شامل ہیں،مثلا شعبہ،زہیر،قاسم بن معن،عیسی بن یونس، جریر،یحی القطان،ابن علیہ وغیرہ
اس کا مخطوطہ ڈاکٹر رضوان الحصری کو میڈریڈ اسپین کے ایک کتب خانے سے میسر آیا،جس پر اس کی تاریخ تحریر موجود نہیں،لیکن بہ ظاہر نسخہ خاصا قدیم معلوم ہوتا ہے۔

یہ نسخہ دراصل ابو المعتمر سلیمان بن طرخان التیمی کے تلامذہ کے سلسلے میں پانچویں صدی کی شخصیت ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عیسی بن منظور القیسی الاشبیلی کی روایت سے ہے۔اشبیلی کا انتقال 469 میں ہوا ہے۔

سلیمان بن طرخان کی یہ کتاب سیرت پہلی بار منظر عام پر آرہی ہے۔ اس سے قبل 1855 میں اس کتاب کا کچھ حصہ وان کریمرنے امام واقدی کی کتاب المغازی کا ایڈیشن مرتب کرتے ہوئے،جو واقدی کا پہلا ایڈیشن تھا،اس کتاب کے آخر میں یہ کہہ کر شامل کیا تھا کہ یہ حصہ سلیمان کی کتاب سیرت کا معلوم ہوتا ہے۔اس کتاب کے فاضل محقق بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم نے سلیمان کی یہ کتاب مرتب کرتے ہوئے اس سے استفادہ بھی کیا ہے اور عام کریمر کے نسخے کی بعض غلطیوں پر بھی تنبیہ کی ہے۔
سلیمان سے سے لیکر اشبیلی تک کتاب کی سند یوں بنتی ہے۔
سلیمان بن طرخان
المعتمر بن سلیمان
محمد بن عبد العلی الصنعانی
صنعانی سے پھر چار افراد نے روایت کی ہے:
الحسین الفارسی
ابراہیم الزبیبی
خالد القرشی
یعقوب بن زہیر
ابراہیم سے پھر دوراویوں نے یہ متن نقل کیا ہے:
زاہد السرخسی
ابن شاہین
زاہرسے راوی کتاب ابن منظور الاشبیلی نے روایت کی ہے۔

کتاب کا آغاز بنائے کعبہ کی روایت سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد بعثت، ہجرت حبشہ، شعب ابی طالب اسلام عمر، بیعت عقبہ اور ہجرت مدینہ کے عنوانات شامل ہیں۔اس کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں بدر،بنی نضیر،خندق،بنی قریظہ،بنی لحیان،بئر معونہ، بنی المصطلق، حدیبیہ،خیبر،عمرہ القضا، موتہ، فتح مکہ،حنین،طائف اور تبوک شامل ہیں۔آخری کتاب میں حجۃ الوداع اور وفات نبوی کا ذکر ہے، جس پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔
اس طرح یہ کتاب اب تک کی معلومات کے مطابق اپنے موضوع پر قدیم ترین مطبوعہ کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔
سید عزیز الرحمن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *