تفسیرکا نام: تفسیر لاہوری
افادات: شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مرتب: شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہیدؒ
تدوین: مولانا محمد فہد حقانی
زیرنگرانی: مولانا راشد الحق سمیع
قرآن کریم اللہ تعالی کی نازل کردہ تعلیمات اور احکامات کا مجموعہ اور مآخذ ہے، یہ مقدس کتاب اللہ تعالی کا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بندوں سے کیا گیا آخری خطاب ہے، یہ اس قدر جامع اور وسیع المعانی کتاب ہیں کہ کسی بھی زبان میں اس کے حتمی ترجمہ اور تفسیر کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کی ہر آیت یکتا و بے مثل اور ہر ہر لفظ علوم و معانی کی ایک بحر بے کراں ہے جس کی وسعتوں کا کوئی کنارہ نہیں، اس لیے مفسرین کرام کی یہ اہم ذمہ داری رہی ہے کہ وہ اس عظیم کتاب کے ترجمہ اور تفسیر کے ذریعے عامہ الناس کی رہنمائی فرمائیں، اسی لیے عہد نبوی سے لے کر اب تک ہر دور میں مفسرین کرام نے قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کو اپنا نصب العین بنایا، گزشتہ چودہ صدیوں میں سینکڑوں زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم ہوئے ہیں اور کم و بیش دو صدیوں میں صرف اردو زبان میں سینکڑوں اردو تراجم ہو چکے ہیں اور مختلف زبانوں میں تفاسیر کا بھی ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو اب تک جاری ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم کے دروس کے سلسلے میں بھی
اہل علم کی خدمات عہد نبوی سے اب تک مسلسل جاری ہے
ان دروس قران میں سے ایک سلسلہ درس امام اولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا بھی تھا جن سے اس دور کے قابل قدر اور جید علمائے کرام نے استفادہ کیا ان نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ایک نام استاد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا بھی ہے آپ نے تفسیر میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ استفادہ کیا حضرت لاہوری وہ ہستی ہے جنہیں برصغیر پاک وہند کے اہل علم، عقیدت مند اورتلامذہ امام الاولیاء کے لقب سے یاد کرتے ہیں، آپ ایک نابغہ روزگار اور جامع الکمالات شخصیت کے مالک اور ایک جید عالم دین، عظیم مفسر، صاحب نسبت بزرگ تھے، دینی علوم کے نشر و اشاعت خاص کر تفسیر و ترجمہ قرآن کے درس و تدریس میں انہوں نے قابل فخر کارنامے سر انجام دیئے ہیں
تفسیر لاہوری“ بھی انہی کے ان تفسیری افادات کا مجموعہ ہے جسے شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ نے نہایت عرق ریز، جانفشانی اور شب و روز محنت کے بعد بڑے اہتمام سے مرتب کیا، اس عظیم الشان تفسیری کاوش کو اپنی متعدد اوصاف، خوبیوں اور خصوصیات کی بنیاد پر عصر حاضر کی تفسیری ذخیرہ میں ایک اہم ترین تفسیر قرار دی جاتی ہے، بلاشبہ یہ تفسیری ادب میں ایک شاندار اور منفرد اضافہ ہے، تفسیر لاہوری کو عربی، فارسی اور اردو کے اہم ترین تفاسیر کا خلاصہ قرار دیا جا سکتا ہے، حضرت مولانا احمد علی لاہوری بہت ساری تفاسیر سے استفادہ کرتے تھے اور دوران درس عامۃ الناس کے فہم کو بھی پیش نظر رکھتے تھے اور علماء کے ذوق کی آبیاری بھی فرما رہے تھے، اب مرتب ہونے اور منظر عام پر آنے کے بعد اسے ایک عام فہم تفسیر قرار دیا جا سکتا ہے جس میں حضرت مولانا سمیع الحق شہید کے عنوانات نے مزید چار چاند لگا دئیے
تفسیر لاہوری کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علمی مضامین کے ساتھ ساتھ احسان و سلوک کے مباحث پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے، ساتھ ہی عصر حاضر کے زندہ اور حقیقی مسائل پر بحث کے ساتھ ساتھ قرآن کے مطالب کو عصر حاضر پر تطبیق بھی احسن طریقے سے کیا گیا ہے، جگہ جگہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علوم و معارف نظر آئیں گے، اس لئے اگر اس تفسیر کو علوم شاہ ولی اللہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کہا جائے تو بجا ہوگا، قرآن کریم کی ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ کو سمجھنے کےلیے یہ تفسیر نعمت غیر مترقبہ ہے، انداز بیان نہایت دلنشین، سادہ، عام فہم اور اثر انگیز ہے پڑھنے کے دوران قاری کو یوں محسوس ہوگا کہ علوم و معارف، اسرار و رموز اور دانائی و حکمت کی ایک جوئے رواں ہے جو مسلسل بہہ رہی ہے اور ہر شخص اس سے بہ قدر ظرف استفادہ کر سکتا ہے
قابل صد مبارکباد و لائق صد تحسین ہے مولانا راشد الحق سمیع صاحب کہ انہوں نے والد مکرم کے ایک دیرینہ آرزو و تمنا کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اہل علم پر احسان عظیم کیا کہ ایک ضخیم علمی و تفسیری مجموعہ کو منظر عام پر لائے، اسی طرح مولانا محمد فہد حقانی صاحب بھی لائق داد ہے کہ شب وروز کی محنت شاقہ کے بعد اس تفسیر کو مدون کرنے کی سعادت حاصل کی