وصیۃ الآداب مولانامحمد قمر الزماں صاحب الہ آبادی کی ایک مختصر ومفید تالیف ہے ۔ مولانا موصوف کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ،آپ دورِ حاضر کے مشہور شیخ طریقت وصاحب تصانیف عالم ہیں۔ ضلع مئو کاایک گاؤں ’’ کاری سات‘‘ آبائی وطن ہے ، یہ مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب(م: نومبر1967ء) کے وطن فتح پور تال نرجا سے بالکل متصل ہے ۔ آپ حضرت مصلح الامت کے داماد اور تلمیذ رشید وتربیت یافتہ ہیں ،اور مشہور بزرگ مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی( م:اکتوبر 1991ء) کے خلیفہ ہیں ۔آپ کی درجنوں دینی واصلاحی کتابیں شائع ہوکر قبول عام حاصل کرچکی ہیں ۔ جن میں اقوال سلف ( 10؍ جلدیں ) ریاض السنۃ تلخیص ترجمان السنۃ اور تربیت اولاد کا اسلامی نظام وغیرہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔
زیر نظر کتاب ’’ وصیۃ الآداب ‘‘ دوحصوں پر مشتمل ہے
۱۔ آداب الطلبۃ والمتعلمین ۲۔ وظائف العلماء والمعلمین
پہلے حصہ میں طلباء کے لئے تیس آداب بیان کئے گئے ہیں ، جو ان کی زندگی کے سنوارنے اور آخرت کے بنانے میں بے حد مفید ہیں ۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک طالب علم کی زندگی کیسی ہونی چاہئے ؟ حصول علم سے اس کی نیت کیا ہونی چاہئے ؟اساتذہ وآلات علم کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہونا چاہئے ؟حصول علم اورا ستعداد علمی کے جو ذرائع ہیں انھیں واضح کیا گیا ہے ، اس راہ میں جو موانع اور رکاوٹیں ان کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ غرض ہر اس چیز سے بحث کی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر علم کا متلاشی حقیقی معنوں میں طالب علم بن جائے ۔ اللہ کی ذات پر یقین وتوکل کا سبق سکھایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی تمام حاجات وضروریات کو اللہ کے حضور پیش کرے اور مخلوق سے سوال نہ کرے۔
دوسرے حصہ میں علماء ومدرسین کے لئے تیس وظائف بیان کئے گئے ہیں ، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ اپنے علم وعمل میں اخلاص اختیار کرے ۔اپنے قلب کو مثل آئینہ کے صاف وشفاف رکھے ،روزانہ کسی قدر اللہ کا ذکر کرے ۔ خدمت دین کو اپنی دنیوی حاجات پر مقدم رکھے ، جاہ وشہرت کا طالب نہ ہو ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر ان پر عمل کرلیا جائے تو اللہ کی رضا اور مدرسی ومعلمی کے حقیقی ثمرات وبرکات حاصل ہوسکتے ہیں ۔
اخیر میں امام غزالی کی ’’ احیاء العلوم ‘‘ مولانا علی میاں ندوی کی ’’ پاجا سراغِ زندگی ‘‘ اور شیخ عبد الفتاح ابوغدہ کی ’’ صفحات من صبر العلماء‘‘ کے ترجمہ’’ صبر واستقامت کے پیکر ‘‘ سے کچھ اقتباسات دیئے گئے ۔ اس کے بعد چند مفید وقابل مطالعہ کتابوں کا ذکر اور حضرت عبد اللہ بن مبارک اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے چند نصائح اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ومصلح الامت مولانا وصی اللہ صاحب کی وصیتیں مذکور ہیں ۔