Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Anwar Azmi Ek Bazyaft, انور اعظمی ایک بازیافت حکیم نازش احتشام اعظمی

انور اعظمی ایک بازیافت حکیم نازش احتشام اعظمی

Anwar Azmi Ek Bazyaft, انور اعظمی ایک بازیافت حکیم نازش احتشام اعظمی

نام کتاب: انور اعظمی ایک بازیافت
مرتب: حکیم نازش احتشام اعظمی

پیش نظر کتاب اعظم گڑھ کے ایک جواں مرگ عالم اور ادیب وشاعر انور اعظمی کی حیات وخدمات پرایک سیمینار میں پیش کئے گئے مقالات کا مجموعہ ہے۔انور اعظمی (1926ء۔ 1961ء) اعظم گڑھ کے ایک گاؤں مہوارہ کے رہنے والے تھے ،ان کی شخصیت بڑی جامع الجہات تھی، وہ عالم ، ادیب ، صحافی اور شاعرہونے کے ساتھ ایک سچے مومن تھے۔ مدرسۃ الاصلاح کے فارغ التحصیل تھے ، 1947ء میں انھوں نے سند فراغت حاصل کی ۔ کچھ عرصہ وہاں مدرس بھی رہے۔

اس کے بعد انھوں نے صحافت کی وادی میں قدم رکھا ،ان کے صحافتی سفر کا آغاز ماہنامہ ’’زندگی ‘‘ رام پور سے ہواجس کے مدیر مولانا حامد علی تھے۔ یہاں وہ 1949ء میں پہنچے اور 1952ء تک رہے۔اس دور کے مضامین کا مجموعہ ان کی وفات کے نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ’’مقالات‘‘ کے نام سے2016ء میں شائع ہوا۔ ان کے بڑے والد تجارتی سلسلہ میں برما میں مقیم تھے، انھوں نے اپنے بھتیجے کو برما بلایا تاکہ وہ امور تجارت میں ان کی معاونت کریں ، لیکن انور اعظمی کی جو افتاد طبع تھی اور اب تک جن علمی مشاغل میں ان کی زندگی گزری تھی اس کی وجہ سے وہ طبیعت کے خلاف اس میدان میں نہ چل سکے اور وہاں بھی ایک ہفت روزہ رسالہ ’’البلاغ ‘‘ سےوابستہ ہوگئے اور وہی سابقہ علمی وصحافتی سرگرمیاں شروع ہوگئیں ۔ البلاغ کے بعد روزنامہ ’’پرواز ‘‘ اور ہفت روزہ ’’انقلاب ‘‘ سے منسلک رہے ۔ وہاں8؍ سال رہ کر 1960ء میں وطن واپس آئے اور روزنامہ ’’پیغام ‘‘ کان پورسے منسلک ہوگئے ۔یہاں ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بیمار ہوکر اعظم گڑھ واپس آگئے اور 6؍ مارچ 1961ء کو صرف 35؍ برس کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

انور اعظمی کا شمار اعظم گڑھ کے ابتدائی صحافیوں میں ہوتا ہے ،لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے انتقال پر برما سے نکلنے والے ’’انقلاب ‘‘ نے تو انور اعظمی نمبر شائع کیا ، لیکن خود اعظم گڑھ یا رام پور جہاں سے انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا تھا اس وقت کچھ نہیں لکھا گیا ۔ وہ تو ان کے بعض قریبی اعزا کی کوششوں سے ان کی نگارشات کا ایک بڑا حصہ منظر عام پر آگیا،ورنہ یہاں کے لوگوں نے ان کو فراموش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔انور اعظمی کے انتقال کے تقریباً ساٹھ سال بعد ڈاکٹر نیاز داؤدی (صدر مسلم ویلفیر اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی و بانی فاطمہ گرلز کالج داؤد پور اعظم گڑھ ) کی کوششوں سے اپریل ۲۰۲۱ء میں انور اعظمی پر ایک سیمینار منعقد ہوا ، جس میں ملک کے ننامورناقدین، محققین اور اہل قلم حضرات شریک ہوئے ۔اس کے کنوینر حکیم نازش احتشام اعظمی تھے ،ان کے انتظام وانصرام میں یہ سیمینار کامیابی سے ہمکنار ہوا اور انھیں کی سعی وکاوش سے اب یہ مجموعہ شائقین کے ہاتھوں میں پہنچ رہا ہے۔اس میں کل 19

؍ مقالات ہیں ، مقالہ نگاروں نے انور اعظمی کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کا آغاز مرتب کتاب حکیم نازش احتشام اعظمی کے پیش لفظ سے ہوتا ہے ۔ اس کے بعد پروفیسر محسن عثمانی کا مختصر سا مقالہ ہے جس میں انھیں انور اعظمی کےکلام میں کلامِ اقبال کا عکس اورپرتو نظر آیا ، وہ لکھتے ہیں

’’ انور اعظمی کا دیوان سامنے آیا تو اس نے دیوانہ بناد یا ، افسوس ہوا کہ ہم نے اسی شاعر کواب تک پڑھا کیوں نہیں تھا، کلام انتہائی نفیس، اعلیٰ تخیل، بہتر ین لفظیات، میں پڑھتا چلا گیا اور اب منتظمین کا شکر یہ ادا کر نے کا دل چاہتا ہے جنہوں نے اس محفل میں مجھے شرکت کی دعوت دی۔

انور اعظمی کے بہت سے اشعار تھے جن کے فکر وتخیل کو دیکھ کر اقبال کے اشعار یاد آئے، اشعار ،میں افکار میں، لفظیات میں اقبال کی مماثلت موجود تھی ۔ جیسے کہ ہمارا یہ شاعر اقبال کے مدرسہ فکر وفن سے فارغ ہوکر نکلا ہے ، وہی ملت کا غم اور اسلام کی سر بلندی کی فکر ۔‘‘ (ص:۱۳)

اس کے بعد پروفیسر احمد محفوظ کا کلیدی خطبہ ہے۔اس کے بعد انور اعظمی کے صاحبزادےپروفیسر محمد اسلم اصلاحی کا مقالہ ’’ ایسے تھے ہمارے ابا حضور‘‘ یہ مضمون بہت پسند آیا ، اس مضمون کے ہر صفحہ سے انور اعظمی کی مومنانہ وداعیانہ صفات ،ملی دردمندی، اسلامی فکر اور دینی غیرت وحمیت کا پتہ چلتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس کا ایک واقعہ نقل کردوں ، جو مضمون نگار نے مولانا وحید الدین خاں کے حوالہ سے نقل کیا ہے، یہ اس وقت کی بات ہے جب انور اعظمی رام پور میں مقیم تھے ۔نواب رام پور نے ان لوگوں کی دعوت کی تھی ، سب لوگ بڑے اہتمام سے دعوت کی تیاری میں لگے تھے ،اور انور صاحب کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے کمرے میں لکھنے میں منہمک تھے ، مولانا وحید الدین خاں کہتے ہیں کہ میں نے ان سے جاکر پوچھا کہ : *’’ارے نواب صاحب کے یہاں دعوت میں نہیں جانا ہے کیا ؟ یہ سننا تھا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور چادر کے ایک پلو کو دائیں بغل کے اندر لے جاکر کندھے پر ڈال لیا اور کہنے لگے، چلو، چلتے ہیں میں تیار ہوں۔ میں نے ان کی اس ہیئت کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا: ارے کچھ تو تیاری کر لیں ۔ اس معمولی ہوائی چپل کو پہن کر نواب صاحب کے یہاں آپ کا جانا کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یہ سننا تھا کہ ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور قدرے خفگی کے ساتھ کہنے لگے کہ ابھی ابھی تمہارے ساتھ مغرب اور عشاءکی نماز میں نے اس ہیئت میں پڑھی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم اس وقت مجھ سے کہتے کہ ارے بھئی اپنی وضع قطع ٹھیک کرلو۔ ہم سب اس رب کے سامنے جار ہے ہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے اور جو رب العالمین ہے ۔اس رب کے سامنے بتاؤ، اس’’ٹٹ پنجیا‘‘ نواب کی کیا حیثیت ہے کہ میں اس کے یہاں جانے کے لیے اپنی وضع قطع میں اس سے زیادہ اہتمام کروں جتنا مجھے اپنے رب کے سامنے جانے کے لیے کرنا چاہیے ۔اس کے بعد انہوں نے ہم وابستگان جماعت(اسلامی ) پر طنز کرتے ہوئے کہا

ہم سب لوگ کہتے ہیں کہ ہم عام مسلمانوں بالخصوص دیگر جماعتوں سے اپنی سوچ اور فکر کے لحاظ سے الگ ہیں ۔لیکن افسوس ایسا ہے نہیں۔ ہم بھی دیگر مسلمانوں کی طرح اللہ سے مرعوب ہونے کے بجائےبہت جلد اس کے بندوں کے آگے سر فگندہ و مرعوب ہو جاتے ہیں۔حالانکہ یہ خا کی پہلے ہماری ہی طرح اللہ کے سامنے حقیر ولا چار ہیں ۔لہٰذا ان سے مرعوب ہونے کی ہمیں قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں آخر کب اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ ہمارے پاس ایمان نام کی جو دولت ہے اس کے سامنے دنیاوی مال ودولت کے سارے خزینے ہیچ ہیں ۔ نواب صاحب بھی ہماری ہی طرح ایک انسان ہیں ۔ وہ بھی الطاف الٰہی کے ویسے ہی محتاج ہیں جیسے کہ ہم سب ۔ ہمارا معمولی سے معمولی آدمی بھی بخدا اس نواب سے کہیں بہتر ہے اگر وہ رضائےالٰہی کی دولت سے سرفراز ہے۔۔۔* ‘‘( ص: ۳۴)
اس سے ان کی جرأت وحق گوئی اور غیرت ِایمانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا مضمون ’’ انور اعظمی : ایک مطالعہ ‘‘ بھی بہت خوب ہے ، اس سے معلومات کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں ، وہ انور اعظمی کی مطبوعہ نگارشات کے بارے میں لکھتے ہیں :
انو راعظمی کا جوسر مایۂ علم وادب ہمارے سامنے ہے وہ درج ذیل ہے:
ا۔ اذان سحر ۔ نظموں کا مجموعہ طبع اول ۱۹۶۷ء۔ انور اکیڈمی سرائے میر ۔ طبع دوم اپریل ۲۰۱۷ء ۔ منشورات پبلشرز دہلی
۲-افسانے۔مکتبہ الحسنات دہلی ، ۲۰۱۵ء
۳-مقالات ۔ مکتبہ الحسنات دہلی ۔۲۰۱۶ء
۴ ۔ نالۂ شب ۔ مجموعہ غزلیات ۔ مکتبہ الحسنات دہلی ۔۲۰۱۶ء
۵۔سدھار کی سبیل ۔ یہ خطبہ ناچیز کی نظر سے نہیں گذرا ہے۔(ص: ۷۳)
اسی مضمون سے معلوم ہوتا ہےکہ ادب اطفال پر بھی ان کی تحریریں ہیں ، انھوں نے بچوں کیلئے کہانیوں کی سیریز لکھی ہے جسے البدر بک سینٹر سرائے میر نے شائع کیا ہے ۔

مقالہ نگاروں نے انور اعظمی کی افسانہ نگاری ، غزلیہ ، طنزیہ اور نظمیہ شاعری ، ڈراموں اور ادب اطفال سب پہلو پر اظہار خیال کیا ہے۔ مشہور صحافی سہیل انجم کا مقالہ ’’ انور اعظمی کے افسانوں کی معنویت ‘‘ ڈاکٹر فیاض احمد علیگ کا ’’ ہمہ جہت ادیب ،انور اعظمی ‘‘ ڈاکٹر عمیر منظر کا ’’ انور اعظمی کا شعری آہنگ ‘‘ اویس سنبھلی کا ’’ انور اعظمی : حیات وخدمات ‘‘ خود مرتب کا مضمون ’’ انور اعظمی : فکر وفن ‘‘ بھی بہت خوب ہیں۔دیگر مقالہ نگاروں میں پروفیسر صفدر امام قادری ، حکیم فخر عالم ، دلشاد حسین اصلاحی ، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض ، علام الدین ، ڈاکٹر ثاقب عمران ، سلمان فیصل ، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی ، ڈاکٹر محضر رضا، ڈاکٹر عائشہ پروین اور ڈاکٹر نازیہ ممتاز ہیں ۔
کتاب ۲۱۴؍ صفحات پر مشتمل ہے ، سن اشاعت ۲۰۲۲ء ہے۔

کتاب کے مرتب حکیم نازش احتشام اعظمی ( ولادت : ۱۷؍ مارچ ۱۹۷۵ء ) ممتاز عالم دین مولانا احتشام الدین اصلاحی کے صاحبزادے ہیں ، مولانا موصوف نے تقریباً باسٹھ سال مدرسۃ الاصلاح میں بحیثیت مدرس وصدر مدرس خدمات انجام دی ہیں۔ نازش صاحب نے مدرسۃ الاصلاح سے عالمیت وفضیلت کی تکمیل کے بعد جامعہ ہمدرد سے بی یوایم ایس کیا ۔ بے حد محترک وفعال شخص ہیں ، اس وقت دہلی میں میڈیکل آفیسر(یونانی) ہیں اور وہاں اپنی علمی ، سماجی اور طبی سرگرمیوں کے باعث کافی مقبول ہیں ۔ طب اور اسلامیات آپ کی دلچسپی کے خصوصی موضوعات ہیں ، اب تک نصف درجن کے قریب تصنیفات وتالیفات منظر عام پر آچکی ہیں ۔

Anwar Azmi Ek Bazyaft

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *