Web Analytics Made Easy -
StatCounter

مولانا عبد الجبار مئوی

مولانا عبد الجبار مئوی

مولانا عبد الجبار مئوی

محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن الاعظمی علیہ الرحمہ (م: ۱۶؍ مارچ ۱۹۹۲ء)کے تلمیذ رشید مولانا عبد الجبار صاحب مئوی(م: ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۳ء) کے حالات زندگی اور علمی خدمات پر مشتمل ایک سوانحی خاکہ ہے ، جو ان کے ہونہار شاگردمولانا ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی کے قلم سے ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اردو ،عربی اور انگلش تینوں زبانوں سے واقفیت رکھتے ہیں ۔ حضرت محدث اعظمی کے نواسے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی، ایک عرصہ تک مدرسہ مرقاة العلوم مئو سے نکلنے والے سہ ماہی رسالہ’’المآثر‘‘ کے مدیر رہے، اس وقت مدرسہ مظہر العلوم بنارس میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے مضامین و مقالات اورتصنیفات کو علمی وادبی حلقوں میں اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، ان کی شاہکار تصنیف’’حیات ابوالمآثر‘‘ (اول ،دوم)سوانح نگاری کا ایک مستند و معتبر ثبوت ہے، اس کتاب کی وجہ سے اہل علم کے درمیان ان کو بڑی مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی ۔
’’پیکر مہر ووفا‘‘میں بھی ان کے قلم نے صاحب سوانح کی زندگی کے مختلف گوشوں ، اخلاق وعادات ، پابندی ٔاوقات ، حلم وبردباری ، سادگی وبے لوثی ، تبحر علمی اور تدریسی مہارت کا ذکر بڑے عمدہ انداز میں کیا ہے ۔کتاب کے اخیر میں مولانا کی تصنیفی خدمات کا تعارف تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔

مولانا عبد الجبار صاحب مئوی اسٹیج کی دنیا سے کنارہ کش، شہرت وناموری سے دور خالص عملی انسان تھے ، ان کا شمار ان مردم گر علماء میں ہوتا ہے جو عوام الناس کے درمیان اپنی سادگی ، بے نفسی اور تواضع کے باعث ایک معمولی سے مولانا ہیں مگر علمی حلقوں اور جوہر شناسوں کے درمیان ، قدر ومنزلت کی بلندیوں پر ہیں ۔ مولانا مرحوم کی رجال سازی ومردم گری کا جیتاجاگتا ثبوت وہ مشہور زمانہ باکمال تلامذہ ہیں جن کے علم وادب کا پرچم عرب وعجم میں لہرارہاہے اور فقہی بصیرت کا ڈنکا پورے ہندوستان میں بج رہا ہے ۔مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی ،مولانا سعید الرحمن اعظمی ندوی ، مولانا محمد ابوبکر غازیپوری وغیرہم نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے ، اس مختصر سوانح میں ان بزرگوں نے اپنے استاذ محترم کو تقریظات کی شکل میں خراج عقیدت واعتراف نعمت کا تحفہ پیش کیاہے ، اسی کے ساتھ مولانا مرحوم کے علمی وفکری معاصر استاذی مولانا نعمت اﷲ صاحب اعظمی کی تقریظ بلیغ اور مولانا رشید احمد لاعظمی کا مفصل عرض ناشر بھی ہے،جس میں انھوں نے گھریلو تعلقات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔

مولانامرحوم کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ’’مہر ووفا‘‘ ہے ، وہ اس کے پیکر جمیل تھے، اپنے استاذ وشیخ محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن الاعظمی سے ان کا عقیدت مندانہ ربط وتعلق ، ایثار ومحبت کی دنیا میں ضرب المثل تھا ، خود غرضی کے اس دور میں جبکہ استاذ وشاگرد کے پاکیزہ رشتوں کی دھجیاں اڑرہی ہیں ، انھوں نے خود کو اپنے ہم عصروتقریباً ہم عمر استاذ کے حوالے جوانی کے پُرجوش ایام میں کردیاتھا، محدث الاعظمی کی عمر اپنے شاگرد سے صرف تین چار سال زائد تھی۔حالات کے تمام تر مدوجزر کے باوجود تادم واپسیں ویسا ہی مخلصانہ تعلق باقی رہا، گھر سے لے کر مدرسہ اورتمام علمی امور میں وہ اپنے استاذ کے معاون ومشیر رہے ۔ غرض مولانا مرحوم خود سپردگی وفنائیت کی ایک نادر مثال تھے ، خود محدث کبیر علیہ الرحمہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں

’’خویصتی الشیخ عبد الجبار المئوی الذی ھو منی بمنزلة الھیثمی من العراقی فی الملازمة والصحبة ، ولکٰن أین أنا وھو ، وأین العراقی والھیثمی‘‘ ۔ میرے خاص الخاص شیخ عبد الجبار مئوی ، جن کا میرے ساتھ وابستگی اور ہمراہی میں وہی مقام ہے جو ہیثمی کا عراقی کے نزدیک تھا ، مگر کہاں میں اور وہ ، کہاں عراقی اور ہیثمی ۔

مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مولانا مرحوم کی تدریسی وتصنیفی صلاحیت کے متعلق لکھتے ہیں

درس و تدریس میں مولانا کو بڑا ملکہ حاصل تھا ، وہ جو کتاب بھی پڑھاتے تھے ،نہایت اخلاص اورانہماک کے ساتھ پڑھاتے تھے، نیچی جماعت اور نیچے درجے کی کتابوں کو اسی توجہ محنت اور لگن کے ساتھ پڑھاتے تھے، جس طرح اوپر کی جماعت کو، طلبہ کی سطح پر اتر کر مباحث و مسائل کو ان کے ذہن نشین کرادینا ، بہت مشکل کام ہوتا ہے، لیکن یہ امر مولانا کے لیے نہایت آسان تھا ، اور اس میں ان کو مہارت تامہ حاصل تھی ، کہ جو کتاب بھی پڑھاتے تھے اور جس درجے اور جماعت کو پڑھاتے تھے۔اس کا حق ادا کر دیتے تھے۔
مولا نا علیہ الرحمۃ نے جوتصنیفی کارنامے انجام دیے ہیں ، وہ بھی بہت قابل قدر ہیں ،انھوں نے پہلے منثورات کا ترجمہ” با کورات،،کے نام سے کیا ، پھر اس کی لغوی ونحوی وصرفی تشریح کے لیے انھوں نے دلیل المنثورات تصنیف فرمائی، چونکہ یہ کتا میں بھی انھوں نے اصلاً طلبہ کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے تصنیف کی ہیں ، اس لیے ان کے مزاج و معیار کی پوری رعایت ملحوظ رکھی ہے، تا ہم وہ اسا تذہ و مدرسین کے لیے بھی بڑی کارآمد چیز میں ہیں ،خصوصا ” دليل المنثورات،،تو بہت ہی مفید کتاب ہے ۔ اسی طرح مولانا نے امام عبد اللہ بن مبارک کی کتاب الزہد والرقائق، جس کی تحقیق کا کارنامہ محدث جلیل حضرت ابوالمآثر مولا نا حبیب الرحمن الاعظمی علیہ الرحمة نے انجام دیا ہے۔ کا ترجمہ کیا ہے ، جو عوام وخواص دونوں کے لیے یکساں افادیت کا حامل ہے، لیکن میری نظر میں مولانا کا سب سے اہم اور ٹھوس علمی کارنامہ “التصويبات لما في حواشي البخاري من التصحيفات،،ہے، اس کتاب کی تصنیف و ترتیب مولانا مرحوم کی ایسی علمی خدمت ہے، جو مستقل تصنیف پر بھی فوقیت رکھتی ہے، اور ان کی دقت نظر ، باریک بینی ، دور ری اور اخاذ طبیعت پر دلالت کرتی ہے۔ (ص:16)

ضیاء الحق خیرآبادی

کتاب خریدیں

Maulana Abdul Jabbar Mawi Halat o Ilmi Khidmat, پیکر مہر و وفا مولانا عبد الجبار صاحب مئوی کے حالات اور علمی خدمات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *