مصنف: پروفیسر الطاف احمد اعظمی
ابن رشد کو ایک بڑا امتیاز یہ حاصل ہے کہ وہ فلسفۂ قدیم بالخصوص ارسطو کے فکر و فلسفہ سے کامل آگہی کے ساتھ علوم شرعی بالخصوص فقہ میں بھی درک و کمال رکھتا تھا۔ اس کی کتاب ’’بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد‘‘ جس کا تعلق فقہ مالکی سے ہے، اس کی فقہی ژرف نگاہی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ فلسفہ و فقہ کے میدان میں ابن رشد کی غیر معمولی شہرت کی وجہ سے یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ علم طب بالتخصیص اس کے نظری مباحث سے پوری واقفیت رکھتا تھا جیسا کہ ’’کتاب الکلیات‘‘ کے تعارف سے معلوم ہوگا۔
لیکن اس سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ابن رشد کے حالات زندگی اور اس کے فکر و فلسفہ کا ذکر کردیا جائے کہ وہ اصلاً فلسفی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب الکلیات کے بہت سے مباحث میں اس کی فلسفیانہ فکر اور اس کا منطقی طرز استدلال حاوی ہے۔
پیدائش اور تعلیم: ابوالولید محمد بن احمد بن محمد بن رشد قرطبہ کے ایک معزز علمی خانوادے میں ۵۲۰ھ مطابق ۱۱۲۶ء میں پیدا ہوا۔ اس کا دادا محمد بن رشد (متوفی ۱۲۲۶ء) ایک ممتاز مالکی عالم، قاضی اور قرطبہ کی بڑی مسجد کا امام تھا۔ اس کا باپ احمد بن محمد اگرچہ دادا کا ہم پلہ نہ تھا لیکن فقہ میں مہارت رکھنے کی وجہ سے عہدۂ قضا پر فائز تھا۔
ابن رشد نے قرطبہ میں اپنے والد سے مروجہ نقلی علوم کی تحصیل کی۔ باقاعدہ تعلیم کی ابتدا حدیث سے ہوئی اور امام مالک کی معروف کتاب ’’موطا‘‘ کا ایک بڑا حصہ زبانی یاد کرلیا۔ فقہ کی تعلیم حافظ ابو محمد بن رزق سے حاصل کی۔ عربی شعر و ادب کی تحصیل نہایت شوق و جاں فشانی سے کی، ابوتمام اور متنبی کے دیوان ازبر تھے۔ ان علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد طب کی تعلیم کی طرف توجہ کی اور اپنے عہد کے امام فن ابوجعفر بن ہارون ترجالی کی شاگردی اختیار کی اور ایک مدت تک ان سے طب کے علاوہ دوسرے علوم کی بھی تکمیل کی۔
عہدہ و منزلت: تحصیل علوم کے بعد ابن رشد ۱۱۵۳ء سے ۱۱۵۴ء تک مراکش میں فروکش رہا، ۱۱۶۹ء سے ۱۱۷۰ء تک اشبیلیہ (Seville) میں منصب قضا پر فائز رہا۔ اس کے دو سال بعد قاضی قرطبہ ابومحمد ابن مغیث کی وفات ہوئی تو اس کو قرطبہ کا قاضی مقرر کیا گیا۔ موحدین کی سلطنت (۱۱۳۰– ۱۲۶۹ء) کا پہلا فرماں روا عبدالمومن (۱۱۳۰– ۱۱۶۳ء) تخت نشین ہوا تو اس نے ابن رشد کی بڑی تکریم کی اور اسے اپنے محرمان خاص میں شامل کیا اور منصب قضا پر اس کو برقرار رکھا۔ ۵۴۷ھ مطابق ۱۱۵۲ء میں ۲۷ سال کی عمر میں قاضی القضاۃ مقرر ہوا۔
عبدالمومن کے انتقال کے بعد اس کا لڑکا یوسف بن عبدالمومن (۱۱۶۳۔ ۱۱۸۴ء) تخت حکومت پر بیٹھا اور ۲۲ سال تک بڑے تدبر اور شان و شوکت سے حکومت کی۔ یہ شخص نہایت عالم و فاضل تھا، اسے اکثر علوم بالخصوص فلسفہ میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ اس نے ابن طفیل (متوفی ۱۱۸۵ء) کو جو اس عہد کا نامور فلسفی تھا، اپنا ندیم خاص مقرر کیا۔ اس نے ملک کے گوشے گوشے سے علماء و فضلاء اور اطباء کو اس کے دربار میں جمع کیا۔ ان ارباب علم میں ابن رشد بھی شامل تھا۔
ابن طفیل ہی کی تحریک پر اس نے ارسطو کی تصنیفات کی شرح لکھی جس نے قرون وسطیٰ میں اسے شہرت کے بام بلند تک پہنچا دیا اور مغرب کے ارباب دانش نے اسے خراج تحسین پیش کیا۔
یوسف کے جانشین یعقوب منصور (۱۱۸۴۔ ۱۱۹۹ء) نے اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے ابن رشد کی قدردانی کی، وہ اس کی غیر معمولی تعظیم و تکریم کرتا تھا۔ مشہور مورخ طب علامہ ابن ابی اصیبعہ لکھتا ہے:
’’یہ ۵۹۰ھ کی بات ہے جب منصور نے جو اس وقت پرتگال کے بادشاہ فنس (فونس) سے مصروف جنگ تھا، ابن رشد کو دربار میں طلب کیا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے اس کی غایت درجہ تکریم کی اور اسے اپنا مقرب بنالیا …. جب ابن رشد اس کی مجلس سے باہر آیا تو اصحاب علم اور طلبہ کی ایک جماعت اس کے استقبال کے لیے کھڑی تھی اور اسے مبارک باد دے رہی تھی۔ ابن رشد نے کہا کہ بخدا یہ مبارک بادی کا مقام نہیں ہے، کیونکہ امیر المومنین نے مجھے اچانک بلالیا اور خلاف توقع وہ مقام عطا کیا جس کی میں امید نہیں کرتا تھا‘‘۔
لیکن کچھ زیادہ دن نہیں گزرے کہ بعض اسباب سے منصور ابن رشد سے ناراض ہوگیا اور اسے الحاد و بے دینی کے الزام میں ’’لوسینا‘‘ میں جو قرطبہ کے قریب ایک یہودی بستی تھی، جلاوطن کردیا۔ بادشاہ کی اس ناراضگی کی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ ابن ابی اصیبعہ لکھتا ہے:
’’(ابن رشد کی قدر و منزلت دیکھ کر) اس کے دشمنوں نے مشہور کردیا کہ وہ شیعی عقائد رکھتا ہے، امیر المومنین نے اس کے قتل کا حکم دیا لیکن وہ کسی طرح بچ نکلا‘‘۔
لیکن ایک دوسری جگہ اس نے اس سے بالکل مختلف وجہ بیان کی ہے، لکھتا ہے:
’’ابن رشد جب اس کی مجلس میں حاضر ہوتا اور اس سے گفتگو کرتا یا کسی علمی مسئلہ پر بحث کرتا تو منصور کو ’’اسمع یا اخی‘‘ (میرے بھائی سنو) کہہ کر مخاطب کرتا۔ ابن رشد نے ارسطو کی ’’کتاب الحیوانات‘‘ کی شرح میں ایک جگہ ’’ذرافہ‘‘ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھ دیا کہ میں نے اسے بادشاہ بربر یعنی منصور کے پاس دیکھا ہے۔ جب یہ بات منصور کو معلوم ہوئی تو سخت برافروختہ ہوا۔ ابن رشد نے صفائی پیش کی اور کہا کہ میں نے ’’ملک البرین‘‘ (بادشاہ ارض) لکھا تھا لیکن کاتب کو دھوکا ہوا اور اس نے اسے ’’ملک البربر‘‘ کردیا‘‘۔
لیکن اس عہد کے مذہبی حالات بتاتے ہیں کہ پہلی ہی بات صحیح ہے۔ ابن رشد جیسا کہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے، اپنے دشمنوں اور حاسدوں کی سازش کا شکار ہوا۔ ایک فلسفی کی حیثیت سے وہ ارسطو کے خیالات کا ہم نوا تھا اور یہ خیالات مذہبی طبقہ کے خیالات سے صریحاً متصادم تھے، بالخصوص یہ بات کہ عالم قدیم ہے اور خدا کو صرف کلیات کا علم ہے، جزئیات کا نہیں وغیرہ۔ مزید برآں ابن رشد اشعری خیالات کا سخت مخالف تھا اور ان کو عقل و نقل دونوں کے خلاف سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے امام غزالی کی مشہور کتاب ’’تہا فۃ الفلاسفہ‘‘ کے جواب میں ’’تہافت التہافہ‘‘ لکھ کر مذہبی طبقہ کے خیالات پر کاری ضرب لگائی۔ یہاں ملحوظ رہے کہ موحدین اشعری مسلک رکھتے تھے۔ اس صورت حال سے ابن رشد کے مخالفوں نے فائدہ اٹھایا اور اس پر الحاد و بے دینی کا الزام لگاکر معتوب کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ منصور نے نہ صرف ابن رشد کو جلا وطن کیا بلکہ یہ حکم بھی دیا کہ فلسفہ و منطق سے متعلق اس کی تمام کتابیں جلا دی جائیں۔
ابن رشد پر شاہی عتاب کیا نازل ہوا کہ اہل حسد کی باچھیں کھل گئیں، اسے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، عین مسجد قرطبہ میں رذیل لوگوں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ کم ظرف شعراء نے طنزیہ نظمیں لکھیں اور عوام نے اظہار مسرت کیا۔ ابن رشد نے یہ سب کچھ دیکھ کر اس کے سوا اور کیا کہا ہوگا: اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی۔
کچھ دنوں کے بعد اشبیلہ کے چند علماء اور معززین نے بادشاہ کے سامنے شہادت دی کہ ابن رشد الحاد و بے دینی سے پاک ہے۔ منصور نے اسے معاف کردیا اور مراکش حاضر ہونے کا حکم دیا۔ لیکن وقت موعود آپہنچا تھا اور مراکش پہنچ کر ماہ صفر ۵۹۵ھ مطابق ۱۱۹۸ء ، بروز جمعرات بوقت شب اس نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
علم و فضل: ابن رشد بلا کا ذہین، نکتہ رس اور قوی الحافظہ تھا۔ ابن ابی اصیبعہ نے لکھا ہے کہ ہم سے قاضی ابو مروان باجی نے بیان کیا کہ قاضی ابوالولید بن رشد حسن رائے، غیر معمولی ذکاوت و فہم اور قوی نفس رکھتا تھا۔
ابن رشد کو فلسفہ و فقہ میں جیسا کہ ہم نے شروع میں لکھا، درجۂ کمال حاصل تھا۔ اس کا فلسفہ دراصل فلسفہ و شریعت کا امتزاج ہے۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ مذہبی معتقدات کو فلسفۂ ارسطواور نوفلاطونیت (Neo-platonism) سے مطابقت دی جائے۔ اسی نقطۂ نظر سے اس نے جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے، امام غزالی کی کتاب
’’تہا فۃ الفلاسفہ‘‘ کا جواب لکھ کر عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا کہ امام غزالی کی تردید غلط فہمی پر مبنی ہے، فلسفہ کے الٰہیاتی مسائل کسی طرح بھی مذہبی عقائد سے متصادم نہیں ہیں۔
ابن رشد کو فلسفۂ ارسطو کے شارح کی حیثیت سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ مشرق سے کہیں زیادہ اہل مغرب نے اس کی قدردانی کی اور اس کی وجہ اس کے یہودی شاگرد تھے۔ جب یہ لوگ اسپین سے جلا وطن کیے گئے تو ان کے توسط سے فلسفۂ ارسطو کی شرحیں یورپ تک پہنچیں، بالخصوص اٹلی اور فرانس کو اس کے فلسفہ نے زیادہ متاثر کیا۔ چودہویں صدی میں ابن رشد کا فلسفہ اپنے عروج پر تھا۔ پندرہویں صدی میں اس کو زوال ہوا اور سولہویں صدی میں اس کا اثر بہت کم ہوگیا، البتہ اٹلی میں اس کے بعد کافی دنوں تک یہ فلسفہ مروج و مقبول رہا۔
فلسفہ کی طرح فقہ مالکی میں بھی جیسا کہ ہم شروع میں لکھ چکے ہیں، ابن رشد کی حیثیت مسلم ہے۔ اس کی کتاب ’’بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد‘‘ آج بھی فقہ مالکی کی مستند کتاب سمجھی جاتی ہے اور ایک اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
ابن رشد اور علم طب: ابن رشد نے عصری روایت کے مطابق دیگر علوم کے ساتھ طب کی بھی تعلیم حاصل کی لیکن اس نے علاج معالجہ نہیں کیا۔ اس لیے معالجاتی اعتبار سے ابن رشد کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ نظری لحاظ سے اس کا طبی علم وقیع ہے۔ ابن رشد کی تحقیقات کا تعلق طب کے کلی اصول و مسائل سے ہے۔ اس نے جالینوس کی جن کتابوں کی تلخیص کی ہے ان کا تعلق طب کے کلی مباحث سے ہے۔
علامہ ابن ابی اصیبعہ کے بیان کے مطابق ابن رشد نے جالینوس کی جن کتابوں کی تلخیص کی وہ یہ ہیں: کتاب الاسطقسات، کتاب المزاج، کتاب القویٰ الطبیعیۃ، کتاب العلل والاعراض، کتاب التعرف، کتاب الحمیات، کتاب الادویۃ المفردہ، النصف الثانی من کتاب حیلۃ البرء۔
ان تلخیصات کے علاوہ ’’شرح ارجوزہ‘‘ بھی ابن رشد کی ایک اہم طبی تالیف ہے۔ یہ ابن سینا کے منظوم رسالہ ’’ارجوزہ‘‘ کی شرح ہے ۔ ابن رشد نے اپنی کئی کتابوں میں ابن سینا کے فلسفہ پر تنقید کی ہے لیکن طب میں اس نے نہ صرف ابن سینا پر کوئی تنقید نہیں کہ بلکہ ’’ارجوزہ‘‘ کی شرح لکھ کر بالکل واضح کردیا کہ وہ علم طب میں ابن سینا کی بلند حیثیت کا معترف ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اندلس کے اکثر اطباء ابن سینا کے مخالف تھے۔ ابن رشد کا دوست ابن زہر اس کا شدید ناقد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ’’القانون فی الطب‘‘ اس کو دی گئی تو اس نے اسے اٹھاکر پھینک دیا۔
کتاب الکلیات ابن رشد کی واحد طبع زاد کتاب ہے۔ اس کا تفصیلی تعارف آگے آرہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس طرح ابن رشد کے فلسفہ نے یورپ کے اہل علم کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا، اسی طرح اس کی اس طبی تالیف کو بھی وہاں حسن قبول حاصل ہوا۔ پڈوا کی یونیورسٹی میں سب سے پہلے اس کی یہ کتاب داخل درس ہوئی اور بعد میں اس کے فلسفہ کی طرف توجہ دی گئی۔
کتاب الکلیات: ابن رشد کی اس کتاب کا موضوع جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، طب کے کلیاتی امور ہیں۔ اس نے جب یہ کتاب لکھی تو اپنے دوست ابومروان ابن زہر (متوفی ۱۱۶۲ء) سے اصرار کیا کہ وہ امور جزئیہ سے متعلق ایک کتاب تالیف کرے تاکہ یہ دونوں کتابیں مل کر فن طب سے متعلق جملہ امور و مسائل پر حاوی ہوں۔ اس بات کا ذکر ابن رشد نے اپنی کتاب کے آخر میں کیا ہے۔ لکھتا ہے:
’’اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ضروری ہے کہ کنائش کا بھی مطالعہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے ’’کتاب التیسیر‘‘ کا مطالعہ مناسب ہوگا جسے ہمارے زمانے کے طبیب ابو مروان بن زہر نے تالیف کیا ہے۔ میں نے اس کتاب کے لکھنے کی اس سے فرمائش کی تھی۔ اس میں جو امور جزئیہ بیان کیے گئے ہیں وہ (میری کتاب کے) کلی امور سے پوری مطابقت رکھتے ہیں اور اس میں امراض کے علاج کے ساتھ ان کی علامات و اسباب سے بھی اصحاب کنائش کی طرح بحث و گفتگو کی گئی ہے۔ جو شخص ہماری کتاب کا مطالعہ کرے اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے اور علاج کی حدتک یہ کفایت کرے گی، مختصر یہ کہ امور کلیہ سے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے اسے اگر کوئی شخص حاصل کرلے تو علاج و ترکیب ادویہ کے بیانات میں اصحاب کنائش کی صحیح اور غلط دونوں باتوں سے واقف ہوجائے گا‘‘۔
کتاب الکلیات ایک مقدمہ اور سات ابواب پر مشتمل ہے۔ ابواب کی تفصیل درج ذیل ہے:
باب اول: کتاب تشریح الاعضاء، تشریح بدن سے متعلق ہے۔
باب دوم: کتاب الصحۃ، اعضائے بدن کے افعال پر ہے۔
باب سوم: کتاب المرض، امراض کے ذکر میں۔
باب چہارم: کتاب العلامات، صحت و مرض کی علامات کے ذکر میں۔
باب پنجم: کتاب الادویہ والاغذیہ، دواؤں اور غذاؤں کے افعال و خواص کے بیان میں۔
باب ششم: کتاب حفظ الصحۃ، حفظان صحت کی تدابیر کے ذکر میں۔
باب ہفتم: کتاب شفاء المرض، علاج امراض کے اصول کلی کے بیان میں بالخصوص حمیّات، اورام اور قروح کے بارے میں۔
کتاب الکلیات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے، لاطینی زبان میں اس کے کئی ترجمے ہوئے۔ ۱۲۵۵ء میں پڈوا میں بونا کوسا (Bona Cosa) نے اس کا لاطینی میں ترجمہ کیا جو نامکمل رہا، سمفورین چیمپر (Sumphorein Champer: 1472-1539) نے ۱۵۳۷ء میں اسے مکمل کیا۔ عبرانی میں اس کا ترجمہ دوبار ہوا، ایک مترجم گم نام ہے اور دوسرے کا نام سلیمان بن ابراہیم بن داؤد ہے۔ لیکن اس کا عہد نامعلوم ہے۔
کتاب الکلیات کو بعض دوسرے مصنّفین کی تحریروں کے ساتھ ملاکر متعدد بار شائع کیا گیا۔ چنانچہ برن فلس (Brunfles) نے اسے یحییٰ بن سرافیون اور رازی کی کتابوں کے ساتھ ملاکر ۱۵۳۱ء میں سٹراس برگ (Strass burg) سے شائع کیا۔ ابن زہر کی کتاب کے ساتھ اسے وینس (Venice) سے ۱۴۹۰، ۱۴۹۶، ۱۴۹۷، ۱۵۱۴، ۱۵۳۰، ۱۵۳۱ء اور ۱۵۳۳ء میں شائع کیا گیا۔ ۱۴۸۲ء میں علاحدہ طور پر اسے وینس سے شائع کیا گیا۔
کتاب الکلیات کی طرح شرح ارجوزہ کو بھی مغرب میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ موسیٰ بن طبون (Tibbon) نے ۱۲۶۰ء میں اسے عبرانی نظم کا جامہ پہنایا۔ اسی نسخہ کو آرمن گاڈ (Armengaud) نے ۱۲۸۰ء (یا ۱۲۸۴ء) میں لاطینی میں منتقل کیا اور ۱۶۸۴ء میں اسے وینس سے شائع کیا گیا۔
کتاب الکلیات کا تنقیدی جائزہ: کتاب الکلیات کے مختلف مباحث میں ابن رشد کا منفرد طرز بیان اور جدت فکر نمایاں ہے۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر کریں گے۔ لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ تشریح الاعضاء (اناٹمی) اور منافع الاعضاء (فزیالوجی) کے بیان میں اس نے کسی تحقیق کے بغیر جالینوس کی مکمل پیروی کی ہے۔ بعض مباحث کی وضاحت میں ارسطو کی بھی تقلید کی ہے حالانکہ علم طب میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان دونوں افاضل یونان کی اتباع کی چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
جالینوس نے لکھا ہے کہ اوردہ (Veins) کا منبع جگر ہے، ابن رشد نے بھی یہ غلط بات لکھ دی ہے:
والـعـروق الغیـر ضوارب: ھی مـن طبقـۃ واحـدۃ، وتـوجـد بـالحس، متشعبۃ من عرق عظیم فی محدب الکبد۔
عروق غیر ضوارب (اوردہ) میں ایک پرت ہوتی ہے اور انہیں چھوکر معلوم کیا جاسکتا ہے، یہ وریدیں اس بڑی ورید کی شاخیں ہیں جو محدب جگر سے نکلتی ہیں‘‘۔
جالینوس نے تشریح قلب کے بیان میں لکھا ہے کہ اس کے داہنے اور بائیں بطن (Ventricles) کے درمیان غیر مرئی منافذ (Invisible Pores) ہوتے ہیں جن کی راہ خون داہنے بطن سے بائیں بطن میں جاتا ہے، بوعلی سینا کی طرح ابن رشد نے بھی جالینوس کے اس غلط تشریحی بیان (Anatomical error) کو نقل کردیا ہے، لکھتا ہے:
وللقلب بطنان عظیمان، احدہما فی الجـانب الایمن والآخـر فی الجانب الایسر، وعند صلہ شبیہ بالغضروف، وکأنہ قاعدۃ لجمیع الـقلب، ومـن الـبطن الایمن الـی الأیسر منافذ۔
قلب میں دو بڑے بطن ہیں، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب۔ اس کی جڑ کے قریب کا حصہ غضروف (کرّی) کی مانند ہے، یہ گویا قلب کا قاعدہ (Base) ہے اور دائیں بطن سے بائیں بطن تک (نفوذ خون کے لیے) منافذ ہیں۔
تشریح جگر کے باب میں بھی ابن رشد نے جالینوس کی پیروی کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ اس کے عروق میں کیلوس کا طبخ ہوتا ہے اور خون بنتا ہے اور اس کی بڑی رگ کے ذریعہ باہر آتا ہے۔ ابن رشد کے الفاظ میں:
والغذاء الکیلوسی یدخل الکبد من بابہ، ویطبخ فی تلک العروق، حتی یعود دما، ثم یخرج من العرق العظیم فی حدبتہ۔
غذاء کیلوسی جگر میں باب الکبد کے ذریعے داخل ہوتی ہے اور جگر کے اندر کی شاخوں میں پکتی ہے یہاں تک کہ خون میں تبدیل ہوجاتی ہے، پھر محدب جگر کی بڑی رگ کے ذریعہ خون باہر آتا ہے۔
جدید فزیالوجی سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ معروف معنی میں خون جگر میں بنتا ہے۔ بعض مقامات پر جالینوس کی اندھی تقلید دیکھ کر سخت حیرت ہوتی ہے مثلاً اس نے لکھا ہے کہ تولید جنین میں عورت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ابن رشد کے الفاظ ہیں:
واما الانثیین التی یزعم جالینوس انہا توجـد للمرأۃ، فیشبہ الا یکـون لھا تاثیـر فی الولادۃ، اذ کـان من النساء المتولد فیہا لا مدخل لہ فی الولادۃ، ولیس ذلک بغریب، فان الشدی فی النساء لمکان الولادۃ، ولیس لہا فی الرجـال ہذہ المنفعـۃ، فامـا من ایـن یظہر أنہ لیس لمنی المرأۃ یدخل فی الولادۃ فمن الحس والقیاس ۔
اور رہے انثیین (Testicles) جو بقول جالینوس عورتوں میں ہوتے ہیں، تو بظاہر ولادت میں ان کی کوئی تاثیر نہیں،
کیونکہ فعل تولید میں عورت کی منی کا کوئی دخل نہیں ہے اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، کیونکہ فعل ولادت میں عورتوں کے پستانوں کو دخل ہے جب کہ مرد کے پستانوں میں یہ منفعت نہیں پائی جاتی، ولادت میں عورت کی منی کا دخل نہ ہونا مشاہدہ و قیاس دونوں سے ثابت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ارسطو جیسے بالغ نظر فلسفی کا بھی یہی خیال تھا۔ افسوس ابن رشد کے حال پر کہ اس عالم و فاضل نے کیوں کر اس فاش غلطی کا ارتکاب کیا۔ قرآن مجید میں صاف لفظوں میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفۂ امشاج (مخلوط نطفہ) سے پیدا کیا ہے۔ (سورہ دہر: ۲)
اس سلسلے میں ابن رشد نے مشاہدہ و قیاس کی جو مثالیں دی ہیں، وہ بالکل غیر علمی ہیں:
’’کتاب الکلیات‘‘ کا دوسرا باب ’’افعال اعضاء‘‘ کے بارے میں ہے۔ یہ باب نہایت اہم ہے، اس میں متعدد مفید مباحث ہیں، مثلاً بحث مزاج۔ میرا خیال ہے کہ یہ بحث متعدد اعتبار سے بالکل منفرد ہے۔ لیکن اعضائے آلیہ کے افعال کے بارے میں ابن رشد نے جو کچھ لکھا ہے اس میں جالینوس کے خیالات کی پیروی کی ہے۔ جالینوس کے نزدیک قلب کا اصل کام روح حیوانی کی تخلیق ہے۔ ابن رشد نے اس خیال کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
فنقول ان القلب اذ ہو مولف من اغشیۃ و رباطات ولحم و عروق و غضروف و دم و روح، ہو ضرورۃ حار، بمکان الـروح العظیم الذی فیـہ والـدم، اذ کان کالمستـوقـد لجمیع البدن۔
ہم کہتے ہیں کہ قلب اغشیہ، رباطات، عروق، غضروف، خون اور روح سے مرکب ہے، اس لیے اس کا مزاج گرم ہے، قلب ہی خون اور روح عظیم (یعنی روح حیوانی) کا مسکن ہے، اور یہ پورے بدن کے لیے مثل بھٹی کے ہیں (یعنی اسی کے ذریعہ تمام اعضائے جسم میں گرمی پہنچتی ہے)‘‘۔
اسی سلسلہ بحث میں ابن رشد نے افعال اعصاب کے بیان میں جالینوس اور ارسطو کے خیالات اور ان کے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور ارسطو کے خیال کی تائید کی ہے اور جالینوس کے خیال کو غیربرہانی دلیل قرار دیا ہے، حالانکہ اس کی رائے تجربہ پر مبنی ہے۔ ابن رشد لکھتا ہے:
وأما العصب ففی منفعتہا شکوک کثـیـرۃ، أمـا جالیـنوس فیـریٰ أن منفعتہـا انمـا ہی لتـودی الحس والحـرکت الارادیـۃ الـی جمیـع الاعضـاء، وأمـا الـلازم عـن رأی ارسطـو فـان العصب انمـا جعـل لموضع تعدیل الحرارۃ الغریزۃ، حتی یکون بہا الحس، وذلک تابع لرایہما فی منفعۃ الدماغ، وأمـا کونہا آلـۃ الحرکۃ الارادیۃ فـفیـہ نظر ایضًا، ومـا یحتـاج بـہ جالینوس فی اثبات وجود الحس والـحـرکۃ عـن الاعصـاب مـن أن بارتفاع العصب یرتفع الحس والحرکۃ فموضع غیر برہانی۔
اعصاب کے افعال کے بارے میں بکثرت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کے افعال کے بارے میں جالینوس کا خیال ہے کہ وہ تمام اعضاء کی ارادی حس و حرکت کا ذریعہ ہیں۔ اس سلسلے میں ارسطو کا خیال ہے کہ اعصاب اس غرض سے بنائے گئے ہیں کہ وہ حرارت غریزیہ کو اعتدل پر رکھیں تاکہ اس سے حس کا صدور ہو۔ دونوں (یعنی جالینوس اور ارسطو) کا یہ اختلاف ویسا ہی ہے جیسا کہ افعال دماغ کے بارے میں ان کا اختلاف ہے۔ یہ بات کہ اعصاب حرکت ارادیہ کا آلہ ہیں، محل نظر ہے۔ اعصاب کے ذریعہ حس و حرکت کا وجود ثابت کرنے کے لیے جالینوس کی دلیل یہ ہے کہ اعصاب کی قوت کے ختم ہونے سے حس و حرکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اس جگہ یہ ایک غیر برہانی دلیل ہے۔
اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ ابن رشد جس طرح ارسطو کے فکر و فلسفہ کا بہرطور حامی ہے اسی طرح طب کے بارے میں اس کے خیالات کی اتباع کو ضروری خیال کرتا ہے خواہ وہ علم طب کی رُو سے کتنے ہی بودے کیوں نہ ہوں۔ وہ اس اعتراف سے قاصر رہا کہ علم طب میںجو تمام تر تجربی علم ہے، جالینوس کو ارسطو پر مکمل برتری حاصل ہے۔
ابن رشد نے بعض طبی مسائل میں جالینوس کی تحقیقات سے اختلاف بھی کیا ہے لیکن یہ اختلاف زیادہ تر قیاسی نوعیت کا ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتا ہے:
ومـا تسمع جـالیـنـوس یـہـزأ فیـہ بـأرکـغـانس عند معالجتـہ الـقـوۃ الذاکرۃ، ویقول لہ یا ہذا إن کنت تزعم أن القوۃ الذاکرۃ فی القلب فما لک لم تعلق المحاجم علی القلب وتقصدہ بالمعالجۃ، فلیس الامـر علی مـا یقولـہ جالینوس و سنبین ہذا فیما بعد۔
جالینوس نے قوت ذاکرہ کے علاج کے سلسلہ میں ارکغانس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تمہارا خیال ہے کہ قوت ذاکرہ قلب میں ہے تو قلب پر سنگھیاں لگاکر اس کا علاج کیوں نہیں کرتا۔ جالینوس کی یہ بات مطابق حقیقت نہیں ہے اور ہم آگے چل کر اسے واضح کریں گے۔
چنانچہ ابن رشد نے قوائے دماغ کے ذکر میں قوت ذاکرہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’ملحوظ رہے کہ اگرچہ ان قوتوں (قوت متخیلہ، قوت مفکرہ، قوت ذاکرہ و حافظہ) کے افعال بطون دماغ سے انجام پاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا وجود قلب میں ہے اور بطون دماغ ان قویٰ کے لیےبہ منزلہ آلات ہیں۔ اس کی مثال قوت باصرہ ہے جس کا فعل رطوبت جلیدیہ کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن اصل قوت قلب میں ہے‘‘۔
ابن رشد کا مذکورہ بیان حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اس سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ فلسفی پہلے اور طبیب اس کے بعد ہے، جبکہ جالینوس اول و آخر طبیب ہے اور بدن انسان سے متعلق ہر کلی اور جزئی امر کا فیصلہ منطق و فلسفہ کی مدد سے کرنے کے بجائے مشاہدہ و تجربہ کی بنیاد پر کرتا ہے۔
ابن رشد کے تفردات: ابن رشد پر تنقید سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ’’کتاب الکلیات‘‘ میں جالینوس اور دوسرے اطبائے سلف کی تقلید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ متعدد مباحث میں ابن رشد نے اطبائے متقدمین کی مقبول عام آراء کے برخلاف رائے دی ہے۔ مثلاً اطباء جن میں جالینوس بھی شامل ہے، کہتے ہیں کہ بدن انسان میں تین طرح کی قوتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک قوت کا نام ’’قوت حیوانیہ‘‘ ہے۔
لیکن ابن رشد اس بات کا منکر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اعضاء میں قوت تغذیہ اور حس کے سوا کوئی تیسری قوت نہیں پائی جاتی ہے۔ وہ قوت حیوانیہ کا اطلاق انہی دونوں قوتوں پر کرتا ہے۔ وہ اس خیال سے بھی متفق نہیں ہے کہ جگر اپنے کام میں خود کفیل ہے، وہ اپنے افعال کی انجام دہی کے لیے اس حرارت کا محتاج ہے جو اسے قلب سے نکلنے والی شرائین کے ذریعہ سے پہنچتی ہے (۳۲)۔ ابن رشد جگر میں روح کی موجودگی کا بھی منکر تھا۔ اس سلسلہ میں اس نے مروجہ خیال کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے:
مع أن الکبد لیس یظہر فیہا روح بالتشریح، ینفذ منہا فی الاوراد الی سائر البدن بل ما فی الاوراد من الدم، ہو دم غیر نضج، وانما مطیۃ الروح الدم الشرایینی۔
مزید برآں تشریح سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ جگر میں روح ہے جو وریدوں کے ذریعہ سارے بدن میں پہنچتی ہے بلکہ وریدوں میں ناپختہ خون ہوتا ہے اور روح کی سواری وہ خون ہے جو شرائین میں ہے۔
ابن رشد پہلا طبیب ہے جو اس بات کو نہیں مانتا تھا کہ خون میں دیگر اخلاط بالفعل شامل ہیں۔ عام اطباء بدن کی تین حالتیں قرار دیتے ہیں، ایک صحت، دوسری مرض اور تیسری حالت نہ صحت نہ مرض (لا صحۃ ولا مرض) یعنی جسم کی وہ حالت جس پر نہ پورے طور پر صحت کا اطلاق ہو اور نہ مرض کا، ایک درمیانی حالت۔ ابن رشد نے اس تیسری حالت یعنی لا صحۃ ولا مرض کا انکار کیا ہے۔
ہم نے گزشتہ صفحات میں ’’کتاب الکلیات‘‘ کا جو اجمالی تعارف کرایا ہے اس سے واضح ہوگیا کہ طب کے کلی امور و مسائل پر یہ ایک منفرد کتاب ہے۔ اس کے بعض نقائص قطع نظر کرکے دیکھیں تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ابن سینا کی کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ کے پہلے حصہ کے سوا جو کلیات پرہے، کوئی دوسری کتاب اس موضوع پر ایسی نہیں ہے جو ’’کتاب الکلیات‘‘ کے ہم پلہ ہو۔ اگر ’’القانون‘‘ اور اس کتاب کاتقابلی مطالعہ کیا جائے تو بعض کلی مباحث کی تنقیح میں ’’کتاب الکلیات‘‘ کی بحث منفرد اور زیادہ جامع نظر آئے گی لیکن بحیثیت مجموعی ’’القانون‘‘ کے حصۂ کلیات کو اس کتاب پربرتری حاصل ہے۔