Web Analytics Made Easy -
StatCounter

Islam Aur Deegar Mazahib Me Aurato Ke Huqooq Aur Bado Ka Ahtaram, اسلام اور دیگر مذاہب میں عورتوں کے حقو ق اور بڑوں کا احترام

Jamia Ashraful Uloom Rasheedi

Islam Aur Deegar Mazahib Me Aurato Ke Huqooq Aur Bado Ka Ahtaram, اسلام اور دیگر مذاہب میں عورتوں کے حقو ق اور بڑوں کا احترام

مصنف:عبد الواجد رشیدی ندوی

اَلْےَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِےْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَےْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیتُ لَکُمُ الْاِسْلَا مَ دِےْناً(سُورَۃُ الْمَآءِدَۃِ؍۳)

یہ وہ دین ہے کہ جسکو حق تعا لیٰ شا نہ نے پسند فر ما یا ہے

اِنَّ الدِّےْنََ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ الخ۔

مذہب اسلام ایک ایسا آفاقی وبے مثال وپا ئدار مذہب ہے کہ اس میں ہر ایک کے حقوق کی مکمل رعایت رکھی گئی ہے، کسی بھی فرد بشر جن و انس،چھوٹے، بڑے،والدین ،احباب واصدقاء،قرب و جوار اور دور درازمیں بسنے والے پڑوسی حضرات،اپنے مسلک و مشرب والے اور دیگر مذاہب والے ،ہندو مسلم ،سکھ ،عیسا ئی ،مجوسی ،صائبی ،ذمی ،غیر ذمی ،معاہد غیر معا ہد ،چرند ،پرند ،غرضیکہ سب کے مستقل حقوق بیان کر دئیے ہیں،چنانچہ جس مذہب کی یہ شا ندا ر تعلیما ت وہدا یات ہوں تو ہ وکیونکر دُوسروں پر ظلم کو رواسمجھ سکتا ہے ،یا ظلم کی تلقین وتعلیم دے سکتا ہے؟۔

عورتوں پر ظلم اور اسکی حقارت کی ایک طویل دا ستان ہے ،عورت کو جتنی عزت مذہب اسلام اور اسلامی حدود و قوانین نے دی ہے، اتنی کسی بھی مذہب نے نہیں دی، بلکہ دُوسرے لوگوں نے تو اسکوذلیل ترین مخلوق بنا دیا ،ہند چین یو نا ن اور روما میں بھی یہی صورت حا ل تھی ، جو تہذیب و شا ئستگی کے گہوارے سمجھے جا تے تھے اور جہاں عورت سے احترا ز کر نے کی تعلیم دی جا تی تھی ،یو نا نیوں کا خیال عورت کے متعلق یہ کہ آگ سے جل جا نے اور سا نپ کے ڈسنے کا علا ج ممکن ہے ،لیکن عورتوں کے شر کا مدا وا محال ہے۔

سقراط کہتا ہے کہ عورت سے زیادہ فتنہ وفسا د کی جڑ اور کو ئی چیز نہیں ہو سکتی ،وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظا ہر بے انتہا خو بصورت وخوشنما نظر آتا ہے ،لیکن جب کو ئی چڑیا اسے کھاتی ہے تو مر جا تی ہے ۔

عورت کی ذلت کا خیال حکماء وفلا سفر ہی کے دما غ میں مر کو ز نہ تھا ،بلکہ مذہبی دُنیامیں بھی اس کے سا تھ یہی سلوک کیا جا تا تھا ،قدیس بر نا ر کہتا ہے :کہ’’عورت شیطا ن کا آلہ ہے‘‘یو حنا دمشقی کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی اور امن و سلا متی کی دُشمن ہے ،یو رپ اور با لخصوص رومۃ الکبریٰ جو عیسویت کا مرکزیہاں بھی عورتوں کی حا لت لو نڈیوں سے بد تر تھی، ان پر ایک جا نور کی طرح حکو مت کی جا تی تھی ،اور انکا اعتقاد تھا کہ اس طبقہ کو آ را م و آسا ئش کی ضرورت ہی نہیں ہے ،ذراذرا سے قصور میں ذبح کردی جا تی تھیں،سولہویں اور سترھویں صدی عیسوی میں جب جا دو کا اعتقاد نہا یت رُسوخ کے سا تھ لو گو ں کے دلو ں میں جا گزیں ہو گیا تھا ،اسوقت اس ظلم کا شکار بھی عورتیں ہی ہو تی تھیں ،الیگزینڈر ششم نے ۱۱۹۴ء ؁ میں ،لو ئی دہم نے ۱۵۲۱ء ؁میں ،اڈرین ششم نے ۱۵۲۲ء ؁جس بے دردی کے سا تھ عورتوں اور ان کے بچو ں کو سحر کے الزام میں ذبح کیا ،اس سے تا ریخ یو رپ کے صفحات رنگین ہیں۔

الغرض سا رے یو رپ نے اس صنفِ نا زک پر ظلم کرنے کا عہد کر لیا تھا ،جس کا نتیجہ بقول ڈا کٹر اسپرنگ یہ ہوا کہ عیسا ئیوں نے ۹۰؍ لاکھ عورتوں کو زندہ جلا دیا ۔

ایران میں بیوی اور بہن کے در میان کو ئی امتیاز با قی نہ رہا تھا ،مشرق کے نصا ریٰ نہ ما ں کو ما ں سمجھتے تھے ،نہ بہن کو بہن اور ہندوؤں کے یہاں ایک عورت متعددبھا ئیوں کی بیوی بن سکتی تھی ،پھر لطف یہ کہ اس طرف نہ یہودیوں کے علماء نے تو جہ اور نہ عیسا ئیوں کے علماء نے ، اسی کے سا تھ ہندوستان میں نہ وید مقدس نے عورت کی اخلا قی حا لت کو بلند کر نے کی کوشش کی اور نہ بو دھ نے اس صنفِ نا زک کے لئے کو ئی قا نو ن مقرر کیا ،مگر جب مظلو م آہوں اور دل کے شرا روں نے دا من تھا م کر فر یا دیں کیں تو عرش عظیم تھرا اُٹھا اور رحمتِ خدا وندی جو ش میں اور عرب کے تپتے ہو ئے صحرا ء میں اس نبی اُمی کا ظہور ہوا جو اپنے دل میں تمام کا ئنا ت کا درد سموئے ہو ئے تھا۔(موڈرن عورت اور اسلام)

مذہب اسلام ایک کامل و مکمل مذہب ہے ،اس نے انسانیت کو اخلاق کا مکمل جامہ پہنا یا ہے ،اسکے کامل ہو نے کو حق جل مجدہ نے اپنی کتا ب مبین میں صراحتاً ان الفاظ میں بیان کیاہے :

مذکورہ عبارت سے معلوم ہو گیا کہ اس صنفِ نا زک پردیگر مذاہب کے ماننے والوں نے ظلم و ستم کے پہا ڑ تو ڑ ڈا لے ، اسکو بالکل شرمسارکر ڈا لا،اسکی عزت و ناموس کا جنا زہ نکا ل ڈا لا،اس کا پر سا نِ حا ل خالقِ کا ئنات کے علا وہ کو ئی نہیں تھا،چنا نچہ رب تعا لیٰ کی رحمت جو ش میں آئی اور ا س نے اپنے پیا رے نبی ﷺ کو مبعوث فر ما کر اس سسکتی بلکتی انسانیت پر زبر دست احسان فر ما یا ،بطور خا ص اس کمزورمخلوق پرجسکو یرغمال بنا رکھا تھا ، مذہب اسلام نے اس کو عزت و رفعت بخشی ،اور اسکو اسکے تمام حقوق دلوائے ،ارشاد با ری تعالیٰ ہے :
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَےْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃً(سورۃ البقرۃ؍۲۲۸)

عورتوں کا حق مردوں پر ایسے ہی ہے جیسا کہ ان مردوں کا حق عورتوں پر اور مردوں کو ایک گو نہ درجہ حا صل ہے۔

شریعتِ اسلامیہ نے عورت کا حق کچھ اسطرح بھی ذکر کیا :

اَنْ تُطْعِمَہَااِذَاطَعِمْتَ وَتَکْسُوہَااِذَااکْتَسَےْتَ وَلَاتَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تَقْبَحْ وَلَا تَھْجُراِلَّافِی الْبَےْتِ (ابو دا ؤد)

کہ جب تم کھا ؤ تو اسکو بھی کھلا ؤ اور جب تم پہنو تو اسکو بھی پہنا ؤ ،اور چہرے پر مت ما رو اور برے نام سے مت پکا رواور جدائیگی مت کرو مگر اپنے ہی گھر میں، اور یہا ں تک کہ شوہر کو یہ تعلیم دی گئی کہ اگر تو اپنے اہل خانہ پر اللہ کی رضا حا صل کرنے کے لئے خرچ کرے گا تو تجھکو اجرو ثوا ب دیا جا ئے گا ،یہاں تک کہ اگر تواپنی بیوی کے منہ میں ایک لقمہ دے تو تجھے اس پر بھی اجر ملے گا،حدیث پا ک میں ہے

وَاِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبتَغِیْ بِہَاوَجْہَ اللّٰہِ اِلَّااُجِرْتَ عَلَےْہَاحَتّٰی مَاتَجْعَلُ فِیْ فِیِّ اِمْرَأتِکَ۔ریاض الصا لحین؍۱۱؍با ب الا خلا ص واحضار النےۃ) ۔

دیکھئے مذہب اسلام کی وہ شاندا ر تعلیما ت ہدا یات کہ جن سے ازدوا جی زندگی انتہا ئی خوشگوار بن سکتی ہے ،اور پو را مسلم معا شرہ امن و امان کے سا تھ زندگی بسر کرسکتا ہے،اسی طر ح ایک مقام پر شو ہر کو حکم دیا ،وَ اِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَےْکَ حَقًّا۔ریاض الصا لحین؍۶۷،با ب فی الا قتصاد فی الطاعۃ) کہ تمہا رے گھر والوں کا تمہا رے اُوپر حق ہے،گھریلو زندگی کے متعلق فر ما یا کہ :

اَکْمَلُ الْمُؤْمِنِےْنَ اِےْمَانًااَحْسَنُہُمْ بِاَھْلِہٖ۔(ترمذی،نسائی)

کہ کامل ایمان والا وہ شخص ہے کہ جو اپنی بیویوں کے سا تھ اچھا معا ملہ کرتا ہو،ایسے ہی فر ما یا :خَےْرُکُمْ خَےْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ(ترمذی)کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر ہو۔

اسی طرح مذہب اسلام نے والدین اور بڑوں کا احترا م کرنے کی بڑے شدو مد کے سا تھ تا کید کی ہے ،ارشادِ با ری تعا لیٰ ہے :فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَآاُفٍّ وَّلَاتَنْھَرْہُمَاوَقُلْ لَّہُمَاقَوْلًاکَرِےْماً()(سُوْرَۃُ الْاِسْرَآءِ )

کہ انکو اف تک بھی کہو اور نہ انکو جھڑکواور ان سے نرم بات کرو،ایسے ہی فر ما یا :

وَوَصَّےْنَاالْاِنْسَانَ بِوَالِدَےْہِ اِحْسَانًاالخ (سُورَۃُ الْاَحْقَافِ)

اور ہم نے انسا ن کو تاکید کی کہ وہ اپنے ماں با پ کے سا تھ اچھاسلوک کرے۔

اسی طریقہ سے احا دیثِ مبا رکہ میں حضرت نبی کریم ﷺ نے با ر با ر تو جہ دلا ئی:ایک مو قع پر فر ما یا :

مَنْ لَمْ ےَرْحَمْ صَغِےْرَنَاوَلَمْ ےُؤقِّرْکَبِےْرَنَافَلَےْسَ مِنَّا(الحدیث)۔

ایک جگہ بڑوں کا اکرا م کرنے کے با عث اسکے متعلق خیر سگا لی کی ضمانت کا وعدہ کیا گیا : کہ جو شخص کسی ضعیف العمر آدمی کی مدد کرتا ہے تو جسوقت وہ بوڑھا ہو تا ہے تو اللہ پا ک اسکے لئے ایسے افراد کو پیدا فر ما دیتے ہیں کہ جو اسکی تعظیم وتکریم کرتے ہیں۔

جب کہ اہل مغرب ہر وقت محض ڈھنڈوراپیٹتے رہتے ہیں اور مذہب اسلام کے متعلق آئے دن کو ئی نہ کو ئی بد معا شی کرتے رہتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ اس کے علا وہ انکواور کو ئی کا م ہی نہیں ، انکے اندر اس قدر گرا وٹ آچکی ہے کہ ان لو گو ں نے ( بوڑھوں کے مکا ن) (OldHouse)بنوا دئیے ہیں کہ بو ڑھے والدین وہاں پر رہیں ،یہ کیسی گھٹیا حرکت ہے کہ جن والدین کے ذریعہ وہ انسان وجود میں آیا وہ ان کے با رے میں یہ گھٹیا تصور رکھ رہا ہے کہ انکو بڑھا پے میں دُوسروں کے حوالے کر کے آ رہا ہے ،جب کہ مذہب اسلا م نے صر ف والدین ہی کے اکرام کو بیان نہیں کیا بلکہ والدین کے دوست احبا ب کا بھی اکرا واحترا م کرنے کی تعلیما ت وہدا یات پیش کی ہیں ۔

محبوب العلماء والصلحاء پیر ومرشدشیخ طریقت واقفِ اسرار حقیقت حضرت مو لا نا الحاج الحافظ ذُوالفقاراحمد صا حب نقشبندی ؔ مجددیؔ دا مت بر کا تہم العا لیہ نے اپنے اہم افا دا ت بنام ’’اہلِ دل کے تڑپادینے والے واقعات‘‘میں ماں اور اسکے بیٹے کے متعلق ،ایک بڑا ہی دل دہلا نے وا قعہ تحریر فر ما یا ہے ،فر ما تے ہیں کہ امریکہ کی ایک ریا ست میں ایک ماں نے اپنے بیٹے کے خلا ف مقدمہ کیا وہ مقدمہ اخبا را ت کی بھی زینت بنا اور ٹی وی میں بھی اس کی تفصیل آ ئی ،ما ں نے مقدمہ یہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھر میں کتا پا لا ہوا ہے اور یہ تین چا ر گھنٹے اس کتے کے سا تھ صرف کرتا ہے، یہ اسے نہلا تا ہے، اسکی ضروریات پو ری کرتا ہے ،اسکو اپنے سا تھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جا تا ہے، وہ اپنے کتے کو رو زانہ سیر بھی کروا تا ہے،اسے کھلا تا پلا تا بھی ہے ،میں بھی اسی گھر کے دُو سرے کمرے میں رہتی ہوں لیکن یہ میرے کمرے میں پا نچ منٹ کے لئے بھی نہیں آ تا ،اسلئے عدا لت کو چا ہئے کہ وہ میرے بیٹے کو پا بند کرے کہ وہ رو زانہ ایک مرتبہ میرے کمرے میں آیا کرے ۔

جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمہ لڑنے کے لئے تیا ری کر لی ،ماں نے بھی وکیل بنا لیا اور بیٹے نے بھی وکیل بنا لیا ،جب دو نو ں کے وکیل جج صا حب کے سامنے پیش ہو ئے تو جج صا حب نے مقدمہ کی سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ عدالت آ پ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے آ نے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ مقامی قانون ہے کہ جب اولا د ۱۸؍سا ل کی عمر کو پہونچ جا ئے تواسکو حق حا صل ہو تا ہے کہ وہ اپنے ما ں با پ کو چا ہے تو کچھ وقت دے ،یا بالکل علیحدگی اختیا ر کر لے ،رہی با ت کتے کے اس کے اُوپر حقوق ہیں جن کو ادا کرنا اسکی ذمہ دا ری ہے ،البتہ اگر ماں کوکوئی تکلیف ہے تو اسکو چا ہئے کہ وہ حکو مت سے را بطہ کرے، وہ اُسے بوڑھوں کے گھر (OldHouse)لے جا ئیں گے اور وہاں جا کر اسکی خبر گیری کریں گے ،اب بتا ئیے کہ جہا ں ما ں بیٹے کا یہ تعلق ہو گا وہاں پر زندگی سکون سے کیسے گذرے گی ؟۔
(خطبات ذوالفقار؍ص؍۹۵؍ج؍۵۔)اہل دل کے تڑپادینے والے واقعات جلد اول؍۱؍ص؍۳۵۱)

اسی طرح انگلستا ن کے ایک طبی جریدے نے ایک عبرتنا ک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک لڑکی میری نامی جوان ہو ئی تو اسکی والدہ نے اچھے گھرا نے میں اسکی شا دی کردی،خاوند بر سر روزگار اور سماجی اہمیت رکھتا تھا ،پھر اس کے یہاں ایک بچی پیدا ہو ئی ماں کی اور کو ئی اولا د نہیں تھی، اس لئے وہ بیٹی کے یہاں مقیم تھی ،لیکن وہ اسکی مہمان دا ری کے علا وہ نواسی کی پر ورش میں بھی ہا تھ بٹا تی تھی ،نواسی جب ذرا بڑی ہو گئی وہ اپنا لبا س خود تبدیل کرنے کے قابل ہو گئی تو میری نے سو چا کہ ماں کا وجو د گھر کے کی خوبصورتی پر اثر اندا ز ہے ،اسلئے بڑھیا سے جا ن چھڑا نی چا ہئے ،اب ماں کو بڑھا پے کی پینشن بھی ملتی تھی-

اسلئے اسے بوڑھو ں کے خصو صی گھر ’’بوڑھوں کے مکان ‘‘ (OldHouse)میں دا خل کر دیا گیا ،ماں نے بہت حیلے کئے گھر میں اپنی ضرورت کا احسا س دلا یا ،نواسی کی پرورش کا عذر بھی نا کا م ہو ا’’میری‘‘ کا اصرار تھا ہما را چا ر کمروں کا فلیٹ اب تنگ پڑگیا ہے ،اس میں وُسعت کی ایک ہی صو رت ہے ،کہ اماں چلی جا ئے ’’میری‘‘ کی بیٹی ایلزیتھ کو نا نی سے انس ہو گیا تھا ،اسکا احتجاج بھی بے کا ر گیا ،البتہ اماں سے یہ وعدہ کیا گیا کہ ہم ملنے آ یا کریں گے ،ہفتہ اور اتوا ر تمہیں گھر میں لائیں گے ،بھلا بوڑھوں کے مکان (OldHouse)جا نے سے رشتہ بھی ٹوٹتے ہیں ،اما ں کو بوڑھوں کے مکان (OldHouse)پہو نچا نے کے بعد ملا قاتوں کا وقفہ بڑھتا ہی گیا –

ہفتہ اتوا ر کو چھٹی کے با عث گھر میں مہمان آ تے رہتے تھے ،انکی مو جو دگی میں ایک نیم لا چا ر بڑھیا کا گھر میں ہو نا کسی اچھے تأثر کا با عث نہ تھا، اسلئے اماں جا ن کے لئے بوڑھوں کے مکان (OldHouse) میں قیام مستقل حقیقت بن گیا، اپنی طرح کی چند معذور اور مفلوک الحا ل بوڑھیوں میں رہکر وہ بے چا ری ہمیشہ انکو یا د کرتی، لمبے لمبے محبت بھر ے خط لکھتی، نواسی ایلزیتھ کو پیا ر لکھتی ،لیکن وہ منتظر ہی رہتی ،بیٹی نے ماں کو یقین دلا یا کہ وہ کرسمس پر اپنی پیا ری اماں کو ضرورگھر لا ئے گی ،تا کہ تمام خاندا ن کرسمس کی خو شیاں منا ئیں ،اماں بے چا ری نے اپنے جیب خرچ میں سے پیسہ بچا کر اُون خریدی اور دن را ت ایک کرکے اپنی نہا یت پیاری نواسی کے لئے ،ٹوپی –
مفلر اور سویٹر بنا یا ،کرسمس والے دن تک کچھ کمی رہ گئی تھی ،اسلئے وہ ۲۴؍ دسمبر کی برف با ری میں بلڈنگ کی با لکونی میں کرسی ڈا لکر اپنے تحفۂ محبت کی تکمیل کرتی رہی ،شدید سردی میں با لکونی میں بیٹھنے کی ایک ضرورت یہ تھی کہ وہ چا ہتی تھی کہ جب اسے لینے والوں کی کا ر آئے تو انکو انتظا ر کی کو فت میں مبتلا کئے بغیر نیچے جا ئے ،بوڑھوں کے مکان(OldHouse) کی ایک خا دمہ فینسی بڑی خدمت گذار عورت تھی ،اس نے بڑھیا کو ہیٹر والے کمرے میں لا نے کی بڑی کو شش کی ،مگر وہ اپنے خا ندا ن سے ملنے کے اشتیاق میں کسی مصلحت پر آ ما دہ نہ ہو ئی ، فینسی نے ایک کمبل لا کر اس پر ڈا لدیا با ر با ر واپسی کی تلقین کے سا تھ وہ گرم چا ئے بھی دیتی رہی –

صبح ہو گئی مگر لینے والے نہ آئے ،کمزوری ،شب بیداری اور سرد ہواؤں میں پو ری را ت گذا رنے سے اسے شدید نمونیا ہو گیا ،بیٹی کو خو د آ نے کی فرصت تو نہ مل سکی ،لیکن اس نے ماں کے بہترین علا ج کے لئے ایک بار علا ج کے لئے فو ن پر خواہشا ت کا اظہا ر کیا ،ماں مر گئی ’’میری‘‘ کی جا نب سے نے کفن دفن کے لئے بہترین بندو بست کیا گیا،کچھ دن بعد میری ماں کا سا ما ن لینے کے لئے بوڑھوں کے مکان (OldHouse)گئی ،تو اس نے وہاں کی خا دمہ فینسی کا بہت شکریہ ادا کیا ،کیوں کہ وہ آ خری وقت تک اماں کی خدمت کرتی رہی ،پھر اسے یا د آیا ،کہ فینسی بڑی خدمت گذا ر لڑکی تھی ،اسے کیوں نہ اپنے گھر میں ملا زم رکھ لیا جا ئے –

اس نے بہتر تنخواہ کے لا لچ کے سا تھ فینسی کو اپنے گھر کی دعوت دی ،فینسی نے ہنس کر کہا کہ میں آپ کے گھر ضرور جا ؤں گی، لیکن خدا کا انصاف دیکھنے کے بعد ،جس دن آپ کی بیٹی ایلزیتھ آپ کو اسی گھر میں چھوڑکر جا ئے گی ،میں اس خا تو ن کے ہمرا ہ اس کی خدمت کے لئے چلی جا ؤں گی ،یہ قصہ نہیں حقیقت ہے ،اب ماڈرن گھرا نو ں میں ماں با پ ایک فاضل اور بدنما چیز بن گئے ہیں ،انکی خدمت تو در کنار نئی نسل انکی صورت تک سے بیزار ہو تی جا رہی ہے۔

حضرات قارئین کرام مذکورہ تحریر سے آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ مذہب اسلام کتنا عمدہ مذہب ہے کہ جس نے سب کے حقوق مکمل طریقہ سے بیان کردئیے ،بطور خاص عورتوں اور بڑے بوڑھوں کے سا تھ کس قدر محبت و پیار کے سا تھ پیش آنے کی ہدا یا ت وتعلیمات دی ہیں اتنی اور کسی مذہب میں نہیں دی گئی ہیں ،رہبر کامل شفیع المذنبین حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی مختصر سی حیات مبا رکہ میں کو ئی جز ایسا نہیں چھو ڑا کہ جسکو شافی وافی طریقہ سے بیان نہ کردیا ہو ،اور سب کے حقوق کو مکمل طریقہ سے واضح نہ کردیا ہو،اللہ پاک ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو خوب اچھے طریقہ سے اپنا نے اور عمل کرنے کی تو فیق عطا فر ما ئے !آمین یا رب العا لمین۔

 

 اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دیں

عبد الواجد رشیدی ندوی کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدیں صدائے حق رسالہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *