مصنف:مولانا سید محمود حسنی ندوی
حضرت مولانا محمد سالم بن مولانا قاری محمد طیب بن مولانا محمد احمد بن مولانا محمد قاسم بن اسد علی ابن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین ابو الفتح بن محمد مفتی بن عبد السمیع بن محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طہٰ ابن مفتی امان اللہ بن قاضی جمال الدین بن قاضی میراں بن قاضی مظہر الدین، جن کا سلسلۂ نسب حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)
ولدیت ،ولادت اوروالدہ ماجد ہ:
آپؒ کی ولادت بروز جمعہ بتاریخ ۲۲ جمادی الثانیہ ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ء کو دیوبند میں ہوئی۔ مولانا کے والد ماجد حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی ذاتِ گرامی سے کون واقف نہیں ہو گا؟آپ علم و کمال، حکمت و بصیرت، فہم وفراست، اخلاق و عمل، پاکیزگی وتقدس کی ایک خوبصورت تصویر، مسلکِ دیوبند کے ترجمان اور ملّت کے صالحین کی سیرت و کردار کے عکسِ جمیل تھے۔ آپ کی والدہ سہارنپور کے ایک قصبہ رامپور منیہاران کے ایک انصاری علمی خاندان کی چشم وچراغ، مولانا حافظ محمد صاحب کی دختر نیک اختر حنیفہ خاتون تھیں۔
تعلیم و تربیت:
مولانا نے اپنے والد حضرت حکیم الاسلام کی نگرانی و تربیت میں پرورش پائی، ۱۳۵۱ھ میں تعلیم کا آغاز ہوا، ناظرہ و حفظ قرآن کریم کی تکمیل جناب پیر جی شریف صاحب گنگوہی کے یہاں ہوئی، فارسی کا چار سالہ نصاب مکمل کیا، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں خلیفہ عاقلؒ ، مولانا ظہیر ؒ ، مولانا سید حسن علیہ الرحمہ تھے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسی عظیم ذات سے آپ نے میزان پڑھی، گویا آپ دنیابھرمیں حضرت تھانویؒ کے آخری خلیفہ تھے۔ علوم و فنون کی کتابوں میں کنز الدقائق حضرت مولانا سید اختر حسین میاں ؒ سے، میبذی قاری اصغر ؒ سے، مختصرالمعانی و نظم العلوم حضرت مولانا عبدالسمیع ؒ سے اور ہدایہ حضرت مولانا عبدالاحدؒ سے پڑھی۔
آپ نے ۱۳۷۶ھ میں فراغت حاصل کی، آپ کے دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی ؒ ، جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا ابراہیم بلیاویؒ اور حضرت مولانا سید فخر الحسن ؒ وغیرہ ہیں۔ (الشیخ محمد سالم القاسمی)
درس وتدریس:
ذاتی صلاحیت، علمی پختگی اور خطابی قابلیت کا نتیجہ تھا کہ تعلیمی مراحل سے فراغت کے فوراً بعد ہی دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقر ر ہوئے اور ابتداءً نورالایضاح اور ترجمہ قرآن کریم کا درس آپ سے متعلق رہا، پھر بعد میں بخاری شریف، ابوداؤد شریف، مشکوٰۃ شریف، ہدایہ، شرح عقائد وغیرہ کتابیں آپ سے متعلق رہیں،اخیر وقت تک بخاری شریف کاکچھ حصہ آپ کے زیردرس رہا۔
امتیازی کمالات:
آپ جملہ علوم و فنون میں ممتاز صلاحیتوں کے مالک، بالغ نظر، بلند فکر کے حامل تھے، علوم قاسمی کی تشریح و تفہیم میں حکیم الاسلامؒ کے بعد شاید ہی آپ کا کوئی ہم پلّہ ہو، ہمیشہ علمی کاموں کے محرک رہے، زمانۂ تدریس میں دار العلوم دیوبند میں ایک تحقیقی شعبۂ مرکز المعارف کا قیام عمل میں آیااور اس کے ذمہ دار بنائے گئے، مراسلاتی طریقہ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو جدید جامعات میں مصروفِ تعلیم طلباء و طالبات کیلئے آسان و قابلِ حصول بنانے کی غرض سے جامعہ دینیات دیوبند قائم فرمایا، جو کہ اس دور کا خوبصورت ترین طریقۂ تعلیم تھا، آپ نے قرآن کریم پر ایک خاص حیثیت سے کام کا آغاز کیا، افسوس کہ یہ عظیم فاضلانہ علمی کام شورش دار العلوم کی نذر ہو گیا، آپ کے عالمانہ وحکیمانہ خطاب کا شہرہ عہدِ شباب ہی میں ملک کی سرحدوں کو پار کر چکا تھا، علم میں گہرائی، فکر میں گیرائی، مطالعہ میں وسعت، مزاج میں شرافت اور باقاعدگی، زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ فکر و بصیرت سے منور، حکمت وفلسفہ کے رنگ میں کتاب وسنت کی بے مثال تشریح و تفہیم کا ملکہ، مدلّل اسلوبِ گفتگو وصائب الرائے، یہ وہ امتیازی کمالات ہیں جن سے آپ کی ذات مرصع و مزین تھی۔ (حیات طیب، ج:۱)
قیام دار العلوم وقف دیوبند:
۱۴۰۳ھ میں دار العلوم میں پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد آپ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے دار العلوم وقف کے نام سے دوسرا دار العلوم قائم کرلیا، جس کے شروع سے مہتمم رہے، ساتھ ہی بخاری شریف کی تدریسی خدمات کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔
عہدے و مناصب
(۱) مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ماضی میں رکن مجلس عاملہ اورپھر نائب صدر۔
(۲) سرپرست دار العلوم وقف دیوبند۔
(۳) صدر مجلس مشاورت۔
(۴) رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء لکھنؤ۔
(۵) رکن مجلسِ شوریٰ مظاہرعلوم( وقف)سہارنپور۔
(۶) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن۔
(۷) سرپرست کل ہند رابطۂ مساجد۔
(۸) سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا۔
انعامات و اعزازات
(۱) مصری حکومت کی طرف سے برصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز۔
(۲) مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ۔
(۳) حضرت شاہ ولی اللہؒ ایوارڈاور بہت سے انعامات و اعزازات سے آپ کو نوازا گیا ۔
ایک اہم کارنامہ:
مولانا کا ایک بڑا اور اہم کارنامہ دینیات کے نصاب کا قیام اور اس کی اشاعت و ترویج بھی ہے،مولانا نے جب محسوس کیا کہ بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے ادارے تو بہت ہیں اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے لئے دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے، اس مقصد کے پیشِ نظر مولانا نے جامعہ دینیات کے نام سے ایک ا دارہ قائم کیا، اور اس کے ذریعہ گھر بیٹھے دینی تعلیم حاصل کرنے کا آسان طریقہ متعارف کرایا۔
اخلاق و عادات:
آپؒ خاندانِ قاسمی کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے وارث و امین تھے، ہر جماعت اور ہر طبقے کیلئے محترم تھے باوجود یکہ ان کے خلاف باضابطہ مہم بھی چلائی گئی، ان کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کبھی تقریر یا تحریر کے ذریعہ کسی کے خلاف بولنے کے رَوا دار نہیں ہوئے، نہ غیبت کرنا جانتے تھے، نہ سننا پسند کرتے تھے، سخت ترین مخالفین کے خلاف بھی لب کشائی نہ فرماتے، مجلس میں ہوں تو با وقار، اسٹیج پر ہوں تو نمونۂ اسلاف، سفر میں ہوں تو مرنجا مرنج و خوش مزاج، مدارس کے اجلاس میں شرکت کرتے، مگر سفر کے تعب و مشقت کا قطعی تذکرہ نہیں، ہر طرح کے سفر اور محنت و مشقت کے خوگر۔
اساتذہ:
مولانا نے اپنے زمانے کے ممتاز و مایہ ناز علماء و مشائخ سے استفادہ کیا، جن میں سے کچھ یہ ہیں :
(۱) مولانا اشرف علی تھانویؒ
(۲) علامہ ابراہیم بلیاویؒ
(۳) شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ
(۴) شیخ الحدیث مولانا فخر الحسن گنگوہیؒ
(۵) شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ
(۶) حکیم الاسلام قاری محمدطیب ؒ
(۷) شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ ۔
خطابت واسفار
مولانا کا ایک اہم اور نمایاں وصف خطابت تھا اور وہ خطیب الاسلام وخطیب العصر جیسے القاب وخطابات سے یاد کئے جاتے تھے۔ چونکہ خطابت میں روانی تھی اور حلقہ معتقدین کا، اس لئے ملک و بیرون ملک دعوتی اسفار ہوتے رہے ہیں، بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دیوبند میں قیام اور تدریس و اہتمام کے ایّام کے مقابلے میں اسفار اور اجلاس، کانفرنس، سیمینار وغیرہ میں شرکت کے لئے دورے زیادہ ہیں، کئی جلدوں پر مشتمل ان کے خطبات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔
ذوقِ تحقیق و تصنیف:
کثرتِ اسفار اور بے پناہ مشغولیات کے باوجود مولانا مضمون نویسی اور تالیف و تصنیف کیلئے کچھ وقت نکالتے ، مختلف عنوانات پر بیش قیمت مقالے تحریر کرتے، کتابوں کے لئے تمہیدی مقدمات اور بے شمار تقریظات لکھتے، چند کتابیں بھی طبع ہو چکی ہیں اور بہت سارا مواد منتظر طباعت ہے۔
اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے باضابطہ طور پر اگرچہ تصنیف و تحقیق کا میدان اختیار نہ کیا، لیکن ان کے تبحر علمی سے مستفید ہو کر اربابِ علم و فضل نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں اور حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کے خطبات، مقالات، ملفوظات اور رسائل کے مجموعے انکی رہنمائی اور نگرانی میں شائع ہو چکے ہیں، ادھر قریبی عرصہ میں حجۃ الاسلام اکیڈمی کے ذریعہ بہت سے علمی کام انجام پائے ، خصوصاً سوانحی موضوعات پرزیادہ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
تعلق بیعت و ارشاد:
مولانا نے بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے قائم کیا، لیکن اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا قاری طیب ؒ سے لی، اور ان کے مجازِ بیعت و ارشاد ہو کر ان کے متوسلین اور خلفاء کی تربیت فرمائی۔ مولانا کے سلوک و ارشاد میں تربیت و اجازت پانے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، اجازت یافتہ حضرات کی تعداد۰۰ ۱؍ سے متجاوز ہے۔
اس طرح الحمد للہ علم کا وہ بحرِ بیکراں جو حضرت نانوتویؒ کے ہاتھوں کی انگلیوں سے جاری ہوا تھا، اور وہ تحریک جس کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی شمع کو روشن رکھنا تھا، اسے ان کے انتہائی لائق وفائق علمی و صلبی ورثاء نے جاری و روشن رکھا اور یہی وجہ بھی بنی کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے خانوادہ علمیہ قاسمیہ کو خانوادہ ولی اللٰہی کا متبادل بنا کر ہندوستان کے مسلمانوں کا ناخدا بنا دیا۔
افسوس کہ ۱۴؍اپریل ۲۰۱۸ء کویہ چراغ ہمیشہ کیلئے گل ہوا،نودرہ میں لاکھوں افرادنے نمازجنازہ پڑھی اورحضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒ اورحضرت مولاناقاری محمدطیبؒ کے درمیان میں مدفون ہوئے۔