مصنف: مفتی طارق امیر خاں
شریعت غرّاء میں احادیث رسول اللہؐ کو مصدر ثانی کی اساسی حیثیت حاصل ہے، جس میں نقب زنی سے حفاظت کا انتظام عہد رسالت کی ابتداء ہی سے کردیا گیا تھا اور یہ صیانت و حفاظت آپؐ کے اس فرمان کا نتیجہ تھی:
من کذب علی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار ۔ (۱)
جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔
جاں نثار صحابہ آپؐ کے اس ارشاد سے ہر دم خوف زدہ رہتے تھے اور آپؐ کا یہ دستور ہمہ وقت ان کی نگاہوں کے سامنے رہتا تھا۔ صحابہؓ کی اسی کیفیت کو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:
’’سید الکونینؐ کا یہ فرمان، محافل صحابہؓ میں اتنی شہرت اختیار کرگیا تھا کہ آج بھی کتب حدیث میں سو سے زائد ایسے صحابہؓ کے نام محفوظ ہیں، جن سے یہ روایت مسنداً (سند کے ساتھ) منقول ہے‘‘۔ (۲)
اگر ان تمام طرق اور روایات کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کا یہ فرمان ہمہ گیری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا، کیونکہ جہاں ابتدئے نبوت کی خفیہ مجالس میں اس حدیث کی سرگوشیاں تھی، وہاں اکمال نبوت یعنی خطبہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں بھی اسی اعلان کی گونج تھی، جہاں عشرہ مبشرہ اس روایت کو نقل کررہے ہیں، وہاں صحابہؓ کے عام و خاص بھی اس کو دہرا رہے تھے، صحابہؓ میں جس طرح یہ ارشاد زبان زد عام تھا، صحابیاتؓ کی مجالس بھی اس فرمان سے مزین تھیں۔
آپؐ کے اسی ارشاد کا اثر تھا کہ جب ذخیرۂ احادیث میں من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے ذریعہ رخنہ اندازی کی مذموم کوششیں شروع ہوگئیں، تو محدثین کرام نے احادیث کے صحت و سقم کے مابین ’’اسناد‘‘ کی ایسی خلیج قائم کردی، جس کی مثال امم سابقہ میں ملنا محال ہے، محدثین کرام نے احادیث کو خس و خاشاک سے صاف کرنے کے لیے یہی ’’میزان اسناد‘‘ قائم کی، جس کے نتیجے میں حدیث کے مبارک علوم وجود میں آتے رہے، ضعیف اور کذاب راویوں پر مستقل تصانیف کی گئیں، انہی متقدمین علما نے کتب العلل میں ساقط الاعتبار (غیر معتبر) احادیث کو واضح کیا، علمائے متاخرین نے بھی باقاعدہ مشتہرات (زبان زد عام روایات پر مشتمل کتابیں) ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات پر کتابیں لکھیں، چنانچہ ہر زمانے میں احادیث کا ذخیرہ محفوظ شاہراہ پر گامزن رہا، غرض کہ روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے، وہ حدیث کے محافظین خود ساتھ لایا ہے۔
پاک و ہند میں ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات اور ان کا سد باب: اگر ہم اپنے خطے برصغیر پاک و ہند کا جایزہ لیں، تو موضوعات کی روک تھام میں سرفہرست علامہ ابو الفضل الحسن بن محمد صاغانی لاہوریؒ کا نام نظر آتا ہے، ۵۷۷ھ میں وہ لاہور (پاکستان) میں پیدا ہوئے اور حدیث و لغت کی دیگر خدمات کے ساتھ خود ساختہ روایات پر دو گراں قدر کتابیں لکھی۔ ۱– الدرر الملتقط فی تبیین الغلط۔ ۲– موضوعات الصغانی۔
من گھڑت اور غیر معتبر روایات کے بنیادی عوامل: پاک و ہند میں من گھڑت اور باطل روایات کا مطالعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، جن میں یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں وہ کون سے قدیم بنیادی طبقات ہیں، جو یہاں خود ساختہ روایات کی ترویج میں راہ ہموار کرتے رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سب سے قدیم تحریر علامہ صاغانی ہی کی ملتی ہے، جس سے ہمیں بڑی حدتک اس مسئلے کے جواب میں رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ علامہ صاغانی ’’الدرر الملتقط‘‘ (۳) میں اپنی تصنیف کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وقد کثرت في زماننا الاحادیث الموضوعۃ، یرویہا القصاص علی رؤوس المنابر والمجالس، و یذکر الفقراء والفقہاء في الخوانق والمدارس، وتداولت في المحافل، واشتہرت في القبائل، لقلۃ معرفۃ الناس بعلم السنن، وانحرافہم عن السنن ‘‘۔
اس عبارت میں امام صاغانی نے موضوعات اور غیر معتبر روایات کی اشاعت میں ملوث چند عوامل کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو:
۱-قصہ گو برسر منبر اور مجالس عامہ میں من گھڑت روایتیں بیان کرتے تھے، ایسے ہی جاہل صوفیہ اور جاہل فقہا کی مجالس بھی ان باطل مرویات سے پُر تھیں۔
۲– اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ یہ خود ساختہ عبارتیں ملت سلامیہ کے ہر طبقے اور قبیلے میں رواج پاتی رہیں اور یہی کلام مجالس کی زینت بنتا رہا، بالآخر موضوعات کی یہ گرم بازاری پورے معاشرے میں سرایت کرگئی۔
۳-اس شرعی انحطاط کا باعث صرف معرفت حدیث سے دوری تھی۔
وضاعین کی اقسام اور ان کے مذموم مقاصد : علامہ صاغانی کا گزشتہ اقتباس ہماری قدیم خستہ حالی کی جیتی جاگتی تصویر ہے، جس میں مذکور طبقات ہمارے سابقہ سوال کا اجمالی جواب ہیں، مزید وضاحت کے لیے ہم علامہ عبدالحئی لکھنویؒ کے اس مقدمہ (۴) کو بہت ہی معاون پاتے ہیں، جس میں انہوں نے حدیث گھڑنے والوں کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے انہیں کئی اقسام پر تقسیم کیا، ان اقسام سے ہم بخوبی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں وہ کون سے حلقے، افراد اور گروہ ہیں، جن کے ہاں موضوع روایات کا ایک بڑا ذخیرہ جنم لیتا رہا ہے، بالفاظ دیگر یہ روایات انہیں کے راستے سے مشہور ہوئیں۔
۱– زَنادِقہ: زنادقہ، ان کا مقصد امت میں رطب و یابس پھیلاکر شریعت کو مسخ کرنا ہے، علامہ عبدالحئی لکھنوی نے اس عنوان کے تحت پاک و ہند کے ’’فرقۂ نیچریہ‘‘ اور ان کے گمراہ کن عقائد کا ذکر کیا ہے، آپ نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ فرقہ نصوص شرعیہ میں تحریف (تبدیلی) لفظی و معنوی کا مرتکب رہا ہے۔
۲– مویدین مذاہب: دوسری قسم ان افراد کی ہے، جنہوں نے اپنے مذہب اور موقف کی تائید میں روایتیں گھڑیں، اس عنوان کے تحت علامہ عبدالحئی لکھنوی نے حدیث میں خوارج کے طریقہ واردات کوبیان کیا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ بعض خوارج نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اپنے موقف اور رائے کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی احادیث گھڑی ہیں۔ یہاں برصغیر پاک و ہند میں موجود اہل سوء اور بدعتیوں کا ذکر بھی برمحل ہے، جنہوں نے اس خطے میں بہت سی محدثات (دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا) اور بدعات کو سند جواز فراہم کی اور اپنی اختراعات کے ثبوت میں من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایتوں کاسہارا لیا۔
۳– اصلاح پسند افراد: تیسرا طبقہ ان افراد کا ہے، جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے خیال سے ترغیب و ترہیب کی احادیث گھڑیں۔ اس میں علامہ لکھنوی نے ایک دلچسپ مثال بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ پاک و ہند کے بعض اصلاح پسند لوگوں نے تمباکو نوشی سے زجر و وعید پر مشتمل احادیث وضع کی ہیں، پھر موصوف نے اس مضمون پر مشتمل وضاعین کی آٹھ ایسی روایتیں لکھیں جو سب کی سب جعلی ہیں۔
۴– طبقۂ جہلاء: چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو رسول اللہؐ کی جانب ہر امر خیر، قول زریں وغیرہ کا انتساب جایز سمجھتے ہیں، حالانکہ معتبر سند کے بغیر اس طرح انتساب کرنا ہرگز جایز نہیں۔
۵– اہل غلو: ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو عقیدت و محبت میں افراط و غلو کا شکار ہوجاتے ہیں اور اہل بیت، خلفائے راشدین، ائمۂ کرام اور رسالت مآبؐ کے حوالے سے باطل، بے اصل مضامین مشہور کردیتے ہیں۔
۶– واعظین: چھٹا طبقہ ان قصہ گو واعظین کا ہے جو جعلی غرائب زمانہ سنا کر عوام سے داد تحسین وصل کرتے ہیں:
خلاصۂ کلام: خلاصۂ کلام یہ رہا کہ یہی طبقات اور افراد خطۂ پاک و ہند میں حدیث کی جعل سازی کا بیڑا اٹھائے رہے ہیں، بلکہ اس تفصیل کے بعد ہم بصیرت سے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے گرد و پیش ایسی بہت سی ہم معنی باطل احادیث پھیلی ہوئی ہیں، جو بلاتردد انہیں خاص طبقات کی مذموم کوششوں کا نتیجہ ہے۔
پاک و ہند میں تکاسل حدیث اور اس کے اسباب: اگرچہ برصغیر پاک و ہند میں زبان زد عام روایات کی تنقیح بجاطور پر ہوتی رہی ہے، لیکن پھر بھی یہ سوال، جواب کا مستحق ہے کہ پاک و ہند میں افراد امت عام طور پر احادیث میں صرف سطحی ذہن رکھنے والے ہیں اور اکثر احادیث کی چھان بین کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، آخر حدیث کے عنوان سے مزاجوں میں حساسیت اتنی مدھم کیوں رہی ہے؟
تلاش بسیار کے بعد پاک و ہند کی قابل فخر شخصیت علامہ عبدالعزیز فرہارویؒ (۱۲۳۹ھ) کی عبارت میں اس معمہ کا حل مل گیا۔ انہوں نے ’’کوثر النبی وزلال حوضہ الروي‘‘(۵) میں ایک مقام پر بعض ایسی کتب تفسیر، کتب زہد، کتب اوراد وغیرہ کا تذکرہ کیا، جن میں مقدوح اور غیر معتبر احادیث بھی ہیں، پھر ان کتابوں میں موجود ساقط الاعتبار احادیث کے اسباب ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
والسبب انہ قل اشتغالہم بصناعۃ الحدیث، وانہم اعتمدوا علی المشہور في الالسنۃ من تحسین الظن بالمسلم وانہم انخدعوا بالکتب الغیر المنقحۃ الحاویۃ للرطب والیابس، وانہ لم یبلغہم وعید التہاون في روایۃ الحدیث، وایضًا منہم من یعتمد علی کل ما اسند مـن غیـر قـدح وتعدیـل في الرواۃ ۔
(ان کتب میں رطب و یابس احادیث کی) وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کے مصنّفین فن حدیث سے کم اشتغال رکھتے ہیں اور مسلمان سے حسن ظن رکھتے ہوئے زبان زد عام روایتوں پر بھروسہ کرلیتے ہیں (حالانکہ ایسا اعتماد صرف ماہر فن پر ہی کیا جاسکتا ہے، نہ کہ حدیث میں کم اشتغال رکھنے والے پر) اور یہ مصنّفین رطب و یابس پر مشتمل، غیر منقح کتابوں سے دھوکے میں پڑجاتے ہیں اور (ان کے بارے میں یہی حسن ظن ہے کہ) ان مصنّفین کو حدیث نقل کرنے میں تہاون (حقیر سمجھنا) کی وعید نہیں پہنچی ہوگی اور بعض مصنّفین سند کے راویوں کی جرح و قدح دیکھے بغیر ہر سند والی روایت پر اعتماد کرلیتے ہیں۔
اسباب تکاسل کا جایزہ: دراصل علامہ عبدالعزیز فرہاروی نے جن کتب حدیث و تفسیر وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے، یہ کتب برصغیر میں متداول اور مروج ہیں اور ان کتابوں کے مولفین کی جلالت اور علوے شان بلاشبہہ مسلم ہے، لیکن اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان مولفین کا فن حدیث میں اشتغال ناقص رہا ہے، چنانچہ صاحب کتاب کی یہ کمزوری عوام میں بھی سرایت کرتی رہی اور احادیث موضوعہ معاشرے میں پھیلتی رہیں، بہرحال ذیل میں ہم مولانا فرہاروی کے بیان کردہ نکات اور ان سے ماخوذ نتائج کا جایزہ لیتے ہیں۔
فن حدیث میں اشتغال کی کمی: ان مصنّفین کی تالیفات میں رطب و یابس روایات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان مولفین نے علوم حدیث سے ایسا اشتغال نہیں رکھا جس سے ان میں اصول حدیث کے مطابق، حدیث کے رد و قبول کا ملکہ اور اسے پرکھنے کی قابلیت پیدا ہوجاتی ، حتی کہ ہمارے زمانے میں بھی معتدبہ تالیفات اس بات کی مقتضی ہیں کہ ان کے مولفین احادیث کے معاملہ میں محض تحویل (حوالہ دینا) پر اکتفا نہ کریں، بلکہ حسب ضرورت اس بات کا پورا اطمینان حاصل کریں کہ یہ حدیث معتبر سند سے ثابت ہے۔
محض حسن ظن کی بنا پر روایات پر اعتماد: ان کتابوں میں باطل اور بے اصل روایتوں کے شیوع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان مصنّفین کے نفوس قدسیہ ہر مسلم کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے، اور زبان زد عام روایتوں کو حسن ظن کی بنا پر بلاتحقیق قبول کرلیتے تھے۔
واضح رہے کہ اس مقام پر مولانا عبدالحئی نے لکھا ہے حدیث میں اعتماد کا مدار صرف ماہرین فن ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص صناعت حدیث میں مہارت نہیں رکھتا ہو، تو ایسے شخص پر بلاتحقیق حسن ظن سے اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (۶)
تہاون حدیث پر وعید سے ناآشنائی: ان کتب میں قابل رد مواد کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات تہاون حدیث (یعنی روایت حدیث میں پوری احتیاط سے کام نہ لینا) کی وعیدوں سے واقف نہیں ہوں گے، بلاشبہہ ان حضرات کی علوے شان اسی حسن ظن کی مقتضی ہے، البتہ اس تہاون سے اجتناب کی اہمیت اپنی جگہ ہے، خاص طور پر عوامی حلقوں میں اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے کہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد یہ محسوس کررہا ہو کہ میں رسالت مآبؐ کی طرف ایسی بات ہرگز منسوب نہ کروں جو آپؐ سے ثابت نہ ہو، تاکہ من کذب علي متعمداً …. کا مصداق بننےسے بچ جاؤں، ورنہ یہی تہاون نہ صرف غیر مستند روایات کو پھیلانے میں کام آتا ہے بلکہ ان روایتوں کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
تحقیق کا فقدان: ان تالیفات میں جو احادیث مسند (سند والی روایات) تھیں، ان میں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ فن جرح و تعدیل کی روشنی میں اس کا جایزہ لیا جائے تاکہ قابل احتراز روایتیں ظاہر ہوجاتیں۔
ایک اہم فایدہ: اگر ہم بھی اپنے گرد و پیش کا جایزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ علم الروایہ (علم حدیث) میں ہمارا منتہیٰ صرف سند حدیث پانا ہے، اس کے بعد ہم کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، حالانکہ صاحب کتاب سند بیان کرکے ایک حدتک اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتا ہے، اب اگلا مرحلہ ہم سے متعلق ہے کہ ہم حسب ضرورت متقدمین اصحاب تخریج اور ائمۂ علل کی جانب رجوع کریں اور روایات کے قابل تحمل (روایت لینا) ہونے کا پورا اطمینان حاصل کریں۔
حاصل کلام: سابقہ اسباب تکاسل خطہ پاک و ہند میں موضوعات کی اشاعت اور ان کی ترویج میں انتہائی موثر رہے ہیں، بلکہ اگر ان اسباب کے سد باب کے لیے اکابر کے طرز پر عملی اقدامات جاری رکھے جائیں تو کافی حدتک اس ساقط الاعتبار ذخیرے کی روک تھام ہوسکتی ہے۔
من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے سد باب میں علمائے پاک و ہند کی خدمات: سابقہ اقتباسات سے ہمیں من گھڑت روایات کی اشاعت میں ملوث بہت سے گروہوں اور طبقات کا بخوبی علم ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ ان کے اغراض، افکار اور طریقۂ کار بھی وضاحت سے سامنے آگئے، لیکن واضح رہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ عمائد امت نے اس فتنہ کے سدباب کے لیے اپنی خدمات پیش نہ کی ہو، بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر ایسے شب و روز بھی آئے ہیں، جن میں صیانت حدیث کا تاج علمائے برصغیر کے سررہا ہے، چنانچہ علامہ الکوثری فرماتے ہیں:
’’دسویں صدی ہجری کے نصف آخر میں جب کہ علم حدیث کی سرگرمیاں ماند پڑگئی تھیں، برصغیر میں یہ سرگرمیاں عروج پر تھیں‘‘۔ (۷)
گویا یوں کہنا چاہیے کہ اس وقت عالم اسلام کی سربراہی کی سعادت برصغیر کو حاصل رہی ہے، بہرحال یہاں ہم پاک و ہند کے ان چند مشہور مشائخ کا مختصر تذکرہ کریں گے، جنہوں نے زبان زد عام و خاص روایات کی حقیقت واضح کی اور ذخیرۂ احادیث میں تنقیح کی خدمات انجام دیں۔
امام رضی الدین ابوالفضائل الحسن بن محمدؒ (م۵۷۷ھ): ان کی تالیفات ’’الدرر الملتقط‘‘ اور ’’رسالہ موضوعات الصغانی‘‘ کا شمار فن ہذاکے اولین مصادر میں ہوتا ہے۔ مشتہرات پر مشتمل شاید ہی کوئی کتاب موصوف کے اقوال سے خالی ہو۔
ملک المحدثین علامہ محمد طاہر صدیقی پٹنیؒ (م ۹۸۶ھ): انہوں نے اس فن میں ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ اور ’’قانون الموضوعات‘‘ لکھیں، بلاشبہہ مشتہرات کا یہ مجموعہ ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔
امام علامہ سید محمد بن محمد حسینی زبیدی الشہیر بمرتضیؒ (م ۱۲۰۵ھ): انہوں نے ’’اتحاف السادۃ المتقین‘‘ میں ’’احیاء علوم الدین للغزالی‘‘ کی احادیث پر تخریج و تشریح میں محدثانہ شان کا مظاہرہ کیا ہے، اہل علم طبقہ بالخصوص پاک و ہند میں اس سے مستغنی نہیں رہ سکتا۔
امام عبدالعزیز بن احمد فرہارویؒ (م ۱۲۳۹ھ): انہوں نے بھی تقریباً دو ہزار موضوع اور زبان زد عام روایتوں پر مشتمل مجموعہ تیار کیا ہے، فی الحال یہ مخطوطہ ہے، ان کے بارے میں مولانا موسیٰ خان روحانی بازیؒ کہتے ہیں کہ اگر میں اس بات پر قسم کھاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے سرزمین پنجاب کو جب سے وجود بخشا ہے، ان جیسی کسی دوسرے شخصیت نے یہاں جنم نہیں لیا تو میں حانث نہیں ہوں گا۔ (۸)
علامہ ابوالحسنات محمد عبدالحئی لکھنویؒ (م ۱۳۰۴ھ): علامہ کی شخصیت اور حدیثی خدمات محتاج تعارف نہیں، اس فن میں انہوں نے ’’الآثار المرفوعۃ في الاخبار الموضوعۃ‘‘ کے نام سے یادگار چھوڑی ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ (م ۱۲۸۰ھ؍ ۱۳۶۲ھ): انہیں امراض امت کی پہچان اور اس کے علاج میں وہبی بصیرت حاصل تھی، انہوں نے پاک و ہند میں من گھڑت و بے بنیاد روایتوں کا سد باب عملاً بھی کیا اور عوام کو بھی اس سے اجتناب کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ بہشتی زیور حصہ دہم میں یہ عنوان قائم کیا ہے ’’بعضی کتابوں کے نام جن کے دیکھنے سے نقصان ہوتا ہے‘‘ اس عنوان کے تحت ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دعائے گنج العرش، عہدنامہ یہ دونوں کتابیں اور بہت سی ایسی ہی کتابیں ایسی ہیں کہ ان کی دعائیں تو اچھی ہیں، مگر ان میں جو سندیں لکھی ہیں اور ان میں حضرت رسول اللہؐ کے نام سے لمبے چوڑے ثواب لکھے ہیں، وہ بالکل گھڑی ہوئی باتیں ہیں‘‘۔ (۹)
اسی طرح مولانا تھانوی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ سلوک و تصوف کی مجالس میں ایک معتدبہ تعداد بے اصل روایتوں کی ہیں، چنانچہ انہوں نے ’’التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف‘‘ میں ایسی بہت سے روایات پر روایتی اور درایتی پہلوؤں سے بحث کی ہے، جو درجۂ اعتبار سے ساقط ہیں۔
ایک اہم اقتباس: یہ مختصر اور محدود مقالہ اس کی مزید گنجائش رکھنے سےقاصر ہے کہ ہم اکابر پاک و ہند کی متعلقہ موضوع میں تاریخی خدمات سے تفصیلی بحث کریں، البتہ اگر کوئی فرد علامہ عبدالحئی الحسنیؒ کی تصنیف ’’نـزہـۃ الـخـواطـر وبـہـجـۃ الـمسامـع والنـواظـر‘‘ کو سامنے رکھ کر ان محدثین کرام کی خدمات کو جمع کرے، جنہوں نے باطل اور من گھڑت روایتوں کا تعاقب کیا ہے، تو یہ کام نہ صرف ہمارے اسلاف کے منہج کی جانب رہنمائی کرے گا بلکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ان مخطوطات کی جانب بھی رہنمائی کرے گا، جو آج دیمک اور گرد و غبار سے تحلیل ہوتے جارہے ہیں، بلاشبہہ نت نئی تحقیقات، شروحات، تسہیلات وغیرہ ناگزیر تالیفات ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج جن مخطوطات کو ہم محفوظ کرسکتے ہیں، کل ان کا نام ’’حسرات زمانہ‘‘ کی فہرست میں شامل کردیا جائے۔
اپنی رائے نیچے کمینٹ میں ضرور دے
مفتی طارق امیر خاں کے مزید مضامین سبسے پہلے پڑھنے کے لئے خریدے معارف رسالہ
——————————————-
حوالہ جات و ماخذ
(۱) الجامع الصحیح للبخاری : باب اثم من کذب علی النبیؐ ، ۱؍۳۳، رقم الحدیث: ۱۰۷، ت: محمد زہیر بن الناصر، دار طرق النجاۃ، بیروت، الطبعۃ الاولی ۱۴۲۲ھ۔ (۲) اللآ لی المصنوعۃ: ص ۳۵، ت: محمد عبدالمنعم رابح، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۲۸ھ۔ (۳) الدرر الملتقط، بحوالہ مجلہ ’’فکر و نظر‘‘، ص ۷۶، خصوصی اشاعت، ربیع لاول- شعبان ۱۴۲۶ھ، ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی، اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، پاکستان۔ (۴) الآثار المرفوعۃ، ص ۱۲، دارالکتب العلمیۃ، بیروت۔ (۵) کوثر النبی وزلال حوضہ الروی (فن معرفۃ الموضوعات): ص ۱۰۸، المخطوطہ، نسخہ العلامہ عبداللہ الولہاری (۱۲۸۳ھ)۔ (۶) الآثار المرفوعۃ، ص ۱۹، دارالکتب العلمیۃ، بیروت۔ (۷) مقالات الکوثری، ص ۶۷، دارالسلام، مصر، الطبعۃ الثانیۃ، ۱۴۲۸ھ۔ (۸) بغیۃ الکامل السامی فی شرح المحصول والحاصل للجامی، ص ۲۲۷، مکتبۃ مدینہ ، لاہور، پاکستان، الطبعۃ الخامسۃ ۱۴۱۴ھ۔ (۹) بہشتی زیور، ص ۷۰۴، حصہ دہم، دارالاشاعت، ایم اے جناح روڈ، اردو بازار، کراچی۔