مصنف: ابو سعد اعظمی
انیسویں اوربیسویں صدی عیسوی اس لحاظ سے کافی اہمیت کی حامل رہی ہیں کہ اس دور میں جرمن محققین نے اسلامی موضوعات اور بالخصوص سیرت نبویؐ کو دلچسپی کا موضوع بنایا۔ سیرت ابن ہشام کا جرمن زبان میں ترجمہ ہوا۔ رسول اللہؐ کی زندگی، مدینہ میں اسلامی جماعت کی تشکیل، غزوات النبیؐ وغیرہ جیسے موضوعات پر ان کی تحریریں سامنے آئیں اور سیرۃ النبیؐ کے موضوعات پر موجود اسلامی سرمایہ کا ان میں چلن عام ہوا۔ انسائیکلوپیڈیا اور نصابی کتابوں میں اس موضوع پر انہوں نے تحریریں فراہم کیں۔
قطع نظر اس سے کہ اس ضمن میں ان کا اسلوب معروضی تھا یا نہیں ،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام، تاریخ اسلام اور مشاہیر اسلام کے ضمن میں دیگر مغربی مستشرقین کی طرح جرمن مستشرقین سے بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر زبردست غلطیاں ہوئی ہیں اور اسلامی موضوعات پر اپنی تحقیقات میں وہ انصاف نہیں کر پائے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تحقیق و تدوین کے میدان میں ان کی کاوشوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی گرفت ممکن بھی ہے اور ضروری بھی مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ ان کی تحقیقات سے اسلامی علمی سرمایہ میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔
سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر جرمن مستشرقین کی بحث وتحقیق اور ان کے نقطۂ نظر کو منظر عام پر لانے کے مقصد سے فاس (مراکش) میں سیدی محمد بن عبداللہ یونیورسٹی کے شعبہ آداب وعلوم انسانی نے ایسیسکو کے تعاون سے ۲۳۔ ۲۴۔ ۲۵؍ اپریل ۲۰۰۷ء میں ایک سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا۔ اس میں اس موضوع سے متعلق گراںقدر مقالات پیش کیے گئے۔ ان میں جرمن مستشرقین کے یہاں سیرۃ النبیؐ سے متعلق موضوعات پر بحث وتحقیق کی تاریخ، مطالعۂ سیرت کے باب میں جرمن مستشرقین کا منہج، جرمن ادب میں سیرۃ النبیؐ، کتب سیرت کے جرمن تراجم، دائرۃ المعارف میں سیرۃ النبیؐ پر مقالات، جرمن زبان میں سیرۃ النبیؐ سے متعلق سرمایہ، جرمن مستشرقین کی سیرتی کاوشوں سے متعلق عربی زبان میں موجود تحریری مواد، سیرۃ النبیؐ کے سرمایہ کی تحقیق میں جرمن اصحاب علم کی کاوشیں جیسے متنوع موضوعات کو موضوع بحث بنایا گیا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ایسیسکو نے ان مقالات کی اشاعت کا فیصلہ کیا اور ۲۰۱۱ء میں یہ مجموعۂ مقالات ’’السیرۃ النبویۃ فی الکتابات الالمانیۃ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آگیا۔
یہ کتاب ۲۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں پیش لفظ، سیمینار کے مختلف اجلاسوں کی مکمل رپورٹ، افتتاحی اجلاس اور تجاویز، عربی ، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں سیمینار کا جاری کردہ دعوت نامہ، افتتاحی اجلاس کی تفصیلات کے علاوہ چار مرکزی عناوین کے تحت کل پندرہ مقالات شامل ہیں۔ ان عناوین کو یوں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ مطالعہ سیرت کے باب میں مستشرقین کا منہج، ۲۔ سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر جرمن مستشرقین کی تحقیقی وتصنیفی کاوشیں، ۳۔سیرتی تصانیف سے متعلق جرمن مستشرقین کے جدید رجحانات، ۴۔ جرمن ادب اور جرمن میڈیا میں سیرۃ النبیؐ۔ یہ مقالات سیرۃ النبیؐ کے تعلق سے جرمن مستشرقین کی خدمات کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ذیل میں اس کتاب کا ایک تعارفی مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلا مقالہ ڈاکٹر خالد زہری کا ہے۔اس کا عنوان ہے ’’جرمن مستشرقین کا منہج مطالعۂ سیرت- تصوف کے آئینہ میں‘‘ بیس صفحات پر مشتمل اس مقالہ میں تصوف کے آئینہ میں سیرت کے امتیازی پہلوکو واضح کیا گیا ہے اور اسے شریعت،طریقت اور حقیقت کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔ مقالہ کا خیال ہے کہ سیرت کا روحانی پہلو ہی اسے تاریخ کی سطح سے بلند کرتا ہے اور مسلمانوں کے ایمانی محرکات کو مسلسل مہمیز کرنے کا کام کرتا ہے۔
روح نبوت جسے اہل تصوف ولایت سے تعبیر کرتے ہیں اور شیخ اکبر کے نزدیک اہل نظر کے یہاں اسے اختصاص کہا گیا ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ سیرۃ النبیؐ کے اس متصوفانہ عرفانی نقطۂ نظر کی وجہ سے انسان کامل کا نظریہ سامنے آیا اور عبد الکریم الجیلی نے اپنی کتاب ’’الانسان الکامل فی معرفۃ الاواخر والاوائل‘‘ میں اس کے مختلف عناصر کو جمع کردیا۔ یہ کتاب بہت سے مستشرقین کی تحقیق کا موضوع بنی۔ بالخصوص جرمن مستشرق ہلموت ریتر (Hellmut Ritter– 1971–1892) نے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں شامل اپنے ایک مقالہ میں اسے خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے۔ عبدالکریم الجیلی نے اس کتاب میں واضح کیا ہے کہ ذات محمدی ظاہر وباطن سے عبارت ہے اور اس کے صحیح فہم کے لیے ان میں سے کسی سے بھی استغناء ممکن نہیں، خواہ اس کا تعلق سیرت و شمائل سے ہو یا اوامر و نواہی سے۔
یہی نظریہ بہت سے جرمن مفکرین وفلاسفہ کے افکار کا سرچشمہ ہے انہی میں ایک معاصر نام محمد کالیش (Mohammed Kalisch 1966) ہے جس کے نزدیک انسان کامل کا نظریہ محمدؐ کی ذات سے محبت اور آپؐ کی سیرت کی اقتداء میں جلوہ گر ہے۔ کارٹون کے ذریعہ اللہ کے رسولؐ کی شان میں گستاخی کے موقع پر اس نے اپنے ایک مقالہ میں تحریر کیا کہ یہ واقعہ ہے کہ پورا عالم اسلام نبی کی ذات میں بہترین اسوہ اور انسان کامل پاتا ہے اور اس کی اقتداء ہر مسلمان پر فرض ہے، لہٰذا مسلمان کے دل میں نبی کریمؐ کے تئیں محبت واکرام کا جو جذبہ ہے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے (ص ۱۱) مقالہ نگار نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ صوفیہ کی تحریروں میں اس طرح کے اشارات موجود ہیں کہ بعض صوفیہ کو رسولؐ سے ملاقات اور گفتگو کا بھی شرف حاصل ہوتا ہے،جسے کوتاہ فہم اور ظاہری الفاظ تک محدود رہنے والے افراد رسولؐ سے حقیقی ملاقات پر محمول کر لیتے ہیں۔ حالانکہ لقاء سے مراد ان روحانی جہات کا عرفانی جلوہ ہے جو رسولؐ کی سیرت کے ہر چھوٹے بڑے پہلو سے وابستہ ہے۔
مقالہ نگار نے اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے مشہور عارف ابو عبداللہ محمد بن علی الحکیم الترمذی کی تصنیف ’’ختم الاولیاء‘‘ کا تذکرہ کیا ہے۔ان کے نزدیک نبی اور ولی دونوں کی سیرت کے درمیان کوئی فرق نہیں، سوائے اس کے کہ نبی کا اللہ سے تعلق بذریعہ وحی ہوتا ہے، جب کہ ولی کا اللہ سے تعلق بذریعہ الہام ہوا کرتا ہے (ص ۱۳)۔ پھر اس فکر کے پس منظر کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بیرند رانکہ (Bernd Radtke–1944)، ہامربورجشتال (Josef Von Hammer – Rugtall: 1884–1774) ، جوتہ (Goethe: 1832–1740)، برند نومائیل فایشر (Bernd M. Weischer) ، ریسکہ (Johann Jakob Reiske:1774–1716)، فریدریک شلیجل (Friedrich Schlegel:1829–1772) ، ہانس جورج (Hans Georg Gadamer: 2002–1900) اور دیگر جرمن مستشرقین کے نقطۂ نظر سے بحث کی ہے اور مشہور جرمن مستشرق ہلموت ریٹر کے نقطۂ نظر کا اس کی تحقیق شدہ کتاب ’’کتاب مشارق انوار القلوب ومفاتح اسرار الغیوب‘‘ کے حوالہ سے تفصیلی جایزہ لیا ہے۔ مقالہ نگار نے اس باب میں یہ صراحت کی ہے کہ یہ نابغۂ روزگار جرمن مستشرق عربی، فارسی، ترکی اور مشرقی زبانوں کے ذریعہ اسلامی سرمایہ کی تہ میں اترنے والا سب سے نمایاں مستشرق ہے۔ البتہ نبیؐ اور ان کے وارثین اولیاء کے درمیان تعلق کی نوعیت کا فہم اسے بھی حاصل نہ ہوسکا اور سیرۃ الاولیاء کی روشنی میں سیرۃ النبیؐ کے دائمی تسلسل کے ادراک سے وہ قاصر رہا (ص ۱۹)۔ اس مقالہ میں تصوف کی اصطلاحات کے بارے میں مستشرقین کی نارسائیوں کا تذکرہ بھی ہے اور بعض ایسے امور پر روشنی ڈالی گئی ہے جو عام قاری کے فہم سے بالا تر ہیں۔
دوسرا مقالہ ’’نبوت محمدیؐ کے باب میں جرمن مستشرق نولدیکی کا نقطۂ نظر‘‘ کے عنوان سے ہے جیسا کہ عنوان ہی سے واضح ہے، اس میں نبوت محمدی ؐسے متعلق نولدیکی (Theodor Nodeke: 1931–1830) کے افکار کا جایزہ پیش کیا گیا ہے۔ نولدیکی کے تعارف کے بعد یہ واضح کیا گیا ہے کہ اپنی تمام تر شہرت وآفاقیت کے باوجود سیرت کے تعلق سے اس نے بڑی فاش غلطیاں کی ہیں۔ اس لیے کہ علوم وفنون کی معرفت الگ ہے اور اس کے ساتھ انصاف کرنا دوسری چیز ہے (ص ۳۲)۔ اس کے فکر میں انحراف ،تعصب اور عدم معروضیت صاف نظر آتی ہے۔
نولدیکی کے تنقیدی و تشکیکی رجحان میں مبالغہ آرائی ہے۔ اس کے یہاں صحیح روایات کے انکار اور ان میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کثرت سے نظر آتی ہے۔اس کا خیال ہے کہ احادیث نبویہ میں یہودی ونصرانی اثرات ملتے ہیں۔ اس سے قبل جرمن مستشرق ابراہم غا یغر (Abraham Geiger: 1874–1810) نے بھی اپنی کتاب ’’قرآن نے یہودیت سے کیا لیا‘‘ میں ا س طرح کے اعتراضات اٹھائے تھے جو استشراقی تحقیق میں ایک نئی بحث کا آغاز تھی۔ اس کا مقصد قرآن کریم کے ان اجزاء کی تلاش و جستجو تھی جو یہودیت سے ماخوذومستفاد نظر آتے ہیں۔ مقالہ نگار نے صراحت کی ہے کہ نولدیکی نے بعض رواج پذیر شکوک و شبہات کی تضعیف کی ہے، لیکن اس نے جو شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں ان کی زد اسلامی اساس و مسلمات پر پڑتی ہے۔
مقالہ نگار نے ’’اہل کتاب سے استفادہ‘‘ کے جلی عنوان کے تحت نولدیکی کے نقطۂ نظر سے بحث کی ہے۔نولدیکی کا خیال ہے کہ قرآن کریم یہودی افکار ونظریات سے متاثر ہے اور اس میں یہودی شعائر واصطلاحات شامل ہیں۔اسی طرح قصص انبیاء اور ان کے اسما یہود سے ماخوذ ہیں، جبکہ کلمہ کا صیغہ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ بھی یہودیت سے ماخوذ ہے (ص ۳۵)۔ نبی کریمؐ پڑھنا لکھنا جانتے تھے یا نہیں؟ اس ضمن میں صلح حدیبیہ سے متعلق تاریخی دستاویزات کا جایزہ لینے کے بعد نولدیکی قرآنی الفاظ پر توقف کرتے ہوئے یہ نتیجہ پیش کرتا ہے کہ آپؐ امی تھے۔ فاضل مقالہ نگار نے پورے مقالہ میں نولدیکی کے افکار کا تنقیدی جایزہ پیش کرکے اس کے اعتراضات کو دور کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔
’’مستشرقین کے نزدیک سیرت نگاری میں اسقاطی مادی منہج کے نقوش‘‘ کے عنوان سے تیسرے مقالہ میں جرمن مستشرق ولہاوزن (Julius Wellhausen: 1918–1844) کی سیرت سے دلچسپی کا مختصر تعارف اور سیرۃ النبیؐ اور تاریخ اسلام سے اس کی دلچسپی کا ذکر ہے۔
مقالہ نگار کا خیال ہے کہ استشراقی تحقیقات سے دلچسپی رکھنے والے علوم اسلامیہ کے بعض مغربی محققین کی نگاہ میں اسقاط ایک قابل اعتماد منہج ہے۔ منہج اسقاط سے کیا مراد ہے اس کی تشریح اس طرح کی گئی ہے کہ جدید ماہرین نفسیات کے نزدیک اسقاط کی تعریف یہ ہے کہ مختلف حالات، نقطہ نظر اور واقعات پر اپنے تجربات وجذبات کو مسلط کرکے اور اپنے نقطۂ نظر سے اسے دیکھ کر اس کی تشریح کی جائے ۔نبی کریمؐ کے متعلق ولہاوزن کے جو دس بڑے شبہات تھے، ان کا ذکر کرکے انہیں رفع کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔ آخر میں ان غلط فہمیوں کا جواب چار نکات میں پیش کر دیا گیا ہے۔
چوتھا مقالہ ’’معراج اور علم کلام کا آغاز -یوسف فان ایس کا نقطۂ نظر‘‘ کے عنوان سے ہے جو ڈاکٹر احمد بوعود کا تحریر کردہ ہے۔ اس کی ابتدا میں فان ایس (Josef Van Ess :1934) کا مختصر تعارف اور اس کی تصنیفی خدمات کا تذکرہ ہے۔پھر معراج ورویت باری تعالی اور معراج وعلم الکلام کے آغاز پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ فان ایس کے مطابق معراج سے متعلق جو احادیث وآثار ہمیں ملتے ہیں ان کا تعلق بعد کے دور سے ہے۔
ان روایا ت کا سرچشمۂ عراق ہے جس میں جزیرہ عرب کی بہ نسبت اس موضوع کا زیادہ عموم ہوا اور عراق کے بعد ایران میںاس کی اشاعت ہوئی۔ فان ایس نے اشارہ کیا ہے کہ جومتون اس تعلق سے معروف ہیں،ان کا سلسلہ بلخ سے ہے۔ تحلیل وتجزیہ کے بعد فان ایس نے اپنا نقطۂ نظر یہ پیش کیا ہے کہ کسی کا یہ اعتقاد نہیں کہ رسولؐ نے اپنے رب کو دیکھا تھا، بلکہ آپؐ نے پس حجاب آواز سنی تھی۔ اسی طرح کسی کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ واقعۂ معراج صرف خواب تھا جو آپؐ کو دکھا یا گیا، بلکہ اس کی حیثیت حقیقی واقعہ کی ہے اور یہ معجزہ ہے۔ آخر میں فاضل مقالہ نگار نے اپنے ملاحظات چھ نکات کی صورت میں پیش کیا ہے۔
’’سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر جرمن مستشرقین کی بحث وتحقیق‘‘ کے مرکزی عنوان کے تحت پانچ مقالات ہیں۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر عبدالعزیز شاکر حمدان الکبیسی کا ہے جس کا عنوان ہے ’’سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر جرمن مستشرقین کی تصنیفی کاوشیں- تحلیل وتجزیہ‘‘۔ موضوع کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ درحقیقت سیرت نبوی پر جرمن مستشرقین کی خدمات کو منظر عام پر لانے کی ایک کوشش ہے۔ اس میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہوں نے اس موضوع پر کوئی کتاب لکھی ہے اور ان کے امتیازی اوصاف کو اجاگر کیا گیاہے ۔ اسی طرح ان کے نقائص اور شعوری طور پر سرزد غلطیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے (ص ۶۹)۔
مقالہ نگار نے الگ الگ دو فصلیں قائم کی ہیں، پہلی فصل میں ان مصنّفین کا تذکرہ ہے جنہوں نے سیرت کے موضوع پر کوئی کتاب تصنیف کی ہے۔ ان کے اسماء، مختصر حالات زندگی، تصنیفی خدمات اور سیرت کے موضوع پر ان کی تصانیف کا اجمالاً تذکرہ ہے اور دوسری فصل میں انصاف پسند اور متعصب جرمن مستشرقین پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے منہج کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ابتداء میں مقالہ نگار نے یہ صراحت کر دی ہے کہ ان کے پیش نظر سیرتی مباحث میں جرمن مستشرقین کی تصانیف کا احاطہ نہیں ہے، بلکہ جہاں تک ان کی رسائی ہو سکی ہے ان کا تذکرہ کردیا گیا ہے۔ ذیل میں مقالہ میں مذکور جرمن مستشرقین اور ان کی تصانیف کا مختصر جایزہ پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱۔ انا ماری شیمل (Annemarie Schimmel: 2003–1922) : مولف ’’محمد نبی اللہ أو الرسول فی الاسلام‘‘۔
۲۔أوتوبرنسل(Otto Pretzl: 1941–1893) : مولف ’’محمد ﷺ بوصفہ شخصیۃ تاریخیۃ‘‘۔
۳۔ أوجست فشر (August Fisher: 1949–1865): مولف ’’محمد واحمد ﷺ اسمان للنبی العربی‘‘۔
۴۔رودلف اشتروطمن (Rudolf Strothmann: 1940–1877) : مولف ’’بدرو احد وکربلا‘‘۔ مقالہ نگار نے صراحت کی ہے کہ مجھے اس بحث کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہے کہ اس کا تعلق نبی کریمؐ کے دونوں غزوات سے ہے یا اس کی گفتگو کا مرکز کربلا او ر امام حسینؓکی شہادت ہے۔
۵۔ریسکہ (Johann Jakob Reiske: 1774:1716) : مقالہ نگار نے یہ صراحت کی ہے کہ اس کے پیش رو مستشرقین نے اسلام اور نبی اسلام کی جو مسخ شدہ تصویر پیش کی تھی اس کی تصحیح کا سہرا اسی کے سر ہے۔اپنی تصانیف میں اس نے دین اسلام کی تحسین کی ہے اور نبی کریمؐ سے متعلق الزامات کی تردید بھی ہے۔اس کا خیا ل ہے کہ نبی کریمؐ کی بعثت اور دین اسلام کا غلبہ تاریخ عالم کا ایسا نادر واقعہ ہے جس تک عقل انسانی کی رسائی ممکن نہیں ۔اس نے پوری جرأت سے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔اسی وجہ سے ارباب کلیسا اس کے خلاف صف آراء ہوگئے اور اسے زندیق قرار دیا (ص ۷۵)۔ البتہ سیرت کے موضوع پر اس کی کسی کتا ب کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔
۶۔اسپرنگر (Aloys Sprenger: 1892:1813) : اس کی کتاب ’ ’محمدﷺ کی حیات اور تعلیمات‘ ‘ کے عنوان سے ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔
۷۔فایل گوستاف (Gustav Weil: 1889:1808) : فایل گوستاف نے بہت سی کتابوںکا جرمن میں ترجمہ کیا ہے۔اس میں ابن ہشام کی ’’السیرۃ النبیۃ‘‘بھی شامل ہے۔سیرت کے موضوع پر تصنیف کرنے والے چند مشہور جرمن مستشرقین میں گوستاف کا نام بھی شامل ہے۔ اس کی چند نمایاں تحریریں اس طرح ہیں:
(الف) آغاز نبوت سے متعلق ایک واقعہ کے بارے میں رینو کو خط۔مجلہ آسیویہ مئی ۱۸۴۳ کے شمارے میں یہ شائع ہواہے۔
(ب) النبی محمدؐ ۔ حیاتہ و مذہبہ: ابن ہشام کی السیرۃ النبویۃ، علی بن برہان الدین الحلبی کی ’’انسان العیون فی سیرۃ الامین والمامون‘‘ جو سیرت حلبیہ کے نام سے معروف ہے اور حسین دیار بکری کی ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ پر اس کا انحصار رہا ہے۔ فایل کی اس کتاب کا شمار سیرت اور پیغام سیرت پر تحریر کرنے والے جدید مستشرقین کی ابتدائی کتب میں ہوتا ہے۔ عبدالرحمٰن بدوی کی تصریح کے مطابق اس کتاب میں زبردست علمی خیانت کی گئی ہے اور تاریخی حقائق سے اغماض برتا گیا ہے۔ گوستاف فایل کا خیال ہے کہ (نعوذ باللہ) آپؐ کو مرگی کی بیماری تھی۔
۸۔ کارل بروکلمان (Carl Brockelman: 1956–1868) : کارل بروکلمان کا شمار نمایاں ترین جدید مستشرقین میں ہوتا ہے۔ اس کی تالیف کردہ کتاب ’’تاریخ الادب العربی‘‘ کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کو مختلف عربی علوم وفنون کے مخزن کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں مخطوطات، اس کی نوعیت اور اس کے محل وقوع وغیرہ کی تفصیلات ہیں ۔ اسی طرح ’’تاریخ الشعوب الاسلامیۃ‘‘ کے نام سے بھی اس کی اہم کتاب ہے، جسے منیر البعلبکی اور منبہ امین فارس نے عربی کا قالب عطا کیا ہے۔ یہ کتاب ۹۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ماقبل اسلام سے لے کر چودہویں صدی ہجری کے نصف تک عربوں کی تاریخ کا جایزہ لیا گیا ہے اور اس پورے عرصہ میں مسلمانوں کے سیاسی وثقافتی احوال کا احاطہ کیا گیا ہے، البتہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس نے جگہ جگہ ٹھوکریں کھائی ہیں اور معروضیت کا لحاظ نہیں رکھ سکا ہے۔ کہیں کہیں اس نے شعوری طور پر بھی علمی خیانت سے کام لیا ہے اور حتی الامکان حقائق کو مسخ کرکے اسے بالکل غلط انداز میں پیش کیا ہے۔
بروکلمان نے اپنی کتاب میں پچاس صفحات میں سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر بھی گفتگو کی ہے۔ سیرت سے متعلق اس کی معلومات فاش غلطیوں اور افتراپردازیوں کا مجموعہ ہیں (ص ۷۸)۔ مقالہ نگار نے سیرت سے متعلق اس کے چھ اہم نقائص کا جایزہ لیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ اس طرح کی بہت سے خامیوں کے ذریعہ اس نے رسول اسلام کی حقیقی تصویر کومسخ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
۹۔نولدیکی تیودور (Theodor Noldeke: 1930–1836) : نولدیکی کو متفقہ طور پر جرمن مستشرقین میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے۔ اس نے جرمن زبان میں ’’حیاۃ النبی محمد ﷺ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔
۱۰۔ ہارویز (Josef Harovitz: 1931–1874) : ہارویز نے واقد ی کی ’’مغازی‘‘ پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کیا ہے۔ اسی طرح ابن سعد کی ’’الطبقات الکبری‘‘ میں غزوات نبی سے متعلق دونوں جلدوں کی تحقیق کی ہے۔ عبدالرحمٰن بدوی نے صراحت کی ہے کہ فرانکوفور سے یونیورسٹی میں ۱۹۱۴– ۱۹۲۱ء تک اپنی تدریس کے دوران قرآ ن کریم اور سیرۃ النبیؐ اس کی دلچسپی کا خاص موضوع رہے ہیں۔ اس ضمن میںانہوں نے ۱۹۲۶ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب مباحث قرآنیہ کا ذکر تو کیا ہے لیکن سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ (ص۸۵)
۱۱۔یولیوس ولہاوزون (Julius Wellhausen: 1918–1844) : تاریخ اسلام کے موضوع پر تصنیف کرنے والے مستشرقین میں ایک نمایاں نام یولیوس ولہاوزون کا بھی ہے۔ اس نے واقدی کی المغازی کا جرمن میں ترجمہ کیا ہے اور ’’تنظیم محمد للجماعۃ فی المدینہ‘‘ اور’’کتب محمد والسفارات التی و جہت الیہ‘‘ کے عنوان سے سیرۃ النبیؐ کے موضوع پر دو گراں قدر کتابیں چھوڑی ہیں۔
دوسری فصل ’’انصاف پسنداور خائن ومتعصب جرمن مستشرقین‘‘ کے عنوان سے ہے۔ انصاف پسند مستشرقین کے ضمن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جرمن میں تحقیق دو متوازی سمت میں چلی ہے۔جن مصنّفین نے اپنی علمی پختگی کو عیسائیت یا شخصی وتاریخی کینہ پروری سے محفوظ رکھا ہے انہوںنے معروضی انداز میں سیرت کا جایزہ لیا ہے اور جن حقائق تک ان کی رسائی ہوئی انہیں بغیر کسی خارجی اثر کے صاف صاف بیان کردیا ہے ۔ان کا مقصد خالص علمی تھا۔ انہوں نے بغیر کسی تحریف وتبدیل کے حقائق کو جوں کا توں رہنے دیا ہے (ص۸۰)۔
دیگر مستشرقین نے اس طرح کے افراد پر خیانت علمی، جذباتیت کا بہاؤ اور عربوں سے رواداری اور ان سے تقرب کی خواہش کا الزام عاید کیا ہے۔ انصاف پسند مستشرق کی حیثیت سے فاضل مقالہ نگار نے ماری شیمیل اور ریسکہ کا خصوصی ذکر کیا ہے اور خائن ومتعصب مستشرقین کے افکار کا جایزہ لیتے ہوئے یہ وضاحت کی ہے کہ ان کا مقصد شعوری طور پر اسلام اور نبی اسلام کی صورت مسخ کرکے حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنا اور اہل مغرب کو اسلام سے بیزار کرنا تھا۔ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ ظلم وخیانت سے متصف یہ مستشرقین مکر و فریب کے پتلے تھے۔ انہوں نے زبردست علمی کاوشیں پیش کیں، اسلامی موضوعات کی تہہ میں غوطہ زن ہوکر اپنے زبردست علمی نتائج سے دنیا کو حیرت میں ڈال دیایہاں تک کہ مسلمان ان کی تحقیق پر فریفتہ ہوکر ان سے استفادہ کرنے لگے۔ لیکن اپنی ان تحقیقات کے اندر انہوں نے جابجا نبی کریمؐ کی حقیقی تصویر مسخ کرکے اسے غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی تصانیف کی حیثیت ایسی ہے جیسے کوئی شہد میں زہر ملادے۔
اس قسم کے مستشرقین نے بے تکے انداز میں افتراء پردازی نہیں کی ہے، بلکہ مصادر کو کھنگالا ہے اور ضعیف وموضوع روایات کا سہارا لے کراپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی ہے۔ مقالہ نگار نے اس قسم کے مستشرقین میں کارل بروکلمان، یولیس ولہازون کا خصوصی تذکرہ کیا ہے، البتہ یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ بعض مستشرقین غیر شعوری طور پر خطا و لغزش کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں اسپرنگر کا خصوصی طور سے نام آتا ہے۔ متعصب اور علمی خیانت کا ارتکاب کرنے والے ان مستشرقین نے اپنے ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے سیرۃ النبیؐ سے متعلق اپنی تحریروں میں جس طریقہ کار کو اختیار کیا ہے اسے فاضل مقالہ نگار نے چودہ نکات کی صورت میں پیش کیا ہے۔
دوسرا مقالہ ڈاکٹر محمد عبدو کا ’’جرمن زبان میں اللہ کے رسولؐ سے متعلق تحریروں کی کتابیات‘‘ کے عنوان سے ہے،اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں ان کتابیات کا تذکرہ ہے جن کے مصنف عرب یا پاکستان اور ترکی وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس میں اکیس کتابوں کا ذکر ہے اور دوسری قسم میں جرمن،برطانیا اور فرانس سے تعلق رکھنے والے مولفین کی دس تصانیف کا تذکرہ ہے اور ان کے موضوعات کا دو ایک سطر میں تعارف بھی پیش کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تمام کتابوں کے عناوین جرمن میں بھی پیش کیے گئے ہیں اور حاشیہ میں ناشر کی بھی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ آخر میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ چند کتابیات ہیں جن کا تعارف مقصود ہے، احاطہ ممکن نہیں،کتابیات کی فہرست ملاحظہ ہو:
۱۔ السیرۃ النبویۃ تالیف ابن اسحاق،ترجمہ وتصحیح گرنارٹ روٹر۔۲۔ من سیرۃ النبیؐ (دو جلدیں)۔ ۳۔ سیرۃ نبیناؐ۔ ۴۔ نبی الرحمۃ محمدؐ- مشاہد من سیرتہ المطہرۃ۔ ۵۔النبی محمدؐ :موجز لتاریخ الثقافۃ الاسلامیۃ۔ ۶۔ النبی محمدؐ زعیما۔ ۷۔ الہجرۃ الی یثرب۔ ۸۔معجزات محمدؐ ۔ ۹۔محمدؐ بالمومنین رؤف رحیم۔ ۱۰۔ محمدؐ رسول اللہ-سیرۃ النبی۔ ۱۱۔محمدؐ القدوۃ۔ ۱۲۔کنز الحکمۃ۔ ۱۳۔قصص الانبیاء من القرآن الکریم۔ ۱۴۔قدوتنا الوحیدۃ نبیناؐ۔ ۱۵۔ماذا یعنی کنانہج النبیؐ۔ ۱۶۔معجزۃ محمدؐ۔ ۱۷۔سیرۃ محمدؐ ۔ ۱۸۔سیرۃ النبی محمدؐ ۔ ۱۹۔النبی محمدؐ ومعراجہ۔ ۲۰۔نبی الرحمۃ محمدؐ ۔ ۲۱۔أحادیث عن سنۃ النبیؐ۔
جرمن ،برطانیا اور فرانس سے تعلق رکھنے والے مؤلفین کی کتب:
۱۔سیرۃ آخر الانبیاءؐ۔ ۲۔میلاد الاسلام۔ ۳۔محمدؐ -سیرتہ حسب اقدم المصادر۔ ۴۔محمدؐ ۔ ۵۔محمدؐ : سیرتہ وعقیدتہ۔ ۶۔محمدؐ والقرآن۔ ۷۔محمدؐ ۔ ۸۔میراث محمدؐ ۔ ۹۔سیرۃ النبیؐ۔ ۱۰۔عالم الاسلام،تاریخ وثقافۃ تحت تاثیر النبیؐ۔
ڈاکٹر سعید العلمی نے ’’سیرۃ النبیؐ کے مخطوطات اور جرمن استشراق‘‘ کے عنوان سے ان جرمن مستشرقین کا عمدہ تعارف پیش کیا ہے جنہوں نے مخطوطات کی حصولیابی کے لیے دوردراز کے سفر کیے اور اسے اپنی بحث وتحقیق کی جولان گاہ بنایا۔ تمہیدی گفتگو کے بعد اس ضمن میں مستشرقین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: مخطوطات کی حفاظت، فہرست سازی، تحقیق واشاعت اور سینکڑوں اسلامی کتب کے تراجم میں مستشرقین نے نمایا ں خدمات انجام دی ہیں۔ اس ضمن میں مستشرقین اور ہماری کاوشوں میں بعد المشرقین ہے۔ مخطوطات کے حصول کے لیے انہوں نے طویل مسافتیں طے کیں، کثرت سے پیسہ خرچ کیا اور جہد مسلسل کا سہارا لیا۔ بسا اوقات معمولی قیمتوں پر بھی بعض مخطوطات انہیں حاصل ہوئے ،انہوں نے صرف مغرب کی لائبریریوں میں ہی اس کی ترتیب کا کام انجام نہیں دیا، بلکہ مشرق کے کتب خانوں میں بھی اس کی ترتیب میں اپنا تعاون پیش کیا۔ انہوں نے مخطوطات تک رسائی کے لیے مختلف ذرائع اختیار کیے، چوری کی، کتب خانوں کے ذمہ داروں سے تعلقات استوار کرکے ان سے تحائف کی صورت میں مخطوطات حاصل کیے اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر عالم اسلام سے ہزاروں مخطوطات اچک لیے۔ حکومت کا بھی انہیں بھرپور تعاون حاصل رہا اور اس کام میں انہوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ لگادیا۔مخطوطات کے جمع وتدوین کرنے والے ممالک میں فرانس سر فہرست ہے۔ اسلام وعرب سے واقفیت اور عیسائیت کی اشاعت کے لیے ان مخطوطات کو حاصل کرکے انہیں چرچ کے سپرد کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان جرمن محققین کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے مختلف طریقوں سے مخطوطے حاصل کرکے ان کی تحقیق وتدوین کا کارنامہ انجام دیا ہے اور ان کے حاصل شدہ مخطوطات کی تفصیل بھی فراہم کی گئی ہے۔ چند اہم مستشرقین کے نام اس طرح ہیں:
ریسکہ (Johann Jakob Reiske: 1774:1716) ، فلوجیل (Gusttav Leberecht Fluegel: 1870–1802) ، ویستنفلد (Westenfeld: 1899–1808)، ویلہلم الفارت (Wilhelm Ahlwardt: 1909–1828) ، تیودور نولدیکی (Theodor Noldeke: 1930–1836) ، یولیوز ولہاوزون (Julius Wellhausen :1918–1844)، الویس اسپرنگر (Aloys Sprenger: 1892:1813) ، بولس برنالد (Brunilp) شادہ (Shaad A.: 1952– 1883) ، جوزف شاخت (Joseph Schacht:1902–1969) ہلتزفیر (Rhewsnah: 1909) ۔
ایک اہم مقالہ ’’مدرسۃ لایسبیغ الالمانیۃ والکتابۃ فی السیرۃ النبویۃ-ہرمان ریکندوف مثالاً‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس کی ابتدا میں مقالہ نگار نے وضاحت کی ہے کہ جرمن میں سیرت نگاری کا جب ذکر آئے گا تو برلین یونیورسٹی اور ا س کے سربراہ الاستاذۃ انجلیکا نویفیریت (Augelika Neuwirth) اور ایرلنغن یونیورسٹی او را س کی سربراہ الاستاذہ ہارتموت بوبتسین (Hartmut Bobzin) کا ذکر ضرور کیا جائے گا۔ اسی طرح جدید جرمن یونیورسٹی میں مدرسہ لایسبیغ کا ذکر بھی ناگزیر ہے (ص ۱۱۰)۔
ہرمان ریکندرف، جو اسی مدرسہ کا ترجمان ہے، اس کی تفصیل پیش کرنے سے قبل مقالہ نگار نے ان خطوط کی نشان دہی کردی ہے جن سے جرمن میں بحث وتحقیق کے اس اہم مرکز کے نقوش واضح ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ہرمان کی انفرادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی کتاب ’’سیرت نبی الاسلام محمدؐ‘‘ کا تفصیلی جایزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ایک سو چونتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں کل پانچ عناوین ہیں۔ اس کا اسلوب خطابی ہے گویا کہ وہ ایک ایسے قاری سے جواس موضوع میں ماہر نہیں ہے براہ راست مخاطب ہوا ہے۔ ا س کے بعد پانچوں عناوین تاثیرات محمدؐ وآثارہ، غزوات محمدؐ، محمدؐ واتباعہ علیۃ، القوم وعامۃ الناس اور کیف عامل النبیؐ غیر المسلمین کے تحت ان کا تفصیلی جایزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر حنان السقاط کامقالہ تقدیم کتاب طور اندریہ:محمد حیاتہ وعقیدتہ کے عنوان سے شامل ہے۔ ابتدا میں طور اندریہ Torandrae:1885–1947 کا تعارف ہے اور اس کے امتیازی وجوہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ طوراندریہ نبی کریمؐ کی شخصیت پر فریفتہ ہے اور علم، اخلاق، روحانیت اور قیادت ہر لحاظ سے وہ آپ ؐ کو عبقری شمار کرتا ہے۔ اس کے بعد آپؐ کی مختلف جہات کا جایزہ لیتا ہے۔ اس تناظر میں بہت سے مقامات پر وہ بالکل الگ رائے پیش کرتا ہے،لیکن وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ آپؐ ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے۔
طور اندریہ کا خیال ہے کہ محقق کے لیے موزوں یہی ہے کہ وہ نبی کریمؐ کی تشکیل کرنے والے عناصر کو اس کا صحیح مقام دے۔ اس نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ آپؐ کی تاثیر اپنے دین میں سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے آپؐ کا دین مادی وروحانی دونوں جہات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا دوسرا اہم وصف یہ ہے کہ اس کے نزدیک اسلام ایک ہمہ گیر روحانی تحریک ہے ،جو انسان کی زندگی کو مقصد اور نصب العین عطا کرتی ہے۔ اسی طرح نبی کریمؐ کو مسلمانوں کے نزدیک جو مقام ومرتبہ اور بلند مقام حاصل ہے اس پر بھی اس نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔اپنے عیسائی پس منظر کی وجہ سے اس نے بہت سے نبوی واقعات کی مختلف توضیحات کی ہیں،نبی کے انتظامی امور سے متعلق اس کی رائے یہ ہے کہ آپؐ نے اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہر موقع کا فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح آپؐ نے اپنے متبعین کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ اسلام ہی صاف شفاف دین ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی مذاہب ہیں سب باطل کی آمیزش ہے۔ کتاب کی آخری فصل میں اللہ کے رسولؐ سے متعلق مغربی نظریہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یورپ میں نبیؐ کی جو منفی تصویر پیش کی گئی ہے اس کا اصل سبب نشا.5ٔ.5ۃ الثانیہ کے دور کے ادباء ہیں، یہودی ومسیحی علماء کا اس میں کوئی قصور نہیں (ص ۱۲۳)۔ مغربی مصنّفین نے ہمیشہ اس خیال کی تائیدکی کہ آپ ؐ نے ایک غیر حقیقی دین پیش کیا ہے اور اسلام نفرت وعداوت اور جبر واکراہ کا دین ہے، جبکہ مغرب کے بالمقابل استشراق نے اسلام کی حقیقی صورت پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر حسین تایتائی کا مقالہ’’الاسلام والسیرۃ النبویۃ فی المانیا بین مناہج الاستشراق ودافع المسلمین المستشرق بیتر شول نموذجا‘‘ کے عنوان سے ہے۔مقالہ نگار نے صراحت کی ہے کہ مختلف تاریخی وسیاسی اسباب کی بنا پر فرانس، ہالینڈ، اٹلی اور برطانیہ کے بالمقابل جرمن میں مستشرقین کی تحقیقات کا سلسلہ کافی تاخیر سے تقریباً سولہویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔اس ضمن میں جرمن میں مسلمانوں کی آمد اور ان کے قیا م پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیاہے کہ اس وقت تعداد کے لحاظ سے جرمن میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔استشراق کے پیش نظر شروع سے ہی اسلام اور عربی واسلامی تاریخ وثقافت کا مطالعہ رہا ہے، البتہ ان کے مقاصد کے ضمن میں نقاد کی مختلف آراء ہیں:
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کی نشر واشاعت میں استشراق کا اہم کردار رہا ہے، لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی تاریخ کو مسخ کرنے،ان کے مذہب پر تنقید اور عالم اسلام پر سامراج کو غلبہ اور اقتدار عطا کرنے کے لیے ان میں کمزور مقامات کی نشان دہی بھی ہمیشہ استشراق کے اہم مقاصد کا جز رہا ہے۔
اس کے بعد اسلامی موضوعات پر جرمن مستشرقین کا منہج کے عنوان سے چار الگ الگ مناہج کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ’’المنہج المسیحی الردیکالی، المنہج المحافظ الاکادیمی، المنہج العلمانی السیاسی اور المنہج الحواری الاجتماعی‘‘ اور بہت اختصار سے ا ن کا تعارف بھی کرایا گیا ہے۔ آخر میں ’’ المنہج اللاتوری‘‘ کے عنوان سے مستشرق بیتر شول (Peter Scholl Latour: 2014–1924) کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس کے منہج کا انحصار ان امور پر ہے:
۱۔اسلام کے تئیں اہل مغرب کے نظریہ کی تصحیح۔ ۲۔دین اسلام میں قوت کے سرچشمہ کو نمایاں کرنا۔ ۳۔ثقافت اسلامی کی اسا س کا مطالعہ۔ ۴۔مقالات کے نشر واشاعت کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال۔ ۵۔عالم اسلام کا حقیقی اور زمینی مطالعہ۔
بیتر شول نے فکر اسلامی سے متعلق مغربی نقطۂ نظر کا معروضی انداز میں مطالعہ کیا ہے اور اسلام، اس کے فکری سرمایہ اور اسلامی ثقافت کے متعلق مغربی تحقیقات کا اپنی تحریروں میں کثرت سے تنقید کے ساتھ مسیحیت اورمغربی ثقافت کے اخلاقی وروحانی زوال کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح اس نے اسلام کی روحانی طاقت وقوت کی نشان دہی بھی کی ہے، البتہ اسلام کی نشر واشاعت سے متعلق اس کی بعض آرا ناقابل قبول ہیں۔
اگلا مقالہ’’البعد الاصولی والمقاصدی فی الکتابات الاستشراقیۃ اللمانیہ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر نورالدین بن مختار الخادمی کا ہے۔ اس کی ابتدا ء میں انہوں نے ’’البعد الاصولی‘ ‘کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس کا مفہوم اصول فقہ سے متعلق تمام معلومات ونتائج کا علم ہے، جس کے ذریعہ اصول کی حقیقت آشکار ہوتی ہے ،خواہ مضمون کی معرفت یا علمی سطح پر یا منہج،اسلوب اور کیفیت کی سطح پر یا کسی دوسرے علمی،ثقافتی اور ماحولیاتی سطح پر یا عمومی، ثقافتی وعمرانی سطح پر‘‘ اور بعد مقاصدی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے، ’’شریعت اسلامیہ کے مقاصد یا ان مقاصد پر عمل کو ظاہر کرنے والا پہلو ’’بعد مقاصدی‘‘ کہلاتا ہے ۔ اس سے ان کے نقوش،شواہد اور عناصر وآثار کا پتہ چلتا ہے۔مقاصد کی مختصر تعریف یہ ہے کہ اس سے مقصود مصالح کا حصول اور مفاسد کا ازالہ ہے۔
اس کے بعد مقالہ نگار نے یہ سوال پیدا کیا ہے کہ جرمن استشراق کی تحریروں سے مقصود کیا ہے؟ ان کا خیال ہے کہ مستشرقین کی تحریروں سے مقصود وہ تحریریں ہیں جن کا مقصود مشرق عربی واسلامی کی تاریخ، تہذیب، ثقافت و تمدن، علوم وفنون، آداب، رسم ورواج اور آبادی وماحولیات سے بحث کرنا ہے۔ ایک سوال یہ بھی پید ا ہوتا ہے کہ کیا استشراق کے پیش نظر صرف شرق اسلامی کا مطالعہ ہے یا وسیع جغرافیائی وعالمی پس منظر میں پوری امت اسلامیہ کے مختلف اطوار ومراحل کا مطالعہ ہے؟ ایک مرکزی عنوان ’’جرمن استشراقی تحریروں کے اجمالی نقوش‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے ، پھر مختلف ذیلی عناوین کے تحت ان کا تفصیل سے تجزیہ کیا ہے اور یہ واضح کیاہے کہ تاریخ اسلام، زبان وادب اور دیگر علوم وفنون کے موضوع پر جس طرح کی استقصائی تحریریں مستشرقین کے یہاں ملتی ہیں۔
ایسی اختصاصی تحریروں کا اصو ل فقہ میں فقدان ہے البتہ جزئی اور سطحی انداز میں کہیں کہیں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے اس کا پورا تصور واضح نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ’’الدراسۃ المشبوہۃ والمشوہۃ للاصل والمقاصد‘‘ کے عنوان سے ان تحقیقات کا جائزہ لیا ہے جن کا مقصد اصول ومقاصد کی حقیقت کو مسخ کرنا اور اسے غلط انداز میں پیش کرنا ہے۔مقالہ نگار نے صراحت کی ہے کہ مستشرقین کے پیش نظر ہمیشہ ناپاک عزائم، گندے محرکات اور سنگین قسم کے الزامات رہے ہیں اوراس کا مقصد عالم اسلام میں امن وسکون، تہذیب وثقافت اور قانون کی حالت کو مسخ کرنا اور اسے تباہ وبرباد کرنا ہے۔ اس کے بعد اس کے چند مظاہر کی طرف اشارہ کرکے ان کا تنقیدی جایزہ پیش کیاہے وہ درج ذیل ہیں:
۱۔قرآن کریم کے تقدس، اعجاز اور تربیتی، تشریعی اور ثقافتی خوبیوں کا انکار۔ ۲۔کتب احادیث کے سلسلے میں تشکیک اور روایات کا انکار۔ ۳۔رواۃ حدیث کے بارے میں تشکیک۔ ۴۔عربی زبان کے بارے میں تشکیک۔ ۵۔اسلامی تاریخ،مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کے بارے میں تشکیک۔
اس کے بعد ان اسباب کا تفصیل سے جایزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے مستشرقین کے یہاں غلط بیانی اور حقائق سے چشم پوشی در آئی ہے۔ آخر میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ایسے مستشرقین بھی بڑی تعداد میں ہیں جن کے یہاں معروضی انداز پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سعید المغازی کا مقالہ’’رسول اللہؐ فی تصور المستشرقہ الالمانیۃ ماری شیمیل‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس مقالہ میں ایک انصاف پسند اہم جرمن مستشرقہ محترمہ انا ماری شیمیل (۱۹۲۲– ۲۰۰۳) اور ان کی کتاب ’’وان محمدا رسول اللہؐ‘‘کاتعارف پیش کیا گیا ہے۔ اسلام، رسول اسلام، اسلامی وعربی تہذیب و ثقافت کی تاریخ، تصوف، صوفیانہ فکر، عربی ، فارسی اور ترکی شاعری، خط عربی اور مسلمانوں کی موجودہ زندگی جیسے موضوعات پر ان کی ایک درجن سے زائد کتب اور سینکڑوں مقالات ہیں۔ مقالہ نگار نے اس کی بعض اہم کتب کی فہرست بھی نقل کی ہے۔اس کے بعد سیرت نبوی سے متعلق اس کی اہم کتاب، جو ۱۸۹۱ میں جرمن زبان میں اور ۱۸۹۵ میں انگریزی میں شائع ہوئی تھی، اس کا تفصیل سے تعارف کرایا ہے۔ انگریزی ترجمہ کے مطابق کتاب کا عنوان ہے ’’وان محمدا رسول اللہ:احترام واجلال الرسول فی التدین الاسلامی‘‘۔ اس میں مقدمہ وپیش لفظ کے علاوہ بارہ فصلیں ہیں۔ ان کے عناوین اس طرح ہیں:
۱-سیرت اور سیرت اعظمؐ کی اصطلاحات کی طرف اشارہ۔ ۲-شمائل نبویؐ،اخلاق وعادات رسولؐ کا تذکرہ۔ ۳– رسولؐ کی عظمت۔ ۴– معجزہ۔ ۵– محمدؐ بحیثیت شفیع۔ ۶– اسماء النبیؐ۔ ۷-نور محمدیؐ۔ ۸-عید میلاد النبیؐ ۔ ۹– اسراء ومعراج۔ ۱۰– نبیؐ کی تعظیم میں عرب وغیر عرب کے منظوم قصائد، مدینۃ الرسولؐ کی زیارت کے عنوان سے شعراء کے قصائد، مدحیہ قصائد وغیرہ۔ ۱۱-حیات نبویؐ کی تشریح نو۔ ۱۲– شاعر اسلام علامہ اقبال کی شاعری میں رسولؐ کا تذکرہ۔
مصنف ماری شیمیل کے مطابق مذکورہ کتاب اس کی چالیس سالہ کوششوں کا ثمرہ ہے۔ مقالہ نگار نے اس کی زندگی کے مختلف پہلو اور اس کی اسلام دوستی کاتفصیلی جایزہ پیش کیا ہے اور ان الفاظ میں اس کی تحسین کی ہے: ’’مصنفہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے کھلے دل سے اسلام کی عظمت اور اس کی علمی فتوحات کا اعتراف کیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر عبدالعزیز انمیرات کا مقالہ ’’السیرۃ النبویہ فی الاستشراق الالمانی: نظرات فی الدراسات المنصفۃ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ان انصاف پسند مستشرقین کا جایزہ ہے، جنہوں نے معروضی انداز میں سیرت کا مطالعہ کیا ہے او ر کسی نظریہ کو اپنے اوپر مسلط کرکے احساس برتری کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔ مقالہ نگار نے یہ صراحت کی ہے کہ استشراق کے پیش نظر دو خاص مقاصد رہے ہیں۔ سیاسی و سامراجی اورفکری وثقافتی بعض مستشرقین کے پیش نظراپنی تحقیقات کے ذریعہ تہذیب و ثقافت کے اس نمونے سے آگاہی حاصل کرنا تھاجس کی اساس اسلام نے وضع کی تھی اور تہذیب و ثقافت کے مختلف میدان میںاس کے کارناموں کا تعارف مقصود تھاجس نے قرآن کریم اور سنت نبوی کی طرف ان کی خصوصی توجہ مبذول کروائی۔
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مغربی بحث وتحقیق میں اسلام کے متعلق جو بھی تحریریں منظر عام پر آئی ہیں ان میں سیرۃ النبی کو خاص توجہ حاصل رہی ہے، خواہ انفرادی سطح پر یا اکیڈمی کی سطح پر اور ان میں سے بیش تر میں نظریہ میں اعتدال اور گفتگو میں انصاف کا لحاظ نہیں رکھا جاسکا اور اسلام دشمن مشنری ممالک نے اس کا جو دائرہ کار متعین کردیا تھا عموما وہ اسی کے ارد گرد گردش کررہی ہیں۔ مقالہ نگار نے انصاف پسند مستشرقین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے:
’’عربی اور اسلامی سرمایہ کی بحث وتحقیق اورجمع وترتیب و تدوین میں بعض مستشرقین کی جو گراں قدر خدمات ہیںانھیں کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔آج اسلام اور مسلمانوں سے متعلق استشراقی اداروں کے ناپاک عزائم، حقائق سے چشم پوشی اور حقیقت سے انحراف بالکل واضح ہے۔ مستشرقین کی کوششوں ہی کے نتیجہ میں ہزاروں کرم خوردہ مخطوطات عرصۂ تک پردۂ خفا میں رہ کرمنظر عام پر آئے ہیں۔ مستشرقین کے متعلق خواہ کسی بھی رائے کا اظہار کیا جائے ،جمع وترتیب اور تحقیق وتدوین کے میدان میں ان کی نمایاں خدمات ہیں ۔بالخصوص جنہوں نے نظریاتی، مادی اور سامراجی دباؤ سے بالاتر ہوکر کسی حد تک صرف علمی اور معروضی انداز میں اپنی بحث وتحقیق کے نمونے پیش کیے ہیں ۔ مقالہ کے آخر میں مقالہ نگار نے فلوجل، کریستان شنور (۱۷۴۲– ۱۸۲۲) اور کارل بروکلمان کے حوالہ سے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے بارے میں خواہ کچھ بھی کہا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہماری تہذیب و ثقافت، تاریخ اور علمی سرمایہ سے روشناس کرانے میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ اسی طرح بہت سے مخطوطات ان کی کوششوں سے زمانہ کی دست برد سے محفوظ رہے ہیں ۔
’’غوتہ ورسول الاسلام محمدؐ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالرزاق مسلک کا مقالہ بھی شامل کتاب ہے۔ جرمن شعراء وادبا ء کی ا س فہرست میں، جنہیں مشرق اور عالم اسلام کی تہذیب وثقافت اور آداب سے خصوصی دلچسپی رہی ہے، ایک اہم نام غوتہ کا ہے۔عربی شعر وادب اور اسلام سے اس کی دلچسپی کی وجہ سے اس کی ادبی تحریروں میں اثر پذیری صاف نظر آتی ہے۔ ’’انشودۃ محمدؐ‘ ‘ کے نام سے اس نے شان رسالت میں جو مدحیہ قصیدہ کہا ہے اس نے ہمیشہ کے لیے اسے زندہ وجاوید بنادیا ہے۔ اس مقالہ میں اللہ کے رسولؐ کے بارے میں غوتہ کے نظریہ اور ان ادبی الہامات کا تذکرہ ہے جس کا سرچشمہ ذات رسولؐ ہے۔مقالہ نگا ر نے تفصیل سے ان اسباب پر روشنی ڈالی ہے جن کے نتیجہ میں عربی زبان وادب اور اسلام سے غوتہ کی دلچسپی رہی ہے۔اس نے اس کی دو خاص وجہیں بتائی ہیں ایک تو وہ غوتہ کے زمانہ میں رواج پذیر افکار اور دوسرے غوتہ کا ذاتی رجحان، جس کی وجہ سے وہ اپنے معاصرین میں ممتار ہے۔ آخر میں اس کے بعض اشعار ’’انشودۃ محمدؐ‘‘ سے پیش کیے گئے ہیں، جن سے اس کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
آخری مقالہ ڈاکٹر خالد لزعر کا ’’الاسلام ونبیہ محمد والجدل بعضہما فی بعض الکتابات الالمانیہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ مقالہ کا آغاز اس بحث سے ہوا ہے کہ ادب الرحلات میں اسلام کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا اسلام اور مسیحیت کے مابین مکالمہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس میں اسلام کو خوف اور دہشت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف جرمن سیاحوں نے اسلام کے تعلق سے جو آراء پیش کی ہیں ان کے سبب شروع سے ہی اسلام کی غلط تصویر پیش ہوئی ہے۔ مقالہ نگار نے حرمن زبان میں ان کی کتابوں سے متعدد اقتباسات نقل کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اس طرح کے جملے عام قارئین کے ذہن میں خوف کی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور اسلام کا انکار اور مسلمانوں سے بغض وعناد ان کی مجبوری بن جاتی ہے۔مشہور جرمن سیاح جی رولفس (Grehard Rohlps: 1896–1831) مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی دینی مسئلہ میں بحث ومباحثہ سے یہ جواز پیش کرتے ہوئے منع کیا ہے کہ وہ منطقی زبان نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک ہر بحث کا جواب صرف آگ اور تلوار ہے۔
تاریخی حوالہ سے اپنی بحث کو مدلل کرتے ہوئے مقالہ نگار کا خیال ہے کہ ساتویں صدی سے سترہویں صدی کے آخر تک یعنی تقریباً ایک ہزار سال بالعموم مغرب کا اسلام کے تعلق سے معاندانہ نقطۂ نظر رہا ہے۔ صلیبی جنگ کے آغاز سے ہی اسلام کو نقصان پہنچانے اور اس کے خلاف برسرپیکار ہونے کے مقصد سے اصحاب کلیسا کی پشت پناہی میں قرآن کریم کے متعدد تراجم ہوئے ہیں۔ اس کا آغاز ۱۱۴۳ھ میں ایک پادری کے ترجمہ سے ہوا ہے۔اربابِ کلیسا کی اسلام دشمنی صرف قرآن تک محدود نہیں رہی، بلکہ انہوں نے رسول اسلامؐ اور اسلامی نصوص کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ مقالہ نگار نے تاریخی تناظر میں بہت سے جرمن مستشرقین کا حوالہ دیا ہے اور ان کی کتب سے اسلام مخالف اقتباسات بھی پیش کیے ہیں اور واضح کیا ہے کہ اس طرح کے اقوال بغیر کسی حوالہ کے جرمنی صحافت میں کثرت سے منقول ہیں ۔
کتاب کے آخر میں چودہ نکات کی صورت میں سیمینار میں منظور ہونے والی چودہ اہم تجاویز اور سہ روزہ سیمینار کی مفصل رپورٹ بھی شامل ہے اور افتتاحی اجلاس میں خطاب کرنے والی اہم شخصیات کے خطبات بھی اس میں شامل کردئے گئے ہیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ سیرۃ النبیؐ کے موضوعات پر جرمن مستشرقین کی تحقیقات، ان کے طریقۂ کار، اس فن میں جرمن زبان میں موجود ذخیرۂ کتب، جرمن اصحاب علم کی نگاہ میں اللہ کے رسولؐ کی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جرمن جامعات میں سیرۃ النبیؐ کے موضوعات سے دلچسپی رکھنے والوں کے سامنے غور وفکر کا ایک نیا باب وا ہوتا ہے۔ یہ کتاب دستاویزی حیثیت کی حامل ہے۔ سیرۃ النبیؐ کے تعلق سے جرمن مستشرقین کی خدمات کا جب بھی ذکر آئے گا اس کتاب کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہوگا۔