مصنف: اشتیاق احمد ظلی
دارالمصنّفین اپنی تاسیس کی ابتدا ہی سے ریاست حیدرآباد کا ممنون کرم رہا ہے۔ علامہ شبلی کے انتقال کے بعد ان کے تین سو روپیہ ماہوار کے وظیفہ کو دارالمصنّفین کے نام منتقل کرکے نظام حیدرآباد نے دراصل دارالمصنّفین کی بقاء اور استحکام کو یقینی بنایا تھا۔ اس کے علاوہ سیرت النبیؐ کی نسبت سے مختلف اوقات میں ریاست سے قابل لحاظ اضافی امداد بھی ملتی رہی۔
حیدرآباد کی اس فیض رسانی کا سلسلہ ملک کی آزادی تک چلتا رہا اور جب یہ بند ہوا تو دارالمصنّفین کو نہایت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ دارالمصنّفین کے قیام، بقاء اور استحکام میں ریاست حیدرآباد کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے اور دارالمصنّفین نے ہمیشہ اس کا پورا اعتراف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید محمود صاحب کے انتقال کے بعد مجلس منتظمہ کے صدر کی حیثیت سے خانوادہ آصف
جاہی کے چشم و چراغ نواب میر کرامت علی خاں مفخم جاہ بہادر کا انتخاب نہ صرف جذبہ احسان مندی کا اظہار تھا بلکہ ریاست حیدرآباد سے دارالمصنّفین کے پرانے روابط کی تجدید بھی تھی اور جملہ متعلقین ادارہ کے لیے فخر و مسرت کا ایک خاص موقع بھی۔ نواب صاحب آخری نظام دکن میر عثمان علی خاں کے پوتے اور آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید ثانی کے نواسے ہیں۔
اس عہدہ کے لیے نواب صاحب کا انتخاب ۱۹۷۳ءمیں ہوا۔ اس طرح ان کا دور صدارت کم و بیش ۴۵ سال کے طویل عرصہ پر محیط ہے اور دارالمصنّفین کی تاریخ میں یہ طویل ترین دور صدارت ہے۔ نواب صاحب دسمبر ۱۹۸۹ء میں پہلی اور آخری بار دارالمصنّفین تشریف لائے اور مجلس منتظمہ کی صدارت فرمائی۔ ادھر ایک عرصہ سے نامعلوم اسباب کی وجہ سے انہیں دارالمصنّفین کے معاملات میں دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ نظام فاؤنڈیشن سے ماہانہ ایک ہزار کی گرانٹ بھی بہت دنوں پہلے بند کردی گئی تھی۔
وہ بیرون ملک مقیم ہیں اور گذشتہ دس برسوں کے دوران ان سے رابطہ کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ اس کے باوجود اکیڈمی پر حیدرآباد کے احسانات کے پیش نظر اس تعلق کو باقی رکھنے کی خواہش تبدیلی کی بڑھتی ہوئی ضرورت پر غالب رہی۔ لیکن اب اس طرح کے اداروں کے ذمہ داروں کے بارے میں حکومت جس طرح کی معلومات کا مطالبہ کرنے لگی ہے، نواب صاحب بہادر سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تکمیل ممکن نہیں تھی اور ادارہ کے نظم و انصرام کے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ اس منصب کے لیے نیا انتخاب کیا جائے۔
چنانچہ دارالمصنّفین کی مجلس انتظامیہ نے اپنی سالانہ میٹنگ منعقدہ ۲۹؍ مارچ ۲۰۱۸ء میں اس منصب کے لیے عالی جناب محمد حامد انصاری، سابق نائب صدر جمہوریہ ہند کا انتخاب کیا۔ ہم شکر گذار ہیں کہ انہوں نے اس ذمہ داری کو قبول فرمایا اور اس طرح دارالمصنّفین کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔
مشرقی یوپی میں ضلع غازی پور میں یوسف پور محمدآباد کا انصاری خانوادہ اپنی شرافت، نجابت اور وجاہت کے لیے معروف رہا ہے۔ عظیم مجاہد آزادی اور رہنما ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی عدیم المثال ملی اور قومی خدمات نے اس خاندان کی شہرت و ناموری میں مزید اضافہ کیا۔ جناب محمد حامد انصاری اسی ذی وقار خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں۔ ۱۹۳۷ء میں کولکتہ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم کولکتہ اور شملہ میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے پولیٹکل سائنس میں ایم۔ اے کیا اور وہیں کچھ دنوں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ جلد ہی ان کا انتخاب انڈین فارن سروس کے لیے ہوگیا اس لیے یہ سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن علم و دانش سے شغف زندگی بھر قائم رہا۔ فارن سروس سے تعلق کا آغاز ۱۹۶۱ء میں ہوا اور انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے مختلف حصوں میں امتیاز کے ساتھ سفارتی خدمات انجام دیں۔
آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات، افغانستان، سعودی عرب اور ایران ان ممالک میں شامل بھی جہاں وہ سفیر رہے۔ شرق اوسط میں طویل قیام کے دوران انہوں نے وہاں کی زندگی اور سیاسی اور ملکی حالات کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ اور مطالعہ کیا۔ اس کی وجہ سے ان کو اس خطہ کے بارے میں گہری بصیرت اور مہارت حاصل ہے جو اس موضوع پر ان کی تحریروں سے عیاں ہے۔
اس موضوع پر ان کی پہلی کتاب ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی۔ اس کا عنوان ہے Iran Today: Twenty Five Years After the Islamic Revolutiuon۔ دوسری کتاب Travelling Through Confliet: Essays on Politics of West Asia ۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی۔ ان کتابوں سے اس خطہ کے بارے میں نہ صرف ان کی گہری بصیرت اور وسیع مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ علمی لیاقت اور دانشورانہ فکر و نظر کا پتہ بھی چلتا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمایندہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ان کو اپنی علمی دلچسپیوں کی طرف توجہ دینے کا زیادہ موقع ملا۔ ۱۹۹۹ء میں انہیں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سنٹر آف ویسٹ ایشین اینڈ افریکن اسٹڈیزمیں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ ۲۰۰۰ء میں مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ان کا انتخاب ہوا اور اگلے دو سال انہوں نے امتیاز کے ساتھ اس عظیم درس گاہ کی سربراہی کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے بعد وہ جامعہ ملیہ میں تھرڈ ورلڈ اکیڈمی میں وزیٹنگ پروفیسر رہے۔
اسی دوران انڈین نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز (NCM) کے چیرمین مقرر ہوئے۔ ۲۰۰۷ء میں نائب صدر مملکت کی حیثیت سے ان کا انتخاب ہوا۔ مدت کار ختم ہونے کے بعد اسی منصب کے لیے دوبارہ ان کا انتخاب ہوا۔ اس طرح ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۷ء تک مسلسل وہ اس اہم آئینی منصب پر فائز رہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن کے بعد یہ اعزاز کسی اور کو نہیں ملا۔ اس منصب کی وجہ سے وہ راجیہ سبھا کے چیرمین، پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن کے صدر نشین رہے۔ ان تمام اداروں کو ان کی سربراہی میں ایک نیا وقار اور اعتبار حاصل ہوا۔ ان کے عہد میں راجیہ سبھا ٹی وی اپنی معروضی رپورٹنگ اور بصیرت افروز تبصروں کے لیے مشہور ہوا۔
جناب محمد حامد انصاری کو صرف انتظام اور ڈپلومیسی کے میدان میں وسیع تجربہ حاصل نہیں ہے بلکہ وہ اپنی علمی بصیرت، دانشوری، ملکی مسائل پر مضبوط گرفت اور ملی مسائل پر گہری نظر کے لیے معروف ہیں۔ انہوں نے اپنے طویل کیریر میں جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، مختلف النوع ذمہ داریوں کو جس حسن و خوبی سے انجام دیا وہ ان کی متنوع صلاحیتوں کی غماز ہے۔ اس منصب پر فائز رہتے ہوئے بھی انہوں نے ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کے مخصوص مسائل کے بارے میں گہرائی سے غور و فکر کیا اور جب بھی موقع ملا پوری بےباکی سے اس پر اظہار خیال کیا۔ اس کے لیے ان کو شدید تنقید اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
ملی مسائل سے دلچسپی کا یہی جذبہ تھا جس کے زیر اثر انہوں نے شبلی صدی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کے لیے ہماری دعوت قبول فرمائی اور اعظم گڑھ آنے کی زحمت گوارا فرمائی۔ ان کی شرکت کی وجہ سے صدی تقریبات کا افتتاحی اجلاس یادگار حیثیت اختیار کرگیا۔ ان کے بزرگوں میں حکیم عبدالوہاب نابینا اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری سے علامہ شبلی کے قریبی تعلقات تھے۔ ان کے چچا ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب دارالمصنّفین کے کرم فرماؤں میں شامل تھے۔ اب ان قدیم روابط کی تجدید کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ ہم کو یقین ہے کہ ان کی رہنمائی میں دارالمصنّفین ترقی کی نئی بلندیوں کو طے کرے گا اور ایک نئے ولولہ سے ان مقاصد کی تکمیل میں سرگرم ہوجائے گا جن کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔
جناب عبدالمنان ہلالی نے ۱۹۹۰ء میں شبلی کالج کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے سبک دوشی کے بعد دارالمصنّفین کی خدمت کو اپنا مقصد زندگی بنالیا تھا اور طویل مدت تک جس طرح انہوں نے یہ خدمت انجام دی اس کی توفیق کم لوگوں کو ملتی ہے۔ رضاکارانہ خدمت کا یہ سلسلہ اُس وقت سے اس وقت تک جاری رہا۔ گذشتہ چند برسوں سے پیرانہ سالی اور بیماری کی وجہ سے ان کے لیے معمول کے مطابق کام کرنا مشکل ہوگیا تھا اور انہوں نے کئی بار اس ذمہ داری سے سبک دوشی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ان کی موجودگی ہم سب کے لیے باعث تقویت تھی اس لیے ان کی خواہش کے باوجود یہ تعلق قائم رہا اور وہ ضعف اور بیماری کے باوجود پابندی سے اکیڈمی آتے رہے۔
گذشتہ دنوں ان کی علالت نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ اب ان کا اکیڈمی آنا ممکن نہیں رہا۔ وہ اکیڈمی کے جوائنٹ سکریٹری تھے۔ راقم حروف کی غیر موجودگی میں اکیڈمی کے انتظامی اور دوسرے امور کی نگرانی جوائنٹ سکریٹری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اکیڈمی سے ان کی بھی عدم موجودگی کی وجہ انتظامی مسائل پیدا ہورہے تھے۔ چنانچہ ان کی خواہش اور اکیڈمی کی انتظامی ضرویات کے پیش نظر متبادل انتظام ضروری ہوگیا۔ ڈاکٹر فخر الاسلام اعظمی، سابق صدر شعبہ عربی، شبلی کالج مطبوعات کے انچارج کی حیثیت سے گذشتہ دس سال سے اکیڈمی سے وابستہ ہیں۔ یہ وابستگی مکمل طور پر رضاکارانہ ہے۔
ان کی دوسری خدمات کے علاوہ نئے انداز میں کتابوں کی طباعت ان کی محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ محترم ہلالی صاحب کی علالت کے دوران ادھر کئی سال سے ان کی مفوّضہ ذمہ داریاں بھی زیادہ تر وہی ادا کرتے رہے۔ جوائنٹ سکریٹری کی حیثیت سے ان کا انتخاب دراصل ان ذمہ داریوں کو قانونی شکل دینے کے مترادف ہے جو وہ پہلے ہی سے انجام دیتے رہے ہیں۔ ہم محترم ہلالی صاحب کی صحت و عافیت کے لیے دست بدعا ہیں ۔
ارکان انتظامیہ کی دو خالی جگہوں پر اکیڈمی کے رفیق اعزازی ڈاکٹر جاوید علی خاں صاحب اور جناب امیراحمد صاحب کا انتخاب عمل میں آیا۔ امیر احمد صاحب کا تعلق کیرالہ سے ہے۔ اس خطہ سے منتخب ہونے والے وہ پہلے رکن مجلس انتظامیہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام انتخابات کو اکیڈمی کے لیے باعث خیر و برکت بنائے۔ آمین