مصنف: عبدالسبحان ناخدا ندوی
یہود کی مدینہ میں آمد کب ہوئی؟ کیا یہ قبائل ایک ساتھ آئے یا مرحلہ وار آئے، اس کے بارے میں کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ مدینہ میں بہت پہلے سے عمالقہ آباد تھے، حضرت موسی نے مصر سے نکلنے کے بعد ایک لشکر کو حجاز کی طرف بھیجا اور اس کا حکم دیا کہ تمام عمالیق کا خاتمہ کردیا جائے، یہ لشکر یہاں آیااور اس نے تمام عمالیق کا خاتمہ کردیا بس ایک نوجوان جو نہایت خوبصورت تھا اس کی جوانی اور خوبصورتی پر رحم کھاکر اسے زندہ رکھا، جب یہ لوگ واپس شام گئے تو حضرت موسی کا انتقال ہوچکا تھا، اس وقت وہاں موجود بنی اسرائیل نے اس لشکر سے کہا کہ چونکہ تم نے اس نوجوان کو زندہ رکھ کر حضرت موسی کے ساتھ عہد شکنی کی ہے اس لیے تم یہاں نہیں رہ سکتے، جہاں سے آئے ہو وہیں جاؤ، لہٰذا یہ لشکر دوبارہ یہاں آکر آباد ہوا، اس واقعہ کی تاریخی حیثیت سے قطع نظر اس میں موجود داستان سرائی کو کوئی معقول شخص قبول نہیں کرسکتا، مصر سے نکلنے پر بنی اسرائیل کی جو حالت تھی وہ ظاہر ہے، ایسی حالت میں کیا بنی اسرائیل اس پوزیشن میں تھے کہ سیدھے یثرب آکر چڑھائی کرتے اور فتح بھی حاصل کرتے، وہ بھی ان عمالقہ کے خلاف جن کی جنگجویانہ طبیعت مشہور تھی، یہ پوری ’’داستان‘‘ اور ’’زیب داستان‘‘ دونوں عقلی و تاریخی طور پر قبول کرنے کے لائق نہیں، دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت داؤد کے فرزند نے جب بغاوت کی (حضرت سلیمان کے علاوہ کوئی اور فرزند) تو حضرت داؤد بھاگ کر خیبر آئے، پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ اپنے فرزند کے خلاف ان کو فتح ملی تو آپ شام چلے گئے، اور اسی وقت سے خیبر میں یہود آباد ہوئے، یہ پہلے واقعہ سے بڑھ کر عقلی لحاظ سے کمزور معلوم ہوتا ہے، حضرت داؤد کے تعلق سے یہودی اور اسلامی مصادر میں کہیں اس طرح کا اشارہ نہیں ہے کہ ان کو فرار اختیار کرکے خیبر میں پناہ لینی پڑی ہو، اتنا ضرور ہے کہ حضرت داؤد و سلیمان کے زمانے میں جب بنی اسرائیل کی انتہائی مستحکم حکومت قائم ہوئی تو ان کے تجارتی قافلے بھی مختلف جگہوں پر جانے لگے، ملکہ سبا کے اسلام لانے کے بعد تو یہ سلسلہ اور بھی زیادہ مضبوط ہوا، عہد نامہ قدیم میں یہود کی تجارت کا تذکرہ ملتا ہے جو شام ملک سبا تک جاری تھا، ممکن ہے کہ اس دوران بعض یہود جزیرۃ العرب کے شمالی زرخیز حصوں میں آباد ہوئے ہوں، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی شاندار حکومت کے تحت تہذیب و تمدن کے گہوارے میں رہنے کے بجائے ایک دور دراز علاقے میں آکر بعض قبائل کا مقیم ہونا بھی غیر فطری سا معلوم ہوتا ہے۔
مؤرخین کا عام خیال یہ ہے کہ یہود کی ہجرت کا سلسلہ پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں شروع ہوا، اس کی پہلی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی، اور فلسطین کی زمین ان کے لیے ناکافی ثابت ہونے لگی تو قریبی علاقوں میں ان کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا، بالخصوص مصر، عراق اور جزیرۃ العرب ان کے لیے سب سے آسان مقامات تھے۔
دوسری وجہ جو سب سے اہم معلوم ہوتی ہے کہ ایک صدی قبل مسیح سے ہی سرزمین فلسطین پر رومیوں کے حملے شروع ہوچکے تھے، جس کے نتیجہ میں یہود کی بچی کھچی حکومت بھی دراڑین پڑنی شروع ہوگئیں، یہود کی طرف سے بار بار بغاوتیں ہوتی رہیں جن کو رومیوں کی طرف سے نہایت سختی سے کچلا جاتا، یہاں تک کہ ۷۰ عیسوی میں رومیوں نے بیت المقدس کو تباہ کیا اور اس پورے خطے کی اینٹ سے اینٹ بجادی، اس پوری مدت میں سلسلہ وار ہجرت شروع ہوئی، اور جب بیت المقدس تباہ کیا گیا تو بہت بڑی تعداد نے نقل مکانی کی ہو اور ان کی ایک بڑی تعداد ’’یثرب‘‘ وادی القری، خیبر اور فدک میں آکر بس گئی ہو۔ واللہ أعلم. اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے پانچ سو سال قبل ہی سے یہود مدینہ و اطراف میں آباد تھے۔
اوس و خزرج جب مدینہ آئے تو یہاں یہود کا بول بالا تھا، مدینہ کے زرخیز علاقوں پر وہ قابض تھے، لہٰذا انہوں نے اندازہ یہی ہے کہ سب سے پہلے بقاء باہمی کے نام پر یہود کے ساتھ مصالحت آمیز رویہ رکھا ہوگا، پھر اپنی حفاظت کے لیے یہود ہی کی دیکھا دیکھی آطام بنائے، تاکہ خارجی و داخلی دشمنی سے کسی نہ کسی درجہ میں حفاظت کا سامان رہے، چونکہ یہ یمن سے آئے تھے جو زرعی علاقہ تھا، یہاں بھی ان کو زرعی زمین میسر تھی، مزید خود یہود بھی یہی ذوق رکھتے تھے، اس لیے اوس و خزرج نے بھی اس پر توجہ دی اور اپنے اپنے علاقوں کو زرخیز بنایا، اور زراعت و باغبانی میں دلچسپی لی، ظاہر بات ہے کہ ان کو ابتداء اً بہت محنت کرنی پڑی اور خاصی مدت تک یہود ہی کے زیر اثر رہنا پڑا، ایک تعداد کو یہودیوں کے باغات میں کام بھی کرنا پڑا، جب اوس و خزرج کی حالت مستحکم ہوگئی تو انہوں نے برابری کی سطح پر یہود سے معاہدے کیے، جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ دو مختلف قوم ہونے کے باوجود یثرب اور اس کے اطراف کی حد تک ایک اتحاد عمل میں آیا، اور مدت تک یہی سلسلہ چلتا رہا، لیکن مجموعی طور پر یہود طاقتور رہے، اور ان کے مقابلہ میں اوس و خزرج نسبتاً کمزور سمجھے گئے، جب تجارت، زراعت اور دوسرے میدانوں میں اوس و خزرج بھی طاقتور ہوتے گئے تو یہود کو یہ خدشہ ستانے لگا کہ کہیں یہ عربی قبائل ہم پر غالب نہ آجائیں، اس لیے انہوں نے باہمی معاہدہ توڑ دیا، اور باہم سرد جنگ کے آثار نمودار ہونے لگے، دوسری طرف اوس و خزرج ابھی اس سطح تک نہیں پہنچے تھے کہ براہ راست ان سے ٹکر لیں، اس لیے کہ عددی لحاظ سے بھی بنو قریظہ و بنو نضیر فائق تھے، اور جنگی اعتبار سے بھی ان ہی کو فوقیت حاصل تھی، اس لیے اوس و خزرج کچھ دبے دبے سے رہنے لگے، اور ممکن حد تک یہود سے اپنا دامن بچائے رکھا کہ کہیں معمولی چنگاری جنگی شعلہ بھڑکا نہ دے جس کے نتیجہ میں ان کو مدینہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑے، ایسی نازک صورت حال نے اوس و خزرج دونوں کو مجبور کیا کہ وہ کسی سے مدد لیں جس سے موجودہ بے چینی ختم ہوجائے اور یہود کی طرف سے کوئی کھٹک باقی نہ رہے، یہ وہ دور تھا جب شام کے ایک خاص علاقے میں آل غسان کی حکومت تھی، یہ بھی نسباً یمنی قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے تھے، دوسرے خود اوس و خزرج کی ماں بھی غسانی تھی، گویا قریبی لحاظ سے غساسنہ اوس و خزرج کی ماں کی نسبت سے رشتہ دار تھے اور بہت اوپر تک دیکھا جائے تو دونوں کی بنیاد ایک تھی، اس لیے خزرج کے ایک سردار مالک بن عجلان نے غسانیوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا، ابو جبیلہ غسانی نے جو اس وقت حاکم غسان تھا، ان کی مدد کی، ایک پوری فوج لے کر آیا اور یہودیوں کے بڑے بڑے رؤساء کو قتل کردیا، یہود پر غساسنہ کی دھاک بیٹھ گئی، اس کی فوج واپس چلی گئی، اوس و خزرج کے حوصلے بلند ہوئے، اور اب انہوں نے کچھ اونچی سطح کے ساتھ یہود کے ساتھ معاملہ کرنا شروع کیا، اب یہود کی حالت وہ ہوئی جو پہلے اوس و خزرج کی تھی، گرچہ اس ے بعد بھی یہود کی طرف سے کچھ ٹکراؤ ہوا لیکن مالک بن عجلان نے خاص تدبیر سے اور بعض یہودی سرداروں کا خاتمہ کردیا، پھر یہ کیفیت ہوئی کہ خود یہود کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں وہ مدینہ سے بے دخل نہ کردیے جائیں، یہود نے چھوٹے موٹے قبائل سے تو اوس و خزرج کی پناہ میں آنا ہی مناسب سمجھا، اس کے بعد جو دور آیا اس میں یہود دبےء رہے اور اوس و خزرج کا غلبہ رہا، لیکن رفتہ رفتہ اوس و خزرج ہی میں اختلافات شروع ہوئے جو بڑھتے بڑھتے جنگ کی صورت اختیار کرگئے اور خود ان میں بہت ساری جنگیں ہوئیں، جنگوں کا یہ سلسلہ مدتوں چلتا رہا، جس میں دونوں فریق کمزور بھی ہوئے، اکثر ان جنگوں میں غلبہ خزرج ہی کا رہا، اس سلسلہ کی آخری جنگ ’’جنگ بعاث‘‘ تھی جو ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آئی، اس میں اوس خزرج پر غالب رہے، ان باہمی لڑائیوں سے یہود نے بھی فائدہ اٹھایا، وہ یہ چاہتے تھے کہ ان میں لڑائیاں جاری رہیں، ورنہ اگر یہ متحد رہیں گے تو کہیں خود یہود کو جلا وطن ہونا پڑ جائے گا، اس لیے ان کی طرف سے شعلوں کو ہوا دینے کا کام جاری رہا، چونکہ قبیلہ اوس کی اکثریت یہود قریظہ و نضیر کے پڑوس میں رہتی تھی، اس لیے کہ اوس کو ان کی حمایت حاصل رہتی، اسی طرح بنو قینقاع خزرج کے قریب آباد تھا اس لیے طبعی طور پر وہ خزرج کے ہمنوا تھے، عملی طور پر ان یہودی قبائل کی شرکت معلوم نہیں ہے، لیکن جنگ بعاث میں یہی مشہور ہے کہ بنو قریظہ و نضیر عملاً اوس کے ساتھ تھے، اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ تھے، اندازہ یہی ہے کہ ان یہودی قبائل کو نہ چاہتے ہوئے بھی شریک ہونا پڑتا، یا کم از کم ساتھ نباہنا پڑتا، اس کی دو وجہیں تھیں؛ پہلی وجہ ہم بتاچکے ہیں کہ اس میں تمام یہودی قبائل کا مفاد تھا کہ اوس و خذرج کی لڑائی جاری رہے ورنہ خود یہود کا وجود خطرے میں پڑجاتا، دوسری وجہ انفرادی تھی کہ اگر قریبی قبیلہ ساتھ نہ دیتا تو خود اس قبیلہ کے لیے دشواریاں کھڑی ہوجاتیں کہ خزرج بجائے اوس سے لڑکے بنو قینقاع ہی سے لڑنے لگ جاتے کہ تم نے ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیا، پھر ساتھ دینے کے نتیجہ میں خود یہودی قبائل میں بھی لڑائی کیفیت پیدا ہوجاتی، دوسری طرف اوس کے حلیف بنو قریظہ وبنو نضیر دونوں باہم قبائلی رقابت رکھتے تھے، بہرحال یہود ان لڑائیوں کا حصہ بنے اور میدان جنگ میں آنے کے بعد تو قتل و قتال لازم ہے، قرآن کریم کی آیت(ثُمَّ أَنتُمْ ہَؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَکُمْ)سے اشارہ ماضی اور حال دوونوں سے معلوم ہوتا ہے۔
جب اسلام کا سورج مدینہ منورہ میں چمکا اور آنحضرتﷺ ہجرت فرماکر یہاں تشریف لائے تو اسلام کے نام پر اوس و خزرج ایک ہوئے اور رسول اللہﷺکے انصار بنے، یہاں تک کہ ان کا لقب ہی ’’انصار‘‘ بنا، دوسری طرف آنحضرتﷺ کی ذات اطہر کی وجہ سے حضرات مہاجرین و انصار کے درمیان ایسا بے مثال بھائی چارہ قائم ہوا جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی، یہ کیفیت دیکھ کر یہود مدینہ کے کان کھڑے ہوئے، انہوں نے خوب سمجھ لیا کہ اب جو دور آرہا ہے اس میں یہ ممکن نہیں ہے کہ مدینہ کے باشندوں کو باہم لڑاکر اپنا الو سیدھا کیا جائے، رسول اکرمﷺکی ذات اطہر پر سب کا اتفاق ہے، اس لیے یہود مدینہ کی روز اول سے یہ کوشش رہی کہ آپﷺکو کسی نہ کسی طرح ذہنی یا بدنی نقصان پہنچایا جاتا رہے، یا آپ کو بدنام کرکے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کے تعلق سے موجود غیر معمولی عقیدت کو ختم کیا جائے یا کم کیا جائے، گرچہ ان کے قبائل آپﷺ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے میں بظاہر شامل ہوگئے تھے، لیکن اندر ہی اندر سب خار کھائے ہوئے تھے، اسی لیے یہ لوگ اپنے دل کا کینہ نکالنے کے لیے کبھی آپ کو سلام کرتے تو’’السام علیک‘‘کہتے، یعنی آپ کو موت آجائے، کبھی مجلس میں حاضر ہوتے تو ’’راعنا‘‘کہتے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پر توجہ فرمائیں، لیکن اسے اس طرح کھینچ کر کہتے کہ وہ’’راعینا‘‘ بن جاتا، یعنی ہمارے چرواہے، اپنی ان کمینہ حرکتوں سے یہ خبیث حسد کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتے، قومی طور پر دیکھا جائے تو ہر یہودی قبیلہ آپﷺکی جان کا دشمن بنا ہوا تھا، بنو قینقاع نے اپنی شرارت سے معاہدہ توڑا تو پورا قبیلہ جلا وطن کیا گیا، بنو نضیر نے دھوکہ دے کر آپﷺکی جان لینی چاہی، جس کے نتیجہ میں پورے قبیلہ کو ذلیل ہوکر مدینہ سے جانا پڑا، بنو قریظہ نے انتہائی نازک وقت میں غداری کی، ان کی سازش اگر خدانخواستہ کامیاب ہوتی تو پھر مدینہ میں مسلمانوں کا شاید وجود باقی نہ رہتا، اس کی پاداش میں پورا قبیلہ تہہ تیغ کردیا گیا، عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دیا گیا، اس طرح مدینہ منورہ کی پاک زمین یہود کے وجود سے ہمیشہ کے لیے صاف ہوگئی، ان کے جو قبائل خیبر پہنچے تو وہاں بھی رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کی سازش کی گئی، اور کھانے میں سریع الاثر زہر ملا کر پیش کیا گیا، وحی الٰہی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوا اور آپ صحیح سلامت رہے، اور ان کی خباثت کا پردہ چاک ہوا، آپﷺنے خیبر کے یہود کو وہاں برقرار تو رکھا لیکن ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جب تک ہم چاہیں گے تمہیں رکھیں گے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں عین منشا نبوی کے مطابق ان کو جزیرۃ العرب ہی سے نکال باہر کیا، اس طرح یہ پوری مبارک زمین ان کے نامبارک وجود سے ہمیشہ کے لیے پاک ہوگئی۔